روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے
نگاہ دل سے ترے سرمہ سا نکلتی ہے

—–
ستیہ پال آنند
نگاہ دل سے نکلتی ہے؟ “سرمہ سا” بھی ہے؟
نظر کا “سرمہ سا ” ہونا تو قول ِ صالح ہے
نظر کا “دل” سے نکلنا ؟ ۔۔۔ چہ معنیء دار د؟
حضور ، یہ بھی بتائیں کہ کیا تعلق ہے
“خموشیوں میں تماشا ادا” نکلنے کا؟

مرزا غالب
تمہی بتاؤ، عزیزی، کہ کیا سمجھتے ہو

ستیہ پال آنند
اگر ہو مر گ مفاجات تو بھی حاضر ہوں
عجب ہے کشمکش دل میں، مگر ذر ا سنیے
کہ دیکھنے میں تو سادہ ہے اس کی وضع مگر
کمال گنجلک ہے شعر، واژگوں، بے طور
کوئی خضوع نہیں، سجع غیر حاضر ہے
مگر عمیق نظر سے تو کچھ بعید نہیں
“نگا اہ دل سے ترے سرمہ سا نکلتی ہے”
اسی کو دیکھ لیں پہلے اگر اجازت ہو

مرزا غالب
کھڑ ا ہوں گوش بر آواز ، تم کہو تو سہی

ستیہ پال آنند
“نگاہ”، “سرمہ سا” اور “دل” ، انہیں ذرا دیکھیں
“نگاہ” میں ہی چھلکتا ہے “دل” کا پیمانہ
نظر کا دل سے سفر چشم تک بھی طے سمجھیں
پر اس کا “سرمہ سا” ہونا کہاں کی منطق ہے؟
حضور ، آپ کچھ فرمائیں اس کے بارے میں

مرزا غالب
عزیز ِ من، یہ تمہاری سمجھ میں آئے گا کیا
کہ سُرمہ کھانے سے آواز بیٹھ جاتی ہے؟
دبی، گھٹی ہوئی، ڈرتی ہوئی، ٹھہرتی ہوئی
نظر کا “سرمہ سا ” ہونا یہی بتاتا ہے

ستیہ پال آنند
اگر “نگاہ” اور “آواز”منسلک ہیں یہاں
تو کیا کہیں گے اس الحاق کو، اضافہ کو؟

مرزا غا لب
نگاہ کا بھی تو اک انداز ہے تکلم کا
“اشارہ”، “غمزہ” ہے بے نطق بولنے کا طریقِ
چلیں تو اب، میاں، ہم مصرع ِ اولیٰ کی طرف
خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے۔۔۔۔۔

ستیہ پال آنند
نگاہ کیسے نکلتی ہے آنکھ سے ؟ یہ سوال
جواب میں ہی توملفوف ہے بہر صورت
خموش رہنا بھی انداز ہے تکلم کا
یہی “تماشا ادا” کی ہے صورتِ اظہار

Advertisements
julia rana solicitors

مر زا غالب
یہی ہیں اصل معا نی، جہاں تلک سمجھو
نہاں ہے ان میں ہی معشوق کی بصیر ت ِ قلب!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply