معجزے آج بھی ہوسکتے ہیں – 3/انجینئر ظفر اقبال وٹو

وہ نوجوان بڑے غصے میں تھے اوراونچی آواز میں بات کررہے تھے- میں ان نوجوانوں سے نسلی یا صوبائیت پر مبنی بحث سے بچنا چاہ رہا تھا لیکن ساتھ ہی ان کی بات بھی سننا چاہ رہا تھا –آج مجھے اپنے لورالائی جانے کا بھی پروگرام فائنل کرنا تھا لیکن ابھی تک میں ان بے روزگار انجنئیرز کے ساتھ الجھا ہوا تھا-میں نے اپنے سٹاف کو کہہ کر دفتر کے سبزے والے لان میں ایک دائرے میں کرسیاں لگوائیں اور ان انجنئیرز کے لئے جوس منگوایا- ہماری گپ شپ دوبارہ شروع ہوئی تو میں نے انہیں بتایا کہ ہمارے بلوچستان حکومت کے ساتھ کئے گئے مشاورتی سروسز کے معاہدے کے مطابق ہمیں مطلوبہ تعلیمی معیار اور تجربے والے مقامی انجنیئر نہیں مل رہے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں کچھ مجبوری میں سٹاف باہر سے لاناپڑ رہا ہے-
ان میں سے ایک لڑکے نے بڑے کمال کی بات کی – کہنے لگا “سر اگر ہمارے ہاں مواقع ہی نہیں ہوں گے تو ہم کہاں سے سیکھیں گے- اگر ہمیں سیکھنے کا موقع دیا جائے اور ہم پھر بھی نہ سیکھ سکیں تو پھر آپ بھلے جہاں سے مرضی سٹاف لے آئیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا”-میں نے اسے کہا “اس بات پر میرے ساتھ ہاتھ ملاؤ- موقع ہم آپ کو دیں گے اور سیکھنا آپ نے ہے”- ان کے پاس کمپیوٹر سکل، رپورٹ رائیٹنگ اور ٹیکنیکل سکل نہ ہونے کے برابر تھے اور رہی سہی کسر ان کی بے روزگاری نے نکال دی تھی- تاہم اس سب کے باوجود یہ بڑی خوشگواربات تھی کہ اب تک کی گفتگو میں انہوں نے مشکل باتیں کی تھیں لیکن احترام کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا-اسی وجہ سے میں بھی انہیں بھر پور سننا چاہتا تھا-
وہ کل چھ لوگ تھے اور میں نے ان سب کو ہی اپنے پاس تین تین مہینے کے لئے ٹرینی انجنئیربننے کی آفر اس شرط کے ساتھ کردی کہ اگر وہ اس دوران ٹیکنیکل کام سیکھ لیتے ہیں تو ان کی جاب جاری رہے گی اور اگر کوئی بندہ تین مہینوں میں نہ سیکھ سکا تو پھر اس کو نکال دیا جائے گا-انہوں نے مجھ سے کچھ وقت سوچنے کے لئے لئے اور روانہ ہوگئے-میں نے دوسرے دن ہی پی ایم یو جا کر پراجیکٹ ڈائریکٹر صاحب سے سارا قصہ بیان کیا اور ان سے خصوصی درخواست کی کہ اگر یہ لڑکے کام سیکھ جاتے ہیں تو آپ نے ان کے لئے مطلوبہ تجربے والی شرط نرم کردینی ہے تاکہ ہم ان کو مستقل طور پر کام پر لگا سکیں-
ان سب لڑکوں نے ایک ایک کرکے میری پیشکش قبول کرلی تھی اور وہ سب بڑے اچھے طالب علم ثابت ہوئے- اگلے تین مہینوں میں انہوں نے کمپیوٹر اور فیلڈ ورک میں خوب جان ماری-تاہم رپورٹ رآئیٹنگ میں وہ تھوڑے کمزور ثابت ہوئے-جس کا حل میں نے یہ نکالا کہ انہیں ہدایت کی کہ وہ اردو، پشتو، بلوچی یا سندھی جس زبان میں بھی اپنے لئے آسانی سمجھتے ہیں اپنی ٹور رپورٹ ضرور لکھا کریں گے-ان میں سے ایک لڑکا انگلش میں، تین اردو میں اور ایک پشتو میں اپنی رپورٹ لکھ کر ہمیں جمع کراتا جن کو ہم انگلش میں بنا کر اوپر جمع کرادیتے اور ان لڑکوں کو انگلش کاپی دے دیتے تاکہ وہ سیکھ سکیں – ایک لڑکا ٹور رپورٹ لکھنے سے انکاری تھا جس کو میں نے پابند کیا کہ وہ آکر زبانی تفصیل بتا دے گا جس کو ہم لکھ لیں گے-آہستہ آہستہ ان کا ہاتھ کھلتا گیا اور وہ انگلش میں بھی رپورٹ لکھنا شروع ہوگئے-ٹرینی سے فیلڈ انجنیئر بنے- کچھ ڈیزائن انجنئیر بھی بن گئے-ان میں سے ایک بندہ تو بعد میں میری سیٹ پر ڈپٹی ٹیم لیڈر بھی بن گیا-
کام کرنے اور سیکھنے سے ان کے اندر بہت اعتماد آگیا تھا اورہم نے بھی یہ شرط رکھ دی تھی کہ جو بندہ اگلی سیٹ پر ترقی کا اہل ہوجاتا اسے اس وقت تک آرڈر نہ دیا جاتا جب تک وہ اپنے جیسے کسی بے روزگار انجنئیر کو ٹریننگ دے کر اپنی خالی کردہ سیٹ پر کام کرنے کا اہل نہ بنا دیتا-انہوں نے اتنا کام سیکھ لیا تھا کہ سوائے ایک لڑکے کے باقی پانچ لڑکے ایک ایک کرکے بلوچستان پبلک سروس کا امتحان اپنی قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر پاس کرکے حکومت کے مختلف محکموں میں گریڈ-17 میں بھرتی ہوتے گئے-
کھوسو محکمہ زراعت میں چلا گیا حالانکہ دس سال سے بے روزگار تھا- جعفر خان واٹر منیجمنٹ میں بھرتی ہو گیا-وہ بھی چھ سات سال سے فارغ تھا-کریم اور نعیم بلوچ تربت کے رہنے والے تھے آج دونوں گریڈ اٹھارہ میں حکومت بلوچستان کے محکمہ آب پاشی اور محکمہ مواصلات میں الحمد للہ ایکسئین ہیں- چانڈیو صاحب اری گیشبن میں سپرانٹینڈنٹ انجنئیر بننے والے ہیں- عمران صاحب سب سے پرانے بے روزگار تھے- وہ ایم ایس سی انجنئرنگ کرنےکے بعد بھی بارہ چودہ سال سے دھکے کھا رہے تھے—نہوں نے سب سے زیادہ پھرتی دکھائئی اور ٹیم لیڈر تک کے عہدے پر پہنچے- آج کل ملک کے سب نامور مشاورتی ادارے میں ٹیم لیڈر کے طور پر کام کررہے ہیں –
سب سے مزہ بگٹی صاحب کے ساتھ آتا تھا جو کوئی سات فٹ قد کے مالک تھے وہ جب ڈیرہ بگٹی کے سائٹ وزٹ کے بعد کوئٹہ آکر ہمیں گلے ملتے تھے تو یوں لگتا تھا کہ جیسے ابھی ہمیں بچے کی طرح اٹھا کر فضا میں بلند کردیں گے-وہ کافی عرصہ ہمارے ساتھ رہے لیکن بعد میں وہ بھی سرکاری محکمے میں ملازم ہوگئے-وہ ہمارے سٹاف کو ڈیرہ بگٹی کے دور دراز علاقوں میں اونٹ پر بیٹھ کر بھی سائٹ وزٹ پر لے جاتے-
مری صاحب بھی مزے کے آدمی ثابت ہوئے-جب بھی کوہلو سے کوئٹہ دفتر ان کی آمد ہوتی تو ان کے گارڈ ہمارے دفتر کے مرکزی گیٹ اور چاردیواری کے ساتھ دفاعی پوزیشنیں لے کر کھڑے ہوجاتے- انہوں نے ضلع کوہلو اور بارکھان میں بہت فیلڈ ورک کروایا—ان دوستوں نے سرکاری محکموں مین جانے سے پہلے اپنے اپنے حصے کے مزیذ انجنئیرز ٹرین کردئے جوکہ ان کے جانے کے بعد ہماری ٹیم کے ساتھ کام کرتے رہے اور بہت سے تو آج تک بھی کام کررہے ہیں-اس تجربے نے یہ بات ثابت کردی کہ اگر بندہ سیکھنے والا ہو اور اسے مناسب موقع دیا جائے تو بلوچستان کے بچے بھی کسی سے کم نہیں-اس وقت سے آج تک ہمارے فیلڈ ورک کے لئے تقریبا سار ا سٹاف مقامی ہی ہوتا ہے- جن کو ہم نے تربیت دی اور انہوں نے سیکھ کر اپنا مقام بنایا- چند ایک بدنصیب ایسے بھی تھے جنہوں نے اس موقع کو بھی ضائع کر دیا-
بے روزگار انجنئرز کے ساتھ اس یادگار ٹاک شو کے دوسرے دن ہی میں صبح سویرے لورالائی کے لئے نکل گیا-مجھے کوئٹہ آئے ابھی دوسرا ہفتہ ہوا تھا – کچلاک سے جیسے ہی ژوب روڈ پر مڑے تو ڈرائیور نے پوچھا کہ سر کون سے رستے سے جائیں-پتہ چلا کہ لورالائی تین مختلف رستوں سے پہنچا جاسکتا ہے-اسی وقت میرے سیلانی دل نے یہ پروگرام بنا لیا کہ قلعہ سیف اللہ کی طرف سے جا کر زیارت کی طرف سے واپس آئیں گے-
میں نے اس کے بعد یہ اصول بنالیا کہ جس طرف بھی دورے کے لئے نکلتا ہر دفعہ کچھ مختلف راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتا- اس کی وجہ ایک تو میں بلوچستان کے مختلف علاقوں کو دیکھنا چاہتا تھا تو دوسرا آنے والے چار سالوں میں اپنی ٹیم کے فیلڈ وزٹس اور اس حوالے سے پیش آنے والے ممکنہ مسائل کا بھی اندازہ کرنا چاہ رہا تھا- بلوچستان اتنا بڑا ہے کہ صرف کوئٹہ ڈسٹرکٹ کے اندر ہی میری ٹیم ایک دن مین تین چار سو کلومیٹر کا سفر کرکے واپس آجاتی –ان راستوں پر سفر کرکے ہم بعد میں اپنی ٹیموں کے بہتر ٹور پلان بنا سکتے تھے-
ان ویران راستوں کے اسفار نے ہی مجھے بلوچستان کے ان خوب صورت بوڑھے پہاڑوں کے عشق میں مبتلا کر دیا کہ جو شائد صدیوں سے یہاں میرے منتظر کھڑے تھے-ان پر نظر ڈالنا شروع کی تو ان کی خوب صورتی نظر آنا شروع ہوگئی- جب زیادہ غور سے دیکھنا شروع کیا تو انہوں نے میرے ساتھ باقاعدہ بات چیت شروع کردی اور جب ان سے دوستی ہوگئی تو یہ ہر سفر کے بعد میرے اگلے ٹور کے منتظر رہنا شروع ہو گئے-ان پہاڑی سلسلوں کے اندر گھومنے والی ہوا پہلے ہی انہیں ہمارے آنے جانے کی خبر کردیتی اور یہ یر راستے پر اتنی پیاری پیاری شکلوں میں میک اپ کرکے کھڑے ہوجاتے کہ ان سے آنکھ چرانا ممکن نہ ہوتا-اور ان سلسلوں مین ہماری ‘ساوی” گھوڑی اتنے نخرے سے چلتی کہ مجال ہے میرے کئی سالوں کے کام کے دوران ایک دفعہ بھی بند ہوئی ہو یا اس جاپانی گاڑی کے انجن نے کوئی مسئلہ کیا ہو- یہ راستے کے مسلسل کھڈوں پر جمپ لگاتی سیلابی نالوں کے پانیوں کو چیرتی سینکڑوں کلومیٹروں کا سفر کرتی اور کبھی گلہ شکوہ نہ کرتی-
لورالائی بڑا دلچسپ شہر ثابت ہوا تھا اور یہاں سے شمالی بلوچستان کے بہت بڑے علاقے تک آسانی سے پہنچا جا سکتا تھا-کوہلو ، بارکھان، موسی خیل، ژوب اور قلعہ سیف اللہ کے علاقے اس سے قریبی تھے لہذا ہم نے یہاں ایک قدرے بڑا کیمپ آفس بنانے کا پروگرام بنایا جس میں ایک ڈیزائن انجنئیر اور ایک فیلڈ انجنئیر ہر وقت موجود ہوتا-پاس کے باقی ہر ضلع میں ایک ایسوسی ایٹ انجنئر سارا دن اسکیموں پر پھرتا رہتا- لورا لائی ویسے بھی بڑا تاریخی اور پیارا شہر تھا- اس کا مین بازار بہت پررونق تھا جس کو دیکھنے سے زندگی کا احساس ہوتا-اگلے چار سال میں لورالائی کے چپے چپے کو چھان مارا مگر اس کا اتنابڑا علاقہ پھر بھی ختم نہ ہوا- لورا لائی اس وقت سبزیوں کا بادشاہ وہ شہر تھا اور آج بھی ہے جہاں سے پنجاب کے زراعت کے مرکزی شہر سرگودھا تک کی منڈی کو سبزیاں سپلائی ہوتی ہیں-لورالائی کے دشت میں ہی تین سال بعد زندکی اور موت کی کشمکش کا وہ واقع بھی پیش آیا جس کو میں “#بیلے_پر_رات” کے عنوان کے سلسلہ سے پہلے لکھ چکا ہوں-
(جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply