کہی،اَن کہی کہانی۔۔۔محمد خان چوہدری

کہی ان کہی کہانی، پہلے یہ ہمارے شعر ۔
گوری نینن بھیت نہ پائے کجرا،
مُکھ یار مدھم ہو جاوت ناں،
اکھ کھولن سے گھبرائے تنوا،
رُخ یار سجن اُڑ جاوت ناں ،

تیری تاگ میں ساون کب بیتا، کب پورب پار بہار گئی
میں نین نویری نینن موندےتیرے بھاگت جندڑی ہار گئی
اب کہانی ۔۔۔ “اسک آتس”

بس باجی جی اس روج ایک میسج بھیجا تھا جی اس نے، جو ہووے تو خسخبری کا پیغام لیکن جی منڑے تو اس نے مانو مار ہی دیا تھا،اپنڑا تو دل ہی مردہ ہو گیو تھا جی، ساریاں امیداں اس روج ختم ہو گئی تھیں۔۔
بس باجی پھر وہ فیصلہ ہو گیو جس سے اکھیاں چرا کر بیٹھی تھی، جانت تھی جی سب جانت تھی ،بس مانت نہ تھی، کیا کرتی اسک ہو گیا تھا ۔۔اس کے منہ سے عشق کا یہ غلط تلفظ اتنا بھلا لگتا کہ دل چاہتا وہ بار بار اس لفظ کو اپنے خام تلفظ کے ساتھ دہراتی رہے۔۔
شہناز آخر ہوا کیا اگر تمہیں اسک بھی تھا تو پھر مسئلہ کیا تھا ؟ تم نے اسے چھوڑ کیوں دیا؟
ہک ہآآآہ۔۔باجی جی اک پاسے کا اسک بڑا نامرادا ہوتا ہے جی تل تل کے مارتا ہے ساہ اوکھے کیے رکھتا ہے جی، نہ جینڑے دیتا ہے نہ مرنے جوگا چھڈتا ہے۔
بس تار پہ چٹکی سے بندھے کپڑے کی طرح آگے پیچھے جھلاتا رہتا ہے نہ اڑن جوگا بندہ نہ ڈگن جوگا،مانو ادھ-کسی سولی پہ ٹنگا ،ادھ مرا جسم، جس کی روح بس اکھیاں ماں باقی رہ جاوے ، آخری آس کی طریو۔۔
شاید آج اپنڑا لے شاید آج، شاید کل ،دیکھو کب اس کا دل نرم پڑ جاوے۔
بس باجی یہ اک پاسے کا اسک بڑا جلیل ہووے بڑا جلیل کراوے۔

کہتا کیا تھا وہ ؟ لٹکا کے کیوں رکھا تجھے اتنے عرصے؟اور تو بھی سیانی بیانی ہو کے پھنسی رہی اس کے جال میں ؟
ایک لمبی چپ کے بعد وہ بولی تو اس کی آنکھوں میں جیسے کوئی فلم چلتی تھی جس کی کہانی شہناز کے مسی رنگے ہونٹوں سے ادا ہوتی تھی۔
باجی میرا سوہر میرے کو بڑا تنگ کرے تھا،روج روج نویں نویں کڑیاں کے چکر ما پڑا رہوے تھا ،پر جی میرے تے سر کاتاج تھا نا ۔جدھر بھی جاتا تھا فیر میرے پاس ہی آتا تھا، مجھے اس سے بڑا پیار تھا ۔ آپ نے تو دیکھا ہے نا اس نے  ، کتنا گبرو ہووے رج کے سوہنڑا۔۔تو ایسے تو کڑیاں نہ مرتی تھیں اس پر،جیسا بھی تھا منڑے پیارا تھا بس اکو ڈر لگتا کبھو کبھار کہ کسی ہور کو بیاہ کے نہ لے آوے ۔سوت تو جی موت کا دوسرا ناں ہووے، بس دل پسوری کرتا رہووے تو بھی خیر میر ای اے جی، فیر میں اسے روک بھی تو نہ سکوں ، پوتڑوں کا بگڑا تھا جی میرا خوسی محمد۔۔
ایک روج میں نے اس سے پوچھا خوسی منڑے ایک بات تے بتا۔۔تو جو روج روج نئی کڑیاں کے ساتھ وخت بتاتا ہے،جے کر کبھی منڑے ایسا کیا تو ، خوسی نے مجھے دیکھا اور قہقہہ مار کر ہنسا۔۔منڑے غصہ آ گیا منڑے سوال کو فیر دہرایا تے کہنڑے لگا ، اپنی شکل دیکھی ہے تنڑے کبھی سیسے ما۔۔ تنڑے دوسری بار بھی نا دیکھے کوئی۔
سچی بولوں باجی مجھے تو مانو کسی نے تیزاب سے جلا کر رکھ دیا ۔۔گیلی لکڑ کی طریو سلگ کر رہ گئی، منڑے خوسی محمد کو گھر چھوڑنے کی دھمکی دی تو کہتا چپ کر کے بیٹھی رہ، تیرا پیچھے کونڑ ہے جو تیرا باجو بنڑے گا،چپکی بیٹھ، ان پانڑی کر موجاں مار۔۔
باجی جی ۔۔وہ بے چین سی بل کھا کر کھڑی ہوئی دو قدم ادھر کو چلی چار ادھر کو ،پھر میری طرف دیکھ کر بولی ، باجی ناں میرے میں کونڑ سی چیز کی کمی ہووے، عورت ہوں۔۔ کالی ہوں، لیکن پوری کی پوری عورت ہوں، مجھے سلگا کے خوسی تو پاسا پرت کے سو گیا پر میرے اندر کی سلگن،راتوں رات بھانبڑ بنڑ گئی۔۔
تنڑے کون دیکھے گا
تنڑے کون دیکھے گا
تنڑے کون دیکھے گا
دیوار کے جالے ، چھت کے بالے، تندور کی راکھ، کنویں میں لٹکا ڈول، ڈولی میں بند مرغی , تھان پر بندھی بھوری ،اسمان کے تارے، چاند ، رات کی پروائی سب ایک ہی بات بکنے لگے ۔۔
تنڑے کون دیکھے ۔۔تنڑے کون دیکھے ۔۔
میرے کانوں میں جی اتنا شور تھا مانو بلائیں چیختی ہوں،جسم کی ایک ایک بوٹی پھڑکتی تھی جی ،کیوں منڑے کیوں نہیں؟ مجھ ماں کیا کمی ہے،بس جی ضد آ گئی۔۔جیسے اندرو اندر کوئی نویں عورت جاگ گئی۔۔میں بدل گئی جی ۔
خوسی کے یار دوست بھی جی اس جیسے تھے ،سادی کے بعد سروع سروع ما خوسی کی بھیڑی عادتاں بدلنڑے واسطے اس کے یار میرو اور جوید کو بڑا جور لگایا ،منتاں ترلے واسطے ،سب کچھ، بس جی نسہ بندے کو خود چھوڑے تو چھوڑے بندہ نسے کو نئی چھوڑتا۔منڑے پتا تھا جی عورت کو تو پالنے میں بھی مرد کی نظر سمجھ آ جاتی ہے جی،خوشی کے یار جوید کی نظر منڑے سے لکی نئی تھی جی،بس اس وخت منڑے خوشی کے علاوہ دنیا میں کوئی نظر نئی آتا تھا، پر اب تاں بات ہی کچھ اور بنڑ گئی تھی۔۔ مارے اندر کی سوئی عورت جاگ گئی تھی، منڑے جوید کی نظراں کا جواب مسکراہٹ سے دینا شروع کر دیا جی، وہ بھی سادی سدہ تھا اور میں بھی ۔۔ لیکن باجی گناہ کرنا ہو تو جی سادی وادی سب بھول جاتی ہے،جب خوسی کو دوسری کڑیاں مل سکتی ہیں تو منڑے ایک مرد بھی اور نہ ملے گا ، بس یہی آگ تھی جی جس کو سکونڑ ملتا تھا جی جوید کی نظراں سے اور مٹھی مٹھی باتاں سے سارا سارا دن نسہ چڑھا رہتا آپ ہی مسکرائے جاتی مسکرائے ہی جاتی۔۔منڑے رونا دھونڑا چھڈ دیا تھا جی ،خس ہونڑے سے فرصت ہی نئی ملتی تھی ، فیر باجی جوید نے منڑے موبیل دلا دیا موبیل پر ہم دونڑوں چھپ چھپ کر باتاں کرنے لگے ۔ ادھر ادھر کی ۔۔۔وہ بڑی مزے کی گپیں سناتا میں ہس ہس کے پاگل ہوئی جاتی ،کنڑے وہ اپنے یاراں میں بیٹھ رہتا تب بھی موبیل پر کال ملا کر منڑے اپنیاں گلاں سناتا سچی باجی یہ مرد بڑے بےسرم ہوویں ایسیاں باتاں کریں ایسیاں کہ باجی کج نہ پچھو،گندیاں گالاں بھی آرام سے بک لیویں ہور کانڑاں پر جوں بی ناں رینگے انڑ کے تو ۔۔
شہناز کے سلونے چہرے پر شرمیلی محفوظ ہونے والی مسکراہٹ در آئی تھی۔۔
بڑے مزے کے دن گزر رہے تھے خوسی اب گھر آتا یا نہ آتا منڑے پرواہ کرنی چھوڑ دی تھی، بس جوید سے بات کرنے کا چسکا جو لگ گیا تھا، بلکہ باجی سچ کہوں تو ان دناں میں منڑے خوسی کا گھر آنا بھی برا لگنے لگا تھا ،جوید کی مٹھی باتاں کا جن مارے پہ اپنا سایہ کر چکا تھا ، میں ہر وخت ہنستی کھلکھلاتی رہتی، میرا رنگ دمکنے لگا تھا جی۔۔اب تو کبھی کبھار خوسی مجھے دیکھ کر ٹھٹھک کر رک جاتا، حیرانڑ ہوتا لیکن اب اس کی پرواہ کونڑ کرتا جی ، فیر ایک وخت آیا کہ منڑے لگا اب میں جوید کے بنا نہیں رہ سکتی۔۔لیکن منڑی تو سادی ہو چکی تھی اور جوید کی بیوی بھی تیسری بار امید سے تھی، منڑے جوید سے کہا جی کہ منڑے اپنڑے ساتھ لے چل، بس آ جا مجھے بھگا لے جا ، پر جوید نے جی مجھے ساف ساف کہا ۔۔ سنڑ شہناز گلاں باتاں تک ٹھیک ہے لیکن میں گلے ماں دو دو ڈھول نئی لٹکا سکتا،ماری بیوی کو بچہ ہونڑے والا ہے،ماں تنڑے دکھی دیکھ کر تجھے خوس کرنے واسطے گپ لگانی سروع کری، پر اس سے آگےکا نہ سوچ۔۔

باجی تب تاں میں چپ کر گئی،لیکن میں نے ہار نئی مانڑی ، منڑے اپنے دل کی خوسی کیسے چھوڑ دیتی، خوسی مارا سوہر تھا لیکن دل کی خوسی جوید بنڑ گیا تھا۔۔ مجھے جی جوید سے اسک ہو گیا تھا ۔۔ہک ہا،یہ نامرادا اسک بھی ہونڑے سے پہلے خبردار نئی کردا ورنہ بندہ اپنڑے قدم روک ہی لیوے، پر جی ہونڑی کو کون ٹال سکدا ہے جی ، منڑے خوشی کی پہلی عورت ہونڑے سے جیادہ جوید کی دوسری عورت بننے کا چآ چڑھ گئیو تھا،منڑے عجت سے جیادہ بےعجتی ماں لتف آنے لگے تھا ، گھر کی ادھی چھڈ کے بار کی پوری منگنڑے لگی تھی، عورت اپنڑی اکھیاں میٹ لیوے تے فیر من چاہا منظر ہی نظر آوے،منڑے بھی دنیا میں ہر اور جوید ہی نظر آوے تھا ۔۔بھول گئی تھی کہ اس کا بھی ایک ٹبر ہووے،جو خوشی میرے ساتھ کرے تھا وہی جوید بھی اپنڑی جورو کے ساتھ کرے تھا ،منڑے بھی تو جوید کے گھر واسطے پرائی عورت بنڑ گئی تھی ناں منڑے سوت موت لگے تھی اور منڑے خود کسی کی موت بننڑے کے خاباں دیکھنڑے سروع کر دیے تھے ۔
منڑے امید نئی چھوڑی، منڑے یقین تھا جی کہ میرا اسک جوید کو بھی بدل دے گا. پر باجی فیر میسج آ گیو تے جیویں دنیا بدل گئیو۔۔
کیسا میسج شہناز؟
باجی   رمجان کا مبارک مہینہ ہووے تھا ، درمیان درمیان کی کوئی تریخ تھی جی میرے بھرا کا نکاح تھا جی، ادر ای میکے ماں بیٹھی تھی، موبیل بھی میرے ہاتھ ماں تھا ،جوید کے میسج کے لیے جی میں ہر وخت موبیل اپنڑے پاس رکھتی تھی جی، تو سب ہنسی خوسی ان پانی کر رہے تھے جی کہ موبیل کے میسج کی ٹونڑ بجی منڑے دیکھا تو جوید کی طرف سے پیغام تھا کہ اللہ نے اسے ایک بیٹی دی ہے، ناں پچھو باجی کیا بنڑی، خوشی کی محفل میں منڑے ماتم لگنے لگا۔۔چپ لگ گئی جی،رنگ پیلا پڑ گیا،گھر لوگوں سے بھرا تھا جی مجھے ایک دو نے پوچھا کہ تنڑے کی ہویا ،پیلی پھٹک کیوں ہو رہی، منڑے کیا بتاتی ،پیٹ درد کا کہہ کر لیٹرین میں جا کر اپنڑے آنسو بہا دیے جی،وہ آگ جو خوشی محمد کے طعنے نے لگائی تھی کہ تنڑے کونڑ دیکھے گا وہ تو کب کی ٹھنڈی پڑ چکی تھی،لیکن اسک کی آگ جنون بنڑ کر میرے سر پر سوار تھی جی میں گھر توڑنے پر راجی تھی جی طلاق چاہتی تھی روز آنے بہانے سے خوسی سے لڑتی،اب تو خوسی بھی ڈر گیا تھا کہ کہیں میں سچی مچی اسے چھوڑ کر نہ چلی جاؤں وہ سدھر گیا تھا جی پر جنون تھا نا جی کچھ سمجھ نئی آتا تھا، بس اللہ سوہنڑے نے کیسا سمجھایا، وہ جنون اس روز آنسوؤں میں بہہ گیا جی. جانڑ گئی تھی جی کہ میری اور جوید کی زندگی میں ،میرے اور اس کے حوالے سے ایس طرح کے کسی میسج کا موقع کبھی نئی آئے گا، کبھی مارے سے وہ لک چھپ کے نکاح پڑھا بھی لیوے گا تب بھی دنیا کے سامنڑے کبھی نئی مانڑے گا، کبھی میرے جنے بچے کو دنیا کے سامنڑے اپنڑا ناں نئی دیوے گا فیر سکون آ گیا ، چپ لگ گئی،ٹھنڈی ہو کے بہہ گئی۔۔

تو پھر جاوید کا کیا بنا؟
باجی اس کا کیا بننڑا تھا، وہ اپنے ٹبر کے ساتھ خوس ہے، اس کی بیٹی بڑی پیاری ہے جی، کیا ہوتا اگر یہ بیٹی ماری کوکھ سے جنتی، لیکن نہ جی بس یہ جوید کی جورو کی خسمت کی تھی اسی کے گھر میں آئی جی۔
اللہ نصیب اچھے کرے جی شودی کے
تمہیں کبھی پچھتاوا نہیں ہوا شہناز؟
کس بات کا پچھتاوا باجی۔۔ اسک تو میں آج بھی کرتی ہوں بس بات نہیں کرتی،وہ جدھر بھی رہوے جی خس رہوے، باجی ہم انسانوں سے لڑ سکتے ہیں جی نصیباں سے نئی، نصیباں تو رب سوہنڑے نے بنائے ہیں نا جی ، میرے لیے اب خوسی محمد ہی سب کچھ ہے، میرا سائیں ہے جی اللہ سائیں نے اسے میرے لیے چنا ہے جی تو سب سے اچھا ہی چنا ہو گا ناں
تو پھر عشق کی بات کیوں کرتی ہو ؟
باجی اسک پر زور نئی۔۔بس اسے دل میں چھپا لیا ہے ، روپ بدل کے.. اب جوید سے بات نئی کرتی اللہ سے کرتی ہوں اپنے اور خوسی محمد کے لیے بھی خوسی اور سدھا سادھ مرادا رستہ مانگتی ہوں اور جوید اور اس کے ٹبر کے لیے بھی ،اسک ہے ہی نامرادا۔۔ فیر کیا کراں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈاکٹر رابعہ خرم درانی کی تحریر ۔ راقم کی نگرانی

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply