میرٹھ چھاؤنی،کیمپ نمبر 28میں گزارے22ماہ(11)-گوہر تاج

ایسے انسان کی آپ بیتی  جنہوں نے باوجود صدمات کو جھیلنے  کے اپنی زندگی کے ان واقعات کو دہرانے کی خواہش ظاہر کی جس کے وہ عینی شاہد تھے تاکہ تاریخ کے صفحات پہ انکے سچ کا اضافہ ہوسکے۔یہ داستان ہے 64سالہ ڈاکٹر انور شکیل کی، جو آج کینیڈا کے شہری ہیں ۔ انہوں نے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ایک اُردو زبان بولنے والے بہاری خاندان میں آنکھ کھولی ۔ اور سقوط ڈھاکہ کے سانحہ اور جنگ میں ہارنے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ انڈیا کے شہر میرٹھ کی چھاؤنی کے کیمپ نمبر 28 میں زندگی کے 22 ماہ کی قید کاٹی۔

قسط ۱۱

ٹوکن اور خطوط ۔بے کیف زندگی میں کچھ رنگ

کیمپ میں زندگی بتدریج معمول پہ آرہی تھی۔گویا قیدی قفس کی فضا سے مانوس سےہورہے تھے۔ایسا نہ ہوتا تو بے چارگی کی کیفیت جینا محال کردیتی۔انسان کااعصابی مدافعتی نظام بہت مضبوط ہوتاہے جو اس کو کانٹوں پہ بھی چین کی نیندسُلا دیتا ہے۔ اندر پھیلی مایوسی کا ایک توڑ عبادات کاعمل ہے۔کیمپ میں دعاؤں اورنمازوں کا سلسلہ مسلسل تھا۔ فارغ وقت اور عشاء کی نمازکے بعد عورتوں اور مردوں کے کیمپ میں آیت کریمہ کا ورد ہوتا ۔ اور سب خدا سے لو لگاۓ امید کرتے کہ جلد ازجلدقید سے نجات  حاصل ہو۔رہائی  کا پروانہ ملے اور بحیثیت ایک آزاد شہری زندگی اپنے معمول پہ آجاۓ۔

ٹوکن اور خطوط کا تبادلہ

ہم تین فروری کو کیمپ میں پہنچے تھے ۔جب سے ہماری قید کی زندگی بے کیف و بے مزہ گزر رہی تھی۔ لیکن مئی ۱۹۷۲ء میں ہماری زندگی میں ایک رنگ اس وقت آیا جب انڈین فوج نے کیمپ کے قیدیوں میں  ٹوکن کی تقسیم اور بعد میں مغربی پاکستان میں اپنے رشتہ داروں کو خطوط کے تبادلہ کے سلسلہ کا اعلان کیا۔جو صحرا میں بادِ بہاری کے مترادف تھا۔

ہمیں دیے گئے ٹوکن ایک پیپر کی شکل میں تھے جن کی قیمت پانچ روپے کے نوٹ کی تھی۔ یہ ٹوکن ہر قیدی کو ماہانہ ملتا۔ ہمارے گھر کے آٹھ افراد تھے ، دو والدین اور چھ بہن بھائی ۔اس طرح ہمیں چالیس روپے کے ٹوکن ملتے تھے۔لیکن ہمارے خاندان کے چار اورافراد چچا ، چچی، ممانی اور ان کا بچہ بھی اسی کیمپ میں تھے۔ اس طرح ان کے ٹوکن مِلا کے کُل ۱۲ ٹوکن تھے۔ میں ہر ایک کی خریداری کا ذمہ دار تھا۔ اور سب سے پوچھ کران کی ضروریات کی چیزیں  خریدتا۔ بچہ ہونے کے باوجود میں بڑے آدمی کی ذمہ داری  نبھا  رہا تھا۔ مشرقی پاکستان میں شلوار پہنے کی بجاۓ پاجامہ کا چلن تھا۔ میں ابّا اور اپنے کپڑے باقاعدگی سے دھوتا۔

ہر کیمپ کا اپنا ٹوکن تھا جو کسی اور کیمپ میں نہ چل سکتا تھا۔ ہمارے ٹوکن پہ کیمپ ۲۸ لکھا تھا۔اس زمانے کے لحاظ سے پانچ روپے کی رقم مناسب تھی۔ جس سےاپنی ذاتی ضروریات کی چیزیں خریدی جاسکتی تھیں ، جیسے ٹوتھ برش اور ٹوتھ پیسٹ، اور صابن کے علاوہ کھانے کی اشیاء جیسے چاکلیٹ ، بسکٹ اور چیونگ گم وغیرہ ۔جس سے یہ آسانی ہوگئی کہ دو وقت کے کھانے کے علاوہ اگر بچوں کو بھوک لگ رہی ہو تو صبح کے وقت بسکٹ دیا جاسکتا تھا۔مجھے یاد ہے کہ میں اس وقت اپنے لیےچِکِلیٹ لیا کرتا تھا۔ جو ایک چیونگم تھی اور میرے منہ کو چبانے کے عمل میں مصروف رکھتی۔

سگریٹ پینے والوں کو یقیناً  ایک گونہ سکون ملا ہوگا۔ جو سنتریوں سے مانگ تانگ کےچوری چھپے ہی اپنے سگریٹ کے نشہ کو پورا کیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں “چار مینار” سگریٹ کا مشہور برانڈ تھا۔ خریداری کے لیے ایک کھڑکی بنائی  گئی تھی جو مردانہ کیجcage میں تھی ۔ جہاں سب قطار میں لگ کر چیزیں خریدتے۔

ٹوکن کی تقسیم اور چیزوں کی خریداری سے لوگ کچھ سکون میں آگئے تھے۔ یقیناً انہیں اپنے پیسے خرچ کرنے کی وجہ سے طاقت اور کنٹرول کا احساس ہوتا تھا۔ جونفسیاتی طور پہ ان کی صحت کے لیے اچھا تھا۔اب کیمپ میں ملاقات کا دورانیہ بھی بڑھا دیا گیا۔ ہفتہ میں تین دن ایک گھنٹے کے لیے ملاقات، جو سب کے لیے اطمینان کاباعث تھا۔اب لوگ کچھ نارمل محسوس کرنے لگے تھے ۔ٹوکن کی وجہ سے بچوں کوبالخصوص انتظار رہتا کہ ان کی چیزیں کب آئیں گی۔

ٹوکن کے اجراء کے بعد ایک اور بہت مثبت عمل جو ہوا وہ اپنے رشتہ داروں اور دوست احباب کو خطوط لکھنے کی اجازت کا ملنا تھا۔

اس سے قبل ہم آہنی تار کے دوسری طرف سےآزادی سے گاڑیاں اور سائیکلیں چلاتےلوگوں کو دیکھ کر جی مسوس  لیا کرتے تھے۔ باہر کی دنیا سے خاص کر اپنے پیاروں سے کٹ کر جی اُداس رہتا کہ کس طرح ان کو خبر ملے کہ ہم کہاں اور کس حال میں ہیں۔بالآخرپانچ ماہ بعد اعلان ہُوا کہ ہم اپنے رشتہ داروں کو خط لکھ سکتے ہیں۔ اس طرح نیلے رنگ کے ایروگرامز پہ عزیزوں کو خطوط لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔جن کو تہہ کرکے انکے کنارے چپکا کے بغیر لفافوں کے پوسٹ کیا جاتا تھا۔ ہمیں ہدایت دی گئی کہ اپنے رشتہ داروں اور احباب سے بھی جوابی خطوط ایروگرام میں ہی لکھنے کی درخواست کی جاۓ۔

ہم نے سب سے پہلے کراچی، پاکستان میں میرے بڑے بھائی  اور ماموں کو  خطوط لکھے ۔جن میں اطلاع دی گئی کہ اللہ کا شکر ہے کہ ہم زندہ ہیں،خیریت سے محفوظ ہیں اور انڈیا میں ایک کیمپ میں ہیں۔ شکر الحمد اللہ! بس انتظار ہے کہ معاہدہ ہو تو واپس آسکیں۔

ایک ڈیڑھ ماہ بعد بھیجے ہوۓ خطوط کے جواب آنے لگے۔ان خطوط کے پہنچنے کا اعلان صبح کے وقت ہُوا کہ آپ کے جواب آگئے ہیں جو شام کو تقسیم کیے جائیں گے۔

جن کے خطوط آتے ان لوگوں کے نام کا اعلان ایک چبوترے پہ کھڑے ہوکر مائیک پہ ہوتا اور بیرک کے کیمپ کمانڈر محبوب اقبال صاحب نام پکارتے۔ ہم سب اشتیاق اور امید کےعالم میں کھڑے ہوکر اپنے نام کا انتظار کرتے۔ نام کے اعلان کے ساتھ لوگوں کو ان کے خط دیے جاتے۔ کچھ لوگوں کے توایک وقت میں کئی خطوط آتے جبکہ کچھ ایسے بھی ہوتےجن کے ایک یا دو یا کوئی  بھی خط نہ ہوتا۔مجھے یاد ہے کہ ایک صاحب جن کا نام جمیل احمد تھا اور جو پی آئی  اے میں ملازمت کرتے تھے، ان کے بیک وقت ۳۸ خطوط آۓ تھے۔پہلی بار ملنے والے خطوط کے جواب بہت جذباتی تھے ۔ ان خطوط سے تمام کیمپ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ اب اپنے پیاروں سے رابطہ تو ہُوا۔خطوط جمع کرنے کے لیےایک تاریخ دی جاتی ۔ ایک ماہ میں دو دفعہ خطوط بھیجے اور وصول کیے جاتے۔خطوط پہ عورتوں کے بجاۓ گھر کے مرد سربراہ کا نام لکھنے  کی  ہی ہدایت تھی۔

ایک دن ہمارے بیرکس کے انچارج کمانڈر ایکشن رجسٹر لے کے آگئے کہ جو اپنے زیورات محفوظ حالت میں جمع کروانا چاہتا ہے وہ رسید حاصل کر کے جمع کروا دے۔ ایک پلاسٹک کی تھیلی میں زیورات جمع ہوۓ اور لوگ مطمئن ہوگئے۔ امی جو زیورات لائیں  تھیں اُن  کو بھی جمع کروا دیا تھا۔امی البتہ بار بار مکان کے اس کاغذ کا ضرورپوچھتیں جو انہوں نے مجھے حفاظت سے رکھنے کو کہا تھا۔ اور جو واقعی بعد میں بہت کام آیا۔

ٹوکن اور خطوط کی وجہ سے بچوں اور بڑوں کے رویوں میں رونق سی آگئی تھی۔ اب موضوع گفتگو بدل گیا تھا۔ ہم اس خوف کی کیفیت سے باہر آگئے تھے کہ کیا ہوگا اوریہ کہ کیا ہم مار دیے جائیں گے۔ اور کب اور کیسے جائیں گے۔اب لوگ اپنے خاندانوں کےساتھ بیٹھے ہوتے اور بورڈ گیم مثلاً  لو ڈو اور تاش کھیلتے اور ساتھ ہی بسکٹ بھی چل رہے ہوتے۔ کچھ لوگ ڈبل روٹی بھی لینے لگے۔ اس طرح دو وقت کے کھانے کے بجاۓ اب ناشتہ بھی ہونے لگا۔ پھر کچھ لوگ اپنے ٹوکن جمع کر کے ڈالڈا کا گھی خرید کے اپنےحصّے کی روٹی اور دال کو اس گھی سے بنانے لگے۔ لیکن ایسی آزادی تقریباً سوا سال بعد ہی ملی۔

عرصے تک ہمیں  نہ اخبارات ملتے اور نہ خبروں کا کوئی  اور ذریعہ تھا۔ جو چوری چھپےٹرانزسٹر لا سکے تھے انکی بیٹری ڈاؤن ہوچکی تھی۔ جب ٹوکن ملے تو بیٹری خرید کےخبریں سنی جاتیں جن میں یک طرفہ خبریں ہوتیں۔ مثلاً فوجیوں نے قتل عام کیا ۔ میری چھوٹی بہنیں امی سے پوچھتیں کہ کیا واقعی اتنا ظلم ہوا؟ تو امی کہتیں ہاں ہُوا توہے مگر عام عوام کے ساتھ اتنا نہیں ہُوا۔

ہم اپنے ساتھ مرفی ریڈیو لاۓ تھے جو بڑا سا تھا۔ انڈین آرمی نے ہماری اجازت سےریڈیو کو لاؤڈاسپیکر پہ لگا کر صبح اور شام خبریں سنوانی شروع کر دیں۔

اب چھ ماہ گزر گئے تھے اور ایسے ہی دنوں میں14  اگست، پاکستان کا یومِ  آزادی بھی آیا۔اس دن ہم سب اپنے اپنے کمروں میں بیٹھے تھے مغرب اور عشا کے درمیان کاوقت تھا۔ اچانک سے پاکستان زندہ  باد کی آوازیں اور پھر تالیوں کی آوازیں آنے لگیں۔تالی کی آواز سے اَچنبھا سا ہُوا ۔ لوگ اپنے اپنے کمروں سے باہر آگئے ۔ دیکھا کہ آٹھ دس آدمی کھڑے ہیں اور جھنڈا لگا ہوا ہے ( جو ان میں سے کسی کے پاس سے نکل آیا ہوگا۔) اور قومی ترانہ پڑھا جا رہا ہے ۔ ہم سب کے باہر آنے سے ایک اجتماع کی صورت ہو گئی۔اس بات کو رپورٹ کر دیا گیا۔ اس پر لاؤڈاسپیکر سے اعلان ہُوا “ آپ کو یومِ آزادی مبارک ہولیکن اس وقت آپ سب اپنے ملک میں نہیں انڈیا میں ہیں ،اور آپ انڈیا کی سرزمین پہ اپناجھنڈا نہیں لگا سکتے۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply