عشق رسول کا سیاسی استعمال۔۔چوہدری نعیم احمد باجوہ

معروف کالم نگار جاویدچوہدری ، سابق بیوروکریٹ الطاف گوہر صاحب کی زبانی ایک واقعہ درج کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں :
’’شاہ سعود کو بنگال کا دورہ کرنا تھا ۔ ہم اس کے استقبال کے لئے بڑی تیاریاں کرر ہے تھے ۔ دورے سے چند دن قبل سیلاب آگیا۔ بنگال کے سیلاب سے جہاں وسیع پیمانے پر تباہی آئی وہاں عوام کے موڈ بھی تبدیل ہو گئے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے محلہ سرداراں کے لوگوں نے اعلان کر دیا ہم شاہ سعود کا استقبال نہیں کریں گے۔ یہاں لاکھوں آدمی مر گئے ہیں اور حکومت نمائشوں پر لاکھوں روپے ضائع کر رہی ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ صورتحال خراب ہوگئی۔ فضل حق نے مجھے بلایا اور کہا کہ اب کیا ہو گا ۔ میں نے کہا ظاہر ہے دورے کا پروگرام تو تبدیل نہیں ہو سکتا ۔ شاہ سعود توکراچی پہنچ چکے ہیں ۔ انہوں نے کچھ دیر سوچا اور پھر مجھے حکم دیا تم محلہ سرداراں کے لوگوں کو کل سہ پہرتین بجے میرے گھر بلا لو۔ میں نے محلہ سرداراں کے لوگوں کو دعوت دی ۔ اگلے روز مقررہ وقت پر شیر بنگال کے گھر لوگوں کا مجمع لگ گیا۔ ہر شخص دورے کے خلاف رائے دے رہا تھا ۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔ شیر بنگال دھوتی بنیان میں ملبوس کھاٹ پر بیٹھے تھے۔ جب شور ناقابل برداشت ہو گیا تو وہ اٹھے اور دھاڑیں ما ر ما رکر رونا شروع کر دیا ۔ یہ دیکھتے ہی سناٹا طاری ہو گیا، ہم سب ہکا بکا رہ گئے اب وہاں صرف شیربنگال کی چیخیں تھیں ۔ آنسو او ر سسکیاں تھیں ۔او رہم لوگوں کی حیرت تھی ۔جب سارا مجمع ان کی طرف ہو گیا تو پھر شیر بنگال بولے ۔’’ بد بختو آج والی کعبہ میرے گھر آرہے ہیں ۔ میرے پیارے رسول کی چوکھٹ کا دربان آرہا ہے اور میری بدقسمتی دیکھو فضل حق ا س کا استقبال نہیں کر سکتا ۔ لوگو! بتاؤ جب کل فضل حق بار گاہ ایزدی میں حاضر ہوگا تو اپنے رب کو کیا منہ دکھائے گا ۔ لوگو ! ہم سب جہنمی ہیں ۔ ‘‘ ان کے الفاظ میں ایسا درد تھا کہ پورے مجمعے نے زارو قطار رونا شروع کر دیا اور پھر انہوں نے وہ زناٹے دار تقریر کی کہ خدا کی پناہ ۔ مجھے ان کے وہ الفاظ تو یاد نہیں لیکن وہ نعرے میرے حافظے کی کتاب میں آج بھی درج ہیں جو بنگالیوں نے وہاں شاہ سعود کی شان میں لگائے ۔ جب لوگ مطمئن ہو کر اپنے گھروں کو چلے گئے تو شیر بنگال میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور کہا کیوں حضرت ؟ اور میرے پاس اس جادوگری کی تعریف کے لئے الفاظ نہیں تھے۔ ‘‘ (گئے دنوں کے سورج صفحہ 15,16)

آپ اس واقعہ کے لفظ لفظ پر غور کرلیں ۔اور پاکستان کی آج کی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے تجزیہ کرلیں ۔ آپ کو یہ واقعہ آج کا لگے گا۔ بالکل نیا بالکل تازہ۔آپ کو محسوس ہوگا جیسے آج بھی ہمارے ساتھ یہی ہو رہا ہے ۔ آج بھی ہم کسی نہ کسی فضل حق کی سسکیاں اور دھاڑیں سن رہے ہیں ۔،ہم کسی نہ کسی ’’ عاشق رسول ‘‘ کی داڑھی آنسو سے تر ہوتی دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے کے واقعات کو چھوڑ بھی دیں ۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد سے اب تک اس میں کب فرق آیا ۔ آٹھ دہائیاں پہلے بھی پیارے رسول ﷺ کے نام سے قوم کو بلیک میل  کیا گیا تھا۔لاکھوں لاشوں کا غم بھلا دیاگیا۔ اجڑے گھروں کی یاد محو کر دی گئی ۔ مسائل پس پشت چلے گئے ۔ یہی کھیل آج بھی قوم کے ساتھ جاری ہے ۔ ذاتی مقاصد کے لئے عوام کو جنونیت کے نعروں میں مبتلا کر کے صاحبان اقتدار خوش و خرم ہیں۔ یہ جوش جنوں ایسا ہے جسے ٹھنڈا ہونے نہیں دیتے ۔ اس جادو گری کا مظاہرہ کر کے اپنے پروردوں سے یہی پوچھتے ہیں کیوں حضرت کیسا رہا؟ ۔

میں حیران ہوں کہ بہت ابتدا سے مذہبی وابستگی کو سیاستدانوں نے اپنے مقاصد کے لئے ستعمال کرنا شروع کیا ۔اور آج تک بڑی کامیابی کے ساتھ یہ حربہ استعمال کرتے چلے جا رہے ہیں ۔ عوام ہر بار اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ جب بھی کسی کی کرپشن سے نظر ہٹانی ہو۔ رائے عامہ کو تقسیم کرنا ہو ۔ عوام کے مسائل سے نظر بچانی ہو۔ مذہب سے متعلقہ کوئی نہ کوئی حوالہ سر بازار آجا تا ہے ۔اور عوام اپنی لاشیں بھو ل کر ، اپنی جان و مال کے نقصان بھول کر زور دار نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ نعرے لگتے چلے جا رہے ہیں اور بلند سے بلند تر ہوتے جاتے ہیں ۔ نعرے اتنے اونچے ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ۔ یہ اتنے بلند ہیں کہ مرنے والوں کی چیخیں اور بچ رہنے والوں کے درد اس میں دبتے جاتے ہیں۔ دین کی سر بلندی انہی فلک شگاف نعروں کی بدولت ہو گی یہ باور کرادیا گیا ہے۔ اچھی طرح یہ سمجھا دیاگیا ہے کہ انہی نعروں کی صدا محمد عربی ﷺ کے دین کو ’’ بچانے ‘‘ اور’’حفاظت ‘‘ کرنے والی ہے ۔ یہ نعرے ہوں گے تو دین ’’محفوظ ‘‘ رہے گا ۔

نفرت کا تیز و تند سیلاب قوم کو بہاتا چلا جار ہا ہے ۔ بھوک اور افلاس کے سیلاب میں عوام کی لاشیں تنکوں کی مانند بہتی چلی جارہی ہیں۔ سیلاب جتنا تیز ہوتا ہے اسی کے موافق نعروں کی صدااونچی کر دی جا تی ہے ۔ دکھ جتنا بڑا اسی کے مطابق نعرے بھی اتنے ہی بڑے ۔ سیلاب کی موجیں جتنی بلند اس کے عین مطابق نعروں کی گونج بھی بلند۔ ہر دور کے نعرے منفرد ۔ ہر صاحب ضرورت کا بیانیہ نیا لیکن مقصد ایک ،ضرورت ایک ۔ ہر ضرورت کے مناسب حال نعرے ایجا دکئے جاتے ہیں ۔ اور ہر تباہی میں یہ نعرے زخموں پر’’ مرہم ‘‘بنتے ہیں

آج پھر ایک بار ارض پاک اسلام بچاؤ نعروں کی زد میں ہے ۔ اقوام عالم میں سب سے زیادہ عاشق رسول ﷺ ہم اپنے آپ کو خیال کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دین کی سر بلندی کا عظیم الشان کام صرف اور صرف ہمارے ہی سپرد ہے ۔تازہ ضرورت کے مطابق ’’ ختم نبوت ‘‘ کارڈایک بار پھر استعمال میں ہے۔ہم بھول جاتے ہیں کہ ختم نبوت کا عظیم الشان خطاب صرف اور صرف سیدنا و مولانا حضرت محمد عربی ﷺ کوعطا ہوا ہے۔ اور جس خدا نے آپ ﷺ کو اس غیر معمولی خطاب سے نوازا ہے کیا وہ اس تاج کی حفاظت نہیں کر سکتا ۔آ پ ﷺ ہی نبیوں کے سردار ہیں اور ہمیشہ کے لئے ہیں آپ ہی خاتم النبین ہیں اور رہیں گے۔ جس خدا نے آپ ﷺ کو اس مقام پر فائز فرمایا وہ آپ کی عزت وقار ، احترام میں کوئی کمی نہیں آنے دے گا ۔ ایسا کبھی ہوا نہیں اور نہ آئندہ ہوگا۔

لیکن اپنی ضروریات کے لئے عوام کو جوش دلا نے کے لئے ہتھکنڈے استعمال کرنے والے سارے ’’ عاشقان رسول ﷺ ‘‘ ہمارے سامنے ہیں ۔ ان کی زور دار چیخیں ہیں اور موٹے موٹے آنسو ہیں جن سے لمبی لمبی داڑھیاں تر ہو رہی ہیں ۔ آج پھر یہ اعلان ہے کہ قیامت کے روز ہم سرکار دو عالم ﷺ کو کیا منہ دکھا ئیں گے ۔ آج پھر زناٹے دار تقریریں ہیں کہ ہم خداکے حضور کس منہ سے حاضر ہوں گے۔ پھر عوام کے پرجوش نعرے ہیں ۔ اتنے بلند کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ۔
اس ’’ وفورِ محبت ‘‘ میں جب لوگ اپنے مسائل بھول جاتے ہیں ۔ اورمطمئن ہو کر اپنے گھروں کا چلے جاتے ہیں تو پھر کوئی ’’ فضل حق ‘‘ مسکرا کر اپنے مصاحبوں سے پوچھتا ہے ۔ کیوں حضرت ؟ اورہمارے پاس اس ’’جادوگری‘‘ کی ’’تعریف ‘‘کے لئے الفاظ نہیں ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں یہ کس کے نام لکھوں ،جو الم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں، مرے لوگ مر رہے ہیں
کوئی غنچہ ہو کہ گل ہو ، کوئی شاخ ہو کہ شجر ہو
وہ ہوائے گلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں
کبھی رحمتیں تھیں نازل اسی خطہ زمیں پر
وہی خطہ زمیں ہے کہ عذاب اتر رہے ہیں
کوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آزمائی
ہمیں قتل ہو رہے ہیں ، ہمیں قتل کر رہے ہیں!

Facebook Comments

چوہدری نعیم احمد باجوہ
محبت کے قبیلہ سے تعلق رکھنے والا راہ حق کا اایک فقیر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply