اولاد غلام نہیں ہوتی۔۔

اس تحریر کا مخاطب وہ لوگ ہیں جو ستر اور اسی کی دہائی میں پیدا ہوئے ہیں۔

ہمارے ساتھ جو ہونا تھا ہو چکا۔ جو میخیں اس معاشرے نے ٹھوکنی تھیں ٹھوک چکا، اب بات اگلی نسل کی ہے۔ بہت سی باتیں بس یاد دہانی کے لیےجوہم نے خود بھی بھگتیں لیکن لاشعوری طور پر ہم خود ہی کبھی اب ان کوصحیح مان کر عمل پیرا ہونےلگتے ہیں۔

مشاہدات ہیں اور آراء ہیں آپ کا متفق ہونا لازمی نہیں۔

بچہ کبھی اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوتا۔ ایک خاص عمر تک آپ پر اس کی نگہداشت، پرورش اور تربیت کا ذمہ ہے اور خاص عمر تک ہی آپ کا ان پر اثر ہے اور یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ آپ اسی عمر تک ان کی زندگی میں ریلیونٹ بھی ۔ آپ کے عقائد کچھ بھی ہوں وہ آپ کو ان کی ذمہ داری تو بناسکتے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

بچے آپ کو ذمہ داری سمجھیں گےیا نہیں اس کی پرواہ کیے بغیر ان کو اپنی زندگی جینے کا اور خوشگواری سے جینے کا حق ہر صحتمند معاشرہ دیتا ہے۔

برصغیر میں پیدا ہونے والا بچہ خوف کے سائے اور توقع کی خوفناک بھٹی میں بڑا ہوتا ہےاور قربانی کے چورن پر اپنی زندگی گزار دیتا ہے۔آپ ان کی آگ کو ایندھن دینے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ کیسے؟

۱۔ ان پرعمر اور تجربے کی دھونس جما کر۔
۲- خود کو عقل کُل سمجھتے ہوئے وقت کی تبدیلیوں سے بالاتررہ کے ۔
۳۔ ان کا اخلاقیات اور روایات کے نام پر جذباتی استحصال کرکے۔
۴- ان کی ادب اور تمیز کے نام پر زبان بندی کرکے۔
۵- اور اپنی زندگی کے تلخ تجربات کی آڑ میں بے جا خوف میں مبتلا کرکے۔

لیکن یہ بھی سنیےآج کے دور میں آج کے بچوں پرآپ علمی زعم جھاڑنے کی کوشش بھی مت کیجئے گا۔ وہ جس دور میں پیدا ہوئے ہیں دنیا کا سارا دریافت کردہ علم ان کے ہاتھ کے اس انگوٹھے پر ہے جو وقت آنے آپ کو دکھایا بھی جاسکتا ہے۔

آپ کی زندگی کے تجربات گئے زمانوں کی حسین یاد تو ہو سکتےہیں لیکن اس کے بعد ان کے لیے بس ایک اَن کہی اذیت۔ اور آج کا بچہ جب سدِباب کر سکتا ہے تو کرتا ہے۔ پھر آپ ان کے لیے شاید ایک رکاوٹ سے زیادہ کچھ نہیں۔

یہ بھی بتائے دیتا ہوں آپ بزرگی کی آڑ لے کر ہمدردی تو سمیٹ سکتے ہیں ان کی زندگی میں شمولیت نہیں۔ ان کے قدموں کی زنجیربننا چاہتے ہیں تو کر لیجئے قسمت آزمائی۔ وہ ان زنجیروں سمیت منہ کے بل گر پڑے تو قصور وار آپ ہیں ،وہ نہیں۔

اس نسل کو “مَت” دینے کی کوشش مت کریں، نہ  ہی انہیں جھوٹ اور پیار سے رام کرنے کی کوشش کریں۔ وقت آپ کی رفتار سے بہت آگے جا چکا ہے۔

انسان سیکھنے کے لیے پیدا ہوا ہے اور تا دم مرگ سیکھتا ہے۔ان کو زندگی سکھانے کے ساتھ ساتھ زندگی سیکھیں ۔ آپ کو اپنی علمیت پر بہت ناز ہے تو انہیں ضروربتائیں لیکن زیادہ ضروری ہے انہیں فیصلہ کرنے کااختیار دیں۔

کچھ کام شاید جو آپ کرسکتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ فیصلہ کرنے کا عمل سیکھنےمیں ان کی مدد کریں۔ انہیں اپنےصحیح اور غلط فیصلوں میں شمولیت دیں۔ اور ان کے ساتھ بات کریں۔ انہیں بتائیں زندگی میں ہر فیصلے کا خمیازہ بھگتنا ہوتا ہے۔شاید آپ کے کیے گئے غلط فیصلوں کی وضاحت ان کو غلط فیصلوں سے محفوظ رکھ سکے۔

آپ ان کی زندگی کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ ان سے محبت کیجئے بے انتہا محبت کیجئے۔ بغیر کسی توقع کے۔ وہ آپ کے گھر اپنی رضامندی سے پیدا نہیں ہوئے۔ آپ کا ایک جنسی عمل ان کی پیدائش کی وجہ ہے۔ قربانی کا چورن مت بیچیں۔ محبت کیجئے۔ ان سے مشاورت کیجئے۔ ان کو کانفیڈنس دیں۔ آپ ان کی زندگی میں زبانی کلامی نہیں عملی طور پر اپنی موجودگی کا احساس دیں۔ ان کی خطاؤں کو درگزر کریں۔ ان کو اظہار کی اجازت دیں۔

سب سے بڑھ کر،ان کی بات سنیں،سمجھیں  اور زندگی سے خوشی وصول کرنے کا حق دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ فیس بک وال”معروف میٹھا”۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply