اردو یا ہندی ؟ استعماری ، ملی یا عوامی زبان ؟(1)۔۔

تقسیم کے بعد سے یہ بھی ایک اچنبھا بن چکا ہے کہ ہندوستان کو کیا کہا جائے ، انڈیا، برصغیر ، جنوبی ایشیا ، پاک و ہند ، یا الگ الگ بھارت ، پاکستان اور بنگلہ دیش۔ یہ خیال رہے کہ یہ سرزمین ہند یا ہندوستان کے نام سے صدیوں سے جانی جاتی ہے ، لفظ انڈیا ہند ہی کی شکل ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ عرب میں آج بھی یہاں کے باشندے ہندی ہی کہلاتے ہیں ، بلا تمیز کہ ان کا مذہب کیا ہے۔ ایسا صرف اس سرزمین کے ساتھ ہی نہیں بلکہ باشندوں اور زبانوں کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ اردو کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا کہ رہنماؤں کی خود غرضی، دانشوروں کی حماقت اور فرقہ پرستوں کی نفرت کا نشانہ بنی ۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان کی زبان ہے، کچھ مسلمانوں کی زبان، کچھ لوگ اسے مہاجروں کی زبان گردانتے ہیں ، کچھ یو پی والوں کی، اور کچھ لوگ اسے غاصبوں کی زبان بھی کہتے ہیں۔ کسی زبان کو دو لخت کرنے کا اعزاز بھی اس خطے کے باشندوں کو ملا ، ہندی اور اردو کو کھینچ کھانچ کر ایسے ہی دو کر دیا جیسا کہ ملک کو کیا تھا یا قوم کو کیا تھا ۔ اس مضمون کا مقصد یہ یاد دلانا ہے کہ اردو کس کی زبان ہے، تمہید کچھ متنازعہ ہو گئی اتنا ہی متنازعہ جتنا کہ مضمون کا موضوع ہے ۔

اردو کے آغاز اور اس کی تاریخ کو سمجھنے کے لئے ہمیں ہندوستان کو سمجھنا ہوگا اور ہندوستان کو سمجھنے کے لئے ہمیں اس جغرافیائی اکائی کو دیکھنا ہوگا جو تقسیم سے قبل ہندوستان کہلاتی تھی اور ہم اسے برصغیر، جنوبی ایشیا اور اس قسم کی دوسری اصطلاحات کا سہارا لئے بغیر ہندوستان ہی لکھیں گے۔ ہندوستان کی زمین کو خدا نے بے تحاشا نوازا ہے۔ اس کے شمال میں پہاڑوں کے بڑے سلسلے ہیں جن سے ایسے دریا نکلتے ہیں جن کے نظام نے اس زمین پر صدیوں سے انسانی تہذیب کی نشوونما کو سہارا دیا ہے۔ ہمالیہ، قراقرم اور ہندو کش دنیا میں قطبین کے علاوہ برف کا سب سے بڑا نظام ہیں۔ تین بڑے دریا برہما پترا، گنگا اور سندھ ہیں جنہوں نے انسانی تاریخ کی قدیم ترین تہذیبوں کا ساتھ دیا ہے ۔ پھر وسطی ہندوستان، مشرق ، مغرب اور جنوب میں بھی پہاڑی سلسلے ہیں جیسے سہیادری، ستپورہ، وندھیا، مشرقی گھاٹ اور بڑے دریا بہتے ہیں، نرمدا ، گوداوری ، تاپتی ، کرشنا، کاویری اور مہا ندی جنہوں نے صدیوں سے اس خطے میں زراعت اور زرخیزی کو ممکن بناۓ رکھا ہے۔ صحراۓ تھر بھی ہندوستان میں ہے اور مغرب میں کیر تھر اور سلیمان کے پہاڑی سلسلے بھی۔

اسی کے ساتھ تقریباً پانچ ہزار میل لمبی ساحلی پٹی ہے جو مشرق میں خلیج بنگال، وسط میں بحر ہند اور مغرب میں بحیرہ عرب کو چھوتی ہے۔ اس خطے میں کئی سطح مرتفع بھی موجود ہیں، معدنیات اور قدرتی وسائل کی کمی نہیں۔ مون سون ہوائیں بھی ہندوستان کو خوب خوب نوازتی ہیں۔ ان جغرافیائی حالات نے ہندوستان کو زراعت کے لئے بہترین جگہ بنایا ہے لہٰذا تاریخی اعتبار سے یہ ہمیشہ سے ایک زرعی ملک ہے۔ تاریخ کے سبھی ادوار میں یہاں کے آبی وسائل کو انسانی کاوشوں سے بہتر بھی بنایا جاتا رہا ہے، جھیلیں ، نہریں ، تالاب ، کنویں ( زیر زمین پانی) یہاں کی ثقافت کا حصہ رہے ہیں۔ زراعت کی وجہ سے ہندوستان معیشت کے حوالے سے خود کفیل رہا ہے، یہاں باہر سے اجناس کی درآمد کی ضرورت شاید ہی رہی ہو بلکہ افراط کی وجہ سے مختلف ہندوستانی اجناس قدیم زمانے سے باہر بھیجی جاتی رہی ہیں۔

جغرافیائی حالات کی وجہ سے ہندوستان سے شمال سے رابطہ بے حد مشکل رہا ہے، ہمالیہ ہمیشہ سے ہی سرحد کا کام دیتے آئے ہیں ، جنوب میں سمندر ہونے کی وجہ سے وہاں سے بھی بڑی تعداد میں لوگوں کی آمد مشکل رہی ہے مگر مشرق بعید ، چین، ایران ، عرب اور افریقہ سے تاریخی سمندری تجارتی تعلقات رہے ہیں۔ مغرب میں جنگل ایک طرح سے سرحد کا کام دیتے آئے ہیں، مشرق بعید کی ثقافت پر ہندوستان کے اثرات ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہندوستانی تہذیب اس طرف پھیلی ہے مگر وہاں سے ادھر بڑی ہجرتیں نہیں ہوئیں۔ ہندوستان کی مغربی سرحدیں ہی آبادی کی بڑی تعداد کے تبادلے کا واحد راستہ رہی ہیں اور تاریخی طور پر شمال مغرب اور مغرب سے ہی ہندوستان کی طرف بڑی تعداد میں آبادی کی ہجرتیں ہوتی رہی ہیں۔ یہ سلسلہ زمانہ قبل از تاریخ سے جاری ہے۔

ہندوستان میں انسانی آبادی کے قدیم ترین آثار مدھیہ پردیش میں بھوپال کے نزدیک رائے سین میں ملے ہیں جو غاروں میں رہنے والے پتھر کے زمانے کے انسانوں سے متعلق ہیں ، پھر جنوب میں مدراس اور شمال میں شوالک کے پہاڑوں میں قبل از تاریخ انسانی معاشرے کے اثار ملے ہیں، راولپنڈی کے پاس اڈیالہ میں بھی اس زمانے کے اثار موجود ہیں ۔ پھر بھرانہ ہریانہ ، مہر گڑھ بلوچستان اور دیگر جگہوں پر ملنے والے اثار ہیں جو پتھر کے زمانے سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں انسان کی موجودگی کی معلوم تاریخ ایک لاکھ سال کے اس پاس بنتی ہے۔ تانبے اور کانسی کے ادوار تک آتے آتے ہندوستان میں آثار قدیمہ کے کئی سارے شواہد ملتے ہیں اور سارے ہی ہندوستان میں ملتے ہیں جیسے انارتا گجرات میں، اہار-بناس راجستھان میں ، پربا بردهمان بنگال میں، مالوا مدھیہ پردیش، دکن اور مہاراشٹر میں۔ پھر کانسی کے دور میں دریاۓ سندھ کی تہذیب پھلتی پھولتی ہے اور ہڑپہ، موئن جو دڑو اور سوات وغیرہ میں اثار موجود ہیں۔

یہی وہ زمانہ ہے جب شمال سے آنے والے آریا ہندوستان کو اپنی منزل بنانا شروع کرتے ہیں اور لوہے کے زمانے تک آتے آتے پوری طرح سے اس معاشرے میں گھل مل جاتے ہیں۔ آریا ہندوستانی انتہا پسندی یا بنیاد پرستی کے پہلا شکار کہے جا سکتے ہیں، کیونکہ ایسے لوگ موجود ہیں جو اس بات سے انکاری ہیں کہ وسط ایشیا سے ایسی کوئی ہجرت ہوئی تھی کیونکہ ہندوستان کی قدیم مقدس کتابیں جنھیں وید کہا جاتا ہے انہی آریا لوگوں میں رواج پاتی ہیں۔ ہمارے انا پرست یہ برداشت کیسے کریں کہ وید غیر مقامی لوگوں کی کتابیں تھیں ؟ حالانکہ تاریخ یہ کہتی ہے کہ آریا ایک قوم یا ایک ہی نسل نہیں تھے بلکہ کئی سو سالوں یا صدیوں تک ہندوستان آنے والے، ان کی اولادیں ، مقامی لوگ جنہوں نے اس تہذیب کے اثرات قبول کر لئے ، زبانیں اپنا لیں، مذہبی خیالات اپنا لئے ، سب آریا تھے جو جنگوں ، فتح و شکست سب سے گزر کر یہیں اسی مٹی میں رچ بس گئے ۔ ایسا ہندستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا مگر آخری بار نہیں۔ اس وقت تک مقامی لوگ جنھیں دراوڑ کہا جاتا ہے وہ بھی شکست و فتح کے عمل سے گزر کر باقی رہے، ان کی نشانیاں بھی آریا زبان اور تہذیب کے ساتھ ساتھ زندہ رہیں، مذھب کا بھی اشتراک ہو گیا ، ایک دوسرے کے دیوتا سب نے اپنا لئے۔ آریا کے ساتھ آنے والی سب سے بڑی تبدیلی ذات پات کا نظام تھا جس سے ہندوستان آج تک نجات نہیں پا سکا۔

لوہے کے دور میں جب ہم اس زمانے کی طرف بڑھتے ہیں جو معلوم کہلا سکتا ہے ، ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان مختلف گھٹتی بڑھتی مقامی اور غیر مقامی ریاستوں میں بٹا رہا اور مغرب سے حملے اور آمدورفت جاری رہی، کبھی ہم نے بڑھ کر اپنی حدود میں اضافہ کیا جیسا کہ اشوک کے دور میں تو کبھی ادھر سے ادھر خصوصاً وادئ سندھ پر قبضہ کیا جاتا رہا مگر ان حملہ آوروں کے اثرات وسطی ہندستان اور مشرق جیسے بنگال تک گئے۔ ایران نے دارا کی حکومت میں وادئ سندھ پر قبضہ رکھا، پھر ایرانی یونانیوں کا شکار ہو گئے۔ سکندر کی قیادت میں یونانی ہندوستان پر حملہ آور ہوئے اور ایک زمانے تک ہندی-یونانی ریاستوں کا سلسلہ چلتا رہا ۔ اس کے بعد وسط ایشیا اور ایران سے شاکا (سیتھی ) اور پارتھی حملہ آور ہوئے۔ ان کے بعد کشن آئے ۔ ہندوستان پر مسلمان ہو جانے والی شمال مغربی قوموں کے حملوں سے قبل آخری بڑی یلغار ہن کی تھی جو شمال مغربی علاقوں پر قابض رہے اور مختلف ریاستوں کی صورت میں حکومت کرتے رہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان حملہ آوروں کی بڑی تعداد واپس نہیں گئی بلکہ یہیں رچ بس گئی۔ یہ ہندوستان کے معاشرے کا ایک بڑا وصف ہے کہ یہ مختلف زبانوں اور کلچر کو ضم کر لیتا ہے ، باہر کی زبانیں یہاں کی زبانیں بن جاتی ہیں، مذہب یہاں کے مذہب بن جاتے ہیں اور بہم اختلاط کے نتیجے میں نئی زبانیں اور تہذیب جنم لیتی ہے۔

ہندوستان ایک زمانے سے صرف حملہ آوروں کا نشانہ ہی نہیں تھا بلکہ تجارت کے حوالے سے بھی خاصا اہم تھا۔ سمندری راستوں سے مشرق بعید میں چین تک، مشرق وسطیٰ میں تقریباً تمام بندرگاہوں سے ، اور افریقہ سے ہندستان کے تجارتی تعلقات تھے۔ زمینی راستوں سے روس اور یورپ تک ہندوستان کی رسائی تھی۔ جنوبی ہندوستان سے عرب بحری تاجروں سے تعلقات صدیوں پر محیط ہیں۔ شاہراہ ریشم کے راستے ہندوستان چین، وسط ایشیا، روس اور یورپ تک سے منسلک تھا۔ تو تجارت بھی ایک واسطہ تھی جس کے ذریعے ہندوستان دنیا کے مختلف علاقوں کے تہذیب اور زبانوں سے جڑا تھا۔

اگر اس وقت تک زبانوں کا جائزہ لیا جائے تو ہندوستان میں ہندی-آریائی جن میں سنسکرت، دراوڑی جیسے تامل، تیلگو ، کنناڈا ، ملیالم دیگر زبانوں کے علاوہ چلن میں تھیں۔ ساتھ ہی دیگر زبانیں جیسے منڈا ، چینی-تبتی زبانیں، اور نہالی وغیرہ بولی جاتی تھیں ۔ سنسکرت مذہبی زبان ہونے کی وجہ سے برہمنوں نے سنبھال لی تھی، مگر اس میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آ رہی تھی۔ بدھ اور جین مذاہب نے جہاں برہمنوں کے اقتدار کو چیلنج دیا وہیں سنسکرت ہی سے نکلی پراکرت زبانوں کو بھی رواج دیا ، بدھ کی بولی پالی تھی جو پراکرت ہی کی ایک شکل تھی۔ سنسکرت اعلیٰ افراد کی زبان ٹھہری تو پراکرت زبانیں عام آدمی اور روز مرّہ کی۔ بدھ مت نے دنیا کے ایک بڑے حصّے کو متاثر کیا جس میں وسط ایشیا بھی شامل تھا ساتھ ساتھ شمال مشرق میں تبت اور چین، مشرق بعید ، مغرب میں موجودہ افغانستان اور ایران سب ہی بدھ مت کے اثرات سے بہرہ مند ہوئے ۔ بدھ مت ہندوستان میں اپنا اثر قائم نہیں رکھ سکا اور صاحبان اقتدار کی حمایت رفتہ رفتہ پھر ذات پات اور سابقہ ہندو دھرم کی طرف لوٹ گئی۔

یہ زمانہ چھٹی صدی سے گیارویں صدی تک مشتمل کہا جا سکتا ہے اس دوران ہندوستان میں کئی بڑی ریاستیں قائم ہوئیں اور پھلتی پھولتی رہیں،ان کے آپس کے اختلافات اور جنگیں بھی ہوتی رہیں۔ اس دوران پراکرت زبانیں مختلف علاقوں میں الگ الگ وضع میں پنپ رہی تھیں اور اپبھرمسا یعنی بگڑی زبانیں کہلائیں ۔ آگے چل کر ان ہی کی تین شکلیں مہاراشٹری ، شوراسینی اور مگدھی اب علاقائی سطح پر مزید زبانوں کو جنم دے رہی تھیں، جیسے بنگالی، میتھلی ، بھوجپوری، مراٹھی، کونکنی، اڑیا ، گجراتی، پنجابی ، سندھی وغیرہ۔ یہیں سے ہندوی یا ہندوستانی زبان کا ظہور ہونا تھا۔ یہ علاقے موجودہ مہاراشٹر، چھتیس گڑھ اور اڑیسہ سے اوپر مشرق ، شمال اور مغرب تک پھیلے ہوئے تھے اور آج بھی ہندی یا اردو مرکز ہیں۔ دکن یا اندھرا پردیش اور تلنگانہ کا علاقہ مہراشٹر کے پڑوس ہی میں ہے، حالانکہ یہاں دراوڑی زبانوں کا زور رہا مگر یہ خطہ پراکرت کے زیر اثر بھی رہا لہٰذا دکنی اور اردو نے یہاں بھی گھر بنانا تھا ۔ یہاں سے نیچے دراوڑی زبانوں ہی کا زور رہا۔ انتہائی شمال ، شمال مشرق اور شمال مغرب میں چینی-تبتی زبانیں ہی بولی جاتی رہیں۔

یہ آٹھویں صدی کی بات ہے جب عربوں نے سندھ فتح کیا۔ ہندوستان کے عرب سے تعلقات تو صدیوں پر محیط ہیں اور اسلام سے ہندوستان کا تعارف ، سندھ کی فتح سے پیشتر ہی ہو چکا تھا۔ عرب تاجر جنوب میں آبادیاں رکھتے تھے جو اسلام کی آمد کے بعد بھی قائم رہیں۔ مسلمان بطور حملہ آور ہندوستان کی تاریخ میں سندھ سے داخل ہوتے ہیں ۔مگر عرب سے براہ راست یہ واحد قدم تھا ، عربوں نے سندھ سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کی ۔ مسلمانوں کے اگلے حملوں کا آغاز ہندستان کے شمال مغرب سے ہوا، یہ مسلمان انہی قوموں کے بھائی بند تھے جو صدیوں سے ہندوستان کی طرف آتے رہے تھے۔ فرق یہ پڑنے والا تھا کہ اب وہ اپنے ساتھ ایک ایسا مذھب ہندوستان لا رہے تھے کہ جس نے اپنی ایک شناخت بنائے رکھنی تھی۔ ان کے پہلے آنے والے بھائی بند ہندوستانی معاشرے میں اپنے مذاہب سمیت ضم ہو گئے تھے مگر وسط ایشیا کے مسلمانوں نے معاشرے اور تہذیب کو اپنا لینے کے باوجود مذہبی شناخت برقرار رکھنی تھی۔ وقت بدل چکا تھا ، اسلام ایک الوہی مذہب تھا۔ اس سے قبل غیر الوہی مذہب کو ایک دوسرے کے خدا اور روایات اپناتے دشواری نہیں ہوئی تھی اور یہ سلسلہ ہزاروں سال پر پھیلا تھا۔ اسلام کے ساتھ ایک زبان اور تحریری نظام بھی موجود تھا یعنی عربی اور وسط ایشیا کے مسلمان ایک اور بڑی زبان یعنی فارسی سے بھی لیس تھے جو اپنا تحریری ورثہ رکھتی تھی۔ اسلام کو دنیا اور ہندوستان میں آئے پندرہ سو سال بھی نہیں ہوئے مگر اتنے عرصے ہی میں ہندوستان میں اسلام گھل مل گیا ہے اور ہندوستانی مسلمان ایک تہذیبی ورثہ رکھتا ہے جو باقی اسلامی دنیا سے منفرد ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply