تیرا جب ذکر ، تیری بات ہوگی
تو رنگ و نورکی،برسات ہوگی
یہی گر تلخیِ حالات ، ہو گی
تو پھر کیا خاک ،ان سےبات ہوگی
غضب کی پیاس ، ہونٹوں پر جمی ہے
ترے آنگن میں تو ، برسات ہوگی
مری یادوں کے جگنو ، ساتھ رکھنا
یقیناً راستے میں ، رات ہو گی
پرندوں سے کہا ، موجِ ہوا نے
جہاں ٹھہرے ،وہیں پر گھات ہو گی
مخاطب جس طرح ، ہو گا ،زمانہ
اسی لہجے میں، اس سے بات ہوگی
شبِ وعدہ بھی آئے گی، یقیناً
کسی دن تو ، ملن کی رات ہو گی
حصارِ جبر ہے اب، ٹوٹنے کو
یہی دو چاردن کی، بات ہو گی
چلو دن ڈھل چکا شاہین، اب تو
Advertisements

وہاں گھر میں اکیلی ، رات ہو گی!
Facebook Comments
بہت عمدہ غزل ہے۔
یہی گر تلخی، حالات ہوگی
تو پھر کیا خاک اُن سے بات ہوگی
حالات ہوگی؟؟؟؟؟؟
میرا خیال ہے حالات مؤنث نہیں ہوتا۔