وائرس۔۔۔ربیعہ سلیم مرزا

سیاست کو گھر سے باہر رہنا چاہیے ،مگرعموماً  سیاست گھروں کے اندر بھی ہوتی رہتی ہے ۔عوامی سیاست سے صرف عوام کی جان جاتی ہے مگر خانگی سیاست ، دل اور جان دونوں کی بَلی لیتی ہے ۔گھر پہ زیاده وقت گزارنے والے مرد اور عورتیں، دونوں ہی اس میں شامل ہوتے ہیں ۔مائیں آج بھی بہو کے روپ میں خدامہ ڈھونڈتی ہیں ۔لڑکی معصوم لگے تو بہترین خادمہ ہو گی۔اور اگر پہلی رات ہی انکے ٹام کروز بیٹے کو پسند نہ آئے توکوئی  مائی کا لال اس کی عزت بحال نہیں کر وا سکتا۔اکثر ماؤں کو نکھٹو بیٹے بیاہنے کا بھی شوق تو ہو تا ہے لیکن اگر وہ شادی کے بعد بھی نہ سدھرے تو بھی کڑاکا بہو کا ہی نکلتا ہے ۔

یہ نتائج سلمیٰ  بیگم کی تیس سالہ زندگی کا نچوڑ تھے، یا ازداجی زندگی کا حاصل کہہ لیں۔انکی ساری زندگی ساس، نندوں کے طعنے سہتے گزری تھی ، اب وقت ان کا تھا ۔سلمیٰ  بیگم کاپچھلے وقت کو دہرانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔تمام خاندانی داؤ پیچ وہ سیکھ چکی تھیں اور آفتاب ان کا اکلوتا کماؤ پوت تھا۔

خاندان بھر کے بیٹیوں والے گھروں میں انکی ٹہل سیوا جاری تھی۔ جلد ہی وہ اپنے کماؤ پوت کی آنکھوں کی چمک دیکھ کر اس کی سوچوں کا محور پہچان گئیں ۔یہ آگاہی ملتے ہی ان کا دل سکون سے لبریز ہو گیا۔۔کہ شہر زاد انکی بھتیجی تھی۔
“ًچلو اپنی  مارے گی تو چھاؤں میں تو ڈالے گی۔”

بھائی کے گھر آنا جانا بڑھا تو آفتاب کے بھی حو صلے بڑھے ۔ہواؤں میں تتلیوں اور رنگوں کی با تیں ہونے لگیں ۔سلمیٰ  بیگم کو گھر میں چلتی پھرتی شہر زاد کی چاپ سنائی دینے لگی ۔اشارے کناؤں میں نئی رشتے کی کھنک آنے لگی۔

نئے دور کا وقت بھی نئی نئی استادیاں دکھاتا ہے ، سلمیٰ  بیگم کی عین ناک کے نیچے کماؤ پوت کی آنکھیں بھنورا بن گئیں ۔وہی چمک اب انہیں نند کی بیٹی مر یم کے لیے نظر آئی تو کانپ گئیں ۔مشکل سے سسرالی سیاپوں سے نکلی تھی، آفتاب کس طرف چل نکلا ہے ؟

دوسری نندوں کو بھنک بھی مل گئی تو سازشیں اور گٹھ جوڑ شروع ہو جائیں گے ۔
اوروہی ہوا۔۔۔

استادوں نے بازی پلٹ دی۔بھلے وقت بدلا تھا، کردار تو وہی تھے۔انکی ایک نہ چلی، اور مر یم بہو بن کر آ بھی گئی ۔تمام شادی پہ شہرزاد نظر نہیں آئی ۔ماں جائے کا سامنا ہوا تو پتہ چلا، شہرزاد کو دورے پڑنے لگے ہیں ۔تاروتار دل کے ساتھ ایک باپ نے جیسے بیٹی کی طرف سے شکوہ کیا !
سلمیٰ  بیگم نے خاموشی سے ماں جائے کا  دکھ آنچل میں چھپا لیا ۔
وہ نم آنکھوں سے کبھی اکیلے میں آفتاب سے پوچھتی پوچھتی رہ جاتیں ۔”تمہیں تو شہرزاد زیادہ پسند تھی نا؟
اسے ماں کی نظروں کے سوال کا پتہ تھا، وہ ماں سے نظریں چرا لیتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سلمی بیگم کے دل سے کھٹک نہ گئی۔ایک دوپہر، وہ اکیلی پڑے پڑے اوب گئیں تو پانی پینے اٹھیں ۔آفتاب کے کمرے سے اٹھکھیلیوں کی آوازیں کان میں پڑیں۔ وہ دروازے پہ رک گئیں۔آفتاب کہہ رہا تھا”اچھا ہے، پہلے ہی اسکے لچھن کا پتہ چل گیا۔نہیں تو میں کہیں کا نہ رہتا۔سچ،میرے دوستوں نے میری بڑی مدد کی۔ ”
جواباً  مریم کا قہقہہ سلمیٰ  بیگم کو انگار کی طرح لگا۔انہوں نے لڑکھڑا کر دروازہ پکڑا،وہ کھل گیا، دونوں گھبرا گئے۔
مگر آج سلمی بیگم کا دل سارے جواب چاہتا تھا
“کیا کیا تھا اس نے تمہارے ساتھ ،بولو۔کیا ہوا تھا ؟ تمہیں میری قسم”۔۔
انہوں نے آفتاب کا ہاتھ سر پہ رکھ لیا۔آفتاب جیسے زمین میں گڑ گیا، کہنے لگا۔۔
” میں نے شہر زاد کا نمبر اپنے دوستوں میں بانٹ دیا تھا۔اس کا کردار چیک کرنے کیلئے ”
“اس کی رپورٹ پازیٹو نکل آئی تھی “۔
سلمی بیگم کا سانس رکنے لگا ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply