معرفت کا جام

*افسانہ*
*معرفت کا جام*

Advertisements
julia rana solicitors london

اس دھند اور شور نے سب کچھ ہی چھپا لیا ہے۔۔۔ ذات۔۔۔حقیقت۔۔سچائی ۔۔۔ پہچان۔۔۔۔ سب ہی کچھ۔۔۔۔ کبھی رات کی سیاہی تو کبھی دن کا شور۔۔۔۔ اپنی ہی پہچان سے دور رکھنے میں کارگر ثابت ہوئی۔۔۔۔ سیاہی و سفیدی میں گھلی ہوئی زندگی کسی تلخ مشروب کی مانند حلق میں اپنی کڑواہٹ انڈیل رہی ہے ۔۔۔ ہاں اسی کڑوی کسیلی دوا کی طرح جو بچپن میں بیمار ہوجانے پر پینا لازم ہوتا مگر اس شرط پر کہ ہر گھونٹ کے ساتھ ماں ایک ٹافی ضرور دیگی۔۔۔
ہائے ستم ظریفی کہ زندگی کی کڑواہٹ کو زائل کرنے والی شیرینی نہیں بلکہ مزید تلخی ہوتی ہے جسکے ہر نئے گھونٹ پر پچھلا گھونٹ کم کڑوا محسوس ہوتا ہے۔۔
اپنی داستان الم سناتے ہی اسنے ایک آہ بھری۔۔
میں نے بھی تہیہ کر ہی لیا تھا زندگی کو مثبت زاویے سے دکھانے کا۔۔ بھر پور کوشش کی ایڑھی چوٹی کا زور لگا لیا مگر وہ نہ مانی اور اداسی کا استعارہ بنی بیٹھی رہی۔۔ اپنی غیر منطقی دلائل سے میری ہر دلیل کو رد کرتی رہی۔۔۔ میں نے بھی ہار نہ مانی اور کوشش جاری رکھی۔۔۔
خدا کی بندی خدا کو کیوں نہی مانتی۔۔۔ آخرکار یہ دھند اندھیرے اور سیاہی کچھ لمحوں کے لئے تو حقیقت پر پردہ ڈال سکتے ہیں مگر ان کے چھٹتے ہی تابناک و روشن آفتاب ہر مخفی شے کو عیاں کردیتا ہے۔۔۔ آنکھ والے کے لئے صبح روشن ہوچکی ہے۔۔۔۔۔۔اس روشنی کا سامنا کرو اپنی آنکھوں کو معرفت کے نور سے روشن کرو۔۔۔۔کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے سے مشکل نہی ٹلتی۔۔ دونوں آنکھیں مکمل کھول کر انہیں معرفت و شناسائی کا نور بخشو۔۔۔۔۔معرفت ہی وہ شیرینی ہے جو ہر تلخی و کڑواہٹ کو زائل کرنے میں اکسیر ثابت ہوئی۔۔ خدا شناسی کا سرا خود شناسی سے جڑا ہے۔۔۔ سرے سے ابتدا کرو۔۔۔۔ دماغ کے کباڑخانے کو خالی کر کے اسمیں تفکر کے روشن چراغ کیوں نہیں جلاتی۔۔۔
میں نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔
یہ سب کچھ کتابی باتیں ہیں معرفت لینا اللہ والوں کا کام ہے مجھ جیسے خطا کے پتلے کا نہیں۔۔۔ میرے نصیب لکھے جاچکے ہیں اور یہی قضا و قدر بھی ہے۔۔ اسمیں تبدیلی ممکن نہیں۔۔ میں اپنے رب کے فیصلے کے آگے سر بتسلیم ہوں۔۔ خدائی ارادوں سے بغاوت کا گناہ عظیم کوئی کافر ہی کرسکتا ہے میں نہیں۔۔۔ تمام تر رنج و الم میری زندگی کا لازمہ قرار پائے ہیں۔۔ غلامی میرا مقدر ہے اب زندگی اس کڑوے گھونٹ کی اسقدر عادی ہوچکی ہے کہ یاد ہی نہیں شیرینی کسے کہتے ہیں۔۔
وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہی اور غیر منطقی فلسفے بیان کرکے میری ہر بات کو رد کرتی گئی۔۔
اسکی بےتکی منطق سے عاجز ہونا میرے لئے ممکن نہ تھا سو میں نے بھی کمان کس لی اور اس بار تو تیر بھی خوب نشانے پر لگائے۔۔
تم نے صرف نیچے کی طرف ہی دیکھا اور اوپر کی طرف نگاہ نہیں ڈالی اسی لئے حیران وسرگردان ہو۔۔۔۔۔۔حق کو جانو تاکہ حق والو کو جان سکو۔۔۔۔تمہیں یاد ہے اس روز جب یہ تلخی شیرین تر جام میں تبدیل ہوئی۔۔۔ وہ جام جسے دست ساقی سے پیا اور پیتی ہی چلی گئی۔۔۔ وہ جام الفت۔۔ جام مودت۔۔۔ جام عشق۔۔۔ جسکے نشے نے زندگی کی تند و تلخی کو محو کیا اسے لذت عشق سے آشنائی بخشی۔۔۔ اور وہ قوت اور عزم بخشا کہ زمین و آسمان کے عظیم ترین مصائب پر بھی مسکراتے ہوئے اطمینان بخش اور فاتحانہ انداز میں دشمنوں کے نرغے میں بلا خوف و خطر کہدیا۔۔
مارا ایت الا جمیلا۔۔۔۔
(میں نے سوائے حسن کے کچھ نہیں دیکھا)
اور کس خوبصورتی سے داستان الم کو زیبائی دی اوراسے داستان معرفت بنادیا۔۔۔۔ اپنی گمشدہ ذات اور روح کی معرفت۔۔۔۔ جام معرفت نوش تو کرو۔۔۔ دست ساقی سے سیراب تو ہوکر دیکھو یہی وہ واحد جام ہے جسکا نشہ مدہوش نہیں کرتا بلکہ ہوش میں لاتا ہے۔۔۔ بےحس کو با حس بنا تا ہے۔۔۔ رنج و الم کو صبر سے زیبائی دینے والا۔۔۔ تاریکیء ظلمت میں نور ہدایت کی مستی سے آنکھوں کو منور کرنے والا ۔۔۔ ہر تندی و تیزی کو چاک کرتے ہوئے شعور و فکر کے بند دریچے کھولنے والا ۔۔۔ ظلم و استبداد کے خلاف قوت بخش۔۔۔ حریت کا عزم دینے والا جام۔۔۔ ہاں یہی معرفت کا جام۔۔۔ معرفت کا جام پیمانہ چاہتا ہے۔۔۔ خلوص و طلب کا پیمانہ۔۔۔ وہ صاف و شفاف پیمانہ جس میں جام کے چھلکتے ہی باطن کا عکس صاف دکھائی دیتا ہے۔۔۔۔ پیمانے کو تیار کرو ۔۔۔ اپنی طلب کی شدت کو بڑھاو۔۔۔ ! اپنے علم کو جہل اور یقین کو شک نہ بناو۔۔۔اور جب یقین پیدا ہوگیا تو آگے بڑھو۔۔۔۔۔
اس بار وہ خاموش تھی اور میں ہی بولتی چلی جارہی تھی۔۔۔ اسکی خاموشی بتارہی تھی وہ یہ بحث ہار چکی ہے لیکن پھر بھی جیت اس کی ہوئی اور وہ فاتح قرار پائی۔۔
وہ آنکھیں جو سنسان تھی ان آنکھوں میں رونق لوٹ آئی۔۔۔ سیاہ رات کی مانند کالی چادر کو جھاڑتے ہی اس پر جمی جہالت کی گرد و غبار دور جا گری اس نے صاف چادر میں خود کو لپیٹا جیسے شب کے اندھیرے میں ماہتاب آسمان سے جھانکتا ہے اسکا چہرہ بھی چاند کی مانند پر نور تھا جو سیاہ چادر میں اور بھی زیادہ چمکتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔۔ چاند بے نور ہوتا ہے وہ اپنی روشنی آفتاب سے لیتا ہے اور وہ بھی آفتاب ولایت سے نور سمیٹ کر اپنی ذات میں یکجا کررہی تھی۔۔۔
پھر اچانک وہ اٹھی اور مسکرائی اور معرفت کے جام کی طلب میں پیمانہ لئے دوڑتی ہوئی میخانے میں جا پہنچی۔۔۔۔۔
اور پھر یہ کہتے ہوئے لوٹی۔۔۔بھلا ہو ساقئ حجاز کا ۔۔۔بھلا ہو ساقئ نجف و کربلا کا۔۔۔ بھلا ہو ساقئ کاظمین و سامرہ کا۔۔۔۔۔یقیناً یہی اہل ایمان کے یعصوب ہیں۔۔۔گر یہ میخانے میسر نہ ہوتے تو معرفت سے تشنہ روح بصیرت سے محروم ہی رہ جاتی،، انسان زندگی بھر کڑوے گھونٹ اتارتے رہتے اور ہر ظلم و ستم سے عاجزی برتتے ہوئے بغاوت کو کفر گردانتے ۔۔۔۔!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

بنت الہدی
کراچی سے تعلق ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply