1915،تحریک پاکستان اور غدر۔ ۔۔ہارون خالد

پہلی لاہور  سازش  مقدمہے کی سنوائی کا احتتام ہوا۔ اس سلسلے میں کئی قسم کے کیسسز سامنے آئے اور 26 اپریل 1915 میں اس کے لئے پہلا بینچ مختص کیا گیا۔ ستمبرمیں  ججمنٹ دی گئی اور  13 **ـــــــــ** 24 مجرموں کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا جبکہ 27 کو ملک بدر کر دیا گیا اور باقیوں کو مختلف سزائیں ملیں۔  سزائے موت کی سزا پانے والوں میں ایک 19 سال کا لڑکا کرتار سنگھ سرابھا تھا جو  پنجاب میں سین فرانسسکو سے واپس آیا تھا تاکہ اس کولونیل سٹیٹ کے خلاف جدوجہد کر سکے۔ اس کے مقدمے کے دوران وہ کولونیل سٹیٹ کی نا انصافیوں کے خلاف پر جوش اور شدید احتجاجی گفتگو کرتا رہا ۔ سرابھا  کا فرانسسکو میں  انقلابی میگزین غدر سے متعلق تھا ۔ یہ میگزین 1913 اکتوبر میں شروع ہوا تھا۔ یہ میگزین مختلف زبانوں میں شائع ہوتا تھا اور بیرون ملک کام کرنے والے ہندوں تک پورے ملک میں تقسیم ہوتا تھا۔ سرابھا نے گرومکھی ایڈیشن کی ذمہ داری لی تھی اور اس میں آرٹیکلز اور شاعری لکھنے میں پیش پیش رہے ۔ جب1914 میں  پہلی جنگ عظیم چھڑی تب میگزین کی پبلیکیشن کی کمیٹی نے بھی ہندستان میں برطانیہ کے خلاف جنگ چھیڑنے  کا ارادہ کیا۔  سرابھا بھی دوسرے ہزارو ہندوستانیوں کے ساتھ اپنے آبائی ملک لوٹا اور

سوچا کے ان کے ہیروازم کے مدنظر دوسرے لوگ قائل ہو کر اس کولونیل ازم  کے حکمرانوں کے  خلاف  کھڑے ہو جائیں گے۔ وہ اس سے ذیادہ غلط نہیں ہو سکتے تھے۔ ذیادہ تر انقلابی اصل میں پنجاب سے تھے۔ اور غدر میگزین سے متاثرہ تھے۔ لیکن ان نے واپس آ کر دیکھا کہ پنجاب پوری طرح کولونیل امپائیر کے قبضے میں تھا۔ زیادہ تر گاوں کے مقیم کسانوں نے اس کولونیل سٹیٹ کی اگریکلچر پالیسیوں سے مستفید ہو رہے تھے۔ اور فوج میں بھرتی ہو رہے تھے۔ برطانوی انڈیا میں آتے ہی بہت سے انقلابیوں کو گاؤں والوں نے دھوکہ ا دیا اور ان میں سے کئی کو پکڑوا دیا۔ اور جو بچ گئے انہیں غائب ہو جانے پر مجبور کیا گیا۔ اور ان انقلابی بھائیوں میں قوت ارادی بھی کم تھی جس کی وجہ سے انہیں نقصان ہوا۔ متاثر کن  حب الوطنی سے  گھرے  کئی لوگوں نے اپنے جہازوں میں تبدیلی کی تاکہ ان کی فوج میں اور لوگ شامل ہوتے رہیں۔ اپنے جذبے کو زندہ رکھنے کے لئے  بہت سے لوگوں نے حب الوطنی کے  نغمے بھی راستے میں گائے۔  حتٰی کہ جب پہلا  بحری جہاز برطانوی  ہندوستان  کے ساحل سمندر میں پہنچا تو اپنے جاسوسوں اور تقاریروں سے پرجوش غددری انقلابی پوری طرح تیار تھے۔ کوئی پلان  نہیں  اور کوئی لیڈر نہیں کوئی مخصوص پلان نہیں تھا اور نہ ہی  اس تحریک کی کوئی مرکزی آرگنائیزیشن تھی۔ یہ صرف فرانسسکو کے میزین  کے بلبوتے پر تیار ہوئی ایک ٹیم تھی۔  اس میگزین میں چھپے آرٹیکل  بہت بھرپور اور جوش و جزبے  والے تھے  لیکن ان میں اس انقلاب کو برپا کرنے کے لئے  کوئی باقاعدہ پلان نہیں تھا ۔ شاید ہردیال، سوہان سنگھ بکھنا اور پنڈت کاشی رام  جو اس میگزین کے بانی تھے   یہ توقع رکھتے تھے کہ  انقلاب ایک حقیقت سے دورکی چیز ہے ۔ ہردیال خاص طور پر  اس میگزین کے پیچھے  ایک دانشور تھے اور وہ روسی انارکسٹ سیاسی تخیل کاروں سے متاثر تھے۔ ان کے لئے انقلاب انفرادی طور پر ایک  بے ساختہ  بہادری کا جبری حکومت کے خلاف کیا گیا ردعمل ہے ۔ مارکسسٹ  کے بر عکس انارکسٹ ایک پارٹی کے انقلاب پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ آخر کار یہ پارٹی بھی حکومتی پارٹی بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔  لوگوں کو اس  مقصد کے لیے تیار ہونے کی ضرورت ہے۔  بلکہ ان کا  ایک میگزین شروع کرنا اس انقلاب کو ماحول میں گھولنے کا ایک  ذریعہ  تھا۔  اس میگزین میں بم تشدد اور  ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں  بھی لکھا جاتا تھا۔  اس میں کہیں اس کے استعمال کا ایک باقاعدہ پلان  نہیں تھا۔ لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد صورت حال بہت تیزی سے بدل گئی۔ بہت سی طاقتوں نے برطانیہ کے خلاف ہاتھ ملا لیے۔  ایسا محسوس کیا گیا کہ  کولونیل سٹیٹ کے ساتھ
مسلح  بغاوت کرنے کا و قت آگیا ہے۔ ساری دنیا میں پھیلے ہندوستانی مہاجر وں کو  اپنے مادری وطن دکن آنے کی نصیحت کی گئی۔  تاکہ اپنے ملک کو  غلامی  سے بچایا جا سکے۔  ہزاروں نے اس آواز پر لبیک کہا۔  کشتیوں پر سوار،  وہ پوری دنیا کی بندرگاہوں سے  روانہ  ہوئے۔   لیکن کوئی ایک مخصوص پلان نہیں تھا۔ یعنی انہیں کچھ پتہ نہیں تھا کہ جب وہ اپنے ملک پہنچیں گے تو کیا کریں گے۔ تصور یہ کیا گیا تھا کہ انفرادی طور پر
بہادری کے اس عمل  سے متاثر ہو کر ملک  بھر کے لوگ  اس کولونیل سٹیٹ کے خلاف کھڑا ہو جائے گا۔  دھوکا دہی کا مقدمہ جو لوگ نہیں پکڑے گئے  وہ اپنے گھروں میں اپنے شہروں میں  اپنے طور پر آزادی کے لئے  چھوٹے چھوٹے گروہ بنا کر لڑنے کے لیے تیاری کرتے رہے ۔  بہت سے ایسے گروہ  ہندوستانی آرمی سے جا ملے۔ پلان 1857 کی جنگ کی طرح  لوگوں  کو بغاوت کے لئے بھڑکانے کا تھا۔ اس وقت ہندستانی سپاہیوں نے میرٹ چھاونی میں برطانوی افسران کے خلاف بغاوت  کی تھی اور ایک سال کے لیے آزادی حاصل کرنے کی تگ ودو میں جنگ کرتے رہے۔  دوسرے گروہ ہتھیار جمع کرنے کی  اپنی سی کوشیشیں  کرتے رہے، فنڈز جمع کرتے رہے اور بم بناتے رہے۔ جنوری 1915 کی تحریک میں  مرکزی لیڈر شپ کو اختیار دے دیا گیا اور راش بہرائی بوز  صدارت کے لیے قائل ہو گئے۔  بوش بنگال سے تھے اور انقلابی قوم پرست تھے
اور انہیں اپنے دائرہ کار میں خوب شہرت ملی کیوں کہ انہوں لارڈ وائیسروئے کو 1912 میں قتل کرنے کا پلان بنایا تھا۔ کچھ آرمی یونٹس کے ساتھ رابطہ کیا گیا جن میں لاہور ، فیروزپور، میرٹ، آگراہ، بنارس اور لکھنؤ شامل تھے۔ انہوں نے تسلی دی کہ لیڈر شپ  کے بلاوے  پر وہ ضرور
آگے بڑھیں گے۔   21 فروری 1915  کے دن  بغاوت  کی شروعات  کرنا طے ہوا۔ برطانوی عہدیادارون  کو پہلے سے ہی اس پلان کی خبر ہو چکی تھی اور  21 فروری1915  کا دن آنے سے پہلے ہی   یا تو یہ آرمی یونٹ  ہٹا دئے گئے یا ان سے ہتھیار لے لئے گئے اور کچھ اس تحریک کے  لیڈر  پکڑے گئے۔ بوس جاپان  فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ جلاوطنی میں انہوں نے ہندوستانی آزادی  لیگ  بنائی جس کے سابقہ لیڈر سبھاش چندر بوس تھے  جو ہندوستانی  نیشنل آرمی  میں تھے۔  جو پکڑے گئے  وہ لاہور کے پہلے  سازش کے مقدمے میں  پیش ہوئے۔ دوسروں کے لئے  موءثر شخصیت کے حامل سارے  تجرباتی مقاصد کے لئے  غدر تحریک اپنا سیاسی مقصد پورا کرنے میں ناکام رہی۔  برطانوی کلونیل اسٹیٹ پنجاب میں جمی رہی  لیکن کچھ حد تک بدلاؤ آیا ۔ ان انقلابی بھائیوں کی بہادری کے قصے  لوک گیت بن کر گونجے لیکن اپنی پوری زندگی وہ اپنے بوئے گئے بیجوں کا پھل نہیں دیکھ سکے۔  ان کے بعد کئی نسلیں آئیں ان کی بہادری کے قصے دہرائے گئے  تاکے لوگوں میں قومیت پرستی کا ذائقہ برقرار رہے۔ اس انقلاب سے متاثر ہونے والا ایک شخص بھگت سنگھ بھی تھا۔ وہ ہمیشہ کرتار سنگھ سرابا کی ایک تصویر ہمیشہ جیب میں رکھتے تھے۔ اور اس کی قائم کردہ نوجوان بھارت سبھا نامی پارٹی  کی ہر میٹنگ میں بھی کرتار سنگھ کی تصویر موجود ہوا کرتی تھی۔ پہلی لاہور سازش ٹرائل کے16 سال بعد بھگت سنگھ کے خلاف اک اور لاہور سازش کیس داخل کیا گیا ۔ سرابہ کی طرح وہ بھی ایک نوجوان انقلابی دانشور بنے جن کی قربانی سے عوام کے ضمیر کو جھنجھوڑنے میں مدد ملی۔ غدر تحریک سے بچ نکلنے والے دوسرے بہت سے رہنماوں نے بھی سیاسی جماعتیں قائم کیں جن میں سے سب سے زیادہ مشہور کرتی کسان سبھا تھی جو ایک مارکسسٹ پارٹی تھی اور پنجاب  کا دیہاتی علاقہ اس کا مرکز تھا۔ 1928 میں اس پارٹی نے نوجوان بھارت سبھا سے اتحاد کر لیا تھا۔  یوں اگرچہ غدر تحریک کا مقصد تو حاصل نہ ہوا لیکن اس کی وجہ سے بہت سے اہم واقعات پیش آئے جن میں جلیانوالہ باغ ، تحریک عدم تعاون، پرما سوارج کی حکومت کا دور پورا کرنے کا مطالبہ، جیسے واقعات سامنے آئے اور ان کے نتیجہ میں بھگت سنگھ، سبھاس چندرا بوس اور کرتی کسان سبھا جیسی شخصیات اور تنظیمیں قائم ہوئیں۔ ان اشخاص کی ہیرو ازم کے ذریعے غدری لوگوں کی مدد سے انقلاب کی راہ ہموار ہوئی

source : https://www.dawn.com/news/1405569/the-1915-ghadar-plan-

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ دنیا پاکستان

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply