نادم اور خادم۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

نارسائی بسا اوقات رسائی سے بڑھ کر گہر بار ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات نارسائی کی رسائی وہاں تک ہو جاتی ہے جہاں رسائی پہنچنے کو ترستی ہے۔ ندامت احساسِ نارسائی ہے۔ ندامت اپنی کم مائیگی کا اعتراف ہے۔ اعترافِ جہل علم کی راہ پا سکتا ہے۔ شرمندگی اعترافِ بندگی کی صورت بھی ہو سکتی ہے۔ جھکا ہوا سر‘ اپنی بندگی کا اعتراف ہی تو ہے۔ احساسِ بندگی سب سے پہلے ہمارے اندر عجز کو بیدار کرتا ہے۔ عجز بندگی کا جوہر ہے۔عجز بیدار ہو جائے تو انسان ہمہ قسم کے وہم اور زعم سے نکل جاتا ہے۔ بہت کچھ جاننے کا زعم ایک وہم کے سوا کچھ نہیں۔ جاننے کا سفر تو بس نہ جاننے تک ہے۔ جاننا توہمیں فقط اتنا ہی ہے کہ ہم نہیں جانتے۔ اپنے علم کا زعم ہمیں اس وہم میں مبتلا کر دیتا ہے کہ ہم دوسروں سے بہتر ہیں۔ گویا ہم عالم ہیں اور ہمارے مخالف سمت میں کھڑے سب جاہل ہیں۔ دراں حالے کہ ہر ذی حیات کو اپنے دائرہ حیات میں پنپنے کے لیے حسبِ حال علم دیا جاتا ہے۔ اگر ایک شاہباز کے پاس کبوتر پر جھپٹنے کا علم و شعور ہے تو کبوتر کو اُس سے بچنے کا علم بھی دیا گیا ہے۔ سارے شاہباز سارے کبوتر شکار نہیں کر سکتے۔ یہی حال انسانوں کی دنیا میں ہے، جہاں ایک شخص کے علم کی حد ختم ہوتی ہے وہاں سے دوسرے کے علم و شعورکی سرحد شروع ہوتی ہے۔ ایمان و کفر کو اگر معرفت کے میزان میں دیکھیں تو ایک کا ایمان بسا اوقات دوسرے کا کفر قرار پاتا ہے۔ ذات کا عارف صفات کی دنیا کے عالم کے نزدیک عین ممکن ہے زندیق قرار پائے، کیونکہ اُس کی گفتگو مشیّت کے باب میں ہوگی اور دوسرے کی بات کسی نصابی حساب و کتاب کے گرد گھومے گی۔
بہرحال کم مائیگی ہو، کم علمی ہو، یا پھر کم عملی ۔۔۔۔ سب کا عملی تقاضا ندامت ہے۔ اس تقاضے کو پورا کرنے میں جو شخص فراخدلی کا مظاہرہ کرتا ہے ٗاُس پر علم و عمل کا اُفق فراخ کر دیا جاتا ہے۔ ندامت سے فرار اختیار کرنے والا دراصل اپنی کم علمی اور کم عملی کی توجیہہ تراشنے کی کوشش کرتا ہے، وہ کنویں کا مینڈک بن کر زندگی گزارتا ہے، اس کی کم علمی بتدریج بدعلمی میں اور کم عملی بدعملی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ کم علمی قابلِ اصلاح ہوتی ہے، بدعلمی قریب قریب ناقابلِ اصلاح!! بدعلم خود کو عالم سمجھے گا اور اپنے ناصح کو جاہل تصور کرے گا۔ اپنے علم کے دائرے کو وسیع کرنے کے لیے لازم ہے کہ اپنے علاوہ بھی لوگوں کو عالم تصور کیا جائے، اُن کی بات کو سنا جائے ، اُن کی بات پر غور کیا جائے اور اُن کی بات میں پوشیدہ اُس حکمت کو تلاش کیا جائے ‘ جو شاید خود اُن کے علم میں بھی نہ ہو۔ علم اور حکمت میں فرق ہے۔ہر علم والا لازم نہیں کہ حکمت والا بھی ہو، جبکہ ہر حکمت والا لازم ہے کہ علم والا بھی ہوتا ہے۔ حکمت کو مومن کی گمشدہ میراث کہا گیا ہے،اور یہ بتایا گیا ہے کہ مومن جہاں بھی دیکھتا ہے اسے پا لیتا ہے۔ اس ہدایت میں کس قدر حکمت پوشیدہ ہے۔ دینِ اسلام ‘دین ِ فطرت ہے ، اِس لیے قوانین ِ فطرت سے ہم آہنگ جو بھی آواز ہوگی ٗاُس کی سند دین سے ضرور ملے گی۔ آفاق اور انفس کی آیات (نشانیوں) پر غور کرنے والے پکار اُٹھتے ہیں کہ بے شک ہمارے رب نے حق نازل کیا ہے۔ آفاق کی نشانیوں پر غور کرنے والے انفس کے حقائق پر ضرور پہنچتے ہیں اور دینِ حق انفس ہی سے برآمد ہوتا ہے ، باطن ہی سے ظاہر ہوتا ہے۔
آفاق سے انفس کی طرف آتے ہوئےٗ اجتماع سے فرد کی طرف رخ کرتے ہوئے ٗہم علم سے عمل کی دنیا کی طرف روشناس ہوتے ہیں۔ایک فطری اَمر ہے کہ علم اور عمل میں بُعد ایک سلیم الفطرت انسان کو نادم کر دیتا ہے۔ ندامت میں ڈوبا ہوا، دراصل انفس میں ڈوبا ہوا شخص ہوتا ہے۔اپنی غلطی پر ندامت کی بجائے توجیہات تراشنے والا انسان انفس کو بھول کر آفاق میں سرخرو ہونے کے لیے فلسفے کی ڈگڈگی لے کر آتا ہے تاکہ علمِ نفسیات کی روشنی میں فرائیڈ کے ہمراہ اپنی بدعملی کی توجیہہ کا آملیٹ فرائی کیا جائے۔ خبردار! ہوشیار باش! اپنی کسی بدعملی کی کوئی توجیہہ ہرگز نہ تراشی جائے، وگرنہ اصلاح کے امکانات ناپید ہو جائیں گے۔ اس کے برعکس ندامت کا راستہ اختیار کیا جائے ، یہ فطری راستہ ہے۔ ندامت عاجزی پیدا کرے گی اور عجز علم کے دروازے پر دستک دے گا۔یوں انسان مزید بدعلمی سے بچ جائے گا …کہ بدعلمی ہی عملی کا راستہ سجھاتی ہے۔
عمل کے فضائل بیان کرنے والے سوز و گداز کا وہ باب نہیں کھول سکتے جو انسان کے اندر صرف عجز و ندامت سے پیدا ہوتا ہے۔ مداومت ِ عمل عین ممکن ہے انسان کو احساسِ برتری میں مبتلا کردے۔ احساسِ برتری میں مبتلا شخص کے لیےندامت کا تصور اجنبی ہو کر رہ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ندامت انسان کے احساس کو لطافت کی اس بلندی پر پہنچا سکتی ہے جہاں علم و عمل کی ریاضت نہیں پہنچاتی۔ ریاضت عام طور پر کٹھور دل بنا دیتی ہے۔ اپنے ریاض میں مصروف شخص کے پاس اپنے دل کے درازے پر کسی دستک کا جواب دینے کے لیے فرصت نہیں ہوتی۔ ندامت نرم دل بناتی ہے۔ نادم انسان مخلوقِ خدا کا بہترین خادم ثابت ہوتا ہے۔ ہمیں بہت زیادہ کامیاب آدمیوں کی ضرورت نہیں۔ ہم اگر ہر طرف گارڈ آف آنر ہی وصول کرتے رہے اور پیش کرتے رہے تو ٹوٹے ہوئے دلوں اور گھروں کا کون سنبھالے گا۔ کامیاب انسان تو بے حد مصروف ہوتا ہے، اور مصروف انسان کے پاس بات سننے کی فرصت نہیں ہوتی، کیونکہ وہ اپنی بات سنانے میں مصروف ہوتا ہے۔ ہر کامیاب آدمی اپنی کامیابیوں کی داستان سنانے میں مصروف ہے، کسی کے پاس کسی شکستہ دل کی داستانِ غم سننے کی فرصت نہیں۔ ٹوٹے ہوئے دل اور بکھرے ہوئے راہی بھی منزلوں کا ایک انسائکلوپیڈیا ہوتے ہیں۔ کامیابی کی موٹر وے پر زناٹے سے گزرتے ہوئے ڈرائیوروں کے لیے ممکن نہیں کہ وہ بل کھاتی کچی پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے اپنی ہی دھن میں مگن کسی مسافر کا دھیمے سُروں کا کوئی مدھر گیت سن سکیں۔
محبّت کے لیے دل ڈھُونڈ کوئی ٹُوٹنے والا
یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں

Advertisements
julia rana solicitors london

کامیابی کے وکٹری اسٹینڈ سے دُور، ایک اُدھورا ، نامکمل اور دل شکستہ شخص بہت بیش قیمت ہوتا ہے۔ اس کے پاس ندامت کا گوہر ہوتا ہے، اشک ِ ندامت ایک گوہرِ بیش بہا ہے۔اگر وہ مایوسی سے بچ جائے تو اس منزل طے شدہ منزلوں سے بھی آگے ہوتی ہے۔ نادم مگر اپنے مالک کی رحمت سے پُر اُمید شخص اپنے علم و عمل میں کمی کا کفارا ادا کرنے کی فکر میں ہوتا ہے، ایسے میں اُسے خدمت ِ انسانی کا وسیع میدان دکھائی دیتا ہے، اور وہ اپنی کمی ، کجی اور کوتاہی کا کفارہ خدمت کی صورت میں کرنے کی ٹھان لیتا ہے۔ وہ کسی این جی او کے قیام کی تدبیر نہیں کرتا ، اور نہ وسائل کی کمی بیشی اس کی راہ میں حائل ہوتی ہے بلکہ جو سائل بھی اسے میسر آ جائے اُس پر دل و جان سے صدقے واری ہوا جاتا ہے، اُس کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہو جاتا ہے۔ اُسے بس خدمت سے غرض ہے۔ وہ مخلوق کی غیر مشروط خدمت بھی کرتا ہے اور عزت بھی… اسی بے لوث اور بے تکان خدمت کے طفیل فطرت اس پر غیر مشروط طور پر مہربان ہو جاتی ہے۔وہ مستحق اور غیر مستحق کی بحث میں داخل ہوئے بغیر ہر کسی کا حق ادا کرتا ہے۔۔۔ اور بالآخر رحمت ِ خداوندی کا مستحق قرار پاتا ہے ۔ جس پر رحمت ِ خداوندی کا نزول جاری ہو جائے ‘ وہ کامیابی اور ناکامی کے تصورات سے آزاد ہو کر ایک آزاد پنچھی کی طرح فضائے امکانات کی سیر کرتا ہے… اور اپنے رب کی حمد کے گیت گنگناتا ہے۔ اس کے لیے خدمت ایک بابِ معرفت بن جاتی ہے۔
نادم شخص بہترین خادم ہوتا ہے، خود میں اُدھورا شخص دوسروں کی خدمت کے باب میں مکمل پایا جاتا ہے۔ اپنے ارادے میں ناکام ٗ کسی اور کے ارادے کا امین ہو جاتا ہے۔ ٹوٹا ہوا پیمانہ تشنہ کاموں کی تشنگی دُور کرنے کا ہنر خوب جانتا ہے، اس کے ذمے نصاب کے علاوہ بھی کئی کام ہیں۔ نادم کا تعلق ذات سے ہوتا ہے، وہ ذات سے تعلق کے سبب خود کو سرتاپا ذات کے رحم و کرم کا محتاج پاتا ہے۔اس کے برعکس اپنے عمل و ہنر میں بھرپور دسترس رکھنے والا مسٹر پرفیکٹ اپنے طے شدہ مقام پر پہنچ کر خود کو بے نیاز تصور کرتا ہے۔ وہ صفات کی دنیا کا اَسیر ہے۔ وہ عالمِ کثرت میں بہتر سے بہتر نام اور مقام کے حصول میں سرگرداں ہوتا ہے۔اندر ہی اندر نادم آدمی باہر بڑا بول نہیں بولتا، وہ جانتا ہے کہ بڑا بول تول میں چھوٹا نکلتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply