بٹیر آدمیوں کی بستی۔۔جاوید حیات

اس شام میں ڈھوریہ شیڈ کے صحن میں بیٹھا تھا، جس کے آگے مچھیرے ہشتی اور تاش کھیلتے رہتے ہیں۔ اس وقت بھی چند لوگ تاش کھیل رہے تھے اور دوسرے کونے میں کچھ بچے بٹیر لڑا رہے تھے۔

جالوں سے الجھے مچھیروں کی زرد آنکھیں کسی بچے کے ہاتھ سگ گرے سکے کی طرح میلوں پھیلے نیلے کنارے کو کھوج رہی تھیں۔ دور کولگری وارڈ سے ایک دس سال کا بچہ موٹر سائیکل پہ بیٹھا گراگ پرندے کی طرح دیمی زر ایکسپریس وے پہ اڑان بھر رہا تھا۔ جب وہ ڈھوریہ کے چھاپڑے تک پہنچا تو سیکیورٹی پہ مامور دو اہلکاروں نے اسے پکڑ لیا۔

“تمھیں پتہ نہیں، اس سڑک پر آنے جانے پہ پابندی ہے؟ یہاں بچوں کو اب ٹائر گھمانے اور پتنگ اڑانے کی بھی اجازت نہیں ہے اور تمھاری یہ مجال تم موٹر سائیکل دیمی زر ایکسپریس وے پر جہاز کی طرح اڑا رہے ہو!”

وہاں مجھ سمیت آس پاس بیٹھے سارے مچھیرے اس بچے کا آنکھوں دیکھا حال ریڈیو پہ آنے والی خبروں کی طرح سن رہے تھے۔

تھوڑی دیر میں وہ معصوم بچہ لرزتی زبان سے بولنے لگا، “مجھے بائیک چلانے کا بہت شوق ہے، جب ماما دوپہر کا کھانا کھا کر سو گئے، میں بائیک لے کر چپکے سے نکل پڑا، بس دروازے سے نکلتے ہی اس سڑک پر چڑھ گیا، سوچا چھاپڑا کے سامنے سے اترتے ہی بازار والی گلی سے واپس گھر آ جاؤں گا۔”

اتنے میں دو سپاہی اور آ گئے۔ لڑکا جال میں آئے بٹیر کی طرح پھنس گیا تھا۔ وہ دونوں بچے کی طرف دیکھ کر غصے سے کہنے لگے، “موٹر سائیکل کی نمبر پلیٹ بھی نہیں ہے، صرف تم نے اکیلے نہیں تھمارے مامو نے بھی قانون توڑا ہے۔ تم جب تک وہاں ماہیگیروں میں سے کسی کو ضمانت کے طور پر نہیں لاؤگے ہم تمھیں نہیں چھوڑیں گے۔”

وہ بچہ سڑک سے نیچے آتے ہی لالو کے ہوٹل کی طرف چلا گیا جو کئی برسوں سے بند پڑا ہے، جہاں ناخدا داد کریم، دلمراد، جمیل، بادشاہ، ناخدا اسماعیل بھیا، اسحاق، رشید، رفیق جاڑ، ناخدا اکبر علی رئیس، رسول بخش کوچ، کریم، غلام شاہ اور دیگر مچھیرے بیٹھے تھے۔

اس بچے کی فریاد سنتے ہی ناخدا ھدی ملگ (مرحوم) اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور بچے کے ہمراہ ایکسپریس وے پہ مامور فوجی جوانوں کے پاس چلا گیا۔

“اس سے غلطی ہوئی ہے صاحب، بچہ ہے درگزر کر دو!”

ناخدا بچے پر گرمی دکھاتے ہوئے اردو میں بول پڑا، “جب راستہ بند ہو تو راستہ تلاش کرو، قانون مت توڑو، دوبارہ یہاں نظر مت آنا۔”

وہ بچہ تیزی سے موٹر سائیکل لے کر بازار والی گلی سے بٹیر کی طرح نکل گیا۔

ناخدا ھدی ملگ جب سڑک کے اس طرف مچھیروں کے پاس لوٹا تو سب تالیاں بجانے لگے۔ لیکن ناخدا کی آنکھوں میں ایک اداسی چھلک رہی تھی، جیسے وہ کہہ رہا تھا، یہ بچہ تو غلطی سے پکڑ میں آ گیا اور جلدی چھوٹ بھی گیا۔ اصل میں ہماری سادگی دھوکہ کھا گئی، ہم آدمی سے بٹیر بن گئے، کسی کا کچھ نہیں بگڑا، ہم مچھیرے پکڑ میں آ گئے۔

اب کوئی ہمیں پکائے، کھائے، لڑائے یا بیچ دے، بٹیر سے کوئی اس کی مرضی نہیں پوچھتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہماری زندگیوں سے پہلے ہمارا روزگار دیوقامت مشینوں کی زد میں آ چکا ہے!

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply