غزل۔۔ڈاکٹر صابرہ شاہین

تیرا جب ذکر ، تیری بات ہوگی
تو رنگ و نورکی،برسات ہوگی

یہی گر تلخیِ حالات ، ہو گی
تو پھر کیا خاک ،ان سےبات ہوگی

غضب کی پیاس ، ہونٹوں پر جمی ہے
ترے آنگن میں تو ، برسات ہوگی

مری یادوں کے جگنو ، ساتھ رکھنا
یقیناً راستے میں ، رات ہو گی

پرندوں سے کہا ، موجِ ہوا نے
جہاں ٹھہرے ،وہیں پر گھات ہو گی

مخاطب جس طرح ، ہو گا ،زمانہ

اسی لہجے میں، اس سے بات ہوگی

شبِ وعدہ بھی آئے گی، یقیناً
کسی دن تو ، ملن کی رات ہو گی

حصارِ جبر ہے اب، ٹوٹنے کو
یہی دو چاردن کی، بات ہو گی

چلو دن ڈھل چکا شاہین، اب تو

Advertisements
julia rana solicitors

وہاں گھر میں اکیلی ، رات ہو گی!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”غزل۔۔ڈاکٹر صابرہ شاہین

  1. بہت عمدہ غزل ہے۔

    یہی گر تلخی، حالات ہوگی
    تو پھر کیا خاک اُن سے بات ہوگی

    حالات ہوگی؟؟؟؟؟؟
    میرا خیال ہے حالات مؤنث نہیں ہوتا۔

Leave a Reply to Dp saher Cancel reply