تصوف کی حقیقت۔سائرہ ممتاز/قسط 4

تصوف کے ان دو اہم نظریات پر بحث کے بعد ہم واپس موضوع کی طرف مڑتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اہل ہند پر تصوف کے کیا کیا اثرات مرتب ہوئے اور کیا تصوف اسلام کے علاوہ بھی کسی مذہب سے اسلام میں لایا گیا ہے یا نہیں.

بھگت کبیر کے اسلامی عقائد!

ڈاکٹر تارا چند کہتے ہیں کبیر نے انسان اور خدا کے باہمی تعلق کو شیخ عبدالکریم جیلی اور دوسرے صوفیاء کی طرح بیان کیا ہے مثلاً ایک جگہ ہر کبیر کہتے ہیں :
” یہ زندگی ایک بحر ِ بے کراں میں ایک حباب کی مانند ہے جس کا وجود سمندر سے علیحدہ نہیں ” نہ جائے ماندن نا پائے رفتن.” کبیر عبدالکریم جیلی اور دیگر صوفیاء کی طرح ذات حق کو سمندر اور انسان کو سمندر کی لہر قرار دیتے ہیں اور اکثر بادہ و ساغر، عاشق و معشوق، محب اور محبوب کے الفاظ استعمال کرتے ہیں. نیز وہ گل و بلبل اور حال و مقام جیسے صوفیانہ الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں. یہ دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت بڑی حد تک صوفیاء کے احسان مند ہیں. احمد شاہ  نے کبیر کے کلام کا ترجمہ کیا ہے.جس میں دو سو سے زائد عربی اور فارسی کے الفاظ ہیں . اس سے پتہ چلتا ہے کہ تصوف کا ان پر کتنا گہرا اثر تھا. کبیر پر صوفیاء کرام کے اثرات کا سب سے بڑا ثبوت ان کی تعلیمات ہیں. مثلاً وہ خدا کو ان ناموں سے یاد کرتے ہیں. اللہ، بے چوں، خدا، سائیں، گوبندا وغیرہ. سب سے پیار اخدا کا نام ان کے نزدیک صاحب ہے جو ہر وقت وہ استعمال کرتے تھے. ان کا کہنا ہے کہ ذات حق وری’ الوری’ ہے وہ پاک ذات ہے، وہ کہتے ہیں خدا کا وجود نور یے اور یہ گہرا صوفی اثر ہے کبیر کہتا ہے ذات حق ایک نور یے جو ساری کائنات کو سموئے ہوئے ہے. سنو بھائی سادھو حقیقی ہادی خالص بور ہے. یہ شیخ عبد الکریم جیلی اور بدر الدین شیخ کے الفاظ کی گونج ہے. ”

ایک عجیب بات جو کبیر کی صوفیانہ تعلیمات کے اندر دیکھنےمیں آئی ہے وہ یہ ہے کہ مسلم صوفیاء کی طرح مقام فنا فی اللہ کا تو اکثر ذکر کرتے ہیں لیکن بقا باللہ کا کہیں نام نہیں لیتے جو صوفیاء کرام کے نزدیک سب سے اونچا اور آخری مقام ہے. اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے شاید ان کو صرف فنا کا مقام حاصل ہو سکا اور ظاہری طور پر ہندو بن کر رہنے کی وجہ سے ان پر بقا باللہ کا دروازہ نہ کھل سکا. یاد رہے بقا باللہ اسلام کا خاصہ ہے آخری منزل ہے اور جب تک خدا کے آخری نبی کی پوری متابعت نہ کی جائے آخری مقام حاصل نہیں ہوتا. ہر زمانے کے نبی کی متابعت ضروری ہے ورنہ آخری مقام حاصل نہیں ہوتا اور فیضان الہی کے دروازے بند ہو جاتے ہیں. خاص لوگوں پر صرف قطرات کی صورت میں فیضان مترشح ہوتا رہتا ہے. لیکن بعض لوگوں کی عادت کہ پرانی شراب کی طرح پرانے مذہب کے نشے میں ڈوبے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پرانی شراب کی طرح پرانا مذہب بھی بگڑا ہوا ہوگا اور اس لیے دماغ کو سن بھی زیادہ کرتی ہے.

آگے چل کر ڈاکٹر تارا چند کبیر کی صوفیانہ کیفیات بیان کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ :
” کبیر اپنی روحانی کیفیات کو حال کا نام دیتے ہیں ( صوفیاء کی طرح) کبیر غم کو دکھ کا نام دیتے ہیں. امید کو آشا کہتے ہیں. خوف کو ڈراسا، خوبصورتی کو جمال، رعب کو جلال، مہربانی کو مہر، جدائی کو قرآن، حیرانی کو حیرت، اتحاد کو میلان، غیر حاضری کو غیب اور موجودگی کو حضور کے نام سے یاد کرتے ہیں. وہ روحانی سفر کو منصور حلاج کی طرح اپنے اندر کا سفر کہتے ہیں. وہ حلاج کی طرح ناسوت کو تاریکی، ملکوت کو فرشتہ پن، جبروت کو نورِجلال، لاہوت کو نور جمال اور ہابوت کو ذات محض کا نام دیتے ہیں. ”
ڈاکٹر تارا چند کہتے ہیں کہ کبیر اپنے دس مقام ریختہ میں محمد ص کا پورا سفر معراج بیان کرتے ہیں. کبیر اپنے ہندو بھائیوں کو تلقین کرتے ہیں :
” برہمانہ رسومات ترک کردو. بتوں پر قربانیاں چھوڑ دو. جادوگری چھوڑ دو، بت پرستی چھوڑ دو، زبانی عبادت چھوڑ دو، برہمن راج ختم کرو، ذات پات اور چھوت چھات بند کرو، اوتار کا عقیدہ غلط ہے، روح( جیارا) مہمان ہے جو دوسری بار نہیں آئے گا.

بابا گرو نانک دیو!
ڈاکٹر تارا چند کہتے ہیں کہ گورو نانک جو سکھ مذہب کے بانی ہیں 1429ع میں پیدا ہوئے. ان کی ہمشیرہ کے خاوند جے رام نواب دولت خان لودھی کے ملازم تھے. نواب دولت خان سلطان بہلول لودھی کا رشتہ دار تھا. ہمشیرہ نے نانک کو بلا کر نواب دولت خان کے ہاں مال زکوۃ کا منشی تعینات کرایا. تیس سال کی عمر میں انہوں نے ملازمت چھوڑ کر فقیری اختیار کر لی. گورو نانک نے ہندوستان، لنکا، ایران اور عرب کے چار سفر کیے اور چالیس سال تک ان ملکوں میں مقدس مقامات کی زیارت میں مشغول رہے. شیخ شرف الدین بو علی قلندر پانی پتی کے آستانہ پر وہ ایک مدت رہے. علاوہ ازیں وہ مشائخ ملتان کی صحبت میں بھی رہے. اور بابا فرید کے خاندان میں شیخ بہرام ( ابراہیم) فرید چشتی سے بھی فیض حاصل. کیا. نانک کا مشن ہندو اور مسلمانوں کو ایک کرنا تھا. صوفیائے اسلام کی صحبت میں رہ کر انہوں نے ہندو عقائد مثل بت پرستی، اوتار وغیرہ ترک کر دیئے. انہوں نے اعلان کیا کہ ” خدا ایک ہے اور اس کا خلیفہ نانک سچ بولتا ہے”

ڈاکٹر تارا چند کہتے ہیں کہ۔۔
” اس سے صاف ظاہر ہے کہ گورو نانک پیغمبر اسلام کو اپنا رہبر سمجھتے تھے اور آن کی تعلیمات پر بھی یہی اسلامی رنگ ہے. پیغمبر اسلام  کی طرح نانک بھی اپنے پیروکاروں کو خدائے واحد کی اطاعت کا درس دیتے ہیں. صوفیوں کی طرح نانک بھی گورو (رہبر /مرشد) کی متابعت ضروری سمجھتے تھے. ان کے نزدیک روحانی سفر کے چار مراحل تھے. سرن کھنڈ، انان کھنڈ، کرم کھنڈ اور سچ کھنڈ. کتاب نانک پرکاش کے مصنف لکھتے ہیں کہ گورو نانک کے یہ چار مراحل صوفیاء کے چار مقامات شریعت، طریقت، معرفت اور حقیقت پر مبنی ہیں، اسلام پر گورو نانک کے اثرات کی شہادت گورو نانک کے افعال اور اقوال دے رہے ہیں. اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ صوفی رنگ میں پوری طرح رنگے جا چکے تھے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ آیا انہوں نے ہندو ازم سے کوئی فائدہ حاصل  کیا ”

یہ تو ڈاکٹر تارا کا بیان تھا حقیقت یہ ہے کہ حضرت شیخ ابراہیم فرید چشتی جو حضرت بابا فرید الدین گنج شکر سے بارہویں پشت پر تھے کی تعلیم و تربیت سے وہ مقام فنا فی اللہ میں تو پہنچ گئے لیکن ان پر مقام بقا پر لوٹنے کی بجائے  شاہ بو علی قلندر کا قلندری رنگ چھا گیا اور دائمی استغراق میں رہنے لگے جس کی وجہ سے آپ کو نہ حجامت بنوانے کا ہوش تھا اور دنیا کے دیگر کاموں کا. وہ بادہ ء توحید میں فنا مست ہو چکے تھے. نماز روزہ بھی نہیں کر سکتے تھے جیسا کہ سکھ حضرات مانتے ہیں کہ وہ حج بیت اللہ کے لیے مکہ مکرمہ بھی تشریف لے گئے.

Advertisements
julia rana solicitors

سنا ہے امرتسر میں کے مندر میں آپ کے تبرکات میں سے ایک آپ کا کرتہ ہے جس پر کلمہ طیبہ اور بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا ہے. گورو نانک کے کلام کے مجموعے کو گرنتھ صاحب کہا جاتا ہے جو حضرت شیخ فرید کی شاعری سے لبریز ہے. بعض کا خیال ہے کہ یہ حضرت ابراہیم فرید چشتی کے بجائے شیخ فرید الدین کا کلام ہے جس کے آخر میں فرید تخلص استعمال ہوتا ہے. چونکہ آپ کمال استغراق (جسے دیوانگی سے تشبیہ دی جا سکتی ہے) کی وجہ سے نماز روزہ کی پابندی نہیں کر سکتے تھے اور نہ حجامت بنوا سکتے تھے ان کے پیروکاروں نے ان کی سنت پر عمل کرتے ہوئے نماز روزہ کی پابندی ضروری خیال نہیں کی جس کی وجہ سے ایک نئے مذہب کی بنیاد پڑ گئی  اور مغل بادشاہوں اور سکھوں کے درمیان سیاسی جنگوں کی وجہ سے دونوں مذاہب کے درمیان کی خلیج اور بھی وسیع ہو گئی.
جاری ہے

Facebook Comments

سائرہ ممتاز
اشک افشانی اگر لکھنا ٹھہرے تو ہاں! میں لکھتی ہوں، درد کشید کرنا اگر فن ہے تو سیکھنا چاہتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply