تعلیم اور ”جھگڑالو“ بلوچ ۔۔۔ حبیب کریم

قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں نومبر 2017 میں میرا نیا نیا ایڈمیشن ہوا تھا۔ اس دوران یونیورسٹی میں بلوچ سٹوڈنٹس یونیورسٹی سے خارج کیے گئے چند بلوچ طلبا کی بحالی کے لیے بھوک ہڑتالی کیمپ لگاۓ بیٹھے تھے۔ اور کئی دنوں سے مسلسل احتجاج کر رہے تھے۔

میں اپنا بیگ اور دیگر سامان ٹیکسی میں رکھے فیض آباد سے یونیورسٹی کی جانب جا رہا تھا۔ راوَل چوک کے پاس ایک ٹریف پولیس اہلکار نے ٹیکسی روکی۔ پوچھا کہ کہاں سے ہو؟ جواب دیا__ بلوچستان سے۔۔۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں ایڈمیشن ہوا ہے، وہیں جا رہا۔ ٹریفک پولیس نے اگلا سوال پوچھا؟ بلوچی ہو۔ جواب دیا__ جی، بلوچ ہوں۔ یہ سن کر ٹریفک پولیس کا اہلکار کہنے لگا__ تم بلوچی لوگ لڑتے کیوں ہو؟ مجھ سے یہ سوال پوچھ کر جواب سنے بغیر اس نے ٹیکسی ڈرائیور سے آگے چلنے کو کہا۔۔۔

”بلوچ جھگڑا لو ہیں۔ بلوچ لٹیرے ہیں۔ بلوچ جاہل اور گَنْوار ہیں۔ بلوچوں کو ان کے سردار نہیں پڑھنے دیتے۔“ یہ ساری وہ باتیں ہیں جو کہ نا صرف ایک عام پاکستانی سے متواتر ہمیں سننے کو ملتی ہیں بلکہ سکولوں اور کالجز کی تدریسی کتابوں میں بھی بلوچوں کے حوالے سے یہ لکھا گیا ہے۔ بلوچ نے ”کچھ نہ کچھ تو کیا ہوتا ہے“، تبھی اسے مارنا، اٹھانا، تعلیم کے بنیادی حق سے محروم رکھنا وغیرہ جائز ہیں___ یہ عام پاکستانی ذہن میں جگہ دیے گئے ریاستی بیانیے ہیں۔ اور پاکستانی سیاست دانوں، دانشوروں سے لے کر ایک عام ٹریفک پولیس تک انہی الفاظ کی گردان لگاۓ رہتا ہے۔

اب جب سے کورونا کی وبا کی وجہ سے گورنمنٹ نے ملک بھر میں آن لائن کلاسز کے اجراء کا فیصلہ کیا ہے۔ تو یاد رہے کہ فاٹا، گلگت بلتستان، سندھ اور بلوچستان کے اکثر علاقے انٹرنیٹ سے محروم ہیں۔ بلوچستان کے کئی اضلاع میں انٹرنیٹ سروس گزشتہ کئ عرصے سے ”سیکیوریٹی ریزنز“ کی بنا پر بند کیا گیا ہے۔ اور تضاد دیکھیں۔۔۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ بلوچستان میں سب ٹھیک ہے۔ امن و امان ہے۔ مگر دوسری جانب سیکیوریٹی کو جواز بنا کر لوگوں کو انٹرنیٹ کی سہولیات سے محروم رکھ کر قبل از ٹیکنالوجی دور میں دھکیلا گیا ہے۔ ایک طرف جہاں پینے کا صاف پانی بلوچوں کو میسر نہیں، جہاں موبائل کال کے لیے لوگوں کو کسی ٹِیلے پر چڑھنا پڑتا ہے، جہاں اٹھارہ بیس گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے یا سرے سے بجلی کی سہولت ہی نہیں، وہاں ایچ ای سی نیویارک کے طرز پر آن لائن کلاسز لینے کا کہہ رہی ہے جو کہ اس ریاست کی طرف سے واضح پیغام ہے۔۔۔ بلوچ جاۓ بھاڑ میں۔۔۔ یہ تو ویسے ہی ”جھگڑالو“ ہیں۔۔۔ انہوں نے پڑھ کر کیا کرنا اور پھر ان کا تناسب ہی کیا ہے۔۔۔

ان تمام تر طعنوں، الزامات اور متعصب غیر انسانی بیانیوں سے دلبرداشتہ ہو کر کوئ بلوچ طالبعلم اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاۓ اور احتجاج کرے تو پھر ”محبین وطن“ کی ایک فوج بیرونی ایجنٹ کے نعرے لگا کر منہ سے جاگ نکالتے ہوۓ دوبارہ وہی ریاستی بیانیے دوہرانے لگ جاتا ہے۔ آج بھی یہ بلوچ طلبا کل سے اسلام آباد میں ایچ ای سی کے دفتر کے سامنے آن لائن کلاسز کے حوالے سے حکومت کی جانبدارانہ پالیسی کے خلاف بھوک ہڑتالی کیمپ لگاۓ تعلیم کے بنیادی حق کے لیے چیخ رہے۔ مجال ہے کہ کسی کے کانوں میں جوں تک رینگے۔ بجاۓ کہ ان کی داد رسی کے لیے ایچ ای سی اپنے نمائندے بھیجے، وہاں پولیس بھیج کر ان طلبا کو زدو کوب کرنے اور حوالات میں بند کرنے کی مسلسل دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ تم برابر کے انسان ہی نہیں۔ ”برابر کے شہری“ والی جگالی تو چھوڑئیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اختر مینگل سے لاکھ اختلافات سہی، لیکن کل انہوں نے درست کہا کہ ”ہمیں کوئی لائن میں بھی کھڑا نہ ہونے دے، آن لائن تو دور کی بات ہے“ـ ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply