گمنام ماں۔۔۔ماریہ خان خٹک

میں چھوٹی تھی تو میرے کچھ خواب تھے ۔بالکل تھوڑے سے ۔اتنے کم کہ بڑے چشمے سے ہتھیلیوں کو جوڑ کر کچھ پیاس بجھے ۔میرے خواب ایسے نہیں تھے جنہیں پورا کرنا صرف کتابی دنیا کی کہانیوں اور افسانوں میں ممکن ہو ۔۔ایسا بھی نہیں تھا کہ میرے خواب کی قیمت میں پوری نہ کرسکوں یا کسی کو اعتراض ہو ۔۔۔لیکن مجھ سے زیادہ اپنے خواب پورے کرنے کی خواہش اک ماں کو تھی بیٹے کا گھر بس جائے، میرے چاروں طرف  بچے  بھاگتے دوڑتے نظر آئیں ۔۔۔۔
میری کتابیں چھین کر مجھے قلم سے دور کرکے،ان آنکھوں سے خواب چھین کر،اک ماں نے اپنے خوابوں کی تعمیر پہ بلی چڑھادیے۔۔
نوچے گئے سپنے ۔۔۔
لوٹے گئے ارمان ۔۔۔
میں خالی ہاتھ نوچی گئی  آنکھوں سے ،بے نام اپنوں کی تسلی میں بے نشان سے منظر ،اپنے کورے سے مقدر کے صفحے پہ درج کرنے لگی۔وقت پرندہ بن کر آتا رہا ۔منزلیں طے ہوتی گئیں ،قدرت نے میری جھولی میں پھر سے پُرسکون نیند ڈال دی، میں نے مقدر کے صفحے پہ رنگین خوابوں کو پھر سے درج ہوتے دیکھا ۔جیسے عرصے سے پیاسے دشت میں برسات ہو اور آسمان پہ قوس قزاح کے رنگ بنتے ہی چلے جائیں ۔۔۔۔
اک احساس ہوتا گیا زندگی کا،کہ میں پھر جینے   لگی تھی، نئے سِرے سے اپنے خوابوں کی ازِ سر نو تعمیر کےلئے۔مجھے لگا میرے خواب کی تعبیر میری بیٹی بنے گی ۔۔جو میں نہ کر  سکی، میری بیٹی  کرے  گی
مجھ میں توانائی  عود کر آئی  ۔۔
زندگی کی شاہراہ پہ مجھ سے تھکا دینے والا احساس گم ہوگیا ۔۔۔میری بھول تھی ۔۔۔
ہاں میں بھول بیٹھی تھی کہ وقت خود کو دہراتا رہتا ہے ۔۔۔۔
جس عمر میں میری آنکھیں نوچی گئیں ۔۔
آج میری بیٹی عمر کی اس دہلیز پہ کھڑی تھی اور میرے سامنے اس کی آنکھوں سے خواب نوچے جارہے تھے ۔
میں نے بہت کوشش کی کہ میں اپنے خوابوں کی کرچیاں اسے چبھنے نہ دوں، لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ ہماری روایات کی تقدیس کے لئے ننگے پاؤں وقت کی کرچیوں پہ چل کر پیر زخمی کرنا ضروری ہے۔
لیکن نازک پیر متحمل نہیں ہو سکتے ان کرچیوں سے ملنے والے زخموں کے ۔اس کے پاؤں شل ہوگئے ،میں اس کو معذور دیکھ رہی تھی ،جس عمر میں لڑکیاں خواب بنتی ہیں انہیں رنگ اچھے لگتے ہیں اس کی آنکھیں تک چھین لی گئیں ۔۔۔
اور اس کے ہاتھ  میں کاسہ   تھما کر اس کے نازک کندھوں پہ اس کے چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داری ڈال دی گئی  ۔۔۔
وہ روز انگلیوں پہ دن گنتی ہے کہ کتنے دن رہ گئے پہلی تاریخ پہ اس بار تنخواہ آئے گی تو چھوٹے کے لئے یہ چیز لے کر آؤں گی ۔۔۔۔جو پچھلے کئی مہینوں سے اس کے لئے مسلسل کہے جارہا ہے ۔اور وہ چھوٹا کہتا ہے آپی مجھے بھی اپنے ساتھ ڈیوٹی پہ لے جاؤ ناں ،میں بھی کام کروں گا تو اور زیادہ پیسہ ملے گا ۔دونوں بہن بھائیوں کی باتیں سن کر میں خود سے نظریں چرا کر وہاں سے نکل آتی ہوں میں رونا نہیں چاہتی لیکن کب تک ۔۔۔۔
میں رولیتی ہوں ۔۔۔۔
اگلے لمحے مجھے اپنے سسر کی بات یاد آتی ہے۔ وہ اک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ جب وہ چھوٹے تھے تو ان کی ماں دودھ بیچا کرتی تھی لیکن ان کو قہوہ چائے پلاتی تھی ۔پورے گاؤں میں دیسی گھی بیچتی لیکن اپنے بچوں کو عام گھی بھی بہت کم مقدار میں کھلاتی تھی ۔وقت نے جب اسے گرادیا وہ معذور ہوکر چارپائی  سے لگی ،اولاد جوان ہوئی  تو میرے سسر کہتے تھے کہ ان کی ماں کے سرہانے صندوقچی رکھی تھی جس میں دودھ اور دیسی گھی بیچ کر اکٹھے کیے گئے پیسے رکھے تھے ۔۔۔۔
وقت نہیں رکا ،اس کے بچے بڑے ہوگئے ،سسر کہتا کہ بار بار ان کی ماں یہ کہتی کہ” کاش میرے بچے پھر سے چھوٹے ہوجائیں اور میں اپنے ہاتھوں  سے ان کو دودھ سے بھرے گلاس پلا ؤں اور دیسی گھی کھلاؤں ۔۔۔۔افسوس وقت گزر گیا وہ پھر سے لوٹ کر نہیں آتا ،بچے بڑے ہو ہی جاتے ہیں، ناز میں نہ سہی سختی اور تنگ دستی میں ہی سہی، لیکن بڑے ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔
سسر کی یہ بات بھی دیکھتی ہوں تو مجھے گزرتی تار یخ پلٹتی محسوس ہوتی ہے کہ میرے بچوں کے ساتھ بھی اسی کی خاندانی تاریخ خود کو دہرا رہی ہے ۔۔۔جبکہ میری بیٹی کے ساتھ میرے خاندان کی گزری تار یخ خود کو دہرائے جارہی ہے ۔
میں بت بنی ہوئی ہوں چپ چاپ فقط آنسوؤں کو ضبط کرنے کی ناکام کوشش میں کبھی خود کے ہاتھوں کی لکیروں کو کبھی اپنی بیٹی کا ہاتھ لے کر اس کی لکیروں میں کھوجاتی ہوں ۔۔۔
لیکن اتنا ضرور ہے کہ اپنے خوابوں کی تعبیر کے لئے میرے خوابوں کو چھیننے والی ماں کو میں کبھی اک بیٹی کا حق نہیں بخشوں گی ۔۔۔
دوسری بار میں اپنی بیٹی کے خواب چھیننے پہ اس کے باپ کو بیٹی کا حق کبھی نہیں بخشوں گی۔
زندگی رہی تو انجام پہ دوسری تحریر ضرور لکھوں گی!

Facebook Comments

ماریہ خان خٹک
میرا نام ماریہ خان ہے خٹک برادری سے تعلق ہے ۔کراچی کی رہائشی ہوں ۔تعلیم ،بچپن اور دوستوں کے ساتھ سندھ کی گلیوں میں دوڑتی رہی ہوں ۔ کتابوں کے عشق اور مطالعے کی راہداری کو عبور کرنے کی چاہ میں خود قلم اٹھانے کی لگن ہے ۔طالب دعا ہوں اللہ تعالی قلم کا حق ادا کرنے کی توفیق دے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply