کرونا کے بارے میں تو ہم سب جان چکے ہیں کہ یہ خطرناک ہے اور اس سے بچنے کے لئے ہمیں آئسولیٹ ہونا ہے ۔ لیکن یہ آئسولیشن ہماری شخصیت پر کتنی اثر انداز ہو سکتی ہے اس کے لئے ہمیں SPD کو سمجھنا ہوگا ۔ Sadistic personality disorder مطلب شخصیت میں اداسی کی بیماری یا عارضہ ۔ مینٹل ایلنیس ریسرچ کے مطابق یہ ہر ایک انسان میں موجود ہے ۔ سادہ الفاظ میں کہیں تو انسانیت ناپنے کا میٹر ۔
چھوٹی سی مثال دوں گا ،آج کل ہم روز خبریں دیکھتے ہیں کرونا چونکہ ہمارے سر پر سوار ہے تو یہ جاننے کی کوشش ہوتی ہے کہ گزشتہ روز میں کتنے لوگ اس کا شکار ہوئے ہیں ۔ اگر تو توقع سے بہت کم تعداد ہو تو ہم سرسری طور پر خبریں دیکھیں گے ۔ ایک خوامخواہ کا افسوس ہمارے ذہین میں رہ جائے گا ۔ اور اگر تعداد ایک دم سے زیادہ سننے کو مل جائے تو ہم افسوس کا اظہار کریں گے حکومت کو دوچار سنائیں گے ،خبروں کو دوسروں کے ساتھ شیئر کریں گے ،اصل میں کہیں ہمارے اندر ایک سکون سا آ جائے گا ۔ کیونکہ ہم اپنا وقتی غبار نکال چکے ہوتے ہیں ۔
ہر انسان میں یہ بیماری یا احساس کم یا زیادہ موجود ہے عام طور پر یہ %4 سے %6 تک ہوتا ہے ۔ اس کا اظہار ہم کم یا زیادہ کرتے رہتے ہیں ۔مالک اپنے ملازموں پر ،شوہر اپنی بیوی بچوں پر غصہ کر کے اس بیماری کی تسکین کرتے رہتے ہیں ۔ فیس بک پر کوئی تصویر شیئر ہوتا ہے کہ ایک غریب بچہ سڑک کے کنارے کچھ بیچتا ہوا سو گیا ہے ،تو ہم اپنی اس بیماری کو سکون دینے کے لئے اس کے لئے دعائیں بھی کریں گے ،تصویر کو شیئر بھی کریں گے، بھلے ہماری حقیقی زندگی میں ایسے درجنوں بچے ہمارے آگے پیچھے موجود ہوں ،لیکن وہ ایک روٹین کا حصہ ہی رہیں گے ۔ چند لوگوں میں یہ پرسنٹیج زیادہ بھی ہوتی ہے ایک سٹڈی کے مطابق سائیکو ریپسٹ میں یہ %15 تک بڑھ جاتی ہے ۔ شاید ریپسٹ کا مقصد جنسی تسکین نہیں ہوتا بلکہ دوسرے کی تکلیف کا مزاہ لینا ہوتا ہے ۔ خودکشی کرنے والے میں یہ دس سے بارہ فیصد تک پہنچ جاتا ہے شاید ان کا مقصد بھی زندگی ختم کرنا نہیں ہوتا بلکہ انہیں درپیش تکالیف کی انتہا دکھانا ہوتا ہے ۔
ہمیں اسے کنٹرول کرنا ہے ۔ اپنی سوچ کو مثبت کرنا ہے ۔ کیونکہ جیسے ہی ہمارے خیالات منفی ہونا شروع ہوتے ہیں اس کی پرسنٹیج بڑھنی شروع ہو جاتی ہے اور مثبت سوچ سے یہ نیچے آنی شروع ہو جاتی ہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں