پھانے ۔ قمر سبزواری/افسانہ

یہ ایک عام سا گھر ہے جیسا شہر کے ایک مضافاتی علاقے کا عام سا گھر ہوتا ہے۔ چار کمروں کے اس گھر میں ایک شخص رات کے اس پچھلے پہر چھت پر تنہا بیٹھا چرس کی سگریٹ کے دھویں سے بننے والے مرغولوں میں کھویا کسی سوچ میں گم ہے اس کی ماں نیچے اپنے کمرے میں گم سم بیٹھی ہے اور اس کی بیوی اور بہن اپنے بچوں کے ساتھ دوسرے کمرے میں بیٹھی خاندان کی ایک دو دیگر خواتین کے ساتھ باتوں اور تذکروں میں مصروف ہیں۔

یہ جو شخص چھت پر بیٹھا چرس پی رہا ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا اس کا نام رشید ہے اور اس کا باپ آج صبح اٹھاون برس کی عمر میں فوت ہو گیا۔

اُس شخص کی بیوی اپنی ساس کے کمرے میں داخل ہوئی۔ماں جی، رشید آپ کے پاس نہیں ہیں؟

 وہ چند ثانیے اُس کے منہ کی طرف دیکھتی رہی اور پھر واپس اپنی سوچوں میں ڈوبتے ہوئے بولی ، نہیں ، کچھ دیر پہلے آیا تھا لیکن بس دروازے سے ہی کمرے میں ایک نظر ڈال کے واپس چلا گیا تھا۔

اچھا !! پتہ نہیں کہاں گئے، چلیں خیر میں ڈرائنگ روم میں دیکھتی ہوں شاید وہاں بیٹھے ہوں۔

رشید کی بیوی یہ کہہ کر کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے باہر نکلی تو اُسی اثنا میں رشید اُسے سیڑھیوں سے نیچے اترتا ہوا نظر آیا

ارے آپ چھت پر۔۔۔۔ کیا کر رہے تھے ۔۔۔ اتنی رات گئے اس سردی میں

اُس کے لہجے کی لکنت بتا رہی تھی کہ اُسے اپنے سوال کے پوچھنے کے دوران ہی اُس کے غلط ہونے کا اندازہ ہو گیا تھا اسی لیے  اُس نے بے ساختگی میں منہ سے نکلتا ہوا سوال تین حصوں میں توڑ دیا۔

رشید نے اُس کے سوال کا جواب دینے کی بجائے اُس کی طرف دیکھا اور سپاٹ لہجے میں بولا میں ذرا ڈرائنگ روم میں جا رہا ہوں ، کچھ دیر کمر سیدھی کرنے۔۔

مجھے ڈسٹرب نہ کرنا ۔وہ اُس کو بیڈ روم میں لیٹنے کا کہنا چاہ رہی تھی، چائے کا ایک کپ بنا دینے کا پوچھنا چاہ رہی تھی لیکن گھر کے ماحول کی نزاکت اور اُس کا چہرہ دیکھ کر وہ خاموش ہو گئی۔

رشید سر جھکائے دھیرے دھیرے چلتا ہوا ڈرائنگ روم میں  داخل  ہوا  اس نے دروازے کو  بھیڑ کر ٹیوب لائٹ جلائے بغیر صوفے کا رخ کیا اور اس پر دراز ہو کر آنکھیں موند لیں۔

وہ اپنی ذہنی و جذباتی کیفیت کو سمجھنا چاہ رہا تھا ، اپنی حیرت کو کوئی نام دینا چاہ رہا تھا لیکن اُسے تاحال کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس

 کے بھیتر کیا چل رہا ہے۔

بس ایک مبہم سا لڑکھڑانے اور گرنے کے ڈر کا احساس ، ایسے جیسے ایک رسی کو دو آدمی دونوں سروں سے پورا زور لگا کر کھینچ رہے ہوں اور ان میں سے ایک آدمی اچانک اپنا سرا چھوڑ دے۔

یا جیسے کسی خستہ دیوار کو دو لوگ اطراف میں کھڑے ہو کر دھکیل کر گرنے سے بچا رہے ہوں اور ان میں سے ایک اچانک پیچھے ہٹ جائے۔

اُس کا جسم صبح سے مسلسل بھاگ دوڑ میں مصروف رہنے کی وجہ سے تھکاوٹ سے چور ہو چکا تھا

کانوں میں ابھی تک عورتوں کے رونے اور صبح سے رات تک سنے گئے تعزیتی الفاظ کا ایک شور سا گونج رہا تھا،اور ذہن کے پردے پر دن بھر سامنے آنے، روتے دکھائی دینے، ملنے اور تعزیت کرنے والے مختلف چہروں کا ایک اژدھام سا تھا۔۔۔

 یہ سب آوازیں اور تصویریں اُسے چند لمحے آنکھیں موند لینے اور نیند کی گود میں پناہ لینے پر مجبور کر رہی تھیں۔ لیکن سینے میں برپا ہلچل ذہن کے کسی گوشے میں رونما ہونے اور مسلسل اثر پذید ہونے والی تبدیلی اُس کے لئے پھر بھی حیران کن تھی۔

  دوسرے دن زیادہ کام کاج نہ ہونے کی وجہ سے رشید کا زیادہ وقت مہمانوں کے درمیان بیٹھے ہی گزرا ۔ تعزیت اور بات چیت میں مصروفیت کے دوران اُس کا ذہن مصروف رہتا لیکن تنہائی میسر آتے ہی اُس کا دھیان جب بھی اپنے باطن کی طرف جاتا یا ذہن حال سے نکل کر ماضی اور مستقبل کا سوچتا تو اُس پر وہی کیفیت طاری ہو جاتی۔ اُس نے محسوس کیا کہ جن باتوں اور گھر بار کی جن چیزوں کو وہ اپنی داخلی کیفیت سے لاتعلق سمجھتا ہے وہ بھی خاموشی سے اُس کے اندر کی کیفیت پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔

رسی کا دوسرا سر چھوٹنے کی وجہ سے وہ لڑکھڑا کر جیسے کسی خواب سے باہر آ رہا تھا یا سینے میں تا حد احساس طویل دیوار کی دوسری طرف کا سہارا ہٹنے سے جیسے وہ دیوار سمیت منہ کے بل گرنے والا تھا۔

اُسے کالج کے زمانے سے ہی شراب کی لت تھی لیکن اُس کی حالت ایسی تھی کہ اگر وہ خود کسی کو نہ بتائے تو اُس کی بیوی کے علاوہ کسی کو پتہ نہ چلے، جب کبھی چند دن کے لئے شراب کا انتظام نہ ہو پاتا تو وہ کہیں اوٹ میں ہو کر چرس سے کام چلا لیتا ۔۔

رشید کو اپنے باپ کے کمرے میں جانے کی عادت نہ تھی۔ وہ محفل میں بھی باپ کی موجودگی میں بیٹھنے سے کتراتا تھا لیکن تنہائی میں تو بالکل بھی ایسا موقع نہ آنے دیتا کہ وہ اکیلا باپ کے ساتھ بیٹھے اور کسی موضوع پر کوئی بات چھڑے۔

تیسرے دن سہ پہر کے وقت سوئم کی دعا سے فراغت پا کر جب مہمان چلے گئے تو وہ باپ کی فوتگی کے مخصوص وقت کو چھوڑ کر نجانے کتنے عرصے بعد اپنے باپ کے کمرے میں داخل ہوا ، اُس کی بیوی اُس کی اکلوتی بہن اور اُس کی ایک پھوپھو بھی اُس کی ماں کے پاس بیٹھی اُس کے مرحوم باپ سے متعلق باتوں اور پرانی یادوں کو کریدنے میں مصروف تھیں۔

اُس نے درو دیوار کو نظر بھر کے دیکھا اور پھر باپ کے بستر کو دیکھتے ہوئے کہیں کھو گیا۔

اُس کی بڑی پھوپھو نے اُس کے چہرے کی طرف اور پھر اُس کی ماں کی طرف دیکھا لیکن کچھ نہ بولیں۔

وہ اپنے بھائی کی کوئی پرانی بات یاد کر رہی تھیں۔ چند ثانیے کے توقف کے بعد وہ دوبارہ بولیں۔ایک دفعہ کیا ہوا، یہ بہت پرانی بات ہے، ابھی ، ہم میں سے کسی کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی، اُس کی پھوپھو نے اُس کی ماں کی طرف دیکھتے ہوئے بات شروع کی۔

ابا جی آم کی پیٹی لائے ، بہت بڑھیا آم لاتے تھے ابا، اور تمھیں تو پتہ ہے بھائی ظریف کو آم کتنے پسند تھے۔ اچھا تو ابا جی نے کہا بھئی ظریف جب تک تمھاری ماں چائے بناتی تم ان سب آموں کو دھو کر ڈول میں ڈالو اور احتیاط سے کنویں میں لٹکا دو ، میں چائے پی کر نماز پڑھ لوں پھر کچھ دیر میں جب آم خوب ٹھنڈے ہو جائیں گے تو کھاتے ہیں۔

اماں جی اٹھ کر چائے بنانے چلی گئیں ، میں پاس بیٹھی سکول کا سبق پڑھ رہی تھی لیکن جب بھا ئی ، جی ابا جی کہہ کر خوشی سے اٹھا تو مجھے بہت حیرت ہوئی کہ ہر کام میرے سر تھوپنے والا بھائی ظریف آ ج اتنی برخورداری کیوں دکھا رہا تھا ۔ کچھ دیر بعد میں پانی پینے کا بہانہ کر کےباہر نکلی اور برآمدے میں چھپ کر جو دیکھا تو بھائی نے آم دھو کر کنویں کے ڈول میں ڈالتے ڈالتے ایک موٹا سا آم اُس لوٹے میں ڈال دیا، جو پرانا ہونے کی وجہ سے کنویں کے پاس ایک طرف رکھ دیا گیا تھا۔

 میں خاموشی سے اندر آ گئی، اور وہ کسی سے ملنے باہر گلی میں چلا گیا ۔ جب ابا جی چائے پی کر وضو کرنے اٹھے تو مجھے پانی کا لوٹا لانے کا کہا، میں نے ہمت کر کے پرانے لوٹے میں پانی ڈالا اور ابا جی کے وضو کی جگہ رکھ دیا۔ ابھی ایک منٹ بھی نہ گزرا تھا کہ ابا جی کی آواز صحن میں گونجی ، ظریف ، اوئے کھوتے دے پتر ، یہ آم کہاں دھوتا اور کہاں ڈالتا رہا ہے۔ ذرا ادھر میرے پاس تو آ، ظریف بھائی جو اُسی وقت کمرے میں آ کر بیٹھا تھا خونخوار نظروں سے مجھے دیکھتا ہوا میرے پاس سے اٹھا اور باہر ابا جی کی ڈانٹ کھانے چلا گیا۔

اُس دن ابا جی نے میری وجہ سے سزا کے طور پر بیچارے کو ایک آم بھی نہ کھانے دیا۔

رشید کے ذہن میں یہ بات سن کر جیسے ہی ایک کھلنڈرے سے نوجوان کی تصویر ابھری

اُس نے محسوس کیا کہ اُس کے سینے میں جیسے کوئی شے ٹوٹ کر گری ہو، اس بار احساس قدرے واضع تھا ، جیسے اُس کے سینے میں موجود فلک بوس دیوار میں شگاف بن گیا تھا اور اُس کے پیچھے کا منظر اُس کے توقع کے بالکل بر عکس تھا۔

رشید کا اپنے باپ کے ساتھ رشتہ ہمیشہ تناوٗ کا شکار رہا ، کبھی اگر اُس کے ذہن میں اپنے رشتے کی ایک تصویر سی بنتی تو دھیمی سی آنچ پر رکھی کھولتے ہوئے تیل کی کڑاہی جیسی تصویر بنتی ۔۔ جس میں اُن کا رشتہ کھولتے تیل کی طرح تھا ، رشید کے شب و روز اُس کھولتے تیل میں پک پک کر نکلتے رہے اور رشتے کا وہ تیل دن بدن کڑوا اور میلا ہوتا گیا ۔ ظریف سخت مزاج تھا اور رشید ذکی الحس، باپ اصول پسند تھا اور رشید متلون مزاج و لاابالی ، باپ اُس کی ماں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتا کبھی کبھی ہاتھ بھی اٹھا دیتا اور رشید عملی طور پر باپ کو ایسا کرنے سے نہ روک سکنے کے سبب اپنے دل میں ایک دیوار اور کھڑی کر لیتا۔

رشید کی بیوی سب کے لئے چائے بنانے اٹھی تو وہ خاموشی سے اپنی ماں کے کمرے سے اٹھا اور اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا، دو دن کے اچانک صدمے کے بعد اب حواس کےواپس معمول پر آنے کی وجہ سے اور دماغ کے اس حقیقت کو تسلیم کر لینے کی وجہ سے کہ اُس کا باپ فوت ہو چکا ہے اُس کے ذہن نے ماضی کی یادوں کو تسلسل سے چلانا شروع کر د یا تھا ۔

وہ آنکھیں موندے لیٹا ہوا اپنے ماضی کی یادوں میں محو ہو گیا۔

 اُس کے نیم غنودگی میں ہونے کی وجہ سے یادوں کے منظر بالکل ایک خواب کی طرح حقیقی رنگ اختیار کر رہے تھے

اُس کے کانوں میں اس کی اپنی آواز گونجی

ابا، ابا مجھے بھی ڈور پکڑاؤ نا، اُس نے ضد کرتے ہوئے کہا تھا

اوئے، پگلے، ہوا دیکھ کتنی تیز ہے اور پتنگ بڑی ہے تیری انگلی کاٹ کے لے جائے گی۔۔۔۔۔

اباکی آواز جیسے حقیقت میں اس کے کانوں میں گونجی۔۔

اُس نے ڈور کی چرخی پھینک دی تھی اور ایک طرف ہو کر کھڑا ہو گیا تھا

ابا نے اُس کی اس حرکت پر اُسے سختی سے ڈانٹ دیا تھا

 جذبات کی رو بدلنے سے اچانک منظر تبدیل ہوا اب وہ سائیکل چلانا سیکھ رہا تھا اور اُس کا باپ ایک ہاتھ سائیکل کے ہینڈل پر اور ایک اُسے کے شانے پر رکھے اُس کو سمجھا رہا تھا

سامنے دیکھ، اوئے تجھے کہہ رہا ہوں سامنے دیکھ ہینڈل پر سے نظریں ہٹا

اُس نے پھر ہینڈل کو گھورا۔۔۔

کھوتے دے پتر ڈر نہیں ، ڈرتا کیوں ہے

یہ آواز اُس کے کانوں کے بجائے اُس کے سینے میں گونجی۔۔۔

اُس نے سائیکل کا ہینڈل چھوڑ دیا تھا اور منہ کے بل زمین پر گرا تھا

اسی دوران اُس کے ذہن میں ایک خیال پیدا ہوا ۔۔۔ اُس وقت کے غم و غصے کے جذبات اور آج ان واقعات کو یاد کر کے محسوس ہونے والے رد عمل میں کتنا فرق ہے۔

وہ یادوں کو جھٹک کر نئے خیال کے ادھیڑ بن میں پڑ گیا۔

اُس وقت اتنا شدید غم کیوں محسوس ہوتا تھا، اُس کا جی کیوں چاہتا تھا کہ وہ ڈانٹ کھانے کے بعد ابا سے کبھی پیسے نہ مانگے، کبھی گھر سے کھانا نہ کھائے اور کبھی ابا سے بات بھی نہ کرے۔

اُسے پھر سے یاد آیا کہ ان دنوں اُس کا شدید جی چاہتا تھا کہ اُس کی بازو یا ٹانگ ٹو ٹ جائے یا اُسے کوئی بہت بڑی چوٹ آ جائے یا ٹی وی میں ایک بار ایک ڈرامہ دیکھ کر اُس کا جی چاہا تھا کہ ڈرامے کے ہیرو کی طرح اُسے بھی کینسر کی بیماری لگ جائے اور اُس کے ابا اُس کے پاس آنا چاہیں، اُسے دوا دینا چاہیں یا اُس سے پوچھیں کہ تمھیں درد تو نہیں ہو رہا اور وہ کچھ نہ بولے کچھ نہ بتائے اُن کے ہاتھ سے لے کر کچھ نہ کھائے بلکہ اُن کے پیسوں کی دوا بھی نہ کھائے۔

وہ خیالوں کی دنیا میں وآپس جاتا تو اُس کا سینہ جذبات سے لبریز ہو جاتا لیکن جیسے ہی خیال و تفکر کی دنیا میں واپس قدم رکھتا اُسے اپنے خام جذبات پر ہنسی آتی۔

 خیال نے پھر یاد کا روپ دھارا ، منظر بدلا ایک بار جب گلی میں کرکٹ کھیلتے ہوئے اُس کی کمر پر گیند لگ گئی تھی تو اماں نے اُسے دروازے پر ہی ملنا شروع کر دیا تھا

لیکن ابا نے دونوں کو ڈانٹ کر کہا تھا ، او نیک بخت کھیلنے دے اسے گرنے دے لگنے دے ۔اس کی ماں نے جب حیرت سے ابا کی طرف دیکھا تھا تو وہ ہنس پڑے تھے

وہ عجیب سے انداز میں ہنستے ہوئے، تم دونوں تو نرے الو کے پٹھے ہو، کہہ کر کمرے میں چلے گئے تھے

اچانک اُس کے ذہن نے اپنے خیال کی تصویروں پر سے توجہ ہٹا کر اُن کے گرد لپٹے ہوئے احساسات کو پکڑ لیا۔

اُس کے ذہن کے پردے پر چلتے ماضی کے فلم میں حال کا ایک منظر جیسے خود بخود شامل ہو گیا جب اُس کا پانچ برس کا بیٹا انجکشن لگنے پر رویا تو اُس کی بیوی کی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے تھے بیوقوفی نہیں کرو اس کے سامنے کیوں ٹسوے بہاتی ہو ، انجکشن لگ رہا ہے کہ آپریشن ہو رہا ہے؟ اُس نے بیوی کو ڈانٹ دیا تھا۔

آج نہ جانے کیسے ان کیفیات کے محرکات پر غور کرنے کا ایک سرا اُس کے ہاتھ میں آ گیا تھا وہ حیرت سے سوچنے لگا،۔۔

یا شاید میں نے ایسی کوشش ہی آ ج پہلی بار کی ہے ایسا پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔۔

پہلے تو جذبات کی شدت کی وجہ سے کبھی وہ ان یادوں کو اس طرح تفصیل سے دہرا بھی نہ پایا تھا ، بس ایک ہلکی سی جھلک اُس کے ذہن کے پردے پر نمودار ہوتی یا ایک مبہم سی ٹیس اُس کے سینے کے کسی نا معلوم مقام پر اٹھتی اور وہ اپنی سوچ کو جھٹک دیتا۔

 لیکن اب وہ تیس برس کی عمر کو پہنچ چکا تھا اُس کی بیوی اُس کے دوسرے بچے کو اپنی کوکھ میں پال رہی تھی اور اُس کا باپ قبر میں اتر چکا تھا، اُس کی سوچ عرصہ ہوا جذبات کی تنگ نائے سے نکل کر تجربے اور تحمل کے میدانوں تک پہنچ چکی تھی۔۔

اُسے احساس ہوا کہ اُس کا حال تو شعور کی بلوغت کے زیر اثر گزر رہا تھا لیکن ذہن کی اس تبدیلی کی روشنی میں اُس نے اپنی سابقہ زندگی کے جذبات کو کبھی نہ دیکھا تھا یایسا وہ آج پہلی بار کر رہا تھا۔

کیوں آخر کیوں میں نے کبھی ان یادوں ان باتوں کو ایسے نہیں دیکھا کبھی ان میں اترنے کی کوشش نہیں کی بلکہ یہی میرے اندر اتر کر مجھے کاٹتی رہیں۔

ذہن کے نیند اور بیداری کی سرحد پر ہونے کی وجہ سے اُس کے سوچنے کا عمل خواب جیسا تھا جہاں مناظر اُس کی مرضی سے نہیں بلکہ ایک غیر مانوس بہاؤ کے تحت چل رہے تھے ۔

اُس کاتصور ذہن کے پردے پر گردش کرنے والے مناظر کے اندر اتر گیا زمان و مکان کے عین اُس لمحے میں جب وہ باتیں وہ واقعات ہو رہے تھے۔

اب وہ سوچ نہیں رہا تھا بلکہ وہ پرانے واقعات اُس پر دوبارہ سے بیت رہے تھے۔

ایک بار پھر اُسے ابا چھت پر پتنگ اُڑاتے ہوئے دکھائی دیئے ۔۔۔

ابا ۔۔۔ ابا مجھے بھی ڈور پکڑاؤ نا، اُس نے ضد کرتے ہوئے کہا

اوئے، پگلے، ہوا دیکھ کتنی تیز ہے اور پتنگ بڑی ہے تیری انگلی کاٹ کے لے جائے گا ابا نے پتنگ پر سے نظریں ہٹائے بغیر اُسے جواب دیا۔۔

یہاں، بس یہاں ایک متحرک تصویر تھی جو لکڑی کے ایک پھانے کی طرح اُس لمحے میں اتری ہوئی تھی اور اُس کو درمیاں سے چیر رہی تھی اُس نے آج سے پہلے کبھی یہ تصویر نہ دیکھی تھی۔

ابا کی بات سن کر اُس کے ذہن میں اماں اور ابا کے لڑنے کی تصویر ابھر آئی تھی

اور اس نے یہ دیکھے بغیر کے کیا واقعی ہوا تیز ہے کیا واقعی پتنگ بہت بڑی ہے

یہ سوچا تھا کہ ابا ہے ہی ظالم ۔وہ ماں کو بھی ڈانٹتا ہے اور مجھ سے بھی نفرت کرتا ہے

 ابا بھلا مجھے پتنگ کیوں دینے لگا؟ اُس نے ڈور کی چرخی پھینک دی اور ایک طرف ہو کر کھڑا ہو گیا ۔ابا نے اُس کی اس حرکت پر اُسے سختی سے ڈانٹ دیا

تصویروں اور آوازوں کی کڑیاں آپس میں ملنے لگیں

ہر تصویر، ہر آواز میں وقت کے ہر لمحے میں

پھانے اترے ہوئے تھے

  ۔ابا ہے ہی ظالم ۔۔۔ ابا ماں کو بھی ڈانٹتا ہے۔۔۔۔ابا مجھ سے بھی نفرت کرتا ہے۔۔۔۔

   یادوں کی زنجیر طویل ہو کر ماضی سے حال تک پہنچنے لگی اور ساتھ ساتھ وہ پھانے بھی ۔

اُسے ہر وہ ٹی وی ڈرامہ، ہر وہ کتاب ہر وہ بات یاد آنے لگی جو اُس نے فقط اس لیئے مسترد کر دی تھی کہ وہ اُس کے باپ کو پسند تھی۔

اُسے کالج کا وہ دن یاد آیا جب اُس نے پہلی باردوستوں کے ساتھ شراب صرف اس لئے پی تھی کہ اُسے اپنے سینے میں کوئی شے اترتی ہوئی  محسوس ہوتی رہتی تھی۔ آج اُسے اپنی پسلیوں کے آر پار وہ پھانا نظر بھی آنے لگا۔

 لوہے، لکڑی گوشت، ہڈیوں اور نہ جانے کس کس شے کے بنے ہوئے بھدے اور میلے سے رنگوں کے پھانوں کی ایک قوس قزاح تھی جو اُس کے ماضی کی اولین یادوں سے لے کر اُس کے حال تک آ رہی تھی اور عین سینے کے درمیان ایک فلک بوس دیوار بناتے ہوئے، جس کا کوئی سرا نہ تھا، اُسے درمیان سے چیرتی ہوئی دو حصوں میں تقسیم کر رہی تھی۔

اُس نے اس کیفیت سے فرار کی شدید خواہش محسوس کی اور آنکھیں کھول کر خالی نظروں سے چھت کو گھورنے لگا

 سوچ کی اس دوسری لہر کے وجود کو مانتے ہی اور اس کی طرف توجہ کرتے ہی اُس کے جذبات کا رخ یکسر بدل گیا، اُس کے سینے میں کھڑی عظیم دیوار میں دیوار میں جا بجا شگاف پڑنے لگےاور اُسے اُس کے پیچھے کا منظر دکھائی دینے لگا

دیوار کی دوسری طرف اُس کا باپ تھا ۔ باپ کے وجود کا احساس کرتے ہی وہ پھر سے جھجک گیا

انائیت کے احساس نے اُس کو شش و پنج میں ڈال دیا۔

 اس دیوار کو مسمار کرنا چاہا رہا تھا اس کی دوسری طرف جانا چاہ رہا تھا۔ لیکن یہ معلوم کرنے کا کوئی طریقہ اُس کے ذہن میں نہیں آ رہا تھا کہ اُس کا باپ بھی ایسا چاہ رہا ہے یا نہیں۔ کیا وہ اُس کو پرے دھکیل کر اُس کی انا کو مجروح ہوتا دیکھ کے ہنسے گا یا اُس کو سینے سے لگا لے گا۔

 احساس کی چوٹوں سے چند ہی لمحوں میں اُس کی حالت ماہی بے آب کی طرح ہو گئی

وہ اپنے باپ کی شکل کو اس کے وجود کو یاد کرنے لگا۔

 ابا کے ہاتھ، اُن پر پڑی جھریاں، گردن پر موجود دو تل ، باریک کٹی ہوئی موچھیں حتیٰ کہ پاوُں کے انگوٹھوں کے ناخن تک اُس کی نظروں کے سامنے گھومنے لگے لیکن بس نہیں بن رہی تھی تو ایک تصویر واضع نہیں بن رہی تھی اور وہ تھا اُس کے ابا کا چہرہ، چہرے کے خد و خال۔

نہ جانے ذہن کے کس گوشے سے رشید کی پہلی تنخواہ والا دن اُس کی آنکھوں کے سامنے آ گیا

جب اُس نے تنخواہ لا کر ابا کے پاس میز پر رکھی تھی تو اچانک اُن کی آنکھوں میں نمی آ گئی تھی

اوئے نہ او پتر ، مجھے بھلا کیا ضرورت ، اگر کچھ دینا ہی ہے تو اپنی ماں کو دیا کر

اور پھر انھوں نے بلند آواز میں کچن میں مصروف اُس کی ماں کو بلایا تھا

لے بھئ ، آج سے تیرا بیٹا اس گھر کا بڑا ہو گیا

لے پھر اسی خوشی میں آج کچھ میٹھا ہی پکا لے۔

وہ بے چینی سے اٹھا اور باپ کے کمرے کی طرف چل پڑا جہاں اس وقت اُس کی ماں اور پھوپھو، گھر کے دیگر افراد کے ساتھ بیٹھے اُس کے باپ کی باتیں کر رہے تھے۔

وہ اُسی کمرے میں بیٹھنا چاہ رہا تھا جہاں اُس کے باپ نے زندگی کے آخری ایام گزارے تھے

اب اُس کا دل اپنے باپ کے بارے میں ہر بات سننے کو چاہ رہا تھا۔

وہ اپنے کمرے سے نکل کر اپنے باپ کے کمرے کے دروازے پر پہنچا۔

ابھی اس نے بند دروازہ کھولنے کے لئے ہاتھ بلند کیا ہی تھا کہ اُسے اپنی پھوپھو کی آواز سنائی دی۔

نہیں ہمیں تم سے کوئی گلہ نہیں ہے تم ہمارے خاندان کی عزت ہو ہماری سب سے اچھی بہو ثابت ہوئی  ہو۔۔۔بس ظریف کے صدمے سے دل دکھا تو آج یہ بات کہہ دی۔۔

میں تمھیں بتاوٗں کہ وہ کبھی ہم بہنوں سے تمھاری یا اپنے گھر کی کوئی بات نہیں کرتا تھا۔بس ایک بار پتہ نہیں ہم کیا بات کر رہے تھے تو کہنے لگا۔۔

آپا میں سمجھتا ہوں کہ میرا رویہ اپنی بیوی کے ساتھ قدرے سخت رہا ہے

 لیکن آپا جب ہم دونوں میں ذہنی ہم آہنگی نہ بنی تو رشید نے بیچ میں آ کر میرے جبر کا رخ موڑ دیا، کاش کوئی ایسا بھی ہوتا جو میرے اور میرے بیٹے کے درمیان آ کر بھی کچھ ایسا کر دیتا۔

اُس کو سمجھا دیتا یا مجھے ہی بدل دیتا۔۔۔

رشید کمرے میں داخل ہوا تو اُس کی پھوپھو خاموش ہو گئیں۔

اُس کے سینے میں باپ کے لمس کی اُس کے سینے سے لگنے کی اُس کو چھونے کی خواہش پیدا ہوئی اور پورے جسم میں پھیل گئی ۔۔وہ خاموشی سے باپ کے ببڈ پر بیٹھا اور پاس پڑے میز پر رکھے اُس کے چشمے، سگریٹ کی ڈبیا اور بازو کی گھڑی کو ایک ایک کر کے چھونے لگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

قمر سبزواری
قمر سبزواری ۲۲ ستمبر ۱۹۷۲ عیسوی کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ملازت شروع کی جس کے ساتھ ثانوی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ صحافت میں گریجوئیشن کرنے کے بعد کالم نگاری اور افسانوی ااادب میں طبع آزمائی شروع کی۔ کچھ برس مختلف اخبارات میں کالم نویسی کے بعد صحافت کو خیر باد کہ کر افسانہ نگاری کا باقائدہ آغاز کیا۔ وہ گزشتہ دس برس سے متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں۔ اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ “پھانے” کے نام سے شائع ہوا۔دو مزید مجموعے زیر ترتیب اور دو ناول زیر تصنیف ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply