اٹلی ہے دیکھنے کی چیز(قسط6)۔۔سلمیٰ اعوان

گریمیا سکوائر، وینس کی گلیاں، اکیڈیمیہ آرٹ کا گھر، موت کا سامنا

o چاند رات،گنڈولا،ساتھی اور وینس کا شہرہ آفاق گیت سُننے کو مل جائے تو زندگی کے وہ لمحے قابل ذکر بن جاتے ہیں۔
o بنگلہ دیشی وینس کے گلی کوچوں،چوراہوں اورراستوں پر جابجا بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔
o اکیڈیمیہ وینس کا وہ آرٹ گھر ہے جس پر اٹلی کیا پوری دنیا فخر کرسکتی ہے۔
o جلد بازی اور پھرتیاں موت کو کیسے سامنے لے آتی ہیں۔

اسٹیشن پر اُتری تو سورج ڈھلنے والا تھا اور چہار سو ہر منظر سونے میں نہارہا تھا۔چائے کی بڑی طلب تھی۔ہوٹل بارے ذرا سی بھی پریشانی نہیں تھی کہ راستہ سیدھا اور نزدیک تھا۔مگر کیسی عجیب بات تھی کہ جس میدان میں سے دوپہر کو میں گزری تھی۔اب کھڑی تو یقینا اُسی میں تھی مگر کُنگ سی۔ یہاں،وہاں،دائیں، بائیں بڑا کلاسیکل قسم کا حسن بکھرا دیکھتی تھی۔جواس کی بلندو بالا دیواروں اور اس کے ماحول سے پھوٹ پھوٹ کر باہر آرہا تھا۔اس میں مخصوص مشرقیت والی مانوسیت کی گہری جھلک تھی۔
کونے میں بنگالی لڑکے چہلیں کررہے تھے کہ ساتھ میں انکے کوکھے تھے۔ایک کوکھے کے پیچھے بیٹھی بیوی چھوٹے بچے کی نیپی بدل رہی تھی۔اب میں انکے پاس جاکر باتیں کرنے لگی۔ایک لڑکے نے گرم گرم سموسہ مجھے پکڑاتے ہوئے کہا۔
”سنگھاڑا(بنگالی میں سموسہ)کھائیے۔بنگلہ دیش کو یاد کیجئیے جب آپ وہاں سنگھاڑے کھاتی تھیں۔“
ہائے ظالم نے کیا کیا یاد دلادیا۔وہ رقیہ ہال،اس کی وہ ہال نما کنٹین،کاؤنٹر پر کھڑا وہ مہربان بوڑھا آدمی اور وہ اسکا چُلبلاسا ملازم چھوکرہ جو مجھ سے چھ اور گیارہ نکات پر زور و شور سے بحث کیا کرتا تھا۔بنگلہ دیش کے ذکر پر ہمیشہ میری آنکھیں گیلی ہوجاتی تھیں۔
”ارے تم لوگ کہاں کہاں سے ہو؟ اور یہ کہ کوکھے تمہارے اپنے ہیں یا تم اُن پر ملازم ہو۔ “
تھوڑی دیر ان کے ساتھ گپ شپ کی۔کوئی میمن سنگھ سے تھاتو کوئی باریسال سے۔ یہ خوشی کی بات تھی کہ کوکھے چھوڑ اکثر کی تو دکانیں بھی اپنی تھیں۔
بعض بیویاں بھی ساتھ لائے ہوئے تھے۔پڑھی لکھی انگریزی بولتیں۔ان سبھوں میں احتشام کی بیوی بنٹی نے مجھے بہت متاثر کیا۔ڈھاکہ یونیورسٹی کی پوسٹ گریجوایٹ جو شاعرہ تھی،بہت اچھی گلوکارہ تھی۔اطالوی زبان فراٹے سے بولتی تھی۔شوہر سے زیادہ تیز اور فعال تھی۔ میرے پوچھنے پر کہ مجھے کِس چیز کو بطور خاص دیکھنا چاہیے۔اُس نے میری عمر کا لحاظ رکھے بغیر آنکھیں نچائیں۔
گنڈولا کی رات کی سیر کہ بھلا وینس سے ملاقات مکمل کیسے ہوسکتی ہے؟ہوہی نہیں سکتی۔روایتی مگر رومانی خواہشوں اور خوشیوں کی عکاس۔ہاں مگر کتنے افسوس کی بات ہے۔ کہ راتیں تو چاندنی نہیں اور آپ اکیلی ہیں۔اب بھلا جب راتیں اندھیری ہوں اور بندہ بھی اکیلا اور ہو بھی آپ جیسا۔تو پھر گیارہ بجے کے بعد سو جانا بہتر ہوتا ہے۔
میں ہنسی تھی۔اس کی باتوں میں لُطف تھا۔زندگی اور اسکا حسن تھا۔شوخی اور چنچل پن تھا۔
”بنٹی تصویر کھینچو میں لکھنے والی ہوں تصویروں سے لُطف اٹھانا جانتی ہوں۔“
”اب اگر چاندنی راتیں ہوں، آراستہ پیراستہ گنڈولا ہو،موسیقار بُک ہوں اور آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہوں اور وینس کے شہرہ آفاق گیت”venezia La Luna e Tu” اور “Sole Mio”فضاؤں میں بکھرے ہوئے ہوں تو ماحول کی خوابناکیوں کا کیا کہنا؟
”تصور کریں وہ منظر بصارتوں میں لائیں۔ پانی گنگناتے ہیں۔پُلوں پر کھڑے جوڑے سیاہ ہیولوں کی صورت آپ کی بصارتوں کو قیاس اور واہموں کی پرکھ میں مبتلا کرتے ہیں۔اور جب کھڑکیوں سے چھن چھن کرتی روشنیاں سیاہ پانیوں میں گرتے ہوئے اپنی صورتیں بناتی ہیں۔اور گیت سمجھ نہ آنے کے باوجود آپ کے دل و دماغ میں ہلچل مچادیں تو سمجھ لیں کہ وینس کی سیر مکمل ہوگئی ہے۔“
میں نے بنٹی کو پیار کیا۔ اس سے رُخصت ہوکر میدان میں چلی آئی۔یہاں پرانے قدرے سیاہی مائل بارشوں اور موسموں کے ستم خوردہ شکستہ سے چوبی بینچ پڑے تھے جن میں سے ایک پر جاکر بیٹھ گئی۔مگر بیٹھنے سے قبل اپنے ویکیم کپ میں میدان کے ساتھ والی گلی میں کافی بار سے چائے لے آئی تھی۔آتے آتے اپنے گھر کی تسلی کرآئی تھی۔فروٹ والی بنگالی کی دکان کے ساتھ سیڑھیوں کو بھی چاتی(نظر) مارآئی تھی اور بے حد سکون میں تھی۔
”اُف تو تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔“
چائے کا چھوٹا سا گھونٹ جیسے جسم و جان کِسی انوکھی اور سرور آگیں لذت میں نہا گئے ہوں۔گلاس کے افقی کناروں سے گریمیاGeremia سکوائر میں چوبی بینچ سامنے کوئی تین صدیاں پرانے سہ منزلہ لمبی مگر کم چوڑی کھڑکیوں اور بالکونیوں والے لیبیاLabia محل کو دیکھنا کیسا دلچسپ شغل تھا۔
ملحقہ San Geremia چرچ، اطراف میں گلیوں کے رنگ رنگیلے گھروں کے بنیروں پر آخری دھوپ کو خاموشیوں سے رخصت ہونے کا منظر بھی بڑا موہ لینے والا تھا۔ میدان میں بے نام پر مانوس سی اُداسی کے پھیلاؤ کو محسوس کرنے میں ایک انوکھے سے تجربے میں سے خود کو گزرتا محسوس کرنا بھی پرلُطف تھا۔کبوتروں نے جانے کب اڈاریاں بھر لی تھیں معلوم ہی نہ ہوا تھا۔کیسی مانوسیت ساتھ میں پردیسی تڑکا لگی رونق والا احساس سارے میں بکھرا ہوا تھا۔
اب نئے منظروں کی رومانیت نے ہاتھ تھام لیا تھا۔ ان سبھوں کی موجودگی میں تاریخ نے عقبی سمت گھسیٹا تھا۔جہاں تصّور نے اِس محل کی امیر ترین اور خوبصورت شہزادیوں کوپچھلی سمت کی سیڑھیوں پر نہر کے پانیوں میں اٹھکیھلیاں کرتے دیکھا تھا۔محبتوں اور نفرتوں کی کہانیاں جو دکھوں اور خوشیوں کی رداؤں میں لپٹی ہوئی تھیں۔محل کو دیکھنے کیلئے مخصوص دن ہیں،مخصوص اوقات ہیں۔
افسوس میں نے وینس میں نہیں ہونا اُن دنوں۔
ہوا اپنے دامنوں میں خوشبو بھرے دھیرے دھیرے میرے گالوں کو چھوتی سارے میں بکھر رہی ہے۔ریسٹورنٹوں کے بیرونی پھیلاؤ والے سلسلوں پر تنے شیڈ اِن ہواؤں سے کھیلنے لگے ہیں۔بڑی مدھر سی نغمگی سنائی دے رہی ہے۔سکوائر میں چلتے پھرتے لوگ اور سرپر تنا مٹیالا رنگا آسمان سب کیسا سُرور اور کیف اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔
زندگی کتنی حسین اور ڈرامائی رنگ لئیے ہوئے ہے۔میں اور یہ سب۔جی چاہتا تھا نہ چائے ختم ہو،نہ اِن منظروں میں گھلا سرور۔
دیر تک، بہت دیر تک میں اِس قلعہ بند صحن میں جو اب تیز روشنیوں میں جگمگانے لگا تھا بیٹھی دیکھتی رہی، دیکھتی رہی۔ پھر میری بھوک نے کہا۔
”کچھ خوف خدا کرو۔“
اپنی رہائشی گلی میں داخل ہوئی۔اپنے ہمسائے بنگالی کی دُکان سے تازہ مالٹوں کا جوس پیاڈھائی یورو کا۔ہوٹل کی سیڑھیاں نہیں چڑھی۔سیدھی چلتی گئی۔سامنے پل تھا۔عین اس کے وسط میں کھڑے ہوکر میں نئے نظاروں سے لطف اندوز ہونے لگی۔
نہر کے کناروں پر طعام گاہیں سجی تھیں۔شوقین گٹار بجارہے تھے۔نوجوان لڑکے لڑکیاں کہیں قدیم ڈیوک ز،کہیں رانیوں کے ملبوسات پہنے لوگوں کے ساتھ تصویریں بنواتے تھے۔رات جوان تھی،حسین تھی اور گیت گارہی تھی۔کتنی دیر میں یہ گیت سُنتی رہی۔
پھر سامنے والی گلی میں اُتری۔دورویہ دکانوں کے ساتھ اُس کا درمیانی حصّہ بھی چھوٹے چھوٹے کھوکھوں سے سجا ایک طرح بنگالیوں کے ہاتھوں یرغمال ہوا پڑا تھا۔ہنس مکھ لڑکے لڑکیاں کہیں موسک پہنے،کہیں تاریخ کا کوئی کردار بنے ہنستے مسکراتے سیاحوں کو لُبھا رہے تھے۔
رات تو کہیں نظر نہیں آتی تھی۔ہر شے بقعہ نور بنی نظروں میں جیسے اُجالے بھرتی تھی۔تھوڑا سا ہی چلنے پر میرے بائیں ہاتھ ایک گلی مڑی۔اس میں داخل ہوئی۔دائیں بائیں رنگا قسم کے مکان جو ہوٹلوں کا روپ دھارے بیٹھے تھے۔یہ ریسٹورنٹ اس وقت کاروباری عروج پر تھے۔ اندر اور باہر گلی کے تھوڑے سے حصّے میں بھی ہر ایک کی میزیں سجی تھیں۔تھوڑا سا چلنے کے بعد واپس آگئی۔تین چار گلیوں کے سیر سپاٹے ایک میدان میں لے گئے۔جہاں بھریے میلے کا سا سماں تھا۔بینچ پر بیٹھتے ہوئے نظریں زمینی سطح سے اونچے پختہ ایک گول دائرے نما اوپر سے ڈھنپی چیز پر پڑیں۔
”یہ کیا کوئی فلتھ ڈپو ہے۔“خود سے سوال کیا۔
عقبی نشست پر بیٹھی دو لڑکیوں کو دیکھا جنکے ساتھ ایک نوجوان بھی تھا۔لڑکیاں استنبول سے تھیں۔سچی بات ہے تن پر دھجیاں ہی لپیٹ رکھی تھیں۔لڑکا اٹلی سے تھا۔خوش طبع اور ملنسار سا۔
اسی سے میں نے جانا تھا کہ یہ فلتھ ڈپو نہیں بلکہ کبھی پانی کے کنوئیں تھے اب انہیں بند کردیا گیا ہے۔تفصیل خاصی دلچسپ تھی کہ پانیوں میں گھرے شہر میں پینے کے پانی کا بڑا مسئلہ تھا۔صدیوں تک تو مقامی لوگوں کو پانی کے حصول میں بہت دقّت اور پریشانی اٹھانی پڑتی تھی۔ کوئی نویں صدی میں انہوں نے بارشوں کا پانی شہر کے مرکزی چوکوں میں اکٹھا کرنا شروع کیا۔اِس غرض سے چونے کے پتھر کی بڑی بڑی انگھیٹیوں میں مٹی کے بڑے بڑے ٹب رکھے گئے۔پانی فلٹر ہوکر اُن میں جمع ہوتا اور لوگ بالٹیوں سے ضرورت کا پانی اِن کنوؤں سے نکال لیتے۔کہیں انیسویں صدی میں جاکر پہاڑوں سے بڑے بڑے پائپوں سے پانی کا حصول ممکن بنایا گیا۔
واپسی کیلئے قدم اس وقت اٹھائے جب آنکھوں نے مزید نظارے جذب کرنے،کانوں نے مزید راگ سننے اور جسم نے مزید بیٹھنے سے انکار کردیا۔
ساری رات ہی جب جب آنکھ کُھلی۔نیچے گلی میں لوگوں کی باتوں،قہقوں اور گیتوں نے متوجہ کیا۔یہ اور بات ہے کہ میں نے آنکھیں کھولنے کی بجائے انہیں بند رکھنے اور نیند میں ڈوب جانے کو ترجیح دی کہ صُبح جلدی اٹھنا تھا۔افضال کی بات میں نے پلّے سے باندھی تھی کہ اکڈیمیہAccademia ضرور دیکھنا ہے۔جائیے بھی جلدی۔وہاں لوگوں کی ایک مخصوص تعداد کو ہی ایک وقت میں اندر جانے دیا جاتا ہے۔
کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دن چڑھے تک سونے یا اینٹھنے کی عیاشی ہو۔دونوں کو جیسے
مجھ عاجز مسکین سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔رات میں نے تن کی قمیض کو اُتارکر دھو ڈالا تھا۔چلو شکر وہ سوکھی پڑی تھی۔غسل سے فارغ ہوکر میں نے کمرے کی ہر چیز کو اُسی ترتیب اور صاف سُتھری کرنے کی کوشش کی جیسی میرے کمرے میں آنے سے قبل تھی۔شاید میں پاکستانیت کا ایک اچھا تاثر چھوڑنے کی خواہاں تھی۔آٹھ بجے تک سب کاموں سے نپٹ نپٹا ہوگیا تھا۔ناشتے کی شدید طلب تھی اور جلدی بھی تھی۔ سوچا کہ میرے پاس کونسا سامان ہے جس کیلئے مجھے واپس آنے کی ضرورت ہے؟بس چیک آؤٹ ہوتی ہوں۔
اب نیچے سیڑھیوں پر کھڑی سوچتی ہوں کہ چابی کِسے دوں۔بندہ نہ بندے کی ذات۔چند لمحے کھڑی سوچتی رہی۔پھر سیڑھیوں پر ہی پیتل کی اُس بھاری بھرکم چابی رکھ کر پوڈے اُتر کر سڑک پر چلتے لوگوں میں شامل ہوگئی۔
”میں کیا کروں؟اُس عیار عورت کو کہاں ڈھونڈوں؟بھاڑ میں جائے۔“
قریبی کافی بار میں جاکر چائے کا پوچھا۔کھانے کیلئے جام لگے سموسے ٹائپ بند لئیے۔ناشتہ کیا اور پھر اکیڈیمیہ کیلئے ویپوریٹو پر چڑھ دوڑی۔
نظروں کو بھانے والی پہلی چیز خوبصورت چوبی اکیڈیمیہ برج کو دیکھنا اور اسکی سیڑھیاں اُتر کر اِس آرٹ میوزیم کے صحن میں داخل ہونا تھا۔عمارت کا چہرہ پروقار اور سادگی سے بھری ہوئی سفیدی لئیے نظروں کو گرفت میں لیتا تھا۔
اندر داخل ہونے پر لطیف سی خنکی نے استقبال کیا تھا۔بھانت بھانت کے لوگ تھے۔کچھ بینچوں پربیٹھے،کچھ باتیں کرتے کاش میرے ساتھ بھی کوئی ہوتا۔صورت حال کا جائزہ لینے کیلئے اِدھراُدھر چکر کاٹے تو پندرہ یورو کا ٹکٹ پتہ چلا۔آڈیو گائیڈ کیلئے چھ یورو۔یہ فیصلہ تو پل جھپکتے ہی میں تھا کہ اِس لینج کوتو گلے سے لگانا ہی لگانا ہے کہ راہبری کی یہ ٹیکنیک بڑی ماڈرن ہے۔ہیڈ فون والی اور اس کے بغیر بات نہیں بنے گی۔اس عذر کی کوئی اہمیت اور جواز نہیں تھا کہ گائیڈ سے میرے تو پلّے خاک نہیں پڑنا۔کتابیں جو ہیں راہنمائی کیلئے۔آپ کو یہ پیسے بھرنے ہی بھرنے ہیں۔سو بھرے۔
انگلینڈ سے آئے ایک ہنس مکھ سے جوڑے سے ہیلو ہائے ہوئی تو جانا کہ اگر میں اتوار کو آتی تو داخلہ مفت ہونا تھا۔معلوم ہوا تھا کہ ہر مہینے کی پہلی اتوار داخلہ فری ہے۔افسوس کا تو کچھ فائدہ ہی نہ تھا کہ میرا تو کوئی پروگرام بھی Planned نہیں تھا۔لائن لمبی تھی۔میں تو اپنے ملک کی طرح سینئر سیٹزن کا شور نہیں مچا سکتی تھی کہ میرے آگے پیچھے کھڑے سب سینئر سیٹزن ہی تھے۔موٹے تازے بھی تھے اور تگڑے بھی۔یقینا انکے گٹے گوڈوں میں ہماری طرح دردورد نہیں ہوگا۔
ٹکٹ والی لڑکی سے مکالمہ دلچسپ رہا۔ٹکٹ کا حصول والا مرحلہ اگر کچھ تھکا دینے والا تھا تو وہیں یہ ساری سرگرمی لُطف دینے والی بھی تھی۔
فسٹ فلور کی سیڑھیاں آرام دہ، چھت شاندار منفرد اور شاہکاروں سے لبالب بھری ہوئی تھی۔چھوٹے چھوٹے آئی کونک چہرے چار سنہری پروں میں مقید تھوڑا سا روکتے تھے۔
سچ تو یہ تھا کہ یہ وینس کی نشاۃ ثانیہ کا عکاس، آرٹ کا شاہکار عجائب گھر جسمیں
وینس کے آرٹ سے محبت کرنے والے خاندانوں اور آرٹسٹوں کے شاہکار آویزاں ہیں۔
تقریباً اس کی بنیاد 1750 میں رکھی گئی۔شروع میں تو نام وینس آرٹ اکیڈیمی تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی گئیں۔پھر اٹلی کی منسٹری آف کلچر اور ہریٹیج نے سنبھال لیا۔
کیا دنیا تھی یہاں۔تخلیق کے چشمے دیواروں پر پھوٹ رہے تھے۔حکومتی سطح پر ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی کوشش ہوئی کہ کمروں میں بیٹھنے اور نظارے لوٹنے کا بہت خوبصورت انتظام تھا۔اسی نظام نے مجھے اپنی بساط سے بڑھ کر اس کی سیر کروائی۔گو میں نے اس سمندر سے صرف پانی کے دو تین قطرے چکھے کہ میرے بس میں نہیں تھا کہ میں اسمیں نہا سکتی،تیر سکتی۔میں آرام کرتی، اٹھتی اور پھر چل پڑتی۔مدد بھی کافی ملی کہ اسطرف چلی جائیے۔Titian کے شاہکار زیادہ وہاں ہوں گے۔Giovanni Belliniکیلئے
ادھر جائیں۔
میں نے Tintorettoدیکھا۔جینٹل بلینیGentileکودیکھا۔دونوں بھائیوں میں فرق کو دیکھنے کی کوشش کی۔بلینی Gentile Belliniکی سولہویں صدی کے وینس کی ثقافتی زندگی کی جھلکیاں مارتی کینوس پر کی گئی پینٹنگ۔کیا بات تھی۔مکان،پل،کشیتاں لوگ ہر شے جیسے بولتی اور تاثر دیتی تھی۔کچھ ایسی ہی عکاسی سینٹ مارک گرجا گھر کی ہے۔500سال قبل کا وینس کیسا تھا۔چونکہ کل کا دن اُس آنگن میں گزار کر آئی تھی اس لئیے اُسے اُسکے قدیم رنگ میں دیکھنا مزے کا کام تھا۔
Jacopoہو یاPaolo veronese مجھے ایک بات کا شدت سے احساس ہوا تھا۔انہوں نے مذہب اور مذہبی شخصیات کو جسطرح پوٹریٹ کیا۔یقینا عیسائیت
کا احیاء اِن ہی لوگوں کا مرہون منت ہے۔
تھوڑی سی مٹرگشت قریبی گلیوں کی کی۔تیسری چوتھی منزل کے ہوٹلوں کے نیلے پیلے عنابی تولیے گلیوں کے وسط میں پانیوں کے اوپر لٹکے سوکھتے دیکھے۔
لوگوں سے باتیں کیں۔کچھ میرے پلّے پڑا کچھ نہیں پڑا۔
تو شام کو شہرسے رخصت ہوتے ہوئے میں نے بے اختیار کہا تھا۔
”اے میرے خوابوں کے شہر وینس میں تجھ سے رخصت ہوتی ہوں بھادوں کے مہینے میں۔ہاں افسوس صد افسوس میں گنڈولا کی سیر نہ کرسکی۔وینس تمہارے شہر کا یہ تفریحی موڈ اکیلے بندے کو وارا کہاں کھاتا ہے؟لیکن تم قطعی فکر نہ کرو۔بنٹی نے مجھے تصویر تو دکھا دی ہے۔“
جب اسٹیشن پر واپسی ہوئی تین بج رہے تھے۔آج میرے ہر کام میں اطمینان اور سکون تھا۔میں اُسی مخصوص ریسٹورنٹ میں داخل ہوئی۔چھ یورو کے چھ کیلے،دو دودھ کی بوتلیں،پانی،ویجی ٹیبل پیزا اور Nuts لئیے۔گذشتہ ساری محرومیوں کے ازالے کاپکّا پکّا فیصلہ تھا۔
ریسٹورنٹ کے ساتھ اگلی جگہ لوگوں کے بیٹھنے اور کھانے پینے کیلئے مخصوص ہے۔یہیں بڑی دلچسپ ملاقات ویلز کے مسٹر میخائل سے ہوئی جس نے ازخود گفتگو کا دروازہ کھولا کہ کِس ملک سے ہیں؟پاکستان کا سُن کر اتنا خوش ہوا کہ میں حیرت سے اُسے دیکھنے لگی تھی کہ مسئلہ کیا ہے؟بہرحال یہ تو خیر بعد میں جانی تھی کہ اُسکا ہمسایہ ڈاکٹر طارق اور اسکی بیوی ڈاکٹر ثمینہ طارق سے اُس کے گہرے دوستانہ تعلقات ہیں۔اسکی پوری فیملی دونوں میاں بیوی کی بے حد شکرگزار رہتی ہے کہ پاکستانی جوڑا انکی چھوٹی موٹی طبّی مدد کیلئے ہمہ وقت حاضر رہتا ہے۔کیسا علم سے لدا پھندا آدمی تھا۔تاریخ سے گہری دلچسپی بات بات میں چھلک رہی تھی۔
یونان تہذیب و ثقافت کی ماں ہے پر لمبا چوڑا لکچر سُننے کو ملا تھا۔پاکستان تاریخی و ثقافتی لحاظ سے بڑا امیر ملک ہے۔شکر ہے پاکستان بارے ایسا جملہ کِسی یورپی سے سُننے کو ملا۔
دیر بعد معذرت کرتے ہوئے اٹھ کر چکرلگایا تھا۔ابھی آدھ گھنٹہ باقی تھا۔ٹرین ٹریک کے عین سامنے میری عمر کے مردوں کا ایک ٹولہ اپنے سازو سامان کے ساتھ کھڑا انفرمیشن بورڈ پر گاہے گاہے نظریں دوڑاتا نظرآیا تھا۔توجہ کھینچے والی دو باتیں تھیں۔ایک انکی غیر معمولی مستعدی اور دوسرے انکے قہقے۔سب کے سب مرد تھے۔
”چلو ذرا اِن سے تو گپ شپ کی جائے۔“میں خود سے کہتی ہوئی انکے پاس جاکھڑی ہوئی۔
باتیں کیں تو جانی کہ فرانس سے ہیں۔سیرسپاٹے کیلئے نکلے تھے۔میلان جانا ہے اور میرے والی ہی ٹرین میں سوار ہونا ہے۔
گلے گلے تک طمانیت سے بھر گئی۔ اُس ٹولے کے عین سامنے گرینائٹ کے چھوٹے سے چبوترے پر بیٹھ گئی۔جونہی اُن مردوں نے سامان اٹھا کر دُڑکی لگائی۔تعاقب میں میری بھی تیزی تھی۔بوگی نمبر7میں سوار ہوکر تصدیق کی کہ گاڑی میلان ہی کے لئیے ہے۔تسلّی ہوجانے پر سیٹ تلاش کی۔اور سکون کا لمبا سانس بھرا۔
جو نصف درجن کیلے وینس سے لے کر چلی تھی۔اُن میں سے تین تو ٹرین میں راجے راجے کھاندے کے شوق کی بھینٹ چڑھے تھے۔جب میلان پہنچی بقیہ تین بیچارے چار گھنٹوں میں ہی پور پور زخمی ہوگئے تھے۔پھینک دوں۔جیسے خیال نے فوراً کلیجے کو ہاتھ ڈال دیا تھا۔
”اف تین یورو یعنی تین سو پنتالیس روپے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دوں۔ہائے میرا ملک بے چارہ غریبڑا سااتنا سستا۔چتری والے گڑ جیسے میٹھے،بے حد ذائقہ دار درجن بھر صرف پچاس روپے میں۔ایک وقت میں بندہ رج کر کھالے تو دوسرے وقت کا صرفہ مارسکتا ہے۔“
اب جانے کہاں سے مسز ارشد یاد آئیں۔ٹوٹکوں سے شافی علاج کرنے والی ایک دن سرراہ مل گئیں۔دعا سلام کے بعد بولیں۔
”گوڈوں کا سستا اور دیسی علاج چالیس دن گلے سڑے کیلے کھاؤ۔دیکھنا ڈاک گھوڑے جیسے رواں ہوجائیں گے۔“
دو تین بار اس نسخے کو آزمانا چاہا پر جسے بچے منہ نہ لگائیں اُسے کیسے گلے سے اُتارتی۔
اب سنٹرل اسٹیشن سے باہر نکل کر لانوں کے کنارے بنی پتھر کی سلیب پر بیٹھ کرپہلے تو موسم کی رنگینیوں کو جی بھر کر دیکھا۔دلکش سماں چاروں اور بکھرا ہوا تھا۔جھولتے جھومتے پھرتے بادلوں کو شوق سے دیکھتے ہوئے ہاتھوں سے پکڑنے کو جی چاہا تھا۔ہواؤں کی تیزی اور لطافت کوسوں سوں کرتے اپنے اندر اُتار ا۔جب موسم کے حُسن سے نظریں رج گئیں تب بقیہ اُن تینوں کو دوائی جان کر ” اللہ شافی اللہ کافی “کہتے ہوئے ہڑپ کرگئی۔لمحہ بھر بعد گوڈوں کو بھی پھیلا پھیلا کر دیکھنے لگی کہ ہتھیلی پر سرسوں جمانا میری گندی اور پرانی عادت ہے۔
میٹرو اسٹیشن Republica مرکزی ریلوے اسٹیشن سے نصف فرلانگ پر ہے۔یہاں سے چیزاتے تک سیدھی میٹرو جاتی ہے۔اور میں اِس تھوڑے سے چلنے کو دو دو گاڑیاں بدلنے اور ٹکٹوں کے جھمیلے میں پڑنے پر ترجیح دیتی تھی۔یونہی اسٹیشن کے سامنے پہلے گول چکر پر پولیس کی گزرتی گاڑی والوں سے ریپبلیکاکا پوچھ بیٹھی۔کمبخت نے الٹے ہاتھ کا اشارہ دیا۔
”ہیں اُلّو کا پٹھا ادھر کدھر ہے؟خود سے سوال جواب اور ساتھ ہی شکوک و شبہات کا بھی سلسلہ شروع۔اب کھڑی نشانیوں کو دیکھتی ہوں۔
”نہیں بھئی نہیں۔کمبخت مارے پیئے ہوئے لگتے ہیں۔“
عقل نے جدھر کی نشان دہی کی اسی پر چلی اور بالآخر بورڈ نظر بھی آگیا۔تہہ خانے کے منہ سے ایک بوڑھی عورت نکلی جس نے چنترال کا پوچھا تھا۔کھڑے ہوکر اُسے تسلی سے سمجھایا اور خود کو تھپکی دی کہ
”واہ بھئی واہ کیا بات ہے؟ اب تو تو بھی بتانے جوگی ہوگئی۔“
سیڑھیاں اُتری۔تو ایک نئی مصیبت انتظار میں تھی کہ اگست سے سکولوں،دفتروں میں چھٹیوں کی وجہ سے گاڑیوں کی تعداد میں کمی کردی گئی تھی۔پتہ چلا کہ دوگاڑیاں بدلنی ہوں گی۔
”لو بھئی موسیٰ ڈریا موت توں تے موت اگے۔ چیزاتے کیلئے سرونو جانا پڑے گا۔“
جی چاہا تھا سر پیٹ لوں۔چھٹیوں کی وجہ سے اسٹیشن پر وہ معمول کی گہما گہمی بھی مفقود تھی۔مجھے اور تو کچھ سمجھ نہ آئی بس یونیفارم پہنے مرد کا بازو پکڑا اور اُسے کہا کہ وہ میری مدد کرے۔اُس نے غالباً ڈیوٹی پر اکیلا ہونے کی وجہ سے کچھ لیت و لعت سے کام لینے کی کوشش کی۔ پھسکڑا مار کر وہیں فرش پر بیٹھ گئی۔پیسے پہلے ہی “ٹکٹ ٹکٹ “کا کہتے ہوئے اس کی تلی پر رکھ بیٹھی تھی۔
تھوڑی دیر بعد اُس نے ٹکٹ نکالا۔مجھے اپنے پیچھے آنے کا کہا۔خودکار زینے سے اتر کر دوسرے پلیٹ فارم پر ابھی پاؤں دھرا ہی تھا کہ گھڑ گھڑ دھڑدھڑ کرتی ٹرین کا اسٹیشن کی حُدود میں آمد کا غلغلہ بلند ہوگیا۔ اُس نے مجھے بھگاتے ہوئے ڈبے میں کھڑے اپنے جیسے یونیفارم پہنے نوجوان لڑکے کے حوالے کرتے ہوئے کچھ بتایا۔
میں نے ابھی اندر قدم رکھا ہی تھا کہ سامنے کھڑی ایک فربہی سی لڑکی نے مجھے بازوؤں میں سمیٹ لیا۔یہ ماریہ سولی تھی۔آسٹرین۔جو میلان میں اپنے ملک کے قونصلیٹ میں نوکری کرتی تھی۔اب گھر جارہی تھی۔گھر جو چیزاتے سے تین سٹاپ آگے تھا۔تین چھوٹے چھوٹے بچوں کی ماں۔
سرونو اور آگے چیزاتے تک ماریہ نے اسی توجہ اور محبت سے میرا خیال اور دلداری کی جیسے ایک اچھی بیٹی اپنی ماں کی کرتی ہے۔یہ اور بات ہے کہ سیڑھیاں چڑھ چڑھ اور اُتر اُتر کر حشر ہوگیا۔ اُس کا منہ ماتھا چوم پر جب اپنے اسٹیشن پر اُتری تو بادل گہرے تھے اور بوندا باری مسلسل ہورہی تھی۔
اقبال کو فون کرنے سے قبل میں نے سوچا کہ میں کیفے بار سے پہلے چائے پیوں گی اور پھر اُسے بلاؤں گی۔
پلیٹ فارم پر کھڑے موسم اور اُس کی رنگینیوں سے تھوڑا لطف اٹھانے کے بعد لفٹ میں داخل ہوئی۔نیچے راہداری میں آئی اور دوسری سمت کی لفٹ میں داخل ہونے کی بجائے پہلے آنے والی میں داخل ہوگئی جس نے مجھے دوسری طرف تو پہنچا دیامگر آ ہنی قدآور جنگلے بستی اور میرے درمیان حائل تھے۔میں نے بارش سے بھیگتے بھاگ دوڑ کی کہ مجھے کوئی چھوٹا موٹا دروازہ نظرآجائے جسے کھول کر میں آگے چلی جاؤں۔دروازہ نظر ضرور آیامگر وہ لاک تھا۔
سلاخوں کے پیچھے بار کے سامنے کھڑے چند لوگوں نے اشارہ کیا کہ مجھے واپس جاکر دوسرے راستے سے آنا چاہیے۔اب پاکستانی ذہنیت اور شارٹ کٹ راستے کی تلاش اورجلد بازی۔پٹڑیوں کے درمیان سے چل کر پلیٹ فارم پر پہنچنے کی پھرتی مارنے کی کوشش کی۔ابھی ایک لائن کراس ہی کی تھی کہ پیچھے سے ہاہا کا شورسنائی دیا۔
اب جو مڑ کر بارش کے قطروں سے بھری عینک کے عقب سے دیکھتی ہوں تو وہاں کھڑے دو تین مرد دا ہنی سمت اشارہ کررہے ہیں۔
اب جو نظر کو پلٹا دیتی ہوں تو خون جیسے رگوں میں جم جائے والی کیفیت کا گمان ہوا۔خدایا کیا کوئی لمحہ ایسا خوفناک بھی ہوسکتا ہے جسکا میں نے آبتک کی زندگی میں سامنا کیا ہو۔
”کیسے میں نے واپسی کی۔ پٹڑی پار کی کیسے پلیٹ فارم کے سیمنٹ کے بڑھاوے پر جھولنے جیسی کیفیت میں لٹکی گھڑ گھڑ دھڑدھڑ کرتی گاڑی کو گزرتے محسوس کیا۔درمیانی فاصلہ بس ڈیڑھ دو فٹ کا ہی ہوگا۔
میں حیران تھی میرے دل نے دھڑکنا کیسے جاری رکھا؟میرے بچوں کی دعائیں یا پھر میری اُس اوپر والے کے حضور التجائیں۔
میں بارش میں بھیگتی رہی۔دیر بعدسیدھی ہوئی۔ نیچے اُتری۔دوسری لفٹ سے اوپر آئی۔کیفے میں داخل ہوئی۔لوگ خوش گپیوں اور پینے پلانے میں مصروف تھے۔
سوچ نے چال کے پاؤں میں ذرا سی اڑنگ ڈالی۔یہاں بیٹھے کسی بندے کو معلوم ہے کہ اندر آنے والی یہ عورت موت کے پنجوں سے چھٹ کر آئی ہے۔
بڑا لمبا سانس سینے کے اندر سے نکالا تھا۔بیس گز پرے اس خوبصورت عمارت کے عقب میں پٹڑیوں پر قیمہ بنی لاش نے صرف لمحہ بھر کی ہلچل مچانی تھی۔پل بھر کی خبر اور یہاں موجود لوگوں کا لمحے بھر کا تبصرہ۔
کیسی احمق ہوں میں۔نری کھوتے کی کُھر۔کیسے یہ سوچا تھا کیفے بار میں داخل ہوں گی تو ہر کوئی دیکھے گا اور پوچھے گا۔ان کے تو فرشتے کو بھی پتہ نہیں ہوگااور اگر کسی کو ہوگا بھی تو کیا؟اپنے ملک میں یہ سب نہیں ہوتا۔سڑک پر لاش پڑی ہے اور گاڑیاں زن زن کرتی پاس سے گزرجاتی ہیں۔ زندگی کا بس یہی چلن ہے۔
کرسی پر بیٹھ کر ٹشو سے عینک کو صاف کیا۔چہرے کو خشک کیا۔بالوں میں کنگھا چلایا اور کاؤنٹر پر جاکر چائے کا آرڈر کیا۔شوکیسوں میں پڑے بسکٹوں اور پیسٹریوں کو دیکھا اور جو نظروں کو بھائی اس کی طرف اشارہ کیا۔
واپس اپنی میز پر آتے ہوئے قیمہ بنی لاش کے منظر بڑے دہلانے والے تھے۔”گور پیا کوئی ہور”والی بے نیازی نے آج منہ چھپالیا تھا۔چائے کے پہلے گھونٹ کا جیسے حلق سے نیچے اُترنا گویا شکریے اور عبودیت کے اتھاہ جذبات کا اظہار تھا۔
فون کرنے پر اقبال کِسی دوست کی گاڑی مانگ لایا تھا کہ بارش اب تیز ہوگئی تھی۔باہر نکلنے سے قبل میں نے ماحول کو کھلکھلاتے دیکھا اور سوچا۔
دنیا کے سمندر میں گرتے ایک قطرہ کی وقعت اور اوقات کتنی؟
اقبال وینس کے بارے پوچھ رہا تھا۔
بڑا شاندار اور یادگار ٹرپ۔میں ہنسی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments