مرنے سے پہلے کے 5 پچھتاوے/غیور شاہ ترمذی

آسٹریلیا میں برونی وئیر Bronnie Ware نامی ایک حسین دوشیزہ ایک ہسپتال کے Palliative Care ڈیپارٹمنٹ میں نرس کی خدمات سرانجام دیتی تھیں۔اس ڈیپارٹمنٹ میں ان مریضو ں کو لایا جاتا جن کی زندگی کا امکان بہت کم ہوتا۔ان مریضوں سے بات چیت کے دوران برونی کو احساس ہُوا کہ ہر مرتے انسان کے دِل میں کوئی نہ کوئی پچھتاوا ضرور تھا۔حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس وارڈ میں موجود مریضوں کے پس منظر ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے لیکن ان کے پچھتاوے تقریبا ً ایک جیسے تھے۔ انہی پچھتاؤوں کے بارے میں اُس نے اس کتاب (The Top Five Regrets of the Dying) میں لکھا ہے۔ میں نے بھی ان پچھتاؤوں کو پڑھا ہے اور محسوس کیا ہے کہ اپنی زندگی کے اس اختتامی مرحلہ میں میرے بھی وہی پچھتاوے ہیں جن کے بارے میں برونی وئیر نے یہ کتاب لکھی ہے-

مرنے والوں کا پہلا پچھتاوا یہ ہے کہ کاش مَیں اپنے آپ کے مطابق زندگی جینے کی ہمت رکھتا نہ کہ وہ زندگی گزارتا جس کی دوسرے مجھ سے توقع کرتے ہیں۔ ساری زندگی ہم یہی سوچتے رہتے ہیں کہ دوسرے ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں یا سوچیں گے۔ اسی کی بنیاد پر ہم زندگی کو اُس طرح نہیں جیتے جیسا ہم جینا چاہتے ہیں بلکہ ہم ساری زندگی دوسروں کی توقعات کے مطابق زندگی گزار جاتے ہیں، دوسروں کی توقعات کے مطابق زندگی گزارنے کی بجائے اپنی مرضی سے زندگی جینے کا مزہ تو ہم جنوبی ایشیائی، الباکستانی اور مسلم معاشروں میں ممکن ہی نہیں ہے لیکن سچ یہی ہے کہ اگر ہم زندگی جینے کی بجائے دوسروں کے مطابق زندگی گزار گئے تو موت سے پہلے یہ ہماری زندگی کا سب سے بڑا پچھتاوا بن جائے گا، ہم میں سے اکثر لوگ اپنا پروفیشن اور زندگی کی دیگر سرگرمیاں اپنی دلچسپی اور ٹیلنٹ کے مطابق اختیار نہیں کرتے بلکہ اپنے والدین، رشتے داروں، دوستوں وغیرہ کی خواہش پر ان چیزوں کا انتخاب کرتے ہیں، پھر ساری زندگی وہی کام کرتے رہتے ہیں۔ یہ انسان کا سب سے بڑا افسوس یا پچھتاوا ہے جو وہ اس دنیا سے جاتے ہوئے ظاہر کرتا ہے۔ لیکن ہم ابھی زندہ ہیں اور سانس لے رہے ہیں تو ابھی تاخیر نہیں ہوئی ،لہٰذا اس افسوس یا پچھتاوے سے بچنے کے لئے ہمیں ابھی سے ارادہ کرنا ہو گا کہ ہمیں اپنی زندگی اپنے ٹیلنٹ اور فطرت کے مطابق گزارنی ہے۔ ہم اس وقت جو کچھ بھی کر رہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ اپنی دلچسپی کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے کوشش شروع کر دینی چاہیے۔ اگر ہم یہی سوچتے رہیں گے کہ لوگ کیا کہیں گے تو پھر ہم وہی زندگی گزارتے رہیں گے جو ہمیں پسند نہیں ہے اور ممکن ہے کہ میری طرح آپ بھی اپنے بسترِ مرگ پر / زندگی کے اختتامی فیز میں یہی افسوس کر رہے ہوں کہ کاش میں اپنے سے مخلص ہوکر اپنے شوق کے مطابق زندگی گزارتا۔

موت کے وقت جو دوسرا بڑا پچھتاوا برونی نے مرنے والوں میں مشاہدہ کیا، وہ یہ تھا کہ ’’کاش میں نے اتنی محنت نہ کی ہوتی”- جب آدمی مرنے کے قریب ہوتا ہے تو اسے یہ افسوس بہت شدت سے ہوتا ہے کہ اس نے ساری زندگی پیسہ کمانے اور اپنے پروفیشن میں ہی لگا دی۔ اس کے لئے اُس نے اپنا گھر بار چھوڑدیا، اپنی فیملی کو وقت نہیں دیا، اپنے بچوں کے بچپن سے محظوظ نہیں ہوا۔ اُس کے پاس نہ دوسروں کے لئے وقت تھا اورنہ ہی اپنے لئے۔ وہ صرف دوسروں کے لئے محنت کرتا رہا اور پیسہ کماتا رہا۔ لہٰذا ہمیں اتنا ہی کام کرنا چاہیے جتنا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ عموماً ہمارے جیسے لوگ سخت محنت کرتے ہیں اور پھر زندگی کے اختتامی فیز میں بیمار پڑ جاتے ہیں۔ مشہور زمانہ ایپل فون کے بانی اسٹیو جوبس (Steve Jobs) لکھتے ہیں کہ میں نے کبھی کام نہیں کیا کیونکہ میں نے اپنے شوق کو اپنا کام بنا لیا۔ اپنی پسند کا کام کرنے والوں کو یہ افسوس نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنے لئے کام کرتے ہیں اور اپنا شوق پورا کرتے ہیں۔

برونی لکھتی ہیں کہ مرنے والوں کا تیسرا بڑا پچھتاوا یہ تھا کہ کاش مجھے اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی ہمت ہوتی۔ ہم سب کسی نہ کسی وجہ سے اپنی فیملی، دوست احباب اور کولیگز سے سوسائٹی یا رسم و رواج کے ڈر سے اپنے احساسات کا اظہار نہیں کر پاتے۔ اکثر لوگ اپنے والدین سے اور والدین اپنی اولاد سے بھی محبت کا اظہار نہیں کر پاتے۔ بہت سے نوجوان اپنے والدین کی خدمت بھی نہیں کر پاتے جو انسان کی زندگی کے آخری لمحات میں ایک افسوس بن جاتا ہے، لہٰذا ہمیں کوشش کرنی ہو گی کہ ہم اپنے والدین اور اپنے سے جُڑے لوگوں اور عزیزوں سے اپنے احساسات کا اظہار کریں اور اُنہیں بھی اپنے اِس احساس کے بارے میں بتائیں، اس سے پہلے کہ یہ احساسات کاش میں تبدیل ہو جائیں۔

بونی لکھتی ہیں کہ مرنے والوں کی زندگی کا چوتھا بڑا پچھتاوا یہ تھا کہ “کاش میں اپنے دوستوں کے ساتھ رابطے میں رہتا”۔ دوست خاص کر بچپن اور لڑکپن کے دوست بہت مخلص ہوتے ہیں لیکن جب ہم اپنی پروفیشنل لائف میں مصروف ہو جاتے ہیں تو ہمارا اپنے دوستوں سے رابطے کمزور ہوتے ہوتے بالکل ختم ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ برسوں گزر جاتے ہیں اور ہم ان سے رابطہ نہیں رکھ پاتے۔ یہ دوست ہم راز ہوتے ہیں۔ دُکھ سُکھ میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ بعض دوست فیملی سے بھی زیادہ ہمارے قریب ہوتے ہیں جن کے ساتھ ہم نے زندگی کے کئی برس گزارے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہم کتنے ہی بڑے عہدے پر کیوں نہ پہنچ جائیں، ہم کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہو گئے ہوں اور شادی کے بعد کتنے ہی جھمیلے پال لئے ہوں، ہمیں چاہیے کہ اپنے دوستوں سے رابطے میں رہیں وگرنہ زندگی کے اختتامی مرحلہ میں یہ ہمارا بہت بڑا پچھتاوا بن جائے گا۔

مرنے والوں کے پانچویں بڑے پچھتاوے کے بارے میں بونی نے لکھا ہے کہ ’’کاش میں خود کو خوش رہنے دیتا‘‘۔ خوشی کا تعلق ہمارے اندر سے ہے۔ کوئی فرد یا چیز ہمیں خوش نہیں کر سکتی۔ ماڈرن لائف اسٹائل اور کنزیومر مارکیٹنگ نے ہمارے لئے چیزوں کو کچھ اس انداز سے پیش کیا ہے کہ اگر یہ چیز خریدیں گے تو خوشی ملے گی، اس مقام تک پہنچ جاؤ گے تو خوش رہو گے لیکن حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ خوشی کا تعلق کسی مادی شے یا ہدف سے نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک پروسیجر (Procedure) کا نام ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا کے سب سے بلند پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی تک پہنچ جائیں گے تو ہمیں خوشی مل جائے گی اور پھر ہمیں ہیلی کاپٹر کے ذریعہ ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی تک پہنچا دیا جائے تو کیا ہم خوش ہوجائیں گے؟- یقین جانیں کہ کبھی نہیں- کیونکہ خوشی دراصل ماؤنٹ ایورسٹ تک پہنچنے میں نہیں تھی بلکہ وہاں تک پہنچنے کے لئے درکار محنت اور مشقت، رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے آگے بڑھنے میں پوشیدہ تھی۔ ہم لوگ اکچر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ملینیئر (Millionaire) بن جائیں گے تو ہمیں خوشی مل جائے گی جبکہ کتنے ہی ملٹی ملینیئر اور بلینیئر آپ کو سکون کی دوائیں کھاتے اور خودکشی کرتے مل جائیں گے کیونکہ پیسہ اُن کو اندر سے خوش نہیں رکھتا۔ اس لئے اگر ہم اپنی زندگی میں ابھی تک کوئی بڑا مقصد یا غیر معمولی ہدف مقرر نہیں کر سکے تو ہمیں وہ فوراً  بنانا چاہیے اور پھر اس کے حصول کے لئے اپنی زندگی کو اس طرح وقف کر دینا چاہیے کہ پہلے بیان کئے ہوئے 4 پچھتاوں میں سے کوئی بھی زندگی کے آخری لمحات میں ہمارا مقدر نہ بنا ہوا ہو۔

سچ تو یہ ہے راقم کی زندگی بھی بہت تیزی سے اپنے اختتام کی طرف رواں دواں ہے، ان 53 سالوں میں بہت بھرپور اور ہنگامہ خیز زندگی بسر کی ہے، یورپ، جاپان، ملائیشیا، مشرق وسطیٰ گلف ریجن، پاکستان میں جتنی بھی زندگی گزری، اُس میں یہ نہیں کہہ سکوں گا کہ مواقع نہیں ملے۔ مواقع بھرپور تھے لیکن طبعیت میں جلدبازی اور دوسروں پر بےجاء اعتبار کی عادات نے وہ کامیابیاں نہیں سمیٹنے دیں جو ممکن تھیں اور بہت قریب آ کر بھی کامیابی کا نشہ نہیں چکھ سکا- خود سے جونئیرز اور اپنی اگلی نسل کے لئے اُن تمام پچھتاوں کا ذکر کر دیا ہے کہ جن سے اگر وہ بچ سکیں تو شاید یہ طمانیت رہے گی کہ اس تحریر کی وجہ سے کسی نے تو زندگی کو گزارنے کی بجائے جینے کی کوشش کی اور کامیابی حاصل کی-

Advertisements
julia rana solicitors london

یاد رکھیں کہ انسان اپنی زندگی بدلنا چاہے تو ایک استاد، کتاب، جملہ اور ایک بول بھی کافی ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو اپنے اندر موجود پیغام سے کسی بھی انسان کی زندگی بدل سکتی ہے اور اس کو بستر مرگ کے پچھتاوے سے بچا سکتی ہے۔ بس عمل شرط ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply