پاکستانی تعلیمی نظام اور زبانیں۔۔عامر کاکازئی

ہمارے دوست کا ایک بیٹا حال ہی میں چین سےڈاکٹری کر کے  آیا ہے۔ اُس نے اُدھر چینی زبان بھی سیکھی۔ اُس سے پوچھا سیکھنے میں کیسی زبان ہے؟ بولا کہ اردو چینی زبان سے زیادہ مشکل زبان ہے۔ چینی زبان سیکھنا  آسان ہے بنسبت اردو کے۔ یہ یاد رہے کہ اس کے ماں باپ بچپن سے ہی اس کے ساتھ اردو بولتے تھے۔

کچھ دن پہلے ہم نے بیٹے کی اردو کی کتاب دیکھی مشکل الفاظ کو سمجھنے کے لیے اس نے ان الفاظ کے اوپر ان کا مطلب انگلش میں لکھا ہوا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان میں اردو ہو یا انگلش ، اسے ایک زبان کے طور پر نہیں سکھایا جاتا ،بلکہ اسے کلاس ون سے ہی اس زبان کا عالم فاضل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب بھلا ایک عام طالب علم کو غالب، میر تقی میر،  اقبال یا شیکسپئر ، جان کیٹس یا ولیم وردزورتھ پڑھانے کی کیا ضرورت ہے؟

میٹرک کے بعد تو اسلامیات، مطالہ پاکستان  اور  اردو  یا  انگلش زبان کے طور پر پڑھانے کی ضرورت ہی نہیں کہ یہ چار مضامین  سائنس یا کامرس کے طالب علم کے لیے بیکار کا بوجھ ہیں۔ دوسری طرف ہمارے اردو دان انگلش کو پڑھانا یا سکھانا وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ ان کا سارا زور طالب علموں کو اردو کا عالم فاضل بنانے پر لگتا ہے۔
انگلش وہ واحد اور پہلی زبان ہے، جس کو ہم بجا طور پر دینا کی پہلی انٹرنیشنلی lingua franca کہہ سکتے ہیں۔ یہ واحد زبان ہے جس کو دنیا کے ہر ملک کے باسی کچھ نہ کچھ سمجھ لیتے ہیں اور اَسانی کے ساتھ اس زبان کے ذریعے دو اجنبی بات کر سکتے ہیں۔دنیا میں یہ زبان بین الاقوامی تجارت، سفارتی ڈپلومیسی ، انٹرٹینمنٹ، انٹرنیشنل کمیونیکیشن، سائینٹفیک پبلیکیشن اور دوسری کتب کی اشاعت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
آپ کسی بھی ملک چلیں جائیں، تو تقریباً ہر زبان بولنے والے ملیں گے، انگلش وہ واحد زبان ہے جس کی وجہ سے  آپ کو کسی کی بات سمجھنے میں یا سمجھانے میں مشکل پیش نہیں  آتی۔
مندرجہ زیل چارٹ یہ بات سمجھانے کے لیے کافی ہے،کہ مشرق سے لے کر مغرب تک، اور شمال سے لے کر جنوب تک صرف انگلش ہی واحد رابطہ کی زبان ہے۔
ہمیں اپنے بچوں کو انگلش بطور زبان سکھانا چاہیے مگر افسوس ہم ان کو شیکسپئر پڑھا کر ان کو انگلش کا علامہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جو کہ غلط ہے۔ جس کی وجہ سے نہ تو وہ انگلش سیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچے کے لیے انگلش کے مضمون کو پاس کرناایک ٹینشن ہوتی ہے۔ انگلش کو اسکول اور کالجز میں پاس اور فیل ہونے  کی بندش سے  آزاد کر دیں کہ بچہ پاس ہونے کے لیے شیکسپئر ،  ولیم ورڈزورتھ اور جان کیٹس کی مشکل انگلش کو رٹا نہ مارے بلکہ زبان سیکھنے کی کوشش کرے۔ ہمیں اپنے بچوں کو کسی بھی زبان کا علامہ یا ماسٹر نہیں بنانا بلکہ اسے زبان سکھانا ہے۔
اسی طرح اردو بھی جنوبی ایشیا کی رابطہ کی زبان ہے۔ انگلش والا فارمولا اردو کے لیے بھی استعمال کرنا چاہیے، بچے کو غالب، میر تقی میر یا اقبال کی صدیوں پرانی مشکل ریختہ پڑھانے کی بجاے آج کی اردو زبان سکھایں۔ نہ کہ اُسے اردو کا علامہ بنانے کی کوشش کریں۔ اردو کو بھی پاس یا فیل ہونے کی بندش سے آزاد کروا  دیں۔ بچے کو اردو اور انگلش ادب سے نجات دلوا دیں کہ وہ اردو یا انگلش بطور زبان سمجھے اور سیکھے۔ اس کو اردو اور انگلش زبان کے طور پر پڑھایں کہ بچہ خوشی سے سیکھ سکے۔
حرفِ آخر کے طور پر اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ ہمیں اپنے سیلبس میں بہت ڈراسٹک تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چار مضامین مطالہ پاکستان، اسلامیات، انگلش اور اردو کو پاس  یا  فیل  ہونے کی ٹینشن سے آزاد کرنا ہو گا۔ تب ہی بچہ اسے سیکھنے کی کوشش کرے گا۔ ورنہ وہ اس کو ایک بوجھ سمجھ کر پڑھے گا اور پاس ہونے کے بعد بھول جائے گا۔ اس کی بہترین مثال گھر میں ایک انجان زبان عربی میں پڑھے “قرآن ” ، یا “ نماز “، یا لمبی لمبی “دعاؤں “ کی ہے، جسے بچہ فیل یا پاس ہونے کی ٹینشن سے  آزاد ہو کر پڑھتا ہے، سمجھتا ہے اور ساری زندگی اسے یاد رکھتا ہے۔
اس مضمون کی تیاری میں ہم اپنے دوست راکیش سکسینا کے مشکور ہیں۔ ان کی ایک پوسٹ سے یہ مضمون لکھنے کی تحریک ملی۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply