بد کردار۔۔حسام درانی

دن کے تقریباً  2 بج چکے تھے اور وہ اپنے بیڈ پر اوندھا لیٹا خواب  خرگوش کے مزے لے رہا تھا،  منہ کھلا ہوا اور چادر منہ سے نکلنے والی تھوک کی رالوں سے گیلی ہوئی پڑی تھی۔۔اس کا موبائل نجانے کب سے بول بول کر تھک گیا تھا کھڑکی سے آنے والی تیز دھوپ اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی لیکن وہ بے سدھ سویا  پڑا تھا۔
اس کا موبائل ایک بار پھر شور مچانے لگا لیکن اسے   ہوش ہی کب تھا کہ دیکھ ہی لے   کون چھٹی والے دن بار بار فون کر رہا ہے، اور فون کرنے والا بھی شاید قسم کھائے  بیٹھا تھا کہ  وہ آج بات کیے بنا  نہیں ہٹے گا مسلسل بجنے والی گھنٹی سے آخر اس کی نیند ٹوٹ گئی اور اس نے ہاتھ بڑھا کر فون اٹھایا اور انتہائی مریل  سی آواز میں ہیلو کیا دوسری طرف اس کی ماں تھی۔

اس کی نیند اور نشے سے بھری آواز سن کر ماں کی جیسے جان ہی نکل گئی۔۔۔
بیٹا کیا بات ہے طبعیت تو ٹھیک ہے تمہاری آواز اتنی کمزور کیوں ہے ماں نے پریشانی سے پوچھا
کچھ نہیں ماں اصل میں ساری رات مصروف رہا اور صبح کو ہی جا کر کہیں سویا تھا اس لئے ایسا لگ رہا ہے۔ یہ  سن کر ماں کی جان میں جان آئی۔ بیٹا میں تو صبح سے مسلسل فون کیے  جا رہی تھی لیکن شاید  تم اتنی گہری نیند سوئے ہوئے  تھے اس لیے تمہیں پتا نہ چلا کوئی مسئلہ  نہیں میں نے تو یہ پوچھنا تھا کہ  ایک ماہ ہو گیا ہے اور تم نے گھر کا چکر نہیں لگایا۔ کوشش کرو اور گھر کا چکر لگا لو۔۔
جی ماں ضرور بس کام میں کافی مصروف تھا لیکن پوری کوشش کروں گا اگلے ویک اینڈ پر آسکوں ۔

سلام دعا کے بعد اس نے فون بند کیا اور سائیڈ ٹیبل پر رکھنے کے بعد اس کے حواس بحال ہونا شروع ہوئے  تو   یاد آیا کہ  رات تو اس کے فلیٹ پر  دوستوں کی مخلوط پارٹی چل رہی تھی، اس نے آنکھوں کو ملتے ہوئے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور دائیں طرف نگاہ دوڑائی ۔۔بستر پر پڑی چادر میں کسمساہٹ ہوئی۔۔۔اس کی دوست جو رات یہیں رکی تھی،مسکراتے ہوئے اسے گڈ مارننگ کہہ رہی تھی۔۔۔اس منظر کے ساتھ ہی گزشتہ رات کی تمام فلم اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گئی۔۔۔اور پھر وہ باتھ روم کی جانب  بڑ ھ گیا۔

جمال کا تعلق ایک چھوٹے سے قصبے سے تھا اور اس علاقے  کا وہ واحد   لڑکا تھا جو پڑھ لکھ کر شہر میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں  ملازمت کررہا تھا۔ اس کے حلقہ احباب میں بہت سی شہری لڑکیاں اور لڑکے  تھے،اور انہی کرم فرماؤں کی بدولت وہ گھر کا راستہ بھی بھولتا جارہا تھا۔۔

جمال اب تک غیر شادی شدہ تھا،دوست یار کئی بار گھر بسانے کی   طرف دھیان دلوا چکے تھے،اور  ڈھکے چھپے لفظوں میں  اسے کسی کولیگ سے ہی شادی کرنے کا مشورہ بھی دے چکے تھے۔۔۔ جس کے جواب میں اس کا کہنا تھا  یہ لڑکیاں  تو پہلے  ہی میرے ساتھ وقت گزار چکی ہیں ،لہذا ایسی  لڑکیوں سے شادی نہیں کی جاسکتی۔۔

جمعہ کا دن جیسے تیسے گزارا۔۔ شام کو اس نے گھر کے لیے نکلنا تھا، جیسے ہی دفتر سے نکلنے لگا تو ایک دوست کا فون آ گیا کہ  آج اس کی فرینڈ کی سالگرہ ہے اور وہ اس کے فلیٹ پر پارٹی کرنے آ رہے ہیں۔۔ جمال نے اپنے گھر جانے کا پروگرام بتاتے ہوئے اس ے فلیٹ کی چابی تھما دی کہ جیسے چاہو  موج مستی کرو۔۔لیکن اس کا اصرار  تھا کہ وہ بھی اس پارٹی میں شکریک ہو،مجبوراً جمال کو ہتھیار پھینکنے پڑے۔۔

شام کا اندھیرا پھیلتے ہی فلیٹ پر زندگی جاگ اٹھی،  آج کی پارٹی میں ایک انجان چہرہ بھی تھا ۔۔مہوش!جس نے جمال کی ساری توجہ اپنی جانب کھینچ لی، گفتگو کا سلسلہ چلا تو بے تکلفی بھی  در آئی،مہوش بھی جمال کی طرح  ایک چھوٹے سے قصبے سے تعلق رکھتی تھی اور شہر میں ایک بنک میں نوکری کر رہی تھی اور ایک ورکنگ لیڈی ہاسٹل میں رہائش پذیر تھی۔
پارٹی کے اختتام پر جب سب طباری باری اپنے گھروں کو سدھارے تو مہوش  کے چہرے پر  منڈلاتے پریشانی کے سائے جما ل سے چھپے نہ رہ سکے۔استفسار پر اس نے  بتایا کہ پارٹی  کے دوران اسے وقت گزرنے کا بالکل احساس نہ ہوا،اور اب فکر یہ ہے کہ اتنی رات گئے وہ  ہاسٹل میں نہیں  جاسکتی اور کوئی ایسی دوست بھی نہیں جہاں رات بسر کرسکے۔۔۔۔

جمال بھی ایک نمبر کا کائیاں تھا، مہوش کی پریشانی سے فائدہ اٹھانے کا سوچتے ہوئے ،بظاہر شریفانہ انداز میں اسے اپنے فلیٹ پر  ہی رات گزارنے کی پیشکش کر ڈالی۔۔مہوش  کو پہلے تو کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا جواب دے لیکن کوئی اور آپشن نہ ہونے کی وجہ سے مجبوراً اسے رکنا ہی پڑا۔۔جمال کے  تو دل کی کلی کِھل اٹھی۔۔

مہوش  مدہوشی کی کیفیت میں لڑکھڑاتے قدموں سے  اندر کمرے میں جاکر بیڈ پر ڈھیر ہوگئی۔۔۔لیکن جمال کے اندر کا شیطان مکمل طور پر جاگ چکا تھا۔اندھا اعتماد اور گہری ہوتی  رات مہوش کی زندگی پر ایسی  سیاہی انڈیل گئے تھے کہ جسے ہزار صبحوں کا اجالا بھی پونچھنے میں ناکام ٹھہرتا۔۔۔

مریم جاگی تو اس کی قسمت سو چکی تھی۔۔۔شدید احساسِ زیاں نے اس سے بولنے کی سکت تک چھین لی تھی۔آنسو  پلکوں کی باڑھ  پھلانگتے گالوں پر  بدقسمتی کی مہر ثبت کرتے جارہے تھے۔ہونی ہوچکی تھی۔۔۔وہ اپنا بکھرا  وجود سمیٹے ہوسٹل آگئی۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمال اس وقت ماں کی  گود میں سر رکھے لاڈ اٹھوا رہا تھا۔۔۔اور ماں واری صدقے جاتے  ہوئے اس سے بہو گھر لانے کی  خواہش کا اظہار کررہی تھی۔

جمال کو بھی اب اپنی زندگی سونی سونی محسوس ہونے لگی تھی، سو اس نے  بخوشی ماں کو شادی کے ہاں کہتے ہوئے اسے اپنی مرضی کی بہو لانے کا عندیہ دیا۔۔۔جسے سن کر ماں کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔۔

کچھ روز ماں کے پاس گزار کر جمال اب پھر سے نوکری پر واپس آچکا تھا،انہونی یہ ہوئی تھی اچانک ہی مہوش   کا چہرہ اس کی   آنکھوں  کے سامنے آکر اسے  پریشان کرگیا تھا۔۔۔ آج تک ایسی درجنوں راتیں گزاریں تھیں ،اور مہوش سے بھی کہیں زیادہ خؤبصورت لڑکیوں کے ساتھ،لیکن جانے کیا تھا جو مہوش نے دوبارہ اس کے ذہن و دل پر قبضہ کرلیا تھا۔۔۔

ایک عجیب سی الجھن نے اسے آگھیرا تھا،اسے مہوش یاد آرہی تھی اور  اس مسئلے کا اس کے پاس کوئی حل موجود نہ تھا،اور شرمندگی کے باعث وہ  دوبارہ مہوش کا سامنا بھی نہ کرنا چاہتا تھا،لیکن صبر کا بندھن ٹوٹنے  پر اس نے ایک دوست کو کال کرکے مہوش کی بابت دریافت کیا، دوسری طرف زارا تھی ،ان کی مشترکہ دوست۔۔۔جس کے مطابق مہوش کی والدہ کی طبعیت کافی خراب تھی اور وہ اپنے گھر گئی ہوئی تھی۔۔۔

کچھ روز بعد جمال کی والدہ کا فون آگیااور وہ نا چاہتے ہوئے بھی،مہوش سے توجہ ہٹا کر ، ماں کے بلانے پر گھر چلا گیا۔کیونکہ وہاں ماں نے اپنے جاننے والوں میں ایک لڑکی  پسند کررکھی تھی جسے کل دیکھنے جانا تھا۔۔

جمال اور اس کی والدہ اگلے دن لڑکی کے گھر پہنچے  ،جہاں جمال تو سلام دعا کے بعد سر جھکائے اپنے موبائل میں ہو گیا اور اس کی ماں لڑکی کی ماں سے باتوں میں مصروف ہوگئی۔۔ کچھ دیر بعد  لڑکی  چائے اور دیگر لوازمات سے بھری ٹرالی دھکیلتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔جمال کی نظر   اس پر پڑی   تو  زمین آسمان اس کے سامنے گھو م کر رہ گئے۔۔۔۔وہ مہوش تھی،کملائی ہوئی،لیکن وہ مہوش کی آنکھوں میں شدید نفرت دیکھ چکا تھا۔۔اس لیے اب نظر یں زمین میں گاڑے بیٹھا تھا۔۔

ماؤں کی ایما پر دونوں کچھ دیر کے لیے کمرے میں اکیلے چھوڑ دیا گیا تاکہ وہ ایک دوسرے سے کچھ واقفیت حاصل کرسکیں ۔

بڑوں کا کمرے سے جانا تھا کہ جمال نے کچھ  کہنا ہی چاہا جسے مہوش نے سختی سے رد کرتے ہوئے  ایک نفرت بھری نگاہ اس پر ڈالی،اور ساری نفرت جمال کے وجود پر انڈیل دی۔

جمال نے موقع غنیمت جانتے ہوئےا س  سے معافی تلافی کی کوشش کی،جو بے سود گئی،مہوش کچھ سننے کو تیار نہ تھی۔۔۔کچھ دیر کے لیے کمرے میں گہرا سکوت چھا گیا۔جمال کو لگا شاید مہوش کو اس  کر ترس آگیا ہے۔۔۔لیکن وہ بولی تو اس کے الفاظ اس کے چہرے کے تاثرات سے  بھی زیادہ پتھریلے تھے،

مسٹر جمال آپ یہاں سے جائیں تو براہ مہربانی خود ہی انکار کرتے جائیے گا۔۔۔۔الفاظ تھے یا پگھلتا سیسہ،جمال نے بے یقینی سے مہوش کی جانب دیکھا۔۔۔التجا  بھری نگاہیں ،منتیں کچھ بھی کا  م نہ آسکا تھا،

مہوش ایک ایسے شخص سے شادی کرنے کو تیار نہ تھی جو کسی بھی لڑکی کی مجبوری کا فائدہ  اٹھا کر اس کی عزت کی دھجیاں اڑا دے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس  وقت  مہوش کے گھر کی  دہلیز پار کرتے ہوئے  جمال کی حالت ایسی تھی کہ جیسے کوئی جواری اپنی زندگی بھر کی کمائی لُٹا کر خالی ہاتھ رہ گیا ہو!!

Facebook Comments

حسام دُرانی
A Frozen Flame

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply