ڈالٹن کے ایٹم (45)۔۔وہاراامباکر

سائنس کا سفر ایک ریلے ریس کی طرح ہے اور یہ بڑی عجیب دوڑ ہے۔ بعد میں آنے والے اس کو کس سمت میں لے جائیں گے؟ اس کا کچھ معلوم نہیں ہوتا اور کئی بار اس سمت میں لے جاتے ہیں جو پچھلے والوں کو بالکل پسند نہیں ہوتی اور کیمسٹری میں کچھ ایسا ہی ہوا۔

لاووسیے نے کیمیائی ری ایکشن میں عناصر کے کردار کا واضح کیا اور پیمائش اور مقداروں سے وضاحت کرنے کا طریقہ لے کر آئے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ کیمیکل ری ایکشن کو ٹھیک ٹھیک مقداری طریقے سے سمجھنے کے لئے ہمیں ایٹم کو سمجھنا ہو گا۔ اور ایٹم کا تصور لاووسیے کو شدید ناپسند تھا۔ اس لئے نہیں کہ وہ تنگ ذہن کے تھے یا وسیع النظر نہیں تھے بلکہ اس کی عملی وجوہات تھیں۔

قدیم یونان سے سکالر ایٹم کے بارے میں اندازہ لگاتے آئے تھے اور اس کو مختلف نام دئے جاتے رہے تھے۔ دو درجن صدیوں میں کوئی بھی یہ طریقہ نہیں نکال سکا تھا کہ اس کو مشاہدات میں کیسے لایا جائے اور اس کی پیمائش کیسے کی جائے۔

ایٹم کتنے چھوٹے ہیں؟ اس کے لئے اندازہ اس طریقے سے کر لیں کہ اگر دنیا بھر کے تمام سمندروں کو بنٹوں سے بھر دیا جائے اور اب تصور کریں کہ ہر بنٹے کو سکیڑ کر ایٹم کے سائز کا کر دیا جائے تو یہ کتنی جگہ لیں گے؟ چائے کے چمچ سے کم۔ اتنی چھوٹی شے کے اثرات کے مشاہدہ کرنے کا آخر امکان ہی کتنا ہو سکتا تھا؟

یہ معجزاتی کارنامہ ایک سکول ٹیچر نے کر دکھایا جو جان ڈالٹن تھے۔ غریب جولاہے کے بیٹے اور ہر چیز میں طریقے سے چلنے والے۔ ڈالٹن جس کتاب کی وجہ سے مشہور ہوئے، وہ تین جلدوں پر لکھی کتاب “کیمیکل فلسفے کا نیا نظام” ہے۔ اور اس میں حیران کن چیز یہ ہے کہ تمام تحقیق اور تصنیف ڈالٹن نے اپنے فارغ وقت میں مشغلے کے طور پر کی۔ اس کا پہلا حصہ جب 1810 میں شائع ہوا تو یہ 916 صفحات پر مشتمل تھا اور اس میں صرف پانچ صفحات پر مشتمل ایک باب میں ان کا آئیڈیا لکھا تھا جس کی وجہ سے وہ آج جانے جاتے ہیں۔ “لیبارٹری کی پیمائش سے ایٹم کا ریلیٹو وزن کیسے نکالا جائے؟” اور یہ خیالات کی طاقت ہے۔ ان پانچ صفحات نے دو ہزار سال کے تصورات کو الٹا دیا۔

ڈالٹن کی کتاب انیسویں صدی کی ہے لیکن ان پر اثر سترہویں صدی میں پیدا ہونے والے سائنسدان کا تھا، جو نیوٹن تھے۔

ڈالٹن روز وقتِ مقررہ پر سیر کرنے جاتے تھے اور جس علاقے میں رہتے تھے، وہاں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں اور ان کی دلچسپی موسمیات میں ہو گئی۔ وہ بلا کے ذہین طالبعلم تھے جس نے ٹین ایج میں نیوٹین کی پرنسپیا پڑھ لی تھی۔ اور اس سے انہیں گیس کی فزیکل خاصیتوں میں شوق پیدا ہوا۔ نیوٹن کے حرکت کے قوانین اور کورپسکولر تھیوری کی تصورات سے ان کے ذہن میں خیال پیدا ہوا کہ مختلف گیسوں کی حل ہونے کی خاصیت میں فرق کی وجہ ان کے ایٹموں کے سائز کا فرق ہو سکتا ہے۔

ڈالٹن کی اپروچ اس خیال پر تھی کہ اگر کوئی خالص مرکب لیا جائے تو وہ ہمیشہ اپنے اجزا کے خاص تناسب سے بنیں گے۔ مثال کے طور پر، اگر تانبے کے دو مختلف آکسائیڈ ہیں اور ان دونوں کا الگ تجزیہ کیا جائے تو یہ معلوم ہو جائے گا کہ ایک گرام آکسیجن کے خرچ ہونے سے ایک آکسائیڈ چار گرام بنتا ہے اور دوسرا آٹھ تو اس سے نتیجہ یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دوسرے کمپاونڈ میں پہلے کی نسبت آکسیجن کے دگنے ایٹم موجود ہیں۔

بات کو سادہ کرنے کے لئے یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اگر پہلے کیس میں ہر آکیسجن کا ایٹم ایک تانبے کے ایٹم سے ملاپ کرتا ہے تو دوسرے کیس میں یہ دو ایٹموں سے ملاپ کرے گا اور ہم اس سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ تانبے کے ایٹم کا وزن آکسیجن سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔

یہ وہ طریقہ تھا جو ڈالٹن نے ریلیٹو ایٹمی وزن معلوم کرنے کے لئے استعمال کیا۔

چونکہ ڈالٹن ریلیٹو وزن کیلکولیٹ کر رہے تھے تو انہوں نے 1 کا وزن سب سے ہلکے معلوم عنصر کو دیا جو ہائیڈروجن تھی اور باقی کے اوزان اس کے مقابلے میں کیلکولیٹ کئے۔

ان کا مفروضہ ہر بار ٹھیک نہیں تھا۔ عناصر ہمیشہ سادہ طریقے سے نہیں ملتے۔ ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ملنے کا فارمولا HO نہیں ہے بلکہ ہائیڈروجن کے دو ایٹم ہیں۔انہوں نے جب آکسیجن کا وزن ہائیڈروجن کے مقابلے میں معلوم کیا تو یہ اس سے نصف تھا جو ہونا چاہیے تھا۔ ڈالٹن کو اس غیریقینیت کا اچھی طرح اندازہ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ امکان بھی ہو سکتا ہے کہ ہائیڈروجن کے دو ایٹم ہوں اور یہ بھی کہ آکسیجن کے دو ایٹم ہوں۔ انہیں مشکل اس وقت ہو جاتی اگر یہ زیادہ پیچیدہ ہوتے۔ مثلاً، ہائیڈروجن کے 37 ایٹم آکسیجن کے 22 ایٹموں کے ساتھ ملک کر مرکب بناتے۔

ڈالٹن کو معلوم تھا کہ ان کے نتائج حتمی نہیں ہیں اور انہیں بہت سے مرکبات سے بہت سا ڈیٹا چاہیے ہو گا تا کہ اس تضادات دور کر کے فرض کئے گئے فارمولا ٹھیک کئے جا سکیں۔ یہ مشکل کیمیادانوں کو اگلے پچاس سال تک رہنی تھی لیکن اس نے ڈالٹن کے کام کی اہمیت کو کم نہیں کیا۔ کیونکہ ڈالٹن کا ایٹم ازم عملی طور پر قابلِ استعمال تھا۔ اور لاووسیے کے کام کو آگے بڑھاتے ہوئے پہلی بار انہوں نے کیمسٹری کو مقداری زبان میں لکھا۔ ایک نیا طریقہ کہ یہ ری ایکشن کیسے ہوتے ہیں۔ آج انہی کا جدید ورژن ایک ہائی سکول کا طالب علم اس طرح لکھتا ہے کہ
2H + O2 —> 2H2O

کیمسٹری کے لئے ایجاد کردہ اس نئی زبان نے کیمسٹری کو سمجھنے اور مشاہدات اور پیمائشوں کی وجوہات ڈھونڈنا بہت آسان کر دیا۔ یہ طریقہ تب سے چلا آ رہا ہے۔ ڈالٹن کو ان کے کئے گئے اس کام نے مشہور کر دیا۔

ڈالٹن کی کوششوں کے ذریعے، انسانی فکر قدیم اساطیر سے آگے بڑھ کر مادے کو ایسے لیول پر سمجھنے کے قابل ہو گئی تھی جو ہماری حسیات کی پہنچ سے بہت ہی دور ہے۔

اس ریلے کے دوڑ کا اگلا حصہ ابھی رہتا تھا۔ ایٹم کے وزن کا تعلق کسی کی کیمیائی اور فزیکل خاصیتوں سے بھی ہے؟ اور ہے تو کیا؟ اس سوال کا جواب ابھی نیوٹونین دنیا میں رہتے ہوئے دیا جا سکتا تھا۔ اور یہ والا حصہ بھاگنے والے ایک روسی کیمسٹ تھے، جنہوں نے عناصر کی قسمت کا زائچہ بنایا۔

جبکہ اس سے زیادہ گہری بصیرت کے لئے ابھی فزکس میں کوانٹم ریولیوشن کی ضرورت تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply