کوڈ 19۔۔ذیشان علی

کچھ دن بعد میں نے خود کو ایک بند کمرے میں محسوس کیا، جس میں کسی بھی انسان کی آمدورفت بالکل نہ تھی، آنے والا شخص دروازے کی چوکھٹ سے دیکھتا اور بے بس نگاہوں سے دیکھ کر چلا جاتا،کھانے پینے کا بھی یہی عالم تھا کہ چوکھٹ پر رکھ دیا جاتا یا پھر اندر کی طرف آنے والا شخص ڈسپوزایبل گاؤن میں لپٹا ہوا ہوتا۔

اس وقت میں اپنے ڈرائنگ روم میں تھا اور ہر تین گھنٹے بعد آنے والا نیوز بلیٹن پابندی کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔ مریضوں کی تعداد اور ہلاکتیں میڈیا ریٹنگ میں دن بہ دن بڑھتی جارہی تھیں، مسلسل خبریں  سننے کے بعد میں خوف کا ایک پتلا ہی بن کر رہ گیا تھا، میری زندگی بالکل آخری موڑ پر آ رکی تھی۔

میں نے فوراً  ڈر  اور  خوف کی چادر کو جھنجھوڑا اور  دوستوں کو میسج کرکے آگاہی حاصل کرنی چاہی۔  پھر  ڈاکٹر پردیپ کو کال کی، جو اس وقت سندھ گورنمنٹ میں ایف سی پی ایس کررہے ہیں اور موجودہ وبا میں لپٹے مریضوں اور شرح اموات کے بارے میں پوچھا۔۔ تو انہوں نے   کہا کہ تا حال اس مرض سے کسی مریض کی موت  نہیں ہوئی ،باقی متاثرہ مریضوں کو آئیسولیٹ  کیا گیا ہے اور صحتیاب ہونے والے گھر جارہے ہیں،ڈاکٹر پردیپ کے اس جواب سے میری زندگی کی کچھ رنگینیاں لوٹ آئیں، میں نے خود کو ایک بار پھر زندہ وجود محسوس کیا۔

پھر میں نے ایک دوسرے دوست جو کہ ٹر یژی کیئر ہسپتال میں بحیثیت  میل نرس فرائض سر انجام دے رہا ہے کو کال کی اور اور وہی سوال دہرایا جو ڈاکٹر پردیپ سے پوچھا تھا ۔ان کا جواب بھی قدرے موافقت رکھتا تھا، میں نے پھر پوچھا کہ کوئی تو موت ہوئی ہوگی کوڈ-19 کی وجہ سے ،تو انہوں نے پریشان کن انداز میں کہا کہ میں بالکل اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ اس مرض سے متاثر ہر فرد جان کی بازی ہار   رہا ہے، جو اموات ہوئی بھی ہیں وہ مریض پہلے ہی کئی دو چار مہلک بیماریوں سے متاثر تھے ذیابیطس، بلند فشار خون،یرقان اور کینسر جیسی بیماریاں تو اس سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہیں۔

اسکے بعد میں نے مزید ڈاکٹرز اور اپنے کولیگز ،نرسز سے رابطہ کیا اور وہی سوالات دہرائے سب کے جوابات کچھ ایسے ہی تھے جیسے  میں اوپر  لکھ چکا۔ پھر کیا  تھا! میں نے اپنی زندگی کے ان دنوں میں اپنی روٹین سے نیوز بلیٹن کو ایسا  نظر انداز کیا جیسے شادی  شدہ مرد آج کل  موبائل کے مقابلے میں بیویوں کو نظر انداز کررہے ہیں ۔

آپ میں سے کئی لوگوں نے اٹلی،روس، فرانس اور دیگر ممالک کی مختصر ویڈیو کلپس دیکھی ہونگی، آپ نے کیسے یقین کرلیا کہ وہ سچ ہے؟ انکے لیے human behavior control کرنے کی خاطر اتنا ڈرامہ رچادینا معمولی بات ہے، اگر کسی فلمی پراجیکٹ کے لیے 2 گھنٹے کی سیریز بنا کر وہ 1 ارب خرچ کر کے دو ارب کا بزنس کرسکتے ہیں تو یہ پانچ سے 10 منٹ کی  4,5 ویڈیو کلپ مختلف مقامات پر بنانا انکے لیے کوئی مشکل نہیں، جو اس وقت human behavior control کرنا چاہ رہے ہیں اور کامیاب تجربہ کرچکے۔

میں بالکل بھی اس بیماری سے انکاری نہیں بلکہ یہ بھی ایک مرض ہے اور اسکی تشخیص کے لیے ایک ٹیسٹ مختص کیا گیا ہے جسے oropharyngeal swab collection کے نام سے جانا جاتا ہے، جس طرح ملیریا، ٹائفائیڈ، پولیو، چکن پوکس، میزلز، فلُو اور دیگر کئی بیماریاں ہیں ویسے ہی کوڈ-19 (کورونا وائرس ڈیزیز) بھی ایک مرض ہے۔ اوپر جو بیماریاں لکھ چکا ہر اک نے ازلی وقت میں کئی انسانی جانوں کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا ویسے ہی کوڈ-19 بھی، لیکن  اسکی شرح اموات اور متاثرہ مریضوں کی تعداد اتنی ہرگز نہیں جتنی بتائی جارہی ہے آپ نیوز ہیڈ لائینز پر اس وقت کامل یقین کریں جب آپ خود جاکر ان جگہوں کا دورہ کر آئیں جن مقامات پر ایسے مریضوں کو اکٹھا کر رکھنے کا کہا گیا ہے جو کہ محال نہیں۔

اگر آپ میں سے کوئی بھی غیر نصابی کتب اور بائیو ٹیکنالوجی کی فلمز دیکھتا آرہا ہو تو اسے یہ حالات اور یہ وباء سمجھنے میں شاید ہی کچھ وقت لگے ۔میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا سب بخوبی واقف ہو ہی چکے ہونگے اب تک،اگر نہیں ہوئے تو ریسرچ کرکے اپنی اپنی رائے اپنی وا ل پر لکھ ڈالیں اور سماج میں ڈپریس لوگوں کو امید دیں۔

بیماری کوئی بھی ہو جب انسان قدرے بڑھاپے کی طرف گامزن ہو تو اسکا امیون سسٹم (قوت مدافعت) بہت کمزور ہوجاتا ہے اور اسکا جسم کسی بھی بیماری سے بآسانی کوپ اپ( مقابلہ) نہیں کر سکتا بڑھتی ہوئی عمر کیساتھ ساتھ ہمارا امیون سسٹم اور ہمارے جسم کے اندرونی تمام نظام سست اور ضعیف ہوجاتے ہیں اور پھر کوئی بھی بیماری بآسانی ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور انسان بہت ہی جلد زیر زمین خاموشی کے ساتھ لحد میں اتر جاتا ہے تو ایسی صورتحال میں ایسے عمر رسیدہ جن کی عمر پچاس ساٹھ سال سے زیادہ ہو تو وہ کوڈ-19 یا کسی بھی مرض کی زد میں آجائے تو دستورِ حیات کے مطابق اکثر و بیشتر کا کوچ کر جانا ہی مقدر ہوتا ہے۔

اگر آپ جسمانی اور دماغی طور پر صحت مند ہیں اور آپکی ول پاور سٹرونگ ہے تو میں آپکو یقین دلا رہا ہوں کوڈ۔19 کچھ نہیں ہے آپکے سامنے، بس احتیاطی تدابیر پر عمل کریں اور الحمدللّٰہ اب میں بالکل بھی ذہنی تناؤ کا شکار نہیں ہوں ،وہی ‏universal precautions follow کر رہا ہوں جو کہ ازل سے ہی اس شعبے میں آنے کے بعد میری زندگی کا حصہ بنی اور ہمیشہ دوسروں کو بھی اس پر عمل کرنے کی تلقین کی۔ میں یہ بات سمجھ سکتا ہوں کہ آپ بھی میری طرح انسان ہیں اور انسان ارد گرد کے ماحول میں ایسی باتیں بار نار سنتا رہے تو ڈیپریس ہو ہی جاتا اور اس کی زندگی بالکل مفلوج ہوجاتی ہے جیسے شروع کے تین دن میں بالکل پریشان اور کمرے میں محصور رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں آپ سے بھی یہی التجا کرتا ہوں کہ پریشان نہ ہوں خوش رہیں صفائی نصف ایمان ہے اس حدیث کو بھلے کوڈ-19 کی احتیاطی تدبیر ہی تصور کریں اور تعویز بناکر گلے میں لٹکالیں اور اس پر عمل کریں انشاء اللہ آپکو کوئی آفت چھو کر بھی نہیں گزرےگی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply