حضرت لقمان حکیم کی حکمت۔۔مشرف اسد

وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا لُقْمَـٰنَ ٱلْحِكْمَةَ أَنِ ٱشْكُرْ لِلَّهِ ۚ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِۦ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَنِىٌّ حَمِيدٌۭ
اور ہم نے لقمان کو حکمت عطا فرمائی کہ اللہ کا شکر کرتے رہو اور جو شخص شکر کرے گا وہ اپنے ذاتی نفع کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے گا تو الله بے نیاز خوبیوں والا ہے۔

سب سے پہلی بات یہ کہ سلف میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا لقمان حکیم کوئی  ولی تھے یا کوئی  نبی، جن کا تذکرہ قرآن کریم میں اللہ کررہا ہے؟ اکثریت کے نزدیک لقمان حکیم ایک عام بندے تھے جن کو اللہ کی طرف سے حکمت بطور تحفہ ملی اور اقلیت کےمطابق آپ نبی تھے۔

ہم جب بھی کسی شخص کا کسی سے تعارف کرواتے ہیں تو ہم اس شخص کے بارے کچھ اس طرح بتاتے ہیں کہ یہ فلاں صاحب ہیں یہ یہاں رہتے ہیں یا یہ اس جگہ کے مالک ہیں یا انہوں  نے یہ یہ انعامات جیتے ۔ہم اس فرد کی کامیابیوں یا اس نے جو اپنی زندگی میں کام کیے ان کو اہمیت دیتے ہیں ۔ یہ ہمارا طریقہ ہے کسی کا تعارف کروانے کا لیکن اللہ کا طریقہ بالکل مختلف ہے۔ لقمان حکیم کا ذکر قرآن میں پہلی دفعہ سورہ لقمان کی بارہویں آیت میں آرہا ہے اور اللہ نے لقمان حکیم کا تعارف ہی ایسے کرایا کہ وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا لُقْمَـٰنَ ٱلْحِكْمَةَ ہم نے لقمان کو حکمت عطا فرمائی ۔ ۔یعنی جس چیز نے لقمان کو خاص بنایا اور جو لقمان حکیم کا تعارف بنی وہ ان کی حکمت ہے ۔

جب ہم لفظ حکمت سنتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں یہ خیال آتا ہے کہ حکمت سے مراد وہ شخص جو بہت گہری باتیں کرے ،یا جو شاعرانہ انداز رکھتا ہو، یا حکمت سے مراد وہ جو فلسفیانہ  باتیں کرتے ہیں ،یا کچھ سفید داڑھی والے بزرگ چارپائی  پر بیٹھ کر بات چیت کر رہے ہیں یا یہ کوئی  ایسی چیز ہو جو بڑی عمر میں جا کر ملتی ہے۔ افلاطون (Plato) کے مطابق حکمت ایسی چیز ہے جو کئی  سالوں تک علم حاصل کرنے کے بعد ملتی ہے لیکن اللہ کے نزدیک حکمت کا الگ تعارف ہے۔ عربی زبان میں حکمت سے مراد گہری باتیں یا شاعرانہ انداز رکھنا نہیں بلکہ حکمت سے مراد علم النافع و عمل بہ یعنی وہ علم جو فائدے مند ہو اور اس پر عمل بھی کیا جائے۔ یہاں دو باتیں ہیں یعنی فائدے مند علم اور اس پر عمل اگر آپ ان دونوں باتوں پر پورا اُترتے ہیں تو آپ حکمت والے کہلائیں گے۔

اب لقمان حکیم کی حکمت کیاتھی؟ آگے اللہ فرماتا ہے أَنِ ٱشْكُرْ لِلَّهِ کہ اللہ کا شکر ادا کرو۔ یہاں فعل امر کا استعمال ہوا ہے یعنی یہ حکم ہے کہ اللہ کا شکر ادا کرو ۔ زندگی میں کئی  ایسے مقامات آتے ہیں جس میں انسان ڈپریشن کا شکار ہوتا یا وہ بہت پریشان ہوتا ہے یا اسکی زندگی میں بہت خوشیوں کے لمحے بھی آتے ہیں تو حکمت یہ ہے کہ ان حالات میں بھی ایسے مواقع ڈھونڈیں جائیں، جس میں اللہ کا شکر ادا کیا جائے کہ بھلے جو بھی بات ہے مجھے حکم ملا ہے کہ میں اللہ کا شکر ادا کروں گا اور شکر ادا کرنے سے مراد صرف زبان سے الحمداللہ بول دینا نہیں بلکہ آپ کا رویہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کیا آپ واقعی شکر گزار ہیں یا صرف زبان سے کہہ دیا اور جب آپ اللہ کے شکر گزار بندے بنیں گے تو آپ کی شکر گزاری آپ کی زندگی کے ہر شعبہ پر  اثر انداز ہوگی ،چاہے وہ بزنس ہو یا گھریلو زندگی یا آپ تعلیم حاصل کررہے ہوں ،گویا زندگی کے ہر معاملات میں اس کا اثر محسوس کریں گے کہ آپ جو بھی فیصلہ یا بات کہیں گے اس میں اللہ کی طرف سے تاثیر ہوگی ۔اللہ کی شکر گزاری ایک بیج  کی مثل ہے جیسے جیسے وہ بیج  بڑا ہوا ویسے ویسے اس کی شاخیں نکلی اور پھل اگنے لگے ،مراد یہ کہ اس شکر گزاری کے بیج سے جو پھل نکلے یا شاخیں نکلیں ، یہ ہماری زندگی کے معاملات ہیں جن کی بنیاد یہ بیج  ہے۔ تو یہ لقمان حکیم کی حکمت تھی کہ اللہ کا شکر ادا کرو، لقمان حکیم اللہ کے شکر گزار بندے تھے جب  ہے ہم  آگے آیات میں دیکھتے ہیں کہ ایک الگ ہی تاثیر پائی  گئی  ،جب انہوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی۔

آگے اللہ فرماتا ہے کہ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ اور جو کوئی  اللہ کا شکر کرتا ہے تو وہ اپنے ہی فائدے کے لئے کرتا ہے۔ یہاں یشکر فعل مضارع ہے یعنی مسلسل شکر گزار رہنا ایسا نہیں ایک مشکل میں یا کسی خوشی میں ایک دفعہ اللہ کا شکر ادا کردیا تو بس کافی ہوگیا نہیں بلکہ اللہ کا شکر ادا مسلسل کرنا ہے ۔دوسری بات جو یہاں بیان ہورہی ہے کہ جو کوئی  بھی اللہ کا شکر ادا کررہا ہے وہ اپنے فائدے کے لئے ہی کررہا ہے ۔اصل میں اللہ کو ہماری شکر گزاری کی ضرورت ہی نہیں اس کی بڑائی  بیان کرنے سے وہ مزید بڑا نہیں ہوجاۓ گا اگر کوئی  اس بڑائی  کا  بیان نہ کرے تو وہ چھوٹا نہیں ہوجائے گا اللہ ان سب باتوں سے بے نیاز ہے۔ اس کی شکر گزاری میں فائدہ ہمارا ہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آگے اللہ فرماتا ہے کہ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَنِىٌّ حَمِيدٌۭ اور جو ناشکری کرے گا تو الله بے نیاز خوبیوں والا ہے۔ اب یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اوپر بات شکر گزاری کی ہورہی ہے کہ جو شکر گزار ہوگا اپنے ہی فائدہ کے لئے اور یہاں اللہ کہہ رہا ہے کہ اور جو کفر کرے گا یعنی شکرگزاری کا متضاد نا شکری ہوتا ہے لیکن اللہ نے یہاں شکر گزاری کا متضاد کفر کو کہا ہے یعنی جو نا شکرا ہے وہ کفر کرے گا ۔ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَنِىٌّ حَمِيدٌۭ
تو الله بے نیاز خوبیوں والا ہے ۔ اب یہاں اللہ کہہ رہا ہے کہ وہ حمید ہے نہ کہ محمود ۔ محمود سے مراد کہ وہ جس کی تعریف کی گئی  ہو ،جب ہم کہتے ہیں کہ تعریف کی گئی  ہو تو اس سے مراد کسی نے تو تعریف کی ہے یعنی لوگوں کا ایک تصور ہے جو اس کی تعریف کررہے ہیں لیکن یہاں اللہ نے حمید کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے معنی کچھ یوں ہیں کہ  اس کی تعریف کوئی  کرے یا نہ کرے اس کی تعریف اپنی جگہ قائم ہے حتیٰ  کہ زمین و آسمان بھی موجود نہ ہوں جب بھی اس کی تعریف اپنی جگہ قائم ہے۔
یہ اس آیت کی مختصر تفسیر ہے جو میں نے کرنے کی کوشش کی ۔ غلطیوں کے لئے معافی کا طلبگار ہوں ۔
جزاک اللہ

Facebook Comments

Musharaf asad
جامعہ کراچی,شعبہ علوم اسلامیہ کا ایک طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply