علم کی تعریف اور مدارج۔۔منصور ندیم

علم کی تعریف کو سمجھنے کے لئے پہلے چند بنیادی چیزیں سمجھنا بہت ضروری ہیں۔ کائنات میں موجود اشیاء کو ان کے خواص و صفات کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے تو کائنات میں موجود اشیاء میں فرق ان کی اضافی خصوصیات کی بنیاد پر ہے۔

۱- جمادات ،۲- نباتات، ۳- حیوانات ، ۴- انسان، ۵- نبی یا پیغمبر

جمادات مکمل ساکن شئے کا نام ہے، جمادات میں سانس اور جان کی صفت ڈال دی جائے تو وہ نباتات ہیں، نباتات میں ایک اور اضافی صفت حرکت اس کو حیوانات بنا دیتی ہے، اور حیوانات میں مزید ایک اضافی صفت عقل اس کو حیوانات سے ممتاز کرکے انسان کے درجے تک لے جاتی ہے –

مذکورہ بالا ابتدائی ۴ درجہ بندیاں اشیاء کی صفات کی دنیائے مذاہب اور لادینیت کے ہر تصور فکر کے قریب قابل قبول ہے لیکن اہل مذہب کے نزدیک اس میں موجود پانچویں صفت نبی یا پیغمبر کو عام انسان سے ممتاز کرنے والی صفت وحی ہے ، لیکن یہ صرف اہل مذاہب کے ہاں قابل قبول ہے۔
علم کی بنیادی تعریف :

علم کی ایک ایسی جامع تعریف جو دنیا کے ہر مذہب کے ماننے والے یا مذہب کے نہ ماننے والوں کے نزدیک بھی قابل قبول ہو ۔

کائنات میں موجود تمام رموز و اسرار جن کو طبیعاتی یا مابعدالطبیعاتی، تصور یا شکلی، کو تنزیل،الہام، وحی ، خیال ، تصور، تشکیک، مشاہدہ ، تجزیاتی و تجزباتی، حسی ، نظری، بصری طور پر کلی یا جزوی طور پر جاننے کا نام علم ہے۔

اس بنیاد پر ہم علم کو ان ذرائع کے مطابق ان کو ان ۳ حصوں میں دیکھ سکتے ہیں جو علم کے بنیادی منبع ہیں ۔

علم کے بنیادی ۳ ماخذ ہیں۔

۱- تنزیل
۲- فلسفہ
۳- سائنس

تنزیل کا بنیادی ستون مابعد الطبیعاتی ہے ، اور عقلیت پسندی مابعد الطبیعاتی اصول کے زیر ہے، فلسفہ اور سائنس کا بنیادی ستون طبیعاتی ہے ۔اور عقلیت کو فوقیت حاصل ہے۔

۱- تنزیل ( الہام، وحی یا آسمانی کتب و صحائف ، کوئی بھی ماوارئی طاقت ، جیسے خدا ، دیوتا)

تنزیل ، نزول، وحی تمام مذہبی اصطلاحات ہیں، تمام الہامی مذاہب کی بنیاد تنزیل پر ہیں، جس میں ایک ایسی ماوارائی طاقت کا عقیدہ موجود ہے جو انسان کے وجود کا خالق ہے اور اس دنیا میں دنیا گزارنے کے قوانین بھی اسے اسی طاقت کی طرف سے دیے گئے ہیں۔ یعنی انسان اس ماوارائی طاقت کے ودیعت کردہ علم کی روشنی میں ہی زندگی گزارنے کا مکلف ہے۔

بحیثیت مسلمان میں صرف مسلمانوں کی علمی تصور اور تعریفات پیش کرتا ہوں لیکن بالعموم آسمانی مذاہب کے تمام پیروکاروں کے نزدیک کم و بیش انہی اصولوں پر ہے۔

مذہبی ایمانیات و علمیات چونکہ خیر کل، حقیقت کبری اور ہستی مطلق کے پاس سے آتی ہیں ، جو کہ عالم الغیب الشہادہ (Knowe th the Unseen and that which is open ) اور زمان و مکان سے ماورا ہے- اس لئے یہ علم حتمی ، قطعی، اٹل اور ناقابل تغیر ہے۔۔

یعنی علم ایک ایسا قضیہ کلیہ موجبہ (Necessary and universal judgement) ہے جو خارج میں موجود حقیقت کو صحیح طور پر جان لینے سے عبارت ہے، جو وجوبی شک وظن سے پاک ہو اور اس کا انکار ممکن نہ ہو، یعنی لاریب فیہ (Without Doubt ) ہو، جو محکوم ( Subject) اور محکوم بہ (Predict) پر مشتمل ہواور جس کے متوازی خارج میں موروثی حقیقت موجود ہو۔

مذہبی سیاق میں علم کی تعریف اور علم و ایمان میں تطبیق اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک مذہبی شعور کو واضح اور دو ٹوک الفاظ میں بیان نہ کر دیا جائے۔مذہبی فکر کا سب سے بنیادی جوہر یہ ہے کہ اس کے یہاں مجہول و مطلق کا تصور ناپید ہے۔ یہاں حقیقت معلومیت کی قید سے ماورا اور اپنے وجود کی شان سے قائم ہے۔ مذہبی شعور کبھی فکر کو معلوم یا نامعلوم کے تناظر میں نہیں دیکھتا ، بلکہ حق و باطل ، صحیح و غلط یا مفید و مضر کے تناظر میں دیکھتا ہے، مذہبی شعور ہر گز فلسفیانہ معنوں میں مابعد الطبیعی نہیں ہے، اس لئے کہ مابعد الطبیعی حقائق یا امور کے بارے میں مذہبی شعور ایک ایسے فیصلہ کن اعتماد پر کھڑا ہے جہاں اسے خود کو کسی بھی علمی تحریک کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ یہاں حقائق کی معرفت خود حقیقت کے تحرک سے میسر آتی ہے۔

۲- فلسفہ ( انسانی عقل و شعور کی بنیاد پر تشکیل شدہ نظریہ یا تصور )

فلسفہ کی بنیادی تعریف کائنات میں موجود اسرار کو انسان کا اپنے عقل و شعور کی بنیاد پر کھوجھنا ہے، عقل و شعور کی بنیاد پر تشکیل شدہ نظریات جو تمام معاملات زندگی جیسے معاشرت ، معیشت، تجارت، اجتماعی روایت و ثقافت کے قوانین اور ضابطے ہیں ۔ اہل یونان ہوں یا مسلمان فلسفہ دان ہو یا اہل مغرب کے فلسفہ دان، حضرت انسان نے اس پر یقینا کمال کام کیا ہے،آج عقلی و استدلال علمیات نے دنیا کی ہر روایت و تہذیب کو علمیاتی بنیادوں پر مسخر کرلیا ہے، عیسائیت نیوفلاطونیت( Neo Platonism)، کانٹ کی عقلیت (Rationalism) اور ہیوم کی تجربیت کا شکار ہو گئی ، بدھ علمیت اور چینی روایات کو کھیل کی تاریخی جدلیت (Historical Materialism) اور کارل مارکس کے Dialectical Idealism نے فتح کر لیا۔ان اہل فلسفہ نے مذہب اور خدا کے تصورات پر بھی سوال اٹھا دیئے ہیں۔

۳- سائنس ( کائنات کے اسرار کو مشاہدہ اور تجربہ کی بنیاد پر حاصل ہونے والا علم)۔

سائنس کی کوئی کتاب پڑھ لی جائے ہر کتاب میں یہی تصور اور نظریہ اور اصول ملے گا کہ حواس خمسہ کی بنیاد پر حاصل کردہ علم اخذ کردہ نتائج ، مشاہدات اور تجربات سے صرف امکانی سچ [Probable Truth] تک رسائی ممکن ہے۔سائنسی علم اس علم کو کہتے ہیں جس میں کذب اور تردید کا امکان ہر وقت موجود رہتا ہے جس نظریے میں رد ہونے کے زیادہ امکانات ہوں گے وہ نظریہ زیادہ ترقی کرے گا، ارتقاء کی منازل کا سفر کامیابی سے طے کرے گا۔سائنس کا کوئی بھی نظریہ ہو وہ حتمی و قطعی نہیں ہو سکتا ہر وقت اس میں تبدیلی کا امکان موجود ہوتا ہے ۔ اگر کوئی نظریہ اس حد تک یقینی ہوجائے کہ اس میں شک اور تردد کا امکان بھی موجود نہ رہے تو وہ نظریہ علم کی تعریف سے خارج ہوجائے گا بلکہ اس کو تو عقیدہ کہا جائے گا۔یعنی حصول علم کا ہر وہ طریقہ جس کے ذریعہ نفسِ انسانی بنے، مثلاً انسانی مشاہدے، تجربے ، احساس یا قوت سمعہ یا حاصل کردہ نتیجہ سب سائنٹیفک میتھڈ کے زمرے میں آئیں گے۔

مذہب ہو یا سائنس و فلسفہ سب کا آغاز سفر اور نقطہ آغاز نظریات ، مفروضات، تیقنات، اور ایمانیات سے ہوتا ہے۔ہر علم کا اپنا منہاج و مابعد الطبیعات اور علمیاتی دائرہ ہوتا ہے اور اسی دائرے میں اس کا طائر تعقل پرواز کرتا ہےاور اس حصار سے باہر وہ اپنا طائر تعقل کھودیتا ہے۔مذہب، فلسفہ و سائنس تینوں کے اصول الگ الگ ہیں۔

مذہب کا اصول ایمان و ایقان اور اعمال صالحہ ہیں

سائنس کا اصول مابعد الطبیعات اور تجربات و مشاہدات ہیں۔

جب کے فلسفے کا اصول تشکیک و ارتیاب ہے۔

علم کے بنیادی ذرائع کے بعد اب جائزہ لیتے ہیں علم کے کتنے مدارج ہیں۔

۱۔ تقلید

۲۔تحقیق

۳۔تنقید

۴۔تخلیق ۔

انسانی ذہن کی حیثیت قرطاس سادہ کی سی ہوتی ہے، یعنی ایسی سادہ تختی (Slate) جس پر کوئی نقش ثبت نہ ہو، ایسا سفید کاغذ جس پر کوئی لفظ مرقوم نہ ہو، تب انسانی شعور یا عقل یا کسی بھی ذریعے سے ملنے والی پہلی معلوم چیز یقینا انسانی ذہن کے لئے تقلید ہوتی ہے، تقلید کے بعد انسانی شعور ، عقل غورو تجسس کے ذریعے ہر فکر اور نظریات پر مختلف معلومات کا ادراک کرتی ہے، یہ ادراک انسانی ذہن کی تحقیق کہلاتی ہے اور تحقیق ، افکار و نظریات کے اختلافی انواع کی بنیاد پر انسان کے اندر تنقید کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔تحقیق و تنقید کا کمال حقیقت انسان کے اندر تخلیق کا جوہر پیدا کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: مضمون کی طوالت کی وجہ سے تمام جزیات کی تشریح ممکن نہیں تھی، تمام جزیات کے احاطے کے لئے الگ الگ مضامین آنے والے دنوں میںقارئین کی نذر کروں  گا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”علم کی تعریف اور مدارج۔۔منصور ندیم

  1. Assalam u alykum
    Sir !
    Alhamdulillah ,I went through your article .i found that Allah bestowed you with deep knowledge and critical analysis …….there is a request ….may i qout your paragraph in my own article .

Leave a Reply