قصّہ شہر بدر کا(12)-شکور پٹھان

اب اگر آپ یہ قصہ پڑھ ہی رہےہیں تو میری خود کلامی بھی برداشت کرنا ہوگی۔ یہ وہ باتیں اور یادیں ہیں جو خالصتاً میری اپنی ہیں۔ کراچی میں نوکری کی تلاش ، طالبعلمی کی زندگی وغیرہ کے قصے تو وہ تھے جن سے ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں ضرور گزرتا ہے۔ بہت سی باتیں جگ بیتی ہوتی ہیں تو بہت کچھ وہ بھی ہوتی ہیں جو صرف اور صرف خود پر گزری ہیں۔

ہوٹل کی ملازمت اور پاکستانی بینک کی ملازمت میں سب سے بڑا فرق تو یہ تھا کہ یو بی ایل میں صرف اور صرف پاکستانی بھائی ہی تھے۔ ایک یا دو بحرینی بھی وہاں کے لیبر قوانین کی ضروریات کے تحت تھے لیکن وہ برائے نام ہی کام کرتے اور ان سے کوئی خاص دوستی بھی نہیں ہوسکی۔ ہلٹن میں جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا دنیا بھر کے لوگ تھے اور یہاں کام کرنا ایک مختلف ہی تجربہ تھا۔ ہوٹل کی سرگرمیاں تو میں نے پچھلے باب میں بتادی تھیں۔ یہاں کے اسٹاف کے ساتھ بھی زندگی ذرا مختلف انداز میں گزر رہی تھی۔

ہوٹل کا زیادہ تر اسٹاف میری طرح نو عمر، یا نوجوان ہی تھا۔ مختلف ممالک اور مختلف ثقافتوں کے لڑکے لڑکیوں کے میل جول سے ایک الگ ہی طرح کا ماحول تھا جس کا پاکستان میں تصور بھی ناممکن تھا۔ یہ سب بڑے کھلے ڈلے، مست ملنگ اور من موجی قسم کے لوگ تھے۔ شرم وحیا، اخلاقیات اور رہن سہن کے ان کے اپنے معیارات تھے جہاں دامن کو سنبھال کر چلنا اور اپنی روایات پر قائم رہنا اتنا آسان بھی نہیں تھا۔ لیکن یہ اتنا بُرا اور اجنبی ماحول بھی نہیں تھا۔ بس انہوں نے ہماری طرح خود کو بے جا رسوم و قیود کا اسیر نہیں بنا رکھا تھا۔

یہ سب نوجوان تھے، ہوٹل کی رنگ برنگی سرگرمیاں دیکھتے۔ زیادہ تر یہاں اکیلے تھے جن پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ میری طرح ان کے سر پر کسی بزرگ کا سایہ نہیں تھا۔ میں یہاں چچا اور چچی کے ساتھ رہتا تھا اور یہ میرے لئے بہت بڑا سہارا تھے ۔ چچا کا بحرین میں بڑا نام تھا اور بڑی عزت تھی۔ مجھے ان کی عزت کا پاس بھی رکھنا تھا۔ ہوٹل کے ساتھیوں کے ساتھ سیر و تفریح اور ہلے گلے میں حصہ لیتے ہوئے بھی اپنے آپ کو قابو میں رکھنا ہوتا تھا۔ ابّا کو جب میں نےخط لکھ کر بتایا تھا کہ میں بنک کی ملازمت چھوڑ کر ہوٹل میں کام کرنے جارہا ہوں، تو ابا ، باوجود اس کے ، کہ انہوں نے کوئی پنج ستارہ ہوٹل نہیں دیکھا تھا ( کراچی میں اس وقت صرف انٹرکانٹیننٹل ہوٹل ، واحد فائیو اسٹار ہوٹل تھا ) لیکن کراچی جیسے شہر میں رہتے تھے، بمبئی سے ہجرت کرکے آئے تھے، روزانہ انگریزی اخبارات کا مطالعہ کرتے تھے، انگریزی کتابیں اور کہانیاں پڑھتے تھے اور یہ کہ زمانے کے گرم و سرد چشیدہ تھے۔ انہیں کچھ کچھ اندازہ ضرور تھا۔ چنانچہ میرے خط کے جواب میں انہوں نے صرف اتنا لکھا کہ مجھے تم پر اعتماد ہے کہ کوئی کام خاندان کی روایات اور تربیت کے خلاف نہیں کروگے۔ اور میں بے فکر اس لئے بھی ہوں کہ تمہارے چچا جیسا اتالیق تمہارے پاس موجود ہے۔

ابا کی یہ باتیں میرے پاؤں کی زنجیر تھیں۔ لیکن بہر حال نوجوانی تھی، کسی حد تک خود مختاری اور آزادی تھی ، جہاں تک کھل، کھیل سکتا تھا، ان سرگرمیوں میں حصہ لیتا اور خوش رہتا۔

البتہ ایک چیز کی کمی ابتداء سے ہے اور اب تک ہےاور وہ چیز ہے عقل سلیم، جس کی تھوڑی بہت مقدار بھی جو موجود ہے اس کا استعمال اس سے بھی کم کیا ہے۔ ہوٹل کے لڑکے لڑکیاں، وہاں ہونے والی خرمستیاں دیکھتے اور پھر گھر جاکر اور اپنی نجی محفلوں میں وہی کچھ کرتے۔ یہ پارٹی بازی انڈین اور یوروپئین اسٹاف کے لئے معمول کی بات تھی۔ اور ان پارٹیوں میں ہوتا بھی کیا ہے سوائے ناچ گانے اور پینے پلانے کے۔ آج بھی نوجوانوں کی تمام سرگرمیوں کا یہی حال ہے۔

تو ہُوا یہ کہ میرے چھوٹے چچا بھی امریکہ سے اپنی تعلیم مکمل کرکے بحرین آگئے تھے اور انہیں “ گلف ائیر” میں بہت اچھی ملازمت بھی مل گئی تھی۔ وہ ایک اچھے عہدے پر تھے اور ائر لائن کی جانب سے انہیں بہت سی سہولیات میسر تھیں۔

ہلٹن کے کافی شاپ کا چیف ویٹر یا کیپٹن ایک انڈین سندھی، پروانی تھا۔ اسے اپنے گھر پر پارٹیاں کرنے کا بہت شوق تھا۔ پروانی کو کہیں سے معلوم ہوگیا کہ میرے چچا گلف ائیر میں کام کرتے ہیں۔
جیسے اپنے پی آئی اے والوں نے پولٹری کا کام شروع کررکھا ہے، ان کی آرٹس اکیڈمی ہے اور بہت ساری دوسری سرگرمیاں ہیں، ایسے ہی گلف ائیر کے دوسرے اور بھی ادارے تھے جن میں Gulf Cellar کے نام سے ایک Liquor Shop بھی تھی۔ یہ بحرین کے شراب کے بڑے سپلائر تھے لیکن اسٹاف کو یہاں برائے نام قیمت پر شراب ملتی تھی۔

پروانی کو اپنے گھر پر پارٹی کرنا تھی۔ اگر بازار سے مشروبات خریدے جائیں تو بہت مہنگے پڑتے تھے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ تمہارے چاچا گلف ائیر میں ہیں ، ان کے ذریعے وہاں سے بہت سستی چیزیں مل سکتی ہیں۔ مجھے یہ علم نہیں تھا کہ اسے وہاں سے کس قسم کی “ چیزیں “ درکار تھیں۔ میں نے چچا سے ذکر کیا، انہوں نے کبھی “ گلف سیلر” نہیں دیکھی تھی نہ انہیں پوری طرح علم تھا کہ وہاں کیا ملتا ہے، نہ انہوں نے مجھ سے کوئی سوالات کئے اور تقریباً بے دھیانی میں اپنا کارڈ میرے حوالے کردیا۔

پروانی نے ایک فہرست مجھے تھمائی کہ یہ سب کچھ، فلاں وقت لے کے فلاں جگہ کھڑے ہوجانا، میں آکر تم سے لے جاؤں گا۔ میں نے پروانی سے کاغذ کا وہ پروانہ لیا اور کشاں کشاں “ گلف سیلر” کے لیے روانہ ہوا۔ وہاں پہنچ کر چچا کے کارڈ کے ساتھ وہ فہرست کاؤنٹر والے کے حوالے کردی۔ کاؤنٹر پر موجود شخص نے میری شکل دیکھی اور ایک دو سوالات کئے۔ جب چچا کے عہدے کے بارے میں علم ہوا تو خاموشی سے اندر چلا گیا اور مطلوبہ “ اشیاء” لا لا کر کاؤنٹر پر ڈھیر کرتا گیا۔

اور جب یہ ماکولات و مشروبات ایک ایک کرکے سامنے آتی گئیں میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ان میں Heineken اور Carlsberg بئیر کے دو یا تین کریٹ تھے، جنہیں اوّل اوّل میں نے سوڈا واٹر کے ٹن سمجھا۔ لیکن جب بلیک اینڈ وہائٹ، ریڈ اینڈ وہائٹ، جانی واکر وہسکی کی بوتلیں ، Beafeater جن، Smirnoff ووڈ کا اور Moët and Chandon شیمپئن وغیرہ کی بوتلیں سامنے آئیں تو میں پریشان ہوگیا کہ اب کیا کروں۔ واپس کروں تو پروانی ناراض ہوگا۔ ان خرافات کو ساتھ لے جاؤں تو پورا بازار مجھے دیکھے گا۔ اور یہ سب کچھ اتنا تھوڑا سا بھی تو نہیں تھا۔ کاؤنٹر والے نے ازراہ مہربانی ایک کارٹن میں ساری بوتلیں “سجا” دیں اور ان پر بئیر کے کریٹ رکھ کر میرے حوالے کردئیے۔

اتفاق سے میرا گھر اس دکان سے زیادہ دور نہیں تھا۔ جیسے تیسے یہ میخانہ ڈھو کر گھر تک پہنچا۔ چچا کا گھر ایک مارکیٹ نما بازار کے اوپر تھا۔ یہ مارکیٹ ایک لمبی سی گلی تھی جس میں دائیں بائیں دکانیں تھیں لیکن تقریباً ساری دکانیں بند تھیں۔ میں، مارکیٹ کے داخلی گیٹ پر میخانہ بدوش کھڑا ، پروانی کا انتظار کررہا تھا کہ وہ آئے اور میں اس بار ندامت سے جان چھڑاؤں۔

پروانی تو نہیں آیا، بڑے چچا آگئے۔ وہ ڈیوٹی کرکے گھر آرہے تھے۔ گیٹ پر مجھے دیکھا اور سامنے دھرا “ شراب خانہ “ دیکھا اور پھر مجھے سوالی نظروں سے دیکھا۔ میں نے اٹکتے اٹکتے بتایا کہ ایک دوست کے گھر پارٹی ہے اور اس نے یہ سب کچھ منگوایا ہے۔ سردی کے دن تھے لیکن میرے پسینے چھوٹ رہے تھے۔
“ وہ تو ٹھیک ہے، لیکن تم اسے یہاں ، میرے دروازے پر لئے کیوں کھڑے ہو،” چچا خشمگیں لہجے میں بولے
“ وہ دوست یہیں آنے والا ہے” میں نے جھکی جھکی نظروں کے درمیان مسمساتی سی آواز میں کہا۔
“ یہاں سے ہٹاؤ اور اس کونے پر لے جاؤ” چچا نے گلی کے کونے کی جانب اشارہ کیا اور سیڑھیوں کی طرف روانہ ہوگئے۔

اس عمارت کا کونا، یا نکڑ دراصل ایک چوراہا تھا۔ نکڑ سے متصل سڑک کی دوسری جانب جامع مسجد تھی جو اس وقت بحرین کی مرکزی مسجد تھی۔ میں مسجد کے عین سامنے یہ بار گناہ لئے “ مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے” کی تصویر بنا کھڑا تھا۔ آنے جانے والوں کی نظروں کے تیر مجھے گھائل کئے جاتے تھے۔ گو بحرین میں شراب پر پابندی نہیں تھی لیکن ایک بائیس سالہ نوجوان اگر لب سڑک خم خانہ بدوش ، جام و مینا کی دکان سجائے بیٹھا ہو، تو بحرین بہرحال ایک اسلامی اور عرب ملک تھا۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ راہگیروں کی نظروں میں کتنے اور کیسے کیسے سوال ہوں گے اور میری اپنی کیا حالت ہوگی؟۔

خدا خدا کرکے پروانی نے شکل دکھائی ۔ اس کے ساتھ ایک اور بھی لڑکا تھا۔ میں نے “ مال” ان دونوں کے حوالے کیا اور لڑکھڑاتے قدموں سے ہارے ہوئے جواری کی طرح گھر کی راہ لی۔

گھر پہنچا تو چچا، چچی اور چھوٹے چچا میرے منتظر تھے۔ ان سب کے چہروں پر عجیب سی مسکراہٹ تھی جسے میں کوئی معنی نہ دے سکا۔ اس میں غصہ، طنز، تشنیع سبھی کچھ تھا۔
“ سوری انکل، آئندہ خیال رکھوں گا۔ کبھی گھر کے سامنے نہیں لے کر آؤں گا” میں نے ندامت بھرےلہجے میں کہا۔
“ اب تو آئندہ لے کر ہی کب آئے گا۔ لا میرا کارڈ دے” چھوٹے چچا میرے بے تکلف دوست بھی تھے۔

“ ارے یہ بوتلیں بڑی خوبصورت ہوتی ہیں ۔ وہ ایک بوتل ہوتی ہے” ڈمپل” کی۔ وہ کہیں سے خالی ملے تو لے کر آنا۔ اس میں منی پلانٹ بڑا خوبصورت لگتا ہے” چچی بولیں اور چچا نے انہیں اور مجھے کھا جانے نظروں سے دیکھا۔ کچھ بولے نہیں۔

بحرین کی اور بھی باتیں یاد آرہی ہیں لیکن آج کی کہانی ہی خاصی طویل ہوگئی۔ اگلی قسط میں مزید قصے سناؤں گا۔ آج کی داستان سن کر بہت سے دوستوں کے ذہن میں وہی سوالات ابھر رہے ہوں گے جو اس وقت بازار سے گذرنے والوں کے ذہن میں ابھر رہے تھے۔ ایسی باتیں کوئی بتاتا نہیں۔ اس تھوڑے لکھے کو بہت جانیے۔
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ میں ان سوالات کا جواب دوں گا؟

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply