تیرا جب ذکر ، تیری بات ہوگی
تو رنگ و نورکی،برسات ہوگی
یہی گر تلخیِ حالات ، ہو گی
تو پھر کیا خاک ،ان سےبات ہوگی
غضب کی پیاس ، ہونٹوں پر جمی ہے
ترے آنگن میں تو ، برسات ہوگی
مری یادوں کے جگنو ، ساتھ رکھنا
یقیناً راستے میں ، رات ہو گی
پرندوں سے کہا ، موجِ ہوا نے
جہاں ٹھہرے ،وہیں پر گھات ہو گی
مخاطب جس طرح ، ہو گا ،زمانہ
اسی لہجے میں، اس سے بات ہوگی
شبِ وعدہ بھی آئے گی، یقیناً
کسی دن تو ، ملن کی رات ہو گی
حصارِ جبر ہے اب، ٹوٹنے کو
یہی دو چاردن کی، بات ہو گی
چلو دن ڈھل چکا شاہین، اب تو
وہاں گھر میں اکیلی ، رات ہو گی!
بہت عمدہ غزل ہے۔
یہی گر تلخی، حالات ہوگی
تو پھر کیا خاک اُن سے بات ہوگی
حالات ہوگی؟؟؟؟؟؟
میرا خیال ہے حالات مؤنث نہیں ہوتا۔