بل دَا لیجنڈ۔۔اعظم معراج

بل دَا لیجنڈ

پاکستان ایئر فورس کے مقامی مسیحی ون اسٹار جرنیل
ائرکموڈور نذیر لطیف عرف بل لطیف(ستارہئ جرأت، ستارہئ بسالت)
کی افسانوی شخصیت کی شجاعت اور پیشہ وارانہ مہارت کی لازوال حقیقی داستان

اعظم معراج

معراج پبلی کیشنز
20-C Sunset Commercial Street,2 Phase IV D.H.A Karachi.
Ph: +92-21-35888981-2
E-mail:mairajpublications@hotmail.com

 نام کتاب : بل دَا لیجنڈ
 مصنف : اعظم معراج
 سرورق : سرفراز ثاقب
 انگریزی ایڈیٹر : اعظم گل، مشعل معراج
 قانونی مشیر : رضی احسن ایڈوکیٹ (ہائی کورٹ)
 اشاعت اول : مئی 2020ء
 ناشر : معراج پبلی کیشنز
 قیمت : 100روپے

جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ

زیر اہتمام

اس کتابچے کا کوئی بھی حصہ معراج پبلی کیشنز /مصنف سے باقاعدہ تحریری اجازت کے بغیر کہیں بھی شائع نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا کوئی بھی مطبوعہ حصہ دوبارہ نقل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی تقسیم کیا جا سکتا ہے اس پرکسی بھی قسم کاپروگرام بنانے یا اس کی آڈیو، ویڈیو ریکارڈنگ کرنے کیلئے ہر حال میں پبلی کیشنز/مصنف سے پیشگی تحریری اجازت لینی انتہائی ضروری ہے بصورت دیگر ادارہ اور مصنف قانونی کارروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

Mairaj Publications
20-C Sunset Commercial Street,2 Phase IV D.H.A Karachi.
Ph: +92-21-35888981-2

E-mail:mairajpublications@hotmail.com

انتساب

دنیا کے ان تمام گمنام ہیروز کے نام جو اپنے اپنے عہد کے ہوس زر، اقتدار وشہرت کے پجاریوں کی بدولت گمنام رہے۔

فہرست

مقصد کتاب

سنہری ققنس

ایئر کموڈور نذیر لطیف

بہترین ہوا باز کیلئے سخت مشن ایئر چیف مارشل (ریٹائرڈ)جمال اے خان

نذیر لطیف کی یاد میں ایئر کموڈور (ریٹائرڈ) سجاد حیدر (ستارہئ جرأت)

لیڈر شپ کیا ہوتی ہے ایک عملی سبق (ونگ کمانڈر(ر) ہادی)

زخمی عقاب ایئرکموڈور عظیم نتھانیل

انکل نذیر(اینڈریو میکالی)

ایئر کموڈور نذیر (ستارہئ جرأت، ستارہ بسالت) ایک شفیق باپ

عظیم فضائی جنگجو کا آخری معرکہ(رینا سعید خان)

نغمہ شناخت

مقصد کتاب

یہ دو ہزار گیارہ کی بات ہے میں آفس سے شام کو گھر جا رہا تھاگاڑی کا ریڈیو آن کیا تو مشہور ناول نگار محمد حنیف کا انٹرویو چل رہا تھا وہ معاشرتی ہم آہنگی پر بات کر رہے تھے۔ باتوں باتوں میں انہوں نے کہا 1971ء کی جنگ میں ماری پور بیس کے بیس کمانڈر مسیحی تھے اور ایک بہت ہی شاندار افسر تھے۔ انہوں نے معاشرتی ہم آہنگی پر کچھ اور باتیں کی اور پروگرام ختم ہو گیا میں ان دنوں مسیحی شہداء، غازیوں اور محافظان وطن کے بارے میں مواد جمع کر رہا تھا میں نے دو تین دن کی تگ و دو سے محمد حنیف کا کھوج لگایا ان کے دفتر پہنچ گیا۔ انہیں اپنی رئیل اسٹیٹ کی کتاب اور دھرتی جائے کیوں پرائے کا مسودہ دیا اور 1971ء کی جنگ کے ماری پور کے بیس کمانڈر کے بارے میں پوچھنا شروع کیا بین الاقوامی شہریت کا حامل یہ ملنگ صفت ادیب بولتا کم اور سنتا زیادہ ہے میری لمبی چو ڑی تقریر سننے کے بعد بولا ایک منٹ ساتھ ہی اس نے اپنے کمپیوٹر کو کوئی کمانڈ دی اور چھ سات صفحوں کے مضمون کا ایک پرنٹ نکال کر مجھے دے دیا یہ ونگ کمانڈرحالی کے پاکستان ائر فورس کے سات ستارہئ جرأت حاصل کرنے والے چھ مسیحیوں کے خاکے تھے اس مضمون کو انہوں نے ”پی اے ایف گیلنٹ کرسچئن ہیروز کیری قائد مسیج“ کا نام دیا تھا۔
ان چھ میں پہلے نمبر پرایئر وائس مارشل ایرک جی ہال (ستارہ جرأت)، دوسرے پر ایئر کموڈور نذیر لطیف (ستارہئ جرأت اور ستارہئ بسالت) تیسرے پر ونگ کمانڈر شہید مارون لیسلے مڈل کوٹ بار ٹو دی ستارہئ جرأت، ستارہئ بسالت) چوتھے پر گروپ کیپٹن سیسل چوہدری (ستارہئ جرأت، ستارہئ بسالت) پانچویں پر اسکوارڈن لیڈر شہید پیٹر کرسٹی(تمغہئ جرأت، ستارہئ جرأت) چھٹے پر اسکوارڈن لیڈر ولیم ڈیسمنڈ ہارنی (ستارہئ جرأت) کا نام تھا۔ پی اے ایف کے ان بہادر مسیحی ہیروز جو بقول حالی صاحب قائد اعظم کا پیغام تھامے ہوئے ہیں۔ ان چھ میں سے میں نے بھی اس سے پہلے کبھی بھی گروپ کیپٹن سیسل چوہدری(ستارہئ جرأت، ستارہئ بسالت) کے علاوہ کسی کا نام نہیں سنا تھا۔ یہاں سے ایک تھکا دینے والی تحقیق کا راستہ کھلا میں نے اپنے دوستوں کی مدد سے ونگ کمانڈر شہید مارون لیسلے مڈل کوٹ بار ٹو دی (ستارہئ جرأت، ستارہئ بسالت) کی بیٹی کو ڈھونڈا۔ اسکوارڈن لیڈر شہید پیٹر کرسٹی(تمغہئ جرأت، ستارہئ جرأت) کے خاندان کا کھوج لگایا آنٹی ڈیلسی کرسٹی(بیوہ شہید پیٹر کرسٹی) سے تفصیلی انٹرویو کیا۔ایئر وائس مارشل ایرک جی ہال (ستارہ جرأت) کے بارے میں تحقیق کی کوشش کی۔ گو کہ ان چھ کی پیشہ وارانہ مہارت بہادری وطن پرستی کی داستانیں انتہائی متاثر کن اور خاص کر ان چھ میں سے دونوں شہداء کی داستانیں تو انتہائی ایمان افروز اور قوم کو جھنجھوڑنے والی تھی خاص کر ونگ کمانڈر شہید مارون لیسلے مڈل کوٹ شہید کے لہو نے تو تحریک شناخت کے خودشناسی، خود آگاہی و خود انحصاری کے پیغام کو پھیلانے میں بہت اہم کردار ادا کیا لیکن جس ہیرو کی پیشہ وارانہ مہارت اور بہادری انسان دوستی اصول پرستی بے لوث پن کے بارے میں اس کے دوستوں کے لکھے ہوئے مضامین نے مجھے ورط حیرت میں ڈال دیا وہ تھے۔
ایئر کموڈور نذیر لطیف (ستارہئ جرأت اور ستارہئ بسالت) عرف بل لطیف میں جیسے جیسے ان کے بارے میں جانتا گیا، مجھے اس بات پر افسوس اور صدمہ ہوتا کہ ہم کیا معاشرہ ہیں یقیناً ائر فورس کے ان کے ساتھی ان کے بارے میں جانتے تھے لیکن ان کے سارے کارنامے 1965ء اور 1971ء کی جنگ کے تھے۔ 1972ء میں انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی اس کے بعد وہ بیرون ملک چلے گئے جہاں سے وہ 2007ء میں واپس لوٹے اور 2011ء میں ان کا انتقال ہوا ان پانچ سالوں میں بھی اور اس سے پہلے بھی کبھی ان کا ذکر کہیں نہ سنا الیکٹرونکس میڈیا یا اخبارات میں اور نہ ہی قومی دنوں پر منعقدہ ایسے پروگراموں میں جہاں کبھی کبھار کسی مسیحی جنگی ہیرو کا بھی ذکر ہوتاتھا۔
یقیناوہ ایسے ہیروز میں سے ہیں جن کے نام صدیوں زندہ رہتے ہیں لیکن بانجھ معاشروں کے ہیروز اکثر موت کے سالوں بعد ہی منظر عام پر آتے ہیں۔ جیسے نذیر لطیف عرف بل لطیف ائرفورس کے ریکارڈ اور ائر فورس کے ان کے عہد کے جونیئرز، سینئرز اور دوستوں کے دلوں میں زندہ تھے لیکن عوام الناس نے ان کی عظمت کے بارے میں پہلی تحریر ان کے بارے میں تب پڑھی ہو گی جب 2007ء میں وہ ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں زخمی ہو کر ایک المیے کا شکار ہوئے۔ لیکن ان کی بہادری اور پیشہ وارانہ عظمت کی کہانی پاکستانی عوام میں سے صرف انگزیزی پڑھنے والوں کے حصے میں ان کی موت کے مہینے بعد چھپنے والے مضامین کے ذریعے باہر آئی یا پھر تحریک شناخت کے اغراض و مقاصد کے لئے لکھی گئی میری کتب میں سے پہلی کتاب جب 2013 ء دسمبر میں چھپی اس وقت سے ان کی عظمت کے قصے نہ صرف پاکستانی مسیحیوں کے گھر گھر پہنچنا شروع ہوئے بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر کے اردو پڑھنے والے پاکستانیوں تک بھی پہنچے۔
اس سے پہلے کبھی نذیر لطیف کا ذکر سنا نہ دوسرے بہادری کے اعزازات حاصل کرنے والے مسیحی شہداء اور غازیوں کا کہیں ذکر تھا۔ پتہ نہیں اس میں ان لوگوں کی کیا محصلت تھی جو ان کو جانتے بھی تھے اور ان کے پاس کمیونٹی میں ایسے ہیروز کو اُجاگر کرنے کے موقع بھی تھے چند مسیحیوں کے یہ رویے بہت تحقیق طلب ہیں اور میں نے کتاب ”دھرتی جائے کیوں پرائے؟“ میں ان رویوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ مختصر یوں سمجھ لیں کہ پاکستانی مسیحی کرہئ ارض پر ایسی نایاب کمیونٹی ہے جس نے اپنے ان محسنوں کے بنائے ہوئے ایسے اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے جن کی بدولت انہیں مسیحیت کی شناخت بھی ملی اور تعلیمی، سماجی، معاشرتی و معاشی بحالی کے شاندار منصوبے بھی ملے اور انہوں نے یہ سب اپنے محسنوں اور ان کے بنائے ہوئے ان اداروں کے ساتھ کیا جنہوں نے انہیں ہزاروں سال کی ذلتوں اور پستیوں سے نکالنے میں بڑااہم کردار ادا کیا اورحیران کن بات یہ ہے احسان فراموشی کی یہ عظیم مثال ہم نے قائم کی صرف کہیں خود نمائی کے جذبے کی تسکین کے لئے اور کہیں صرف تیس تیس سکوں کے عوض اپنی اور اپنی نسلوں کی وارثت تباہ کر نے کے لئے۔خیر میں نے ان ہیروز پر اور دیگر شہداء غازیوں پر بڑی تحقیق کی کوشش کی اور یہ کوشش مسلسل چھپتی بھی رہی اوراس میں اضافہ بھی ہوتا رہا سب سے پہلے یہ ریسرچ میری کتاب سبزو سفید ہلالی پرچم کے محفاظ شہداء میں چھپی، پھر ”شناخت نامہ“ پھر ”شان سبز و سفید“،”شہداء وطن“، ”چوبیس چراغ“،”حیدران کے مسیحی ساتھی“، ”افواج پاکستان کے مقامی مسیحی جرنیل“ میں چھپی ہے۔ لیکن مجھے ہمیشہ ایک خلش محسوس ہوتی کہ ایئر کموڈور نذیر لطیف (ستارہئ جرأت اور ستارہئ بسالت) کے پیشہ وارانہ مہارت و بہادری کے کرشماتی کارناموں پر ان کے ساتھیوں کے لکھے سچے واقعات بہت زیادہ اجاگر ہونے کے حق دار ہیں۔
میں نے کئی ائر فورس افسران سے ان کے بارے میں پوچھا جن میں میرے جاننے والوں میں سے صرف ونگ کمانڈر ہادی ہی ان کے زیر قیادت خدمات انجام دے چکے تھے انہیں میں نے مسلسل کہتا رہا تو انہوں نے مہربانی کی اور اپنے ان کے بارے میں خیالات لکھ دیئے۔ جولائی 2018ء میں جب ائر کموڈور نتھانیل کی ترقی ہوئی تو میں اپنے دوست ائر کموڈور سیمین جیکب کے ذریعے ان سے رابطہ کیا کیونکہ ان دنوں میں اپنی کتاب ”افواج پاکستان کے مقامی مسیحی جرنیل“ کے لئے مواد ڈھونڈ رہا تھا ائر کموڈور عظیم نتھانیل کو ان کے شخصی خاکے کے لئے بنیادی معلومات لکھنے کے لئے ان سے کئی دفعہ بات چیت ہوئی اب یہ ممکن نہیں کہ میری کسی ائر فورس افسر سے بات ہو اورنذیرلطیف صاحب کا ذکر نہ آئے ان کا ذکر ہو رہا تھا تو عظیم صاحب کہنے لگے مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ جب انہیں 2007ء میں گولی لگی تو مجھے ائر فورس کی طرف سے ان کالائزن افسر مقرر کیا گیا اسی طرح میں نے دیکھا کہ کس طرح ائر فورس کے اعلیٰ افسران ان کیلئے فکر مند تھے۔ بس میں نے فوراً عظیم صاحب سے کہا کہ آپ وہاں جتنے دن رہے اس وقت کا اپنا مشاہدہ تجربہ لکھ دیں۔ انہوں نے ٹالنے کی بہت کوشش کی بہت پرانی بات ہے پھر اس دوران وہ نیم بے ہوش ہی تھے لیکن میں ان کے پیچھے پڑا رہا عظیم صاحب ایک انتہائی پیشہ ور اور ذمہ دار افسر ہیں اور خاصے مصروف رہتے ہیں۔ لیکن میں انہیں مسلسل کہتا رہا آخر انہوں نے جولائی2020میں اپنی مختصر تحریر لکھ بھیجی یوں اس عظیم ہیرو کے آخری عمر کے ان المناک دنوں کا ایک اور پہلو بھی تحریری شکل میں محفوظ ہو گیا۔
اسی دوران ایک دن میں نے رینا سعید خان کا ان کے بارے میں لکھا ہوا آرٹیکل ڈھونڈنے کی کوشش کی جس میں انہوں نے2007ء میں انہیں گولی لگنے کے بارے میں لکھا تھاتو پتہ چلا تو وہ ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا تھا۔
میں کئی دن اس آرٹیکل کو تلاش کرتا رہا مجھے لگا جیسے میری کوئی قیمتی شے کھو گئی ہے بڑی تلاش کے بعد میں نے جواردو ترجمہ کرنے کے لئے اس کا پرنٹ نکالا تھا وہ ڈھونڈنے سے مل گیا لیکن اس کئی دنوں کی خواری نے مجھے یہ سوچ دی کہ اس عظیم فضائی جنگجو کے بارے میں لکھے ہوئے الفاظ کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کرنا چاہیے پھر وبا کرونا کی فرصت نے مجھے یہ موقع فراہم کر دیا۔ میں نے سوچا کیوں نہ ان کے دوستوں کے ان بارے میں لکھے ہوئے زریں خیالات کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کر لیا جائے۔ ایسے ہیروز قوموں، قبیلوں اور برادریوں کی ایسی اجتماعی وراثت ہوتے ہیں جن پر ان کی نسلیں بھی فخر کرتی ہیں جنہوں نے انہیں گمنام رکھنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ہو۔ ایئر کموڈور نذیر لطیف (ستارہئ جرأت اور ستارہئ بسالت)کو اس ساتھیوں کا خراج تحسین اب پاکستانی قوم کے لئے بالعموم اور پاکستانی مسیحیوں کے لئے بالخصوص ایک گراں قدر وراثت ہے ساتھ ہی میں نے لاک ڈاؤن کے دنوں میں ایک نئے ولولے سے ان کی بیوی کی بھتیجی سبینا فضل الہٰی کو فون کیا اور کہا مجھے آپ فوراً ایئر کموڈور نذیر لطیف (ستارہئ جرأت اور ستارہئ بسالت) کی بیٹی کا نمبر دیں۔ (میں یہ بات پچھلے تین سال سے انہیں کہہ رہا تھا)لیکن اس بار انہوں نے فوراًہی سبینا میسی دختر نذیر لطیف کا نمبر دے دیا۔ایک اکلوتی اولاد اپنے عظیم باپ کو یاد کرکے بہت جذباتی اور ان کی موت سے جڑی کئی ناگوار یادوں کے بارے میں بھی بتاتی رہی میں نے ان سے گزارش کی آپ اپنے عظیم باپ کے بارے میں اپنی یادیں لکھیں تاکہ یہ آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ ہو سکیں انہوں نے وعدہ کر لیا ”میں بھی لکھوں گی“۔ ساتھ ہی اس نے اپنے خالہ زاد اینڈریومکالی کا بتایا کہ وہ میرے باپ کے بہت نزدیک تھے وہ ضرور آپ کو ان کی شخصیت کے بارے میں لکھ کر دے گا۔ دو دن بعد ہی اینڈریو مکالی کا اٹلی سے فون آ گیا۔ اینڈریو مکالی ایک پڑھا لکھا اوردلچسپ شخصیت کا مالک ہے۔ ان سے ائر کموڈور صاحب کے بارے میں بہت دیر بات ہوتی رہی میں نے انہیں بھی ان کے بارے میں اپنی یادیں لکھنے کا کہا۔ اس طرح سبینا میسی اور اینڈریو میکالی کی ایئر کموڈور نذیر لطیف (ستارہئ جرأت اور ستارہئ بسالت) کے بارے تحریریں بھی اس کتابچے کا حصہ بنی ہیں۔گو کہ یہ سارے آرٹیکل میری کتابوں میں بھی محفوظ ہو چکے ہیں لیکن یہ میری طرف سے اس عظیم فضائی جنگجو کو خراج تحسین ہے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ اس عظیم جنگی ہوا باز کے بارے میں جانیں دوسری کتب میں وہ ایک کردار ہوتے ہیں لیکن مختصر کتابچے کی صورت میں ان کی بہادری پیشہ وارانہ مہارت زندہ دلی، وطن پرستی انسان دوستی اور دیومالائی شخصیت زیادہ لوگوں تک پہنچے گی۔
اس کتابچے کا مقصد تحریک شناخت کے اغراض و مقاصد کے حصول کے ساتھ اس عظیم ہیرو کو خراج تحسین پیش کرنا بھی ہے۔ کیونکہ جس طرح اس عظیم ہیرو کے کارنامے پاکستانی قوم، پاکستان ائر فورس کا گراں قدر اثاثہ ہیں۔ وہی یہ عظیم ورثہ پاکستانی مسیحی نوجوانوں کے لئے ایسا افتخار و فخر ہے۔ جو نوجوانوں میں عزم وحوصلہ بھر کر انہیں معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنے کی تحریک دیتا ہے بس کاش اس بات کا ادارک ہمارے مذہبی، سیاسی و سماجی کارکنوں کو ہو جائے۔کہ اس وارثت کو بانٹنے سے مسیحی نوجوانوں میں کیا فکری انقلاب لایا جا سکتا ہے۔
اعظم معراج
ستمبر2020ء
کراچی

سنہری قُقنس

اعظم معراج
(حمزہ توف اور امرتا پریتم کی نظموں سے ماخوذ)

اے وطن عزیز کے محروم و بے شناخت بچو!
اپنے سماج سے بیگانو!
دھرتی سے اپنی نسبت سے لاعلم دھرتی واسیو!
اس ارضِ پاک کو بنانے
سنوارنے۔۔۔ سجانے
اور بچانے میں اپنے اجداد کے کردار سے بے بہرہ معصومو!
اپنے آباء کی سرزمین پر اجنبیوں کی طرح رہتے اور
نفرت انگیز سماجی رویوں کے وار سہتے
اپنے روشنی کے میناروں کو
اپنی محرومیوں کے اندھیروں میں۔۔۔ گُم کرتے خاک نشینو!
خود رحمی، احساس کمتری و برتری کی
چکی کے پاٹوں میں پسے ہوئے راندہ درگاہ
ہم وطنو
ہزاروں لوگ
تمہاری ان محرومیوں کا نوحہ کہتے۔۔۔ اور سینہ کوبی کرتے ہیں
تمہاری ان کمزوریوں اور پستیوں کو بیچتے ہیں
بے شک اس ظلمت شب میں
اُمید کے دیے جلانے والے
تمہیں دھرتی سے نسبت بتانے والے
اور یہ منترہ
تمہیں رٹانے والے
کہ تم بھی وارث ہو اس سرزمیں کے
اور اس ارض پاک کو
اپنے خون پسینے سے سینچنے والے وطن کے معماروں
اور روشنی کے میناروں سے
تمہارا ناطہ جوڑنے والے
شہدائے وطن کے پاک لہو کے رنگ سے
تمہاری بے رنگ روحوں میں
رنگ بھرتے مرد قلندر
بہت سے صبح نو کی نوید سنانے والے ہوں گے
یاد رکھنا
ان بہت سوں میں سے ایک میں بھی ہوں
لیکن اگر
کبھی لمبی اندھیری رات کے سیاہ گُھپ
اندھیروں سے گھبرا کر یہ دیوانے
صرف چند بھی رہ گئے تو
ان چند میں ایک میں بھی ضرور ہوں گا
پھر اگر
اُمید سحر میں ان میں سے صرف ایک بچا
تو وہ
یقینا میں ہی ہوں گا
لیکن اگر
گھنے پیڑوں کے جھنڈ میں سے
سورج کوچُھوتے درختوں پر
اُمید حیات نو میں نغمہ مرگ گاتے ہوئے
قُقنسوں کے مہک دار شاخوں سے بنے گھونسلوں میں سے
سنہری ٹھنڈی ہوتی ہوئی آگ میں سے
کئی نوجوان
سورج کی طرح چمکتے
قرمزی سنہرے قُقنس
اپنی ہزاروں سال کی پستیوں، ذلتوں اور
محرومیوں کے بھاری بوجھ
اپنے توانا سنہری پروں سے جھٹکتے ہوئے
چونچوں میں
اپنی قابل فخر شناخت کے علم دبائے
اُمیدوں کی روشن شمعیں دلوں میں جلائے
عزم و حوصلے اور اُمنگیں
جن کے سینوں میں موجزن ہوں
جن کی نظر
روشنی کے میناروں سے اُٹھتی ہوئی
دُور آسمانوں پر ہو
اور
وہ دن کے اجالوں میں
سورج کی طرف
لمبی اڑانیں بھریں
تو سمجھ لینا
جن مہک دار گھونسلوں سے
جواں قُقنس اڑتے ہیں
ان گھونسلوں میں
میرے بدن کی راکھ تھی

اعظم معراج
”شناخت نامہThe Identity“ سے اقتباس

ائیر کوموڈور نذیر لطیف

ایئر کموڈور نذیر لطیف

(ستارہ جرأت۔ ستارۂ بسالت)
23-10-1927تا 30-06-2011

30جو ن 2011 ء کو اسلام آباد کے مسیحی قبرستان میں ایک ایسے محب وطن بہادر ماہر اور اپنے پیشے سے دِل کی گہر ائیوں سے پیا ر کرنے والے ہواباز کو لحد میں اُتا را جا رہاتھا جو کہ پاک فضائیہ میں اپنی شخصیت مہارت،بہادری، شرافت، متانت کے اعتبا ر سے مشہور تھے۔ لیکن پاکستانی قوم اور پاکستانی مسیحی اُسکے بارے میں بالکل لا علم تھے۔ کیونکہ بقول اُن کے ایک ساتھی ایئر چیف مارشل (ریٹائرڈ) جمال اے خان کے”اِس کرشماتی قائد نے کبھی کوئی اشارہ بھی نہیں دیا کہ وہ کتنے اچھے پائلٹ تھے۔ انہوں نے بہت مشکل فضائی فرائض ادا کرکے اوربہ ظاہرآسانی کے ساتھ اہداف حاصل کرکے کے خود بخود احترام کمایا۔دوسروں کے ساتھ میں نے بھی اس بات کو محسوس کیا کہ وہ اپنے استحصال اور موت کو قریب سے دیکھنے کے واقعات کو، جو کہ بہت سارے ہیں،ہمیشہ بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے گریز کرتے۔فائٹر پائلٹس کے اندرونی حلقوں میں ان رونگٹے کھڑی کردینی والی فلائٹس کو اس یقینِ کامل کے ساتھ بیشترمرتبہ دہرایا جاتاکہ اگر کسی کو بھرپور مہارت حاصل ہے اور خطرے کو عمل میں آنے سے پہلے بھانپ لیا جائے تو یہاں تک کہ موت بھی دھوکہ دیا جاسکتا ہے“۔
اِسکے علاوہ اُن کے جو انی کے ما تحت بڑھا پے کے دوست آخری عمر کے واحد غم خوار اور دیکھ بھال کرنے والے پاک فضائیہ کے بے باک اور بہادر غازی ایئرکموڈور(ر) سجاد حیدر(ستارہ جرأت) کہتے ہیں۔ ”وہ ایک ایسی سچی مثال تھے جن کے لئے ہلالِ جرأت تخلیق کیا گیا تھا۔“ اتنی خو بیوں کے ساتھ اتنی خامو شی کہ ساتھ اِس دنیا سے رخصت ہونے والا یقینا کوئی حقیقی ہیر و ہی ہو سکتا ہے جس کو نہ کبھی الیکڑونکس میڈیا نہ پر نٹ میڈیا نہ پاکستانی دانشوروں اور نہ ہی فوجی مبصرین سب سے بڑھ کر پاکستانی مسیحیوں کے غم خواروں (جو کہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں) کو کبھی تو فیق نہ ہوئی کہ پاک فضائیہ کہ اِس دیو مالائی کردار کو منظر ِعام پر لا یا جائے۔ با نجھ معاشروں میں عموماً بڑے لوگ پیدا نہیں ہوتے، لیکن اگر کوئی بڑا انسان پیدا ہو بھی جائے تو بہت سا رے لوگ اِس کوشش میں لگ جاتے ہیں بجائے اِنکی عظمت سے معاشرہ کچھ سیکھے بلکہ ایسی شخصیات کودبا یا جاتا ہے۔ ”تاکہ کچھ خود ساختہ ہیر وز کی عظمت کی جھو ٹی داستا نوں کو داوام ملتا رہے۔“ نذیر لطیف 23 اکتوبر 1927ء کو لاہور کے ایک پڑھے لکھے گھرانے میں پیدا ہوئے اُنکے والد آئی لطیف نفسیا ت کے پروفیسر تھے۔ پروفیسر آئی لطیف نے پرنسٹن یونیورسٹی امریکہ سے پی ایچ ڈی کی ہوئی تھی وہ بعد میں ایف سی کالج لاہور میں بھی پڑھا تے رہے۔
نذیر لطیف عرف بل لطیف ایئر فورس میں وہ اِسی نام سے مشہور تھے۔ کا بچپن پنڈی میں گزرا اُنکی ابتدائی تعلیم کتھیڈرل کالج صدر میں ہوئی۔ایف ایس سی انہوں نے ایف سی کالج لاہور سے 1944ء میں کی۔ انھیں بچپن سے ہی فائٹر پائلٹ بننے کا شوق تھا اپنے اِسی شوق کی خا طر انہوں نے بہت چھوٹی عمر سے فلا ئنگ کلب جوائن کیا اور فلائنگ شروع کر دی۔ قیام پاکستان سے پہلے وہ ایک پر ائیو ئٹ ایر لائن اورنیٹ ایر لا ئن میں بطور پائلٹ فلائی بھی کرتے رہے لیکن انکا فا ئٹر پائلٹ بننے کا خوا ب تب پورا ہو ا جب انہوں نے 1949میں رائل پاکستان ائیر فورس جوائن کی انکا کورس 8GDP تھا لیکن فلا ئنگ میں انکی مہارت کی بدولت اُنکو اگلے کورس میں ترقی دے دی گئی اور بقول بے با ک بہا در ماہر ہو اباز اور اب فوجی مصنف بھی ایئر کموڈور سجاد حیدر کہ ”میری معلومات کے مطا بق وہ واحد ایسے شخص تھے جنہیں کیڈٹ سے اگلے بیچ میں ترقی دی گئی ہو“لہٰذہ 21 دسمبر 1950ء کو وہ (P) 7GD کورس کے ساتھ پاس آوٹ ہوئے اُنکا پاک نمبر 1081 تھا۔ رائل پاک ائیر فورس میں کمیشن لینے کے شروع کے سالوں میں انھیں مزید تربیت کے لیے رائل ایئر فورس کالج کر ین ویل بھیج دیا گیا جہاں وہ 1954ء تک رہے۔ اُنکی کامیابیوں کی فہرست طویل تر ہے وہ پاکستان ایئر فورس پی۔اے۔ایف۔ فالکن ایئر وٹیک ٹیم کے قا بل ِفخر منیجر بھی تھے۔ اِسی ٹیم نے 2فروری 1958ء کو فضائی دنیا کی تا ریخ کا نیا ریکا رڈبنایا مسروربیس پر اِسی ٹیم نے 16سیبرفا ئٹر طیا روں کی فارمیشن کے ساتھ ریڈلیٹر ڈے کے موقعے پر مشہورہواباز مٹی مسعود کی قیادت میں یہ کا رنامہ انجام دیا۔
پلنگ اپ فارمیشن لو پ کا کا رنامہ انجام دیا اِسی طرح انہوں نے 1969ء میں بمبار طیاروں پر مشتمل دنیا کی واحد فضائی کرتب دکھانے والی ٹیم تیارکی اور اس کی قیادت کی، اپنی اور اپنے پائلٹس کی مہارت سے بین الاقوامی شائقین کو ورطہئ حیرت میں ڈالا، جب انھوں نے چار بی۔۷۵ بمبار طیاروں کی 1964ء میں ایک عوامی نمائش میں ”لوپس اور رولز“ میں قیادت کی۔بمبار طیارے شاذو نادر ہی اس لیے تیار ہوتے ہیں کہ فضائی کرتب کے دباؤ کو برداشت کرسکیں اور فائٹر طیاروں کی بہ نسبت زیادہ بھاری ہونے کی وجہ سے، ان کو پیچیدہ چالوں کے ذریعے سنبھالنا نسبتاًزیادہ مشکل ہوتا ہے۔ بل لطیف اپنی اس نوعیت کی ’پہلی‘ کارکردگی کے ساتھ ایک اور اپنی نوعیت کے”پہلے میں“ کی جانب گامزن ہوئے۔1969ء میں، انھوں نے سپر سونک طیارے، چائنیز ایف۔۶ پر مشتمل پاک فضائیہ کی پہلی فضائی کرتب دکھانے والی ٹیم تیار کی اور اس کی قیادت کی۔
ونگ کمانڈر نذیر لطیف عرف بل لطیف کی دوران ِ1965 جنگ کارکردگی جب اگست 1965کو جنگ کے سا ئے پاک وہند کی فضا ؤ ں میں کشمیر کے تنا زعے کے بعد منڈلانے لگے تو بل لطیف اُن دونوں ماڑی پور بیس پر قابل فخر 31ونگ کی قیادت کر رہے تھے طبل جنگ بجنے سے پہلے ہی جب پاک فضائیہ کی اعلی قیادت نے اپنے تمام جنگی ہوائی اڈوں پر تعینات ونگز اور اسکواڈرن کو تیاررہنے کا حکم دیا تو ونگ کمانڈر بل لطیف نے اپنے ونگ میں شامل تمام اسکوارڈنکی تربیت مہارت بڑھانے کے لیے اپنے بمبار پائلٹ نیوی گیڑ اور فضائی عملے کی تربیت کے لیے بہترین پروگرام مر تب کیے اور سونمیانی کے مقام پر رات کی نچلی پروازوں کے ذریعے بم گرانے کی مشقوں کے ذریعے اپنی فضائی سپاہ کو تیاری کر وانی شروع کر دی زمینی سطح سے 100فٹ اور 500فٹ سے بم گرانے کی تربیت میں مہارت اور چابک دستی پیداکرنے کے لیے کئی راتوں تک یہ ٹریننگ پروگرام چلتا رہا جیسے ہی ستمبر میں جنگ شروع ہوئی اُنکو فضائی مشن میں حصہ لینے کے لیے پشاور بلا لیا گیا جہاں انہوں نے اپنی مہارت بہا دری اور قا ئدانہ صلاحیتوں کی بدولت پاکستان ایئر فورس کی فضائی برتری قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ 8ستمبر کی رات انہیں حکم ملا کہ انھیں دوB.57بمبار جہازوں کی فا رمیشن کی قیادت کرتے ہوئے بھارت کے شہر انبا لہ کے ائیر بیس پر حملہ کر نا ہے انبالہ ایئر بیس بھا رت کا سب سے زیادہ محفوظ اور فاصلے کے اعتبا ر سے پاکستان کی سرحدوں سے سب زیادہ گہر ائی میں واقع ہونے کی وجہ سے دشمن کے زیادہ جنگی طیارے وہی سے اڑ کر مغربی پاکستان پر حملہ کرتے تھے جب دو جہازوں کا یہ بیڑا ہندوستان میں داخل ہو ا تو چار سو اندھیرا پھیلا ہو اتھا۔ مکمل بلیک آوٹ اور TOTٹا ئم یعنی (ٹائم آن ٹارگٹ) ایک بجے تھا فضا سے زمین پر اک اندھیر ی چادر نظر آئی تھی ونگ کمانڈر بل لطیف کے نیوی گیڑ فلا ئٹ لیفٹیننٹ مظہر تھے جو کہ نہایت مہارت سے ونگ کمانڈر بل لطیف کو گا ئیڈ کر رہے تھے۔ دوسر ے B.57 بمبار طیارے کو اسکوارڈن لیڈ ر بخاری اڑا رہے تھے اور اُسکے نیوی گیڑ کے فرائض اسکوارڈن لیڈر اونگزیب انجام دے رہے تھے۔ طیارہ جیسے ہی آئی پوائنٹ یعنی (انیشل پو ائنٹ)جہاں سے حملہ شروع کرنا ہو تا ہے پر پہنچا بل لطیف نے حملے سے پہلے فائنل چیک کیا نیوی گیڑ نے آخری گنتی (کا ونٹ ڈاون شروع کیا) بل لطیف نے حملے کے لئے نیچے دیکھا نیچے مکمل اندھیر ا اور اندھیر ے کی دبیز چادر اوڑھے مکمل اندھیر ے میں ڈوبی فضّا تھی۔پھر اچا نک آسما ن روشنی سے منور ہو گیا۔ اور فضا توپوں کے گولوں اور ٹر یسر کی آوازوں سے گونج اٹھی یہاں تک کے کا ک پٹ روشنی سے منور ہو گیا اوراِس خطرناک صورتِ حال جو کسی بھی لمحے طیارے کو انگا رے میں بدل سکتی تھی پاک فضائیہ کہ اِس جانباز قا ئد نے بم ریلز کرنے کا بٹن دیا دیا اور 4000 پو نڈربم پل جھپکتے ہی جھٹکے سے فضا سے زمین پر جا ٹکرائے چارسو آگ کا کھیل جا ری تھا۔لیکن پاک فضائیہ کے شاہینوں نے خطروں کی پروا نہ کرتے ہوئے دوسرے حملے کے لیے پھر چکر کا ٹا تاکہ مشن مکمل ہو اور دوسرا حملہ بھی نہایت کامیابی سے مکمل ہو ا اور بل لطیف نے جیسے ہی واپسی کے لئے چکر کا ٹا نیوی گیڑ نے اطلا ی دی کہ اینٹی ایئر کر افٹ گن کا گولہ جہا ز کو لگ چکا ہے۔ اِس اطلاع کے ساتھ ہی بل نے اپنے بائیں جانب دیکھا تو جہا ز کے با ئیں بازوں سے دھو اں اُٹھ رہاتھا اور پرسکون ہمیشہ کی طرح اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے بل نے اپنے انسٹرومنٹ پینل پر نظر دوڑائی کہ کہیں کوئی ایسا نشا ن جس سے آگ لگنے کا کوئی اشارہ ملتا ہو۔ لیکن خو ش قسمتی سے ایسا کچھ نہیں تھا (کیونکہ قسمت بھی بہا دروں کا ساتھ دیتی ہے) بل نے چکر کا ٹا اور نیوی گیڑ سے کہا کہ فیول کا حساب کتاب کر وں اور واپسی کے لیے راہنما ئی کر و اِسطرح بل نہایت مہارت سے طیارہ اڑاتے ہوئے واپس پشاور پہنچے لینڈنک کے بعد طیارے کی انسپیکشن ہوئی تو دیکھا گیا کہ شیل طیارے کے با ئیں بازو کو چھیدتا ہو ا گزرگیا تھا اور نشان کا اندازہ کرنے کے بعد مشن کی ٹیم نے اپنے رب کا شکر ادا کیا کہ وہ خیر یت سے واپس آگئے ہیں اور بل کی مہارت کی بدولت نہ صرف پاکستان ائیر فورس طیارے کے نقصان سے بچ گئی بلکہ مشن بھی مکمل اور جا مع طور پر کامیاب رہا۔ 1965ء کی جنگ کے دوران ونگ کمانڈر بل نے دشمن کی حدود میں کئی بمبار مشن کی قیا دت کی اور آدم پور پٹھان کو ٹ سری نگر اور جودھپور کے ہوائی اڈوں پر کامیاب حملے کئے 1965ء کی جنگ کا آخری مشن انہوں نے بھا رت کی حدود میں دور تر ین آگرہ بیس پر حملہ کیا۔اِس بیس کی حفا ظت کے لیے انڈین ایئر فورس کے مگِ s۔21۔Mig 21 طیارے اور SAMS میزائل نصب تھے۔ لیکن بل نے اپنی مہارت جرات اور وطن کی محبت میں اپنی جان کی پر وا نہ کرتے آگرہ پر بھی کامیاب حملہ کیا۔ ونگ کمانڈر نذیر لطیف / بل لطیف 1965ء کی جنگ میں 6، 7 اور 8 ستمبر کی رات کے خطرنا ک بمبار مشن کی قیا دت میں مہارت جرأت بہا دری عزم حوصلے اور قائدانہ صلاحیتوں سے کی اِن سب صلاحیتوں اور خدمات کے اعتراف میں انہیں ستارۂ جرأت سے نوازا گیا۔ 1971ء کی جنگ میں نذیر لطیف ایئرکموڈور کے رینک پر ترقی پا چکے تھے اور پی۔اے۔ایف بیس ماری پور پر بیس کمانڈر کے طور پر تعینات تھے۔ 1971جنگ انہوں نے انڈین آرمی کی یلغار کو کھوکھر اپا ر چھو ر سیکٹر پر حیدر آباد کی طرف بڑھنے سے روکنے میں اہم کردار ادا کیا دشمن کے کئی ٹینکوں ٹرکو ں اور اسلحہ با رود لا نے والی ٹرینوں کو تباہ اور دن کی روشنی (یعنی چٹے دن) میں کئی بمبارمشن کیے۔ اوربقول اُنکے ساتھی ائیر کموڈر سجاد حیدر کے 1971کی جنگ میں ایئر کموڈررینک کے وہ واحد افسر تھے جنہوں نے اِس عملی جنگ میں حصّہ لیا ہو بل لطیف واقعی ایک عظیم ٖفضائی جنگجوماہر پائلٹ دوراند یشن اور جرأت مند کمانڈر تھے جو اپنے ساتھیوں میں ہر دل عزیز اور قابل ِ احترام انسان تھے۔
اس شاندار پیشہ وارانہ کیرئیر کے ساتھ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پاکستان ایئرفورس کے واحد نشان حیدر حاصل کرنے والے شہید راشد منہاس کی شہادت کے وقت وہ ان کے بیس کمانڈر تھے اور اس طرح اس تاریخی واقعہ کے وہ ایک اہم کردار تھے۔ راشد منہاس شہید نشان حیدر کی شہادت کے فوراً بعد کی سب ذمہ داریاں احسن طریقے سے سنبھالی اور افواج پاکستان کے اس اہم ترین تاریخی لمحات کے ایک ایک لمحے کے کردار اور بہت سارے اہم حقائق کے چشم دید گواہ بھی تھے کیونکہ وہ اس شہادت کے بعد سے ایک ایک لمحے کے تفصیلات ان کے ذریعے سے ہی احکام بالا اور پریس کو جاری ہوتی ہوں گی اس طرح وہ1950ء سے لے کر 1972ء تک اس وقت کی پاکستان ایئر فورس کی تاریخ کے ہر اہم واقعہ مثلاًجنگ1965ء جنگ1971ء راشد منہاس شہید کی شہادت و دیگر ایسے کئی پیشہ وارانہ امور کے تاریخ ساز لمحات کے حصہ رہے۔
اِنکے شاندار کیریئر کا اختیا م 1972کو ہو ا۔ ریٹا رمنٹ کے بعد وہ اوردن چلے گئے جہاں وہ اٹھارہ سال رہے بحر ین کی ایک ائیر لا ئن میں کیپٹن بھی رہے۔ اُنکی شادی 26جون 1952کو ڈاکٹر فرانسیسکافضل الٰہی سے ہوئی۔ اُنکی ایک بیٹی جس کا نام سبینا ہے 27 ستمبر 1967ء کو پیدا ہوئی اور اِن دنوں امریکہ میں رہائش پذیر ہے۔
ایئرکموڈور نذیر لطیف کی وفات پر ان کے ساتھیوں نے ان کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا وہ ان کے پیشہ ورانہ، قائدانہ اور انسانی خوبیوں کی عظمت کی ایک جھلک ہے۔ یہاں ان کے تین ساتھی افسران کے خیالات تحریر کیے جارہے ہیں۔
سب سے پہلے مرحوم کی وفات پر ان کے دوست ایئر چیف مارشل (ریٹائرڈ) جمال اے خان کے تاثرات لکھے جا رہے ہیں جو انہوں نے ان کی وفات کے بعد 17 جولائی 2011ء کو ایک مضمون میں لکھے اور اسی طرح ان کے ایک اور ایئرفورس کے ساتھی دوست و ہمدرد ایئر کموڈور (ریٹائرڈ) سجاد حیدر جو عمر کے آخری حصے میں ان کے قریب اور ان کی تنہائی کے ساتھی رہے۔ جنہوں نے اس عزم و حوصلے کے پیکر ہواباز کو لفظوں میں ہی خراج عقیدت پیش نہیں کیا بلکہ ان کے آخری دنوں میں عملی طور پر ان کی بیماری میں ان کی دیکھ بھال کرکے اپنی دوستی کا حق ادا کیا۔ ان کی وفات کے بعد 17 اکتوبر 2011ء کو اپنے ایک اخباری مضمون میں اس عظیم ہواباز کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔
نذیر لطیف (المعروف بل لطیف) کے لئے لکھے ان کے ساتھیوں کے تاثرات سے اندازہ ہوتا ہے کہ بل لطیف اپنے دور کے کتنے بڑے ہواباز اور کتنے عظیم انسان تھے۔

بہترین ہوا بازوں کے لیے سخت مشن

ایئر چیف مارشل (ریٹائرڈ)جمال اے خان
کااپنے مرحوم دوست کو خراجِ عقیدت
جان کوئرک کی 1962ء میں فائٹر پائلٹس کے بارے میں لکھی گئی بہت زیادہ پڑھی جانے والی کتاب سے یہ اقتباس میرے ذہن میں در آیا، کیوں کہ یہ بہت زیادہ سراہے جانے والے پاک فضائیہ کے جنگی کمانڈرزکے کیریئرز میں سے ایک پر بالکل صحیح بیٹھتا ہے، ایئر کموڈور نذیر (”بِل“) لطیف ایک مسیحی آفیسر جو لاہور میں پیدا ہوئے، جو جون کے آخری دن پاک فضائیہ کی تاریخ کا حصہ بنے۔ کوئی بھی پی اے ایف پائلٹ جو ایک جنگی اسکواڈرن (16سے 24طیارے اور پائلٹس)، ایک ونگ (50 سے 70) اور ایک ایئر بیس (70سے 120) کی کمان کرچکا ہو، اس کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ اسنادکیریئر کے ان مشکل ترین مراحل میں ثابت کرچکا ہے اور اپنے شعبے کے نئے آنے والوں کے لیے ان امتیازی نشانات کی بنیاد پر اس کا احترام واجب ہے۔
بِل لطیف نے دو اسکواڈرنز، تین ونگز (ان میں دو کی دو دفعہ) اور دو ایئر بیسز (پشاور اور کراچی کی مسرور بیس) کی کمان کی، ایک ایسی کمان جس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور جس کی بنا ء پر سینکڑوں پی اے ایف پائلٹس فضا میں اور زمین پر اس کرشماتی قائد کے قریب ترین رابطے میں آنے کاباعث بنے۔اپنے اسٹاف اسائنمنٹس میں انہوں نے ڈائریکٹر آف آپریشنز کے اہم عہدے پر بھی خدمات انجام دیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بِل لطیف اس بات کا کبھی بھی کوئی اشارہ تک نہیں دیتے دکھائی دیئے کہ وہ کتنے اچھے پائلٹ تھے۔ انھوں نے بہت مشکل فضائی فرائض ادا کرکے اوربہ ظاہرآسانی کے ساتھ اہداف حاصل کرکے کے خود بخود احترام کمایا۔ دوسروں کے ساتھ میں نے بھی اس بات کو محسوس کیا کہ وہ اپنے استحصال اور موت کو قریب سے دیکھنے کے واقعات کو، جو کہ بہت سارے ہیں،ہمیشہ بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے گریز کرتے۔ فائٹر پائلٹس کے اندرونی حلقوں میں ان رونگٹے کھڑی کردینی والی فلائٹس کو اس یقینِ کامل کے ساتھ بیشترمرتبہ دہرایا جاتاکہ اگر کسی کو بھرپور مہارت حاصل ہے اور خطرے کو عمل میں آنے سے پہلے بھانپ لیا جائے تو یہاں تک کہ موت کو بھی دھوکہ دیا جاسکتا ہے۔
1965ء کی جنگ میں انھوں نے ملک کے واحد بمبار ونگ کی قیادت کی، جو کہ دشمن کے علاقوں میں بہت اندر تک گھس سکتا تھااور ان کے پائلٹس بے رحمی سے بھارتی فضائیہ کے ایئر بیسز پر حملے کرتے رہے جس نے جنگ کے مقاصد کے حصول میں اہم کردار ادا کیا۔
1971ء کی جنگ میں انھوں نے اسی بیس کی کمان سنبھالی، جس سے ان کے ونگ نے سات سال قبل پروازیں کی تھیں لیکن اس دفعہ حالات بہت مشکل تھے اور ان کے طیاروں کو مسابقت کا سامنا تھا۔مزید کمک مانگے بغیر جو کہ وہ جانتے تھے کہ انھیں نہیں ملے گی (شمال میں ممکنہ مہم جوئی کے پیش نظرارتکاز کے باعث)، لطیف اور ان کے قابل فائٹر ونگ کمانڈر نے فضائی حملوں کے سلسلے کا آغاز کیاتاکہ حیدر آباد کے خلاف بہت ہی خطرناک بھارتی عزائم کو پسپاکیا جاسکے۔ایک دفعہ پھر، ان کے زیرِ کمان فائٹر اور بمبار پائلٹس نے بہادری سے اپنے مقررہ اہداف نہ صرف حاصل کیے، بلکہ ان سے بھی آگے بڑھ گئے۔ لطیف نے بڑے فخر سے اپنی امتیازی خدمت ایس۔بی ٹی اور اپناایس۔جے، جنگ کے دنوں میں بہادری پر ایک اعزاز، زیب تن کیے۔
بِل نے بمبار طیاروں پر مشتمل دنیا کی واحد فضائی کرتب دکھانے والی ٹیم تیارکی اور اس کی قیادت کی، اپنی اور اپنے پائلٹس کی مہارت سے بیان الاقوامی شائقین کو ورطہئ حیرت میں ڈالا، جب انھوں نے چار بی۔57 بمبار طیاروں کی1964ء میں ایک عوامی نمائش میں ”لوپس اور رولز“ میں قیادت کی۔بمبار طیارے شاذو نادر ہی اس لیے تیار ہوتے ہیں کہ فضائی کرتب کے دباؤ کو برداشت کرسکیں اور فائٹر طیاروں کی بہ نسبت زیادہ بھاری ہونے کی وجہ سے، ان کو پیچیدہ چالوں کے ذریعے سنبھالنا نسبتاًزیادہ مشکل ہوتا ہے۔ لطیف اپنی اس نوعیت کی ’پہلی‘ کارکردگی کے ساتھ ایک اور اپنی نوعیت کے”پہلے میں“ کی جانب گام زن ہوئے۔ 1969ئمیں، انھوں نے سپر سونک طیارے، چائنیز ایف۔6 پر مشتمل پاک فضائیہ کی پہلی فضائی کرتب دکھانے والی ٹیم تیار کی اور اس کی قیادت کی۔
گو کہ وہ غلطی کی حد تک مہربان اور سخی تھے، لیکن بحیثیت کمانڈر لطیف اپنے ان قریبی دوستوں سے،جنھوں نے ان کے ماتحت خدمات سرانجام دیں، وہ وجوہات کہنے سے کبھی نہیں ہچکچائے، جن کی بنیاد پر انھوں نے ان کی مخالف رپورٹس دی تھیں اور یہ کہ انھیں کہاں اس تشخیص کو تبدیل کرنے کی ضرورت تھی۔لیکن باہر اور کام کے اوقات کے دوران دونوں میں وہ ہمیشہ کی طرح بامروّت، غم گزار، ظریف اور ہمیشہ قصے کہانیوں کے ذخیرے (زیادہ تر سادہ علاقائی) سے بھرپور ہوتے، جس نے ان کے دور میں فضائیہ کو ایک بہت زیادہ خوشی سے بھرپور سماج میں ڈھال دیا۔
قوم کے ہوابازی کے شعبے میں ان کی خدمات کے اعتراف میں، فضائیہ کے سربراہ کے خصوصی حکم پر پاک فضائیہ نے بھرپورتوجہ کے ساتھ ان کی طبی اور متعلقہ ضروریات خیال رکھا؛ جوکہ ان کی آخری رسومات میں بھی موجود تھے۔اپنی زندگی کے آخری پانچ سالوں میں بِل کی صورتِ حال ایسی تھی کہ انھیں ایسی نگہداشت اور توجہ کی اشد ضرورت تھی۔اسلام آباد میں ایک ہیرو کے طور پر تدفین سے قبل، فضائیہ کے افسران کی ایک بڑی تعدا د نے اس بہت زیادہ لائق تعریف لطیف کی آخری رسومات میں شرکت کی۔


نذیر ”بِل“ لطیف کی یاد میں

مرحوم کی وفات پر ایئر کموڈور (ریٹائرڈ) سجاد حیدر کے تاثرات
ایئر کموڈور (ریٹائرڈ)سجاد حیدر1965ء کی جنگ کے ایک گمنام
مسیحی فوجی کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں

جیسے ہی ماہِ ستمبر کی آمد ہوتی ہے، اس ناوا قف قوم کی آج کے پاکستان میں جاری افراتفری، بدعنوانی اور خوں ریزی سے توجہ ہٹانے کے لیے مبالغہ آرائی کی حد کردی جاتی ہے۔ ہر 7 ستمبر کو دفاعی ادارے یومِ دفاع کے جشن کو منانے کے ریاستی کارپوریٹ طبقے کی عجیب و غریب منطق میں برابر کے حصّے دار ہوتے ہیں، جس میں 1965ء کی جنگ کو فتح قرار دیا جاتا ہے۔ریٹائرڈ فوجی ا فسران لاعلم اور ناواقف ٹی وی اینکرز کے سامنے بٹھائے جاتے ہیں اور حقائق سے کوسوں دوربلاغت کے ایسے دریا بہائے جاتے ہیں، جن میں دشمن کا شکار تیتر کی طرح کیے جانے کا تذکرہ ہوتا ہے۔ 1965ء کی جنگ کے حوالے سے پاک فضائیہ کی جانب سے پیش کی جانے والی سرکاری تاریخ درحقیقت جانبدارانہ اور حقائق سے پہلو تہی پر مبنی ہے۔ اصل میں اس جنگ کو فتح کے جشن کے طور پر منانا ایک چال تھی، جس کا منصوبہ نہایت چالاکی سے ایوب خان کی ریاستی پروپیگنڈہ مشین نے ترتیب دیا تھا تاکہ کمزور ہوتی ہوئی قیادت کی ناکامی پر اس بھیس میں پردہ ڈالا جاسکے۔
تاہم کسی کو بھی فوجی جوانوں اور پاک فضائیہ کے ہوابازوں کو شجاعت میں کم ترنہیں سمجھنا چاہیئے، جنہوں نے تباہ کن بھارتی یلغار کوروکا تھا۔ جو کہ فضائیہ کی مدد(پاک فضائیہ سے چار گنا بڑی) کے ساتھ ساتھ دو آرمی کور پر مشتمل تھی، جن کے ہدف شمال میں سیالکوٹ، لاہور اور قصور تھے۔ اسی پس منظر کے حوالے سے میں ان حقیقی ہیروز میں سے ایک ایسے ہیرو کی کہانی بیان کرنا چاہوں گا، جس نے اپنی وراثت میں پاک فضائیہ کے نیلے لباس میں ملبوس جانبازوں کے لیے ایک ایسی روایت چھوڑی ہے جس میں وہ جنگ کے دنوں میں ایک نڈر جنگجو اور امن کے دنوں میں ایک پیشہ ور ماہر کے طور پر مشہور ہے۔ ایئر کموڈور نذیر (بِل) لطیف، روح کی عکاسی کرتی ہوئی چمکتی آنکھوں اوربہت بڑے، سخی دل کے مالک تھے۔ میں آج بھی انہیں اپنے تصور میں یونیفارم میں ملبوس کھڑے ہوئے دیکھ سکتا ہوں۔ دائیں چھاتی کی جیب پر ان کا خصوصی پائلٹ کا سنہرا ونگ اور سینے پر بائیں جانب امتیازی تمغوں کی قطار میں اعلیٰ ترین شخصی شجاعت کا اعزاز۔
بِل لطیف ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوئے۔ان کے والد پروفیسر لطیف1950ء کے عشرے کی ابتدا میں فور مین کرسچن کالج میں نفسیات کے ایک معروف پروفیسرتھے۔اپنی زندگی کے اواخر تک بِل لطیف نے کبھی اپنی امتیازی کامیابیوں یا آزمائشوں کے بارے میں بات نہیں کی۔ اس غیر متنازع جنگجو کے لیے یہ سوچنا بھی ناممکن تھا کہ ذرائع ابلاغ میں کھلے عام اپنے مثالی کیریئر کی ایک مکمل پیشہ ور کے طور پر شیخی بگھارتا پھرے۔یہی وجہ ہے کہ مٹی کے اس شجاع سپوت کے بارے میں قوم میں بہت کم لوگوں نے سُنا ہوگا۔ الم ناک طور پر یہ درخشندہ ستارہ یکم جولائی2011ء کو غروب ہوگیا(میں اسی تاریخ کو صحیح مانتا ہوں کیوں کہ پاک فضائیہ یا ریٹائرڈ افسران کی جانب سے ان کی اچانک موت کے بارے میں مجھے مطلع کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں ان کے تناؤ سے بھرپور آخری تین سالوں میں ان سے کتنا قریب تھا)۔
پاک فضائیہ کے دونوں بانی کمانڈر اِن چیفس، ایئر مارشل اصغر خان اور نورخان نے بِل لطیف کے پیشہ ورانہ احترام کو برقرار رکھا تھااور ان کے اس وقت کے حالیہ اکیلے پن میں ان کی مدد کی تھی، جب وہ ایک آوارہ گولی کا نشانہ بنے تھے۔ایک آنکھ کھوئی تھی۔ ساتھ میں اسٹروک اور پروسٹیٹ سرطان بھی ہواتھا۔وہ بِل کی موت سے مطلع نہیں تھے۔کئی سال پہلے اپنی بیوی کے انتقال کے بعد سے بِل اس دنیا میں اکیلے تھے۔ ان کے مشکل سالوں کے دوران میں ان کا قریب ترین ساتھی تھا، مگر ان مشکل لمحات کے دوران میں نے ان سے کوئی حرفِ شکایت نہ سنا۔ ہر روز صبح ۱۱ بجے وہ مجھے ان الفاظ کے ساتھ فون کرتے: ”کیا حال ہے آپ کا؛ سب خیریت ہے؟سب ٹھیک ہوجائے گا، فکر مت کریں۔“اب ایسے دوست کو کوئی کیا جواب دے سکتا ہے، جو ایک آنکھ کھو چکا ہو، جو گولی نکالے جانے کے دوران اسٹروک کا شکار ہوا ہواور جسے پروسٹیٹ سرطان کا عارضہ لاحق ہو؟ ”سر،میں بالکل زبردست ہوں“،میرا واحد جواب تھا، چاہے یہ حقیقت سے کتنا ہی دور ہوتا۔
لطیف، بلاشبہ، امن اور دونوں جنگوں کے دوران بہترین فائٹر پائلٹس، بمبار پائلٹس اورکمانڈرز میں سے ایک تھے۔وہ امتیازی خاصیت کے حامل تھے، میری معلومات کے مطابق وہ واحد ایسے شخص تھے جنھیں کیڈٹ سے اگلے بیچ میں ترقی دی گئی، کیونکہ وہ شروع سے ہی کارکردگی میں بہت اچھے تھے۔انھوں پاک فضائیہ کے کئی اسکواڈرنز، تمام فائٹر ونگز کی کمان کی۔ دو دفعہ بی۔57 بمبار ونگ کی کمان کی، خصوصاً جب انہوں نے دو گزشتہ اوسط درجے کے کمانڈرز کی جگہ سنبھالی تاکہ بمباروں کی ناقص کارکردگی کو بہتر کیا جاسکے۔
بِل لطیف نے انتہائی معزز فائٹر لیڈرز اسکول (ٹاپ گن اسکول) کی بھی کمان کی، جہاں میں ان کا فلائٹ کمانڈر تھا۔ مجھے یہ اعزاز حاصل تھا کہ میں نے نمبر19 اسکواڈرن کے اسکواڈرن کمانڈر کے طور پردوبارہ ان کے زیر کمان خدمات انجام دیں، جب وہ ماڑی پور (مسرور بیس) کے سب سے بڑے نمبر 32 فائٹر ونگ کے کمانڈر تھے۔بعد میں ان کے ساتھ میں نے اس وقت خدمات انجام دیں جب انھوں نے سرگودھا میں مشہور نمبر 33 ٹیکٹیکل ونگ کی کمان کی، اور ّآخر میں جب وہ بیس کمانڈر پشاور تھے، جہاں میں نے ایئر اسٹاف کالج میں خدمات انجام دینے کے لیے ان کا ساتھ چھوڑا۔
وہ ایک بہترین ہواباز، انسٹرکٹر اور کمانڈر تھے اور انھوں نے کبھی بھی اونچی آواز میں بات نہیں کی یا کبھی بھی فضول باتیں نہیں کی جوکہ ہماری پیشے میں بہت عام ہیں۔یہی وہ خاصیت تھی جس کی وجہ سے ان کاماتحت عملہ اور اعلیٰ افسران ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ ایک دفعہ بحیثیت اسکواڈرن کمانڈر وہ چار فائٹرز کی ایک فلائٹ کی قیادت کررہے تھے، جس میں فلائٹ لیفٹیننٹ رحمت خان ان کے ڈپٹی اور دو نوجوان پائلٹ بحیثیت ونگ مین شریک تھے۔ ماڑی پور پر موسم خراب ہونا شروع ہوا اور ایئر ٹریفک کنٹرول کی جانب سے تمام جہازوں کو معمول کی فوری واپسی کا حکم دیا گیا۔ بِل لطیف اپنا فارمیشن واپس لے آئے تھے مگر دیکھنے کی حد لینڈنگ کے لیے ضروری معیار سے نیچے جاچکی تھی۔ایندھن کم تھا، انھوں ایک فوری مگر تلخ فیصلہ کیا۔ انہوں نے فارمیشن میں موجود تمام تین افراد کو حکم دیا کہ مختلف سمتوں میں جائیں اور ایجیکٹ ہوجائیں۔ تین ایف۔86 زمین سے ٹکرا گئے اور ان کے پائلٹ پیراشوٹ کے ذریعے زندہ رہنے اور دوبارہ ہوا بازی کرنے کے لیے باحفاظت زمین پر اُتر گئے۔
بلیک ایف۔6 طیاروں پر مشتمل فضائی کرتب دکھانے والی ٹیم (سائن ریٹلرز) سرگودھا کے اوپرکارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ مذکورہ ٹیم کی قیادت نذیر لطیف نے انجام دی۔
ٹنکو ظہیر، میرے پرانے دوست، بیچ کے ساتھی اور بمبار پائلٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فائٹر، اپنی یادیں دہراتے ہوئے کہتے ہیں۔ ”موسم کے تیور بہت تیزی سے بدل چکے تھے اور جب ہم نے سنا کہ بِل کی فارمیشن فضامیں ہے، تو رن وے پر دیکھنے کی حد100گز تک گر چکی تھی۔ ہمارے لبوں پر دعائیں تھیں، کیونکہ کوئی متبادل راستہ نہیں تھا اور فارمیشن بہت آگے جاچکا تھا۔ لہٰذا ایندھن بہت کم تھا۔ دیکھنے والوں نے دیکھاجب چار فائٹرطیاروں کی گرج غائب ہوگئی۔ تو ہم نے ایک فائٹر انجن کی آواز سنی، جیسے کسی نے اس ناقابلِ اعتبار موسم میں لینڈنگ کی ہو۔خود کشی ہی واحد لفظ تھا جو اس عمل کی تشریح کرسکتا تھا، یہ صرف بِل لطیف ہی ہوسکتے تھے!“یہ میرے کمانڈر، دوست اور حقیقی جنگجو تھے۔ اس دن بِل لطیف نے اپنی زندگی کا رسک لیتے ہوئے ایک فائٹر طیارے کو بچایا۔یہ واقعہ ان ہزاروں واقعات میں سے محض ایک قسط ہے جن سے اس مثالی شخصیت کی زند گی بھری پڑی تھی۔
1971ء میں پاک فضائیہ کے بمباروں کی کارکردگی بہترین تھی، مگر اس کاحیران کن طور پر اس وقت پتہ چلا جب بھارتی مؤرخین جگن موہن اور سمیر چوپڑا (اور جنگ سے متعلق بھارتی سرکاری ریکارڈ) نے پاک فضائیہ کی 1965ء کی جنگ کے دوران کارکردگی اور1971ء کی جنگ میں پاک فضائیہ کے بمباروں کے حملے کے نتیجے میں بھارتی فضائیہ کو ہونے والے نقصانات کو طشت از بام کیا۔بِل لطیف نہ صرف بمباروں کی مجموعی کارکردگی کا سہرا اپنے سر لے سکتے تھے،بلکہ اپنے ایئر رینک میں وہ واحد کمانڈر تھے،جنھوں نے کھوکھراپار سیکٹر میں بھارتی پیش قدمی کے خلاف دن کی روشنی اور رات کے مشنزکی اڑان میں حصہ لیا تھا۔ جس میں حیدر آباد کو خطرات لاحق تھے۔ انھوں نے دونوں جنگوں میں اپنی سپاہ کی قیادت بھرپور قائدانہ اندازمیں، خود اعتمادی اور جرأت کے ساتھ کی۔1965ء میں ان کا آخری مشن دشمن کے علاقے میں بہت دور اور اندر تک جاکر آگرہ میں بمبار بیس پر حملہ تھا؛ جس میں مگ۔21، سام میزائل، آگ کے شعلے اور بھاری طیارہ شکن گولے روشن آسمان میں ہدف پر حملہ کررہے تھے۔
یہ ایک انتہائی نامناسب بات ہے کہ ایک مسیحی فوجی جو اپنے ہی عقیدے کے حامل دیگربہت سے لوگو ں کے ساتھ ایک مثالی حوصلے کے ساتھ جنگ لڑا (یہاں تک کہ کئی نے تو پاکستان کے لیے اپنا خون تک نچھاور کیا)، یہ انتہائی نامناسب بات ہے کہ اس کو حکومت پاکستان کی جانب سے بہت کم پذیرائی ملی۔ وہ ایک ایسی سچی مثال تھے، جن کے لیے ہلالِ جرأت تخلیق کیا گیا تھا، لیکن اس کے بجائے یہ اعزاز بری طرح ہارنے والوں کے حصے میں آیا۔ اس قسم کی نفرت انگیز بانٹ ان اعلیٰ درجے کے تمغوں کیساتھ ہوتی رہی ہے، جو کہ بے عزت غداروں کو نوازے جاتے رہے ہیں؛ جن کی واحد کمائی صرف جوتے چاٹنا اور لوٹ مار ہے۔
الوداع بِل،اے عظیم جنگجو، تم ہمیشہ ان جری دلوں میں زندہ رہوگے، جنھوں نے تم سے محبت کی اور سراہا۔ میں فلک پر ایک نیا چمکتا ستارہ دیکھ سکتا ہوں اور جانتا ہوں کہ ایسی چمک کے ساتھ یہ تم ہی ہو، جو کہ رک کر اپنا حساب دینے کا انتظار کررہا ہے۔یقینا نہایت مہربان اور رحم کرنے والا خالق انصاف سے تمھارا فیصلہ کرے گا، جتنا کہ تم اپنی زندگی میں دوسروں ساتھ صاف اور اچھے تھے۔ دعا ہے تمھاری روح اس بھیانک اور ناانصاف دنیا سے دور ہمیشہ رہنے والے سکون کی حالت میں رہے۔


ان کے ایک ماتحت افسر ونگ کمانڈر ریٹائرڈ
ہادی رضوی ان کے بارے میں لکھتے ہیں

یہ ماہ اکتوبر 1971 ء کے آخری یا نومبر کے ابتدائی ایام تھے۔ایئرکموڈور نذیر لطیف جو کہ بل لطیف کے نام سے معروف تھے پی ایف بیس مسرور کے بیس کمانڈر تھے۔ میں ایک نوجوان فلائٹ لیفٹیننٹ کے طور پر نمبر 17 اسکواڈرن جو کہ 32 ویں فائیٹر ونگ کا حصہ تھا میں تعینات تھا۔ ہمارے اسکواڈرن کو ایئر ہیڈکوارٹرز کی طرف سے حکم ملا کہ ایک بی57 بمبار طیارے کو فضاء میں حفاظت اور نگرانی فراہم کریں جو کہ رحیم یار خان سے شروع ہوکر جنوب تک پاکستانی اور بھارتی سرحد کی جاسوسی اور تصاویر بنائے گا۔ ایف 86 طیاروں کی اس فارمیشن کے لیڈر بیس کمانڈر بل لطیف خود تھے جبکہ میں انکے ونگ میں اور نمبر 2 کی حیثیت سے ہمراہ تھا۔ مجھے اس وقت تو بالکل بھی خیال نہیں آیا مگر چند روز کے بعد میں نے یہ بات بہت شدت سے سوچی کہ اس مشن میں بیس کمانڈر کا بذات خود جانا ضروری ہرگز نہیں تھا۔
وہ بیس پہ موجود رہ کر بہت سے منصوبہ بندی اور آپریشنل امور کی نگرانی کرسکتے تھے۔ ہم بھارتی سرحد کے عین قریب تھے دشمن کے ریڈار ہمیں دیکھ سکتے تھے۔ کسی بھی مڈبھیڑ یا مقابلے کی کیفیت جنم لے سکتی تھی مگر بیس کمانڈر نے خود اس مشن کو چنا تھا۔ ہم اپنے مشن کو مکمل کر چکے تھے اور اختتام سے چند لمحے قبل بمبار طیارے کے پائلٹ نے درخواست کی کہ اس مشن کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ دوبارہ اس کو کیا جائے تاکہ کمی یا غلطی کا احتمال نہ رہے۔ میں نے چند لمحے قبل ہی اپنے لیڈر کو کال دی تھی کہ ہمارے طیارے میں صرف اتنا تیل باقی بچا ہے کہ ہم بحفاظت واپس بیس پر اتر سکتے ہیں مگرایئر کموڈور بل لطیف نے پائلٹ کو اس کی خواہش کے مطابق مشن کو دہرانے کی اجازت دے دی۔ جب مشن مکمل ہوا تو ایئرکموڈور نے مجھے حکم دیا کہ اپنا طیارہ واپسی کے دوران سب سے آگے رکھوں۔ مزید یہ کہ اگر ضرورت پیش آئے تو نواب شاہ کے رن وے پر بھی اتر سکتے ہیں۔
مجھے یہ حقیقت معلوم تھی کہ میرے طیارے میں اتنا ہی تیل تھا جتنا میرے لیڈر کے پاس تھا مگر یہ اسکا بڑا پن تھا جس نے مجھے حوصلہ دیا تھا۔ انکی آواز میں ٹھہراؤ اور خود اعتمادی تھی۔ اس روز کسی باقاعدہ کلاس کے بغیر مجھے ایئر کموڈور بل لطیف نے ایک سبق یاد کرایا۔ لیڈر شپ کیا ہوتی ہے اور لیڈر کن خوبیوں کا حامل ہوتا ہے۔اس سبق کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے نہ صرف میں نے اس سبق کو عملی طور پر کیا بلکہ اپنے ماتحتوں اور ساتھیوں کو اس کا درس بھی دیا۔ ایئر کموڈور بل لطیف کو خراج تحسین پیش کرنے کا یہ ایک بہترین اور قابل فخر درس تھا۔

ایئر کموڈور نذیر لطیف
ایئر کموڈور عظیم نتھانیل

مجھے 2007ء میں ایئر کموڈور نذیر لطیف سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اگرچہ یہ ایسی صورتِ حال یا موقع نہ تھا جو میں نے تصور کیا تھا یا جس کا متمنی تھا کیوں کہ یہ ملاقات ایئر کموڈور نذیر لطیف کو اسلام آباد میں گولی لگنے کے حادثے کے بعد ہوئی تھی۔
مارچ 2007ء کے دوران سی ایس ایس کورس مکمل کرنے پر میری پوسٹنگ پی اے ایف پشاور بیس میں ہوئی تھی۔ نئی بیس پر میں ابھی اپنے قدم جما رہا تھا کہ اچانک پندرہ اپریل 2007ء کومیرے بیس کمانڈر کی طرف سے فون کال موصول ہوئی کہ فوری طور پر سی ایم ایچ راول پنڈی پہنچ کر فضائیہ ہیڈکوارٹر کے ایک نمائندے سے ملوں۔ ان محدود ہدایات کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیوں کہ مزید معلومات نہ دی گئی تھیں لیکن میں نے بیس کمانڈر سے مزید وضاحت یا تفصیلات پوچھنے کی بجائے راول پنڈی کا رخ کیا۔ بیس کمانڈر نے مجھے ہدایت دی تھی کہ میں فوری طور پر پہنچوں، فضائیہ ہیڈ کوارٹر سے ایک نمائندہ مجھے ملے گاجو مزید تفصیلات اور ہدایات دے گا۔
میں اسی دن سی ایم ایچ راول پنڈی پہنچا اور فضائیہ ہیڈکوارٹرز کی طرف سے ایک سکواڈرن لیڈر سے ملا۔ مجھے آئی سی یو کے باہر لے جایا گیا جہاں مجھے اس حادثہ کی تفصیلات بتائی گئیں۔ جب میں آئی سی یو میں ایئر کموڈور نذیر لطیف سے ملا تو میں نے انہیں نیم بے ہوشی کی حالت میں پایا لیکن ان کا حوصلہ ابھی تک بلند تھا۔ میں اس دن چند گھنٹے ان کے ساتھ رہا اور جب وہ ہوش میں آئے تو ان سے بات چیت کی۔ انہیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ میں ایک مسیحی افسر تھا اور مجھے پشاور سے خصوصی طور پر بھیجا گیا تھا کیوں کہ پی اے ایف بیس پشاور سے ان کا خاص تعلق تھا اس لیے کہ وہ اس بیس پر کمانڈر رہ چکے تھے۔ میں دو دن تک وہاں رہا اور اس دوران ملک بھر سے ایئرفورس کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسروں کی طرف سے بھیجے گئے گلدستوں کا تانتا بندھا رہا۔یہ نہ صرف اس بات کا اظہار تھا کہ ہر رینک کے فضائیہ افسران انہیں پسند کرتے تھے بلکہ اس سے یہ بھی پتہ چلتا تھا کہ انہوں نے اپنے پیشہ ورانہ کیرئیر میں بے پناہ عزت و احترام حاصل کیا۔
مزید برآں، بہت سے فضائیہ افسران نے فون پر ایئر کموڈور نذیر لطیف کی صحت کے متعلق دریافت کیا۔ مجھے اعتراف ہے کہ اس حادثے سے پہلے مجھے ایئر کموڈور نذیر لطیف کے شاندار کیرئیر کے متعلق بہت کم معلومات تھیں لیکن بعد میں جب مجھے ان کی پیشہ ورانہ بصیرت کے متعلق تفصیلات معلوم ہوئیں تو مجھے ان کی کامیابیوں اور پیشہ ورانہ اعزازات پر فخر محسوس ہونے لگا۔
بعدازاں اپنے پیشہ ورانہ کیریئر میں جب میں پی اے ایف بیس مسرور پر پاکستان فضائیہ کے پہلے اے ڈبلیو اے سی ایس سکواڈرن کی کمانڈ کر رہا تھا تو مجھے پی اے ایف بیس مسرور کی ہسٹری گیلری کی ڈیزائننگ میں شرکت کا موقعہ ملا جہاں 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے آپریشنز اور نشان حیدر راشد منہاس کے لیے الگ الگ سیکشن منسوب کیے تھے۔ یہ سیکشن بھی ایئر کموڈور نذیر لطیف کی کامیابیاں شامل کیے بغیر مکمل نہیں ہو سکتے تھے۔

ایئر کموڈور نذیر لطیف
اینڈریو میکالی

میری یادداشت میں ایئر کموڈور نذیر لطیف (ہم شروع میں انہیں نذیر انکل اور بعد میں انکل کہہ کر بلاتے تھے) کی ابتدائی تصویر ان دنوں کی ہے جب میں تین یا چار سال کا تھا۔ ہم عارضی طور پر میرے دادا ڈاکٹر میک آولے کے گھر میں قیام پذیر تھے اور وہ وہاں ہم سب سے ملنے کے لیے آئے تھے۔ مجھے ان کی نگرانی میں چھوڑ دیا گیا (میرے خیال میں میری والدہ، میرے ابو اور میرے دادا مریضوں کا معائنہ کرنے کے لیے چلے گئے تھے) اور جب وہ واپس آئے تو (نذیر لطیف) مجھے ایک کہانی سنا رہے تھے۔ اس کہانی کا موضوع فیملی میں بہت سے خوش گوار لمحات کی بنیاد بنا۔
ان کے ساتھ میرا بڑا قریبی تعلق تھا کیوں کہ راول پنڈی میں میں ان کا اکلوتا بھانجا تھا(بلکہ ان کی بیوی کا اکلوتا بھانجا تھا) اور اس وقت تک ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔ وہ مجھے ائیر فورس اور اس کے علاوہ پیش آنے والے واقعات اور مزاحیہ حالات کی بہت سی کہانیاں سنایا کرتے۔ انہوں نے مجھے بہت سے ایوی ایشن میگزین بھی دیے جس سے میرے اندر ہوابازی کا شوق پیدا ہوا جو آج تک برقرار ہے۔
پاکستان ایئر فورس میں وہ صرف ملازم ہی نہ تھے بلکہ یہ ان کے خاندان اور ان کی بیٹی کی محبتوں کا محور تھا۔
وہ اس عظیم اور شان دار ادارے کی خدمت کے لیے جیتے رہے اور اس کے ذریعے ملک کی بھرپور خدمت کرنے پر فخر کرتے تھے۔ گھر میں وہ اپنے رفقائے کار اور سینئر افسران کا ذکر باقاعدگی سے محبت اور احترام کے ساتھ کرتے اور پیش آنے والے مزاحیہ واقعات بتایا کرتے۔ گھر میں پی اے ایف کے ہیروز اور شہداء کے ناموں سے ہر کوئی خوب واقف تھا۔
انکل نذیر بہت زیادہ حوصلے اور ہمت والے تھے اور انہوں نے مادرِ وطن کا دفاع اسی حوصلے اور ہمت سے کیا۔ یہ کوئی جھگڑالو قسم کی بہادری نہ تھی بلکہ پیشہ ورانہ اور وفادارانہ بہادری تھی کہ وہ ٹھنڈے دماغ اور بھرپور توجہ سے کام لیتے۔ انہوں نے جنگوں اوردشمن سے مڈبھیڑ مثلاً 1965ء، 1971ء کی جنگیں اور دوسرے آپریشنز کے دوران اس مزاج کا بہت اچھا استعمال کیا۔
آپ کو شان دار کارکردگی اور بہادری کے لیے ستارہ جرأت اور ستارہ بسالت کے ایوارڈ عطا کیے گئے۔
آپ کی اپنے پیشے سے وابستگی اور لگن مثالی تھی اور ”سفارش“ کا لفظ آپ کی لغت میں نہیں تھا۔ آپ نے جو کچھ بھی حاصل کیا وہ سخت محنت اور فرض شناسی کا نتیجہ تھا۔
پی اے ایف سے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ یو سی ایچ ہسپتال کے ڈائریکٹر رہے اور لاہور فلائنگ کلب میں زیرتربیت ہوابازوں کو پڑھایا کرتے تھے۔ جب میں لاہور میں ان سے ملنے گیا تو انہوں نے مجھے ہوابازی کا پہلا سبق سیسنا 172 میں دیا، مجھے رجسٹریشن نمبر اے پی-اے ایچ این ابھی تک یاد ہے۔وہ مجھے لیجنڈ پائلٹ بریگیڈیئر جنرل چَک یائیگر سے ملوانے اسلام آباد بھی لے گئے۔ ان کے دوست احباب پوری دنیا میں تھے جن میں اردن کے شاہ حسین بھی شامل ہیں۔
جب آپ ایران، اردن اور پھر عمان چلے گئے تو ہمیشہ رابطے میں رہے۔ جب وہ ایران میں تھے تو انہیں کئی تاریخ ساز و حساس واقعات کا عینی شاہد بلکہ اس کا حصہ ہونے کا بھی موقعہ ملا۔
میں مخلصانہ امید کرتا ہوں کہ آج کی نوجوان نسل آپ کی بہادری، لگن اور وابستگی کو سامنے رکھے گی اور خود کو بہتر بنانے اور وفاداری اور آن بان شان سے قوم کی خدمت کرنے میں اسے مثال بنائے گی۔

ایئر کموڈور نذیر (ستارہئ جرأت، ستارہ بسالت) ایک شفیق باپ
سبینا لطیف(بیٹی)

میرانام مسز سبینا میسی ہے۔ میں جان البرٹ میسی سے 8 اپریل 1988ء کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئی۔ شادی سے پہلے میرا نام سبینا لطیف تھا۔ میں ایئر کموڈور نذیر لطیف کی اکلوتی بیٹی ہوں۔ میری پیدائش 27 اپریل 1967ء کو ہوئی۔ میرے والد اپنے دوستوں میں بِل لطیف کے نام سے مشہور تھے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کا پورا نام نذیر جان لطیف تھا۔ آپ 23 اکتوبر 1927ء کو ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوئے۔ میرے دادا کا نام ڈاکٹر آئی لطیف اور دادی کا نام ہبزبا لطیف تھا۔ ڈاکٹر آئی لطیف نے ڈاکٹریٹ کی تھی اور ایف سی کالج لاہور میں نفسیات کے پروفیسر تھے جبکہ میری دادی ایک گھریلوخاتون تھیں اور اپنی زندگی خاندان کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ نذیر صاحب کے بڑے بھائی کا نام جیمس لطیف تھا جو ایک عرصہ تک انگلینڈ میں قیام پذیر رہے اور وہیں وفات پائی۔ ایئرکموڈور نذیر لطیف نے اپنی جانِ حیات یعنی میری والدہ ڈاکٹر فرانسس ایم لطیف سے شادی کی۔
میری والدہ ڈاکٹر فرانسس ایم لطیف بھی بہت اچھا خاندانی پس منظر رکھتی تھیں۔ میرے نانا مسٹر فضل الٰہی قانون ساز اسمبلی کے رکن تھے اور اْن تین اقلیتی رہنماؤں میں شامل تھے جن کا ووٹ تقسیم کے وقت پاکستان کی تشکیل میں انتہائی اہم سمجھا گیا۔ میر ی نانی ایک ڈاکٹر تھیں جن کی پوری زندگی بیماروں، غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے گزری۔ میری والدہ نے بھی میری نانی کاکا م آگے بڑھایا اور راول پنڈی اور اسلام آباد کے دیہات میں مفت ادویات تقسیم کرتی رہیں۔ انہوں نے ریلوے ہسپتال کی ٹیم کے ساتھ مل کر انسانیت کی خدمت کی۔ آپ 2 اپریل 1997ء کو راول پنڈی میں فوت ہوئیں۔


میرے والد صاحب انتہائی شفیق، نرم دل اور محبت کرنے والے تھے۔ آپ ہر ضرورت مندوں کی مدد کرنے کو ہر وقت تیار رہتے۔ آپ عمل پسند، بہت منکسر المزاج اور دیانت دار شخص تھے۔ پرواز آپ کی زندگی تھی اور آپ نے اپنے پیشے کو سنجیدگی سے لیا۔ اپنے وطن کی حفاظت میں وہ آخری حدوں تک گئے۔
چونکہ میں والدین کی اکلوتی اولاد تھی اس لیے ابو امی نے مجھے اپنی بھرپور توجہ دی لیکن ہمیشہ ایک توازن قائم رکھا تاکہ میری عادتیں نہ بگڑ جائیں۔ امی ابو کی زندگی کٹھن گزری کیوں کہ ابو کی تعیناتی پورے ملک میں کہیں بھی ہو جاتی تھی۔ میرا بچپن امی کو سامان پیک کرتے دیکھتے گزرا۔ اگرچہ میرے لیے یہ ایڈونچر ہوتا۔ میرے بچپن کی یادیں مجھے وہ وقت یاد دلاتی ہیں جب ابو ہمیں چھوڑ کر اپنی ڈیوٹی پر چلے جاتے اور ہم اکیلے رہ جاتے کیوں کہ امی میری پڑھائی میں خلل نہیں چاہتی تھیں۔ ابو کو رخصت ہوتے دیکھنا بہت مشکل ہوتا۔ مجھے وہ دن یاد ہیں لیکن ابو گھر پر نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے۔ ابو کی شخصیت میں بیرون روی تھی، بہت ایڈونچر پسند تھے، پکنک، لمبے سفراور ہمیشہ کچھ نیا تلاش کرنا پسند کرتے۔ آپ کو پارٹیاں کرنے اور دوستوں کو مدعو کرنے میں مزا آتا او ر دوستوں کی محفلوں سے بہت لطف اندوز ہوتے۔ وہ میرے ننھیال سے میرے کزنوں اور میری خالہ کے بچوں سے بھی بہت قریب تھے۔
مجھے یاد ہے کہ ابو ان کے ساتھ ایسے گھل مل جاتے جیسے وہ ان کے ہم عمر ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ ابو ان کے بہترین او رپسندیدہ ترین انکل تھے۔ ابو ہمیشہ ضرورت مندوں کی مدد کرتے لیکن کبھی اس کا چرچا نہ کرتے۔ وہ کہا کرتے کہ مدد کرتے وقت دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ یہ صرف آپ اور خدا کے درمیان معاملہ ہے۔ ابو قابل بھروسا اور درست مشورہ دینے والے تھے۔ ہر بات منہ پہ کہتے۔ بعض لوگ اس سے گریز کرتے ہیں مگر ابو کا ماننا تھا کہ سچی بات منہ پر کر دینے سے وقتی طور پر تکلیف ہوتی ہے لیکن اس کا انجام اچھا ہوتا ہے۔
زندگی کے متعلق ان کے مثبت نقطہ نظر نے ان کے آس پاس بہت سوں کی زندگیاں بدل دیں۔ ان کی موجودگی سے محفل میں جان آ جاتی اور ان کے لطیفے سب کو ہنساتے۔ مختصر یہ کہ ابو کا مزاج دوستانہ اور فراخ دلانہ لیکن اصول پسندانہ تھا۔ وہ ایک بہترین باپ اور نانا تھے جو ہر بچے کی خواہش ہوتی ہے اور ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں وہ ملے۔ مجھے اور میرے تین بچوں کو ان پر فخر ہے۔ ابو کے لیے ڈھیروں پیار اور یادیں۔

عظیم فضائی جنگجو کا آخری معرکہ

رینا سعید خان
(یہ مضمون رینا سعید خان نے اس عظیم ہیرو کی موت سے کچھ عرصہ پہلے ایک آوارہ گولی سے زخمی ہونے کے حادثے کے بعد لکھا جس سے اس فضائی جنگجو کی 80سال کی عمر میں ہمت اور جرأت جھلکتی ہے۔)

ایئرکموڈور (ریٹائرڈ) نذیر لطیف کے لیے زندگی ہمیشہ خوشی و مسرت کی چیز رہی۔ وہ دھیمے مزاج کے، بردبار اور رحمدل انسان تھے جنہوں نے دونوں قومی جنگوں میں بطور بمبار وطن عزیز کی فخریہ خدمت کی (اور ستارہ جرات حاصل کیا) اورقریباً اسی برس کی عمر میں تقدیر کے ظالم کھیل کے لیے بالکل تیار نہ تھے۔بحرین(جہاں وہ ستر برس سے زائد کی عمر میں ایک کمرشل ایئرلائن میں پائلٹ تھے)سے اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد بِل لطیف (دوست انہیں اسی نام سے پکارتے) اپنے آبائی شہر راول پنڈی میں مقیم ہو کر اپنی ریٹائرڈ زندگی کے مزے لینے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ تاہم آپ ایک اندھی گولی کا شکار ہو گئے، آپ اسلام آباد کے ایک ریسٹ ہاؤس کے قریب چہل قدمی کر رہے تھے جب گولی ان کے چہرے پر لگی۔
شام کا دھندلکا تھا اور بہت سے دیگر لوگ بھی F-8 کے اس ٹریک پر چل پھر رہے تھے لیکن کوئی بھی زمین پر لوٹ پوٹ ہونے والے اس شخص کی مدد کے لیے نہ رکا۔ان کا چہرہ خون سے تر تھا اور معلوم نہیں تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہو گیا ہے۔ تقریباً پینتالیس منٹ تک وہ زمین پر پڑے رہے۔پھر ان کے اندر والے فائٹر پائلٹ نے اسے احساس دلایا کہ انہیں اپنی زندگی خود ہی بچانی پڑے گی۔ وہ چل کر سڑک تک گئے اور ایک کار روکی اور ڈرائیور سے کہا کہ انہیں واپس ریسٹ ہاؤس لے جائے۔ ریسٹ ہاؤس پہنچ کر وہاں گیٹ پر موجود سیکورٹی گارڈ سے کہا کہ ان کے کمرے سے ان کا موبائل فون لائے اور ان کے دوست جمال کو کال کرے۔
ایئرمارشل (ریٹائرڈ) جمال خان نے فوراً سی ایم ایچ اطلاع دی اور انہیں ایمبولینس بھیجنے کو کہا۔ اس سے پہلے کہ ایمبولینس پہنچتی، سیکورٹی گارڈ نے جب نذیر لطیف کا چہرہ سوجتا دیکھا تو خطرے کو بھانپتے ہوئے انہیں اسلام آباد کے پمز ہسپتال لے گیا۔ ہسپتال والے ان کا علاج شروع نہیں کر رہے تھے کیوں کہ انہیں گولی لگی تھی جس کے لیے پہلے ایف آئی آر وغیرہ کا اندراج ضروری تھا۔ اسی دوران ایئرفورس سے لوگ پہنچ گئے اور انہوں نے آپ کو سی ایم ایچ منتقل کر دیا۔
ان کے دوست ایئرکموڈور (ریٹائرڈ) سجاد حیدر (ایئرفورس کا ایک اور ہیرو) بھی اس وقت تک ان کی عیادت کے لیے پہنچ چکے تھے۔ بِل لطیف اصل میں اپنے دوست کے گھر جا رہے تھے تاکہ ایک کتاب کی ایڈیٹنگ کریں جو سجاد حیدر اپنی زندگی پر لکھ رہے تھے۔ بِل لطیف نے پہلے فیصلہ کیا تھا کہ وہ بحرین واپس جا کر اپنا فلیٹ فروخت کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پاکستان آ جائیں گے لیکن اپنے دوست کی مدد کی خاطر انہوں نے بحرین جانے میں تاخیر کر دی۔ ہسپتال کے کمرے کی حالت سے پریشان ہو کر سجاد حیدر نے ایئرمارشل (ریٹائرڈ) اصغر خان اور نورخان سے رابطہ کیا جو بِل لطیف کے ہم عصر تھے۔ ان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے بِل لطیف کو وی آئی پی بلاک میں منتقل کر دیا گیالیکن ڈاکٹر فوری طور پر ان کا آپریشن نہیں کر سکتے تھے کیوں چہرے کی سوجن رکاوٹ بن رہی تھی۔ایک ایئر فورس پروٹوکول آفیسر کو ان کی دیکھ بھال پر مامور کیا گیا۔ بِل لطیف کی زوجہ چند سال قبل فوت ہو چکی تھیں اور ان کی واحد اولاد ایک لے پالک بیٹی اس وقت امریکا میں مقیم تھیں اس لیے ایئر فورس کے دوستوں کے علاوہ ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ تھا۔
حیران کن طور پر اس پورے تکلیف دہ مرحلے میں بِل لطیف ہوش و حواس میں رہے اور بظاہر ان کے دماغ کو کوئی نقصان نہ پہنچا تھا اگرچہ ان کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی۔ گولی ابھی تک ان کے چہرے میں تھی لیکن انہوں نے ایک بار بھی شکایت نہیں کی۔
ان کے دوست سجاد حیدر ہر ہفتے ان سے ملنے جاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ”کوئی بھی دوسرا شخص ان حالات سے زندہ نہیں بچ سکتا تھا۔ وہ فولادی ارادی قوت کے مالک ہیں۔ آپ ہمیشہ سے پرامید رہے ہیں“۔ آج بھی ایک سال بعد (آخرکار گولی نکال دی گئی) آپ اپنے چھوٹے سے کمرے میں بغیر کسی شکوہ شکایت کے رہتے ہیں، اس کمرے کا انتظام ان کے دوست نے اسلام آباد کے کسی دوسرے ریسٹ ہاؤس میں کیا ہے۔
احتیاط سے بال بنائے اور صاف ٹراؤزر شرٹ پہنے وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں اس کے سوا کر بھی کیا سکتا تھا۔ اس حملے نے ان کی قوت گویائی اور یادداشت کو متاثر کیا تھا لیکن ان کی دل کشی اور حسن ختم نہیں ہوا تھا۔ جب ان سے پوچھا جاتا کہ آپ نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ آپ کے ساتھ یہ سب کس نے کیا تو وہ جواب دیتے ”انسان کو ایسی چیزیں قبول کر لینی چاہیں۔۔۔ایسی کوشش فضول ہوتی“۔
بِل لطیف راول پنڈی کے ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سائیکالوجی کے معروف پروفیسر تھے جنہوں نے امریکا کی پرنسٹن یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی تھی۔ان کے والد ایف سی کالج لاہور میں پڑھاتے رہے۔ بِل لطیف شروع ہی سے پائلٹ بننا چاہتے تھے، اس لیے پاکستان بنتے ہی ایئرفورس میں شامل ہو گئے تھے۔بل لطیف ماضی کو یاد کرتے ہوئے ٹھہر ٹھہر کر بولتے اور بتاتے ہیں کہ ”اس وقت ایئرفورس بہت شان دار تھی۔ ہم اسی زندگی کی خواہش کرتے تھے۔ کوئی کسی سے حسد نہ کرتا اور کسی کے خلاف سازش نہ ہوتی۔ اس وقت تک انگریز ہی ٹریننگ دے رہے تھے“۔ جب 1958ء میں ایئرمارشل اصغر خان نے ایئرفورس کی کمان سنبھالی تو برطانوی افسران چلے گئے۔وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”وہ ہوابازی کے کیا ہی شان دار دن تھے“۔
اس وقت پاکستان ایئرفورس دنیا کی بہترین فضائیہ تھی اور بِل لطیف شروع ہی سے ایک نمایاں پائلٹ تھے۔ آخر کار وہ ایک پورے بمبار اسکواڈ کے کمانڈر بنے اور انڈیا کے ساتھ ہونے والی دونوں جنگوں میں بہادری سے لڑے۔ انہوں نے 1970ء کی دہائی میں ایئرفورس چھوڑی اور پہلے ایران اور پھر اردن چلے گئے جہاں انہوں نے اٹھارہ برس گزارے۔ 2004ء تک وہ ایک بحرینی ایئرلائن میں کپتان رہے اور پھر ایک عرب بزنس مین کا پرائیویٹ جیٹ اڑاتے رہے۔ ان کی زوجہ اردن میں فوت ہوچکی تھیں اور انہوں نے 2007ء میں ریٹائر ہونے کے بعد پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس طرح وہ اسلام آباد میں گولی کا نشانہ بنے۔ جب ان سے پوچھا جاتا کہ آپ کو کوئی پچھتاوا تو نہیں تو وہ جواب دیتے ”آخری محبت بڑی اچھی رہی“۔
سی ایم ایچ میں آپریشن کے بعدصحت کی بحالی تک بِل لطیف کو پاکستان ایئرفورس کے اسپتال میں منتقل کر دیا گیا۔ بدقسمتی سے اس وقت کے ایئرفورس چیف نے جان بوجھ کر یہ فیصلہ دیا کہ لطیف کو کمرہ خالی کر دینا چاہیے حالانکہ اسپتال کے تقریباً سبھی کمرے خالی تھے۔ ان کے دوست اس فیصلے پر بہت پریشان ہوئے اور فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی لیکن یہ درخواست مسترد کر دی گئی۔بِل لطیف کے مرتبے اور پاکستان ایئرفورس میں بے مثال ریکارڈ کو مدنظررکھتے ہوئے یہ یقیناً ناانصافی تھی۔ یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ انڈیا کے ساتھ دو جنگوں میں ستارہئ جرأت پانے والے 70 ایئرفورس افسروں میں سے سات مسیحی افسر تھے۔ بِل لطیف بھی ان میں سے ایک ہیں۔ آپ کی خدمات اور کارناموں کا اعتراف پاکستان ڈیفنس جرنل میں یوں کیا گیا ہے:
1965ء کی جنگ سے پہلے نذیر لطیف نے بطور وِنگ کمانڈر ایک بمبار وِنگ کی قیادت کی۔ وِنگ کمانڈر نذیرلطیف نے مشکل ترین فضائی حملے کیے جن میں ہندوستانی علاقے کے اندر انبالہ پر کامیاب حملہ بھی شامل ہے۔ ان کا ایئرکرافٹ دو بار اینٹی ایئرکرافٹ گنز سے نشانہ بنا یا لیکنوہ کامیابی سے حملہ کر کے بحفاظت وطن واپس لینڈ کرنے میں کامیاب رہے۔ ہوابازی کی غیرمعمولی مہارت اور حوصلے کی بنا پر حکومت پاکستان نے آپ کو ستارہئ جرأت سے نوازا۔ 1971ء کی جنگ میں بھی انہوں نے پی اے ایف بیس مسرور پر کمان سنبھالی، جنگ میں فعال شرکت کی اور بہت سے خطرناک بمباری مشن انجام دیے۔ اپنی سروس کے دوران وہ تین مختلف لڑاکا اور بمبار ونگز اور دو ایئرفورس بیسز کے کمانڈر رہے۔وہ ایئر ہیڈکوارٹرز پر ڈائریکٹر آپریشنز اینڈ پلانز بھی رہے۔ طویل اور یادگار خدمات سرانجام دینے کے بعدوہ 1972ء میں ریٹائر ہوئے۔
یہ ایک غیرمعمولی تاریخ ہے۔ ان کا ریکارڈان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔زمینی اور فضائی زندگی میں ان کے عزم و ہمت سے کسی کو انکار نہیں۔ وہ نہ صرف ایک شائستہ افسر ہیں بلکہ نہایت شریف النفس انسان بھی ہیں۔ان کے دوست کہتے ہیں کہ ”وہ نہایت اچھے انسان ہیں، انتہائی عاجز اور بے حد فیاض۔ انہوں نے اپنا سب کچھ دوستوں اور رشتہ داروں میں بانٹ دیا۔ ان کی ہمیشہ تعریف و تکریم کی جاتی ہے“۔
بِل لطیف اب اسّی برس کے ہیں اور باقی زندگی گندے گیسٹ ہاؤسز میں نہیں گزرانا چاہتے۔ اس معزز جنگی ہیرو کو رہنے کے لیے شایان شان جگہ دی جائے۔ پاکستان ایئرفورس کم سے کم یہ تو کر سکتی ہے۔

نغمہ شناخت

اس دھرتی کے بچے ہو تم
صدیوں سے اس کے واسی بھی
آزادی کے سپاہی ہو تم
قائد کے ہمراہی بھی
وطن کے ہو سپاہی تم
قوم کے معمار بھی
قابل فخر قابل دید
محافظ، غازی اور شہید
شہداء کے وارث ہو تم
ساتھی حیدران کے بھی
ھلال جرات کے استعارے
ہو جرات کے ستارے بھی
نشان بسالت کے ہو تم
ہو شان سبز و سفید کی
اے پاکستان کے مسیحیوں
جانو اور پہچانو تم
دھرتی سے نسبت کو بھی
اپنے اس ورثے کو تم
اپنی اس شان کو بھی
اپنی اس پہچان کو تم
اپنی اس شناخت کو بھی

اعظم معراج

29-08-2017

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج پیشے کے اعتبار سے اسٹیٹ ایجنٹ ہیں ۔15 کتابوں کے مصنف ہیںِ نمایاں  تابوں میں پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار، دھرتی جائے کیوں، شناخت نامہ، کئی خط ایک متن پاکستان کے مسیحی معمار ،شان سبز وسفید شامل ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply