قمر سبزواری
قمر سبزواری ۲۲ ستمبر ۱۹۷۲ عیسوی کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ملازت شروع کی جس کے ساتھ ثانوی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ صحافت میں گریجوئیشن کرنے کے بعد کالم نگاری اور افسانوی ااادب میں طبع آزمائی شروع کی۔ کچھ برس مختلف اخبارات میں کالم نویسی کے بعد صحافت کو خیر باد کہ کر افسانہ نگاری کا باقائدہ آغاز کیا۔ وہ گزشتہ دس برس سے متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں۔ اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ “پھانے” کے نام سے شائع ہوا۔دو مزید مجموعے زیر ترتیب اور دو ناول زیر تصنیف ہیں ۔
جنگ کے لیے وہ بھی تیار ہیں اور ہم بھی اتاولے ہو رہے ہیں کوتاہ نظر کہتے ہیں جنگ کا کوئی فائدہ نہیں وہ شاید نہیں جانتے کہ جنگ جرائم کو چھپاتی اور ناکامیوں پر پردہ ڈال دیتی ہے کوئی← مزید پڑھیے
راشد اور عزیز ایک ہی دن دبئی وارد ہوئے تھے۔ دونوں پہلے سے ایک دوسرے کو نہ جانتے تھے لیکن ہوائی جہاز میں تعارف کے دوران جب دونوں کو علم ہوا کہ دونوں ایک ہی کمپنی کے ویزہ پر جا← مزید پڑھیے
ٹی وی پر نیوز چینل کا ایک مخنث سا رپورٹر ایک رنگ برنگی دھاریوں والے پھڑپھڑاتے ہوئے پرچم کے نیچے کھڑے ہجوم کے پس منظر کے ساتھ خبر دے رہا تھا۔۔۔ ناظرین آج کا دن تاریخی اہمیت کا حامل دن← مزید پڑھیے
یوسف حسین نے ایک جھٹکے سے سائیکل سٹینڈ پر کھڑی کی۔ دودھ کے دونوں ڈول اتار کر نیچے رکھے اور حاجی کے ہوٹل کے باہر لگی چارپائیوں میں سے ایک خالی چارپائی کی طرف بڑھنے لگا۔ اوئے پیجی چائے لے← مزید پڑھیے
شازیہ ہونقوں کی طرح اپنے خاوند جاوید کا منہ دیکھتی رہ گئی، .حرافہ، سالی بازاری عورت کی بیٹی تیری ماں کی۔۔۔۔۔۔۔۔، میرے ساتھ تمسخر کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔ فاحشہ۔ جاوید۔۔۔۔ میں تو۔۔۔۔۔ آپ میری ماں کو۔۔۔۔۔۔ شازیہ کے منہ سے بس← مزید پڑھیے
سنو ذرا ایک ماچس تو دینا۔۔۔۔۔ دیکھو بھئی ادھر بھی دیکھ لو۔۔۔۔۔۔۔ توبہ ہے ، چھوٹی موٹی چیز لینی ہو ، تو پھر تو انتظار ہی کرتے رہو، کریانہ سٹور پر کھڑی چھوٹے قد اور کپڑوں سے باہر چھلکتے ،← مزید پڑھیے
اپنے ہی بیٹے پر ۔۔۔۔۔ خالی کمرے میں رسی سے بندھے ، بلوری آنکھوں والے اپنے ہی جوان بیٹے پر پستول تانے، نیم پاگل حالت میں کھڑا ، چھ فٹ کا مرد، ملک ریاض، قابل رحم لگ رہا تھا۔ وہ← مزید پڑھیے
یونیورسٹی کی کینٹین میں اکثر اُن کی بحث ہوتی۔ وہ ہمیشہ نوک جھونک کرتا اور وہ مسکرا دیتی۔ آج پھر وہ وہ شرارت کے موڈ میں تھا۔ کیا یار ! یہ تم لڑکیاں بھی نا، عجیب وضع کا لباس← مزید پڑھیے
انقلاب کامیاب ہوا۔ غریبوں اور محروموں نے استحصالی طبقے کو اٹھا کر گلیوں، سڑکوں اور چوراہوں پر پھینک دیا۔ ظلم و استبداد کا نظام یوں تو صدیوں سے قائم تھا لیکن انقلاب کی اصل وجہ رواں برس کے وہ پے← مزید پڑھیے
وہ فون کان سے لگائے کسی پر پھنکاررہا تھا۔ میں تجھے تباہ کر دوں گا۔ تو جہاں بھی جائے گا میری پہنچ سے نہیں نکل سکتا ۔ تجھے پتہ نہیں ، میری رسائی کہاں تک ہے ، میرے ہاتھ کتنے لمبے ہیں؟← مزید پڑھیے
مولوی صاحب؟ ہاں بول؟ باہر ڈاکٹر صاحب، وکیل صاحب، کونسلر صاحب، پٹواری صاحب چودھری صاحب اور ملک صاحب آئے ہیں جی۔ ابے کیا کہتے ہیں؟ پتہ نہیں جی، آپس میں بڑی پریشانی میں باتیں کر رہے ہیں، کہہ رہے تھے← مزید پڑھیے
کیا گلی کی نکڑ پر بیٹھا رہتا ہے یار؟ کبھی مسجد چلنے کی توفیق تو ہوئی نہیں تجھے۔ ہاں یار کہتا تو تَو سچ ہے۔ دل تو چاہتا ہے لیکن، بس ۔۔۔۔ ابے چھوڑ یہ سب بہانے ہیں مجھے← مزید پڑھیے
اس لڑکی کو کس نے ہائر کیا؟ سر آپ چھٹی پر تھے، آپ کی دی ہوئی اتھارٹی کو استعمال کرتے ہوئے میں نے آفر لیٹر سائن کیا تھا۔ سر آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ آپ کی← مزید پڑھیے
آج ہماری شادی کو پچیس برس ہو گئے۔ تم کچھ نہیں کہو گی، ہماری بیتی زندگی کے بارے میں ۔۔۔۔۔کچھ تو بولو؟ ہوں ۔۔۔۔۔۔ہاں۔ کیا ہوا تمھیں؟ ایک منٹ ، میری آنکھ میں شاید کوئی تنکا چلا گیا ہے۔۔۔ Save← مزید پڑھیے
بوریت میلے میں باپ کی انگلی پکڑے گھومتا ہوا بچہ ، سر کے بل کھڑے ہو کر رسی پر بائسیکل چلانے والے مداری، سانپ کے دھڑ اور انسان کے منہ والی لڑکی اور شیر کے منہ میں سر ڈالے ← مزید پڑھیے
یہ ایک عام سا گھر ہے جیسا شہر کے ایک مضافاتی علاقے کا عام سا گھر ہوتا ہے۔ چار کمروں کے اس گھر میں ایک شخص رات کے اس پچھلے پہر چھت پر تنہا بیٹھا چرس کی سگریٹ کے دھویں← مزید پڑھیے
وہ ہونٹوں سے سیٹی بجاتا بجاتا اپنے فلیٹ سے نکلا۔ دورازے کو تالا لگاتے ہوئے اُس نے سوچا آج آخری دن ہے۔۔آج دن کو کسی وقت بھی اُسکی بیوی واپس آ رہی تھی اور پھر وہ ناشتہ کرنے باہر نہیں← مزید پڑھیے