بے بسی۔۔مرزا مدثر نواز

پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک ایسا ملک ہے جو رنگ و نسل و قومیت و زبان کی بنیاد پر نہیں بلکہ خالصتاََایک نظریہ لاالہ الااللہ کی بنیاد پر وجود میں آیا(حالانکہ ایک طبقہ اس بات کو بھی تسلیم نہیں کرتا)اور انشاء اللہ رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔اپنے محل وقوع اور نظریاتی اساس کی وجہ سے معاندین ابتداء ہی سے اس کو ختم کرنے کی تمنا اپنے دل میں لیے ہوئے مختلف صورتوں سے حملہ آور ہوتے رہتے ہیں کبھی توہینِ رسالت قانون کو متنازعہ بنایا جاتاہے، سیکولرازم کانعرہ لگایا جاتاہے، زبان و نسل کی تفریق کو ہوا دی جاتی ہے،راجہ داہر و رنجیت سنگھ کو ہیرو کا درجہ دینے کی بات کی جاتی ہے‘حقوق کی محرومیوں کو ذہنوں میں بٹھایاجاتاہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایاجاتاہے،عورتوں کے ساتھ غیر مساوی سلوک کو اچھالا جاتا ہے تو کبھی متفقہ آئین کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بیرونی دباؤ اور اپنے اندر موجود سیکولر کمیونٹی کی وجہ سے آج اسلام کے نام پر وجود آنے والے اس ملک میں اللہ کے قائم کردہ حدودوقیود کے نفاذ کی بات کرناایک ناممکن سی بات ہے اور شاید کبھی بھی یہ ملک ایک اسلامی فلاحی مملکت نہ بن سکے۔

ہم آزاد توہو گئے لیکن ذہنی غلامی سے آج تک چھٹکارہ حاصل نہ کر سکے اور نہ ہم کرنا چاہتے ہیں۔یہ ملک قیام کی ابتداء ہی سے اپنے اصل مقصد سے پیچھے ہٹ گیااور اس کی وجہ اس پر جاگیر،سیکولراور سرمایہ دار طبقہ کا قابض ہوناہے۔ ہوس اقتدارکو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اس کے ساتھ وہ کھلواڑ کیا گیا کہ یہ آج تک ڈگمگا رہا ہے اور سر شرم سے جھک جاتے ہیں جبکہ ہمارے پڑوسی ملک میں جمہوریت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی۔ جو بھی مسند اقتدار پر بیٹھا اس نے خود میں مسولینی‘ ہٹلر اور لینن کی روح کو سرایت کرنا چاہا‘ اپنے چند روزہ اقتدار کو دوام دینے کی کوشش کی نہ کہ اس ملک و آئندہ نسلوں کی بہتری پر توجہ دی۔ کوئی سڑکوں پر ناز کرتا ہے تو کسی کو شناخت دینے پر فخر ہے لیکن کسی نے اس کو ایک اچھا نظام دینے کی کوشش نہیں کی۔مقتدر طبقہ بھیس بدل بدل کر اس ملک کو لوٹ رہاہے، سیاہ و سفید کا مالک اور احتساب سے بالا تر ہے۔کمزور ہر حال میں غدار اور قانون کی زد میں ہے جبکہ طاقتور اگر آئین شکن،کرپٹ اور سو قتل بھی کر دے تو قابلِ ضمانت،وفادار اور محب ِوطن ہے۔

کیا یہ وہی ملک ہے جس کا خواب محمد علی جناح اور علامہ اقبال نے دیکھا تھا‘ جس کی بیٹیوں نے اپنی عزتوں کی حفاظت کے لیے کنوؤں میں چھلانگیں لگا دیں تھیں؟جہاں چپڑاسی سے لے کر ادارے کا سربراہ صرف اپنی دیہاڑی لگانے کے لیے آفس جائے‘ سرکاری دفاتر میں کھلے عام رشوت کا تقاضا کیا جائے اور نہ دینے پر ذلیل و خوار کیا جائے‘ عام آدمی کو ایف۔آئی۔آر درج کروانے کے لیے ایم این اے اور ایم پی اے کے دفاتر کے چکر لگانے پڑیں‘ لوگ گمشدگی رپورٹ درج کروانے کے لیے تھانے جانے سے گھبرائیں‘ تھانے مظلوم کی بجائے ظالم کو تحفظ دیں‘ عام آدمی انصاف لینے کے لیے عدالت جانے سے گریز کرے‘ قبضہ مافیہ سٹے آرڈرز کا سہارا لے کر سال ہا سال اصل مالکان کو ذلیل و خوار کرے؟جہاں امراء اور غرباء کے لیے الگ الگ قانون ہے‘ قاتل وکٹری کا نشان بنا کر اس ملک کے قانون کا مذاق اڑائیں‘ لاشیں گرنے پر حکمراں مکے لہرائیں‘ کرپشن کو تحفظ دینے کے لیے قوانین بنائے جائیں‘ اپنے اقتدار کے دوام کے لیے قومی مفاہمتی آرڈر کا سہارا لیا جائے۔

معاشروں میں انصاف کی عدم فراہمی ہی شدت پسندی کو جنم دیتی ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنے حقوق کے لیے خود میدان میں اترتے ہیں اور پھولن دیوی جیسے کردارتاریخ کا حصہ بنتے ہیں جن کو عام و مظلوم عوام عقیدت سے مورتیوں کی شکل میں پوجنے لگتے ہیں۔معاشرے معیشت کی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ انصاف کے نہ ہونے کی وجہ سے تباہ و برباد ہوتے ہیں۔اگر کہیں بدامنی نظر آئے تو اس کی وجہ صرف اور صرف ناانصافی اور قانون کی کمزور گرفت ہو گی۔جس کے پاس طاقت اور اسلحہ ہے وہ کتنا ہی ظالم کیوں نہ ہواس کے خلاف کوئی بھی آواز اٹھانے کو تیار نہیں۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں چھوٹی مکھیاں تو پھنس جاتی ہیں لیکن بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔ ملک خداداد پاکستان میں نظام کی خامیوں اور قانون کے ڈنڈے کی کمزوری کا یہ عالم ہے کہ وزیر اعظم نے اپنے ایک حالیہ ٹی وی انٹرویو میں اپنے بہنوئی کے پلاٹ پر مبینہ مافیا کے قبضہ کا ذکر کرتے ہوئے خود کو بے بس پایا‘ اگر وزیر اعظم کی بے بسی کا یہ عالم ہے تو عام غریب و سادہ عوام کی بے بسی کا عالم کیا ہو گا؟

Advertisements
julia rana solicitors

دوسری بے بسی خاتون ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ڈاکٹر ساجدہ احمد کے اس کھلے خط میں عیاں ہے جو انہوں نے حال ہی میں چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو لکھا‘ اس خط میں انہوں نے یہ تک لکھا کہ اگر اسلام میں خود کشی حرام نہ ہوتی تو وہ سپریم کورٹ کی عمارت کے سامنے خود کشی کر لیتیں کیونکہ جج کی حیثیت سے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو روزانہ کی بنیاد پر گالیوں‘ توہین اور ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ خط ہماری گرتی ہوئی اخلاقی اقدار اور نظام و قانون کی کمزوری پر ایک سوالیہ نشان ہے؟اللہ کرے کہ اس ملک کے مقدر میں کوئی ایسا بھی حکمران ہوجو عملدرآمد پر یقین رکھتا ہو نہ کہ گفتار کا غازی ہو‘ جو اس کو ایک بہتر نظام دے سکے کیونکہ قانون کی موجودگی کا نہ ہونا کوئی مسئلہ نہیں‘ بہترین قانون ہر معاملے میں موجود ہیں‘ اصل مسئلہ ان قوانین کی عملداری کا ہے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply