عوام کا اعتماد مزید مجروح نہ کیجیے ۔۔۔محمد اسد شاہ

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے لاہور کی تین خصوصی عدالتوں میں تعینات ججز کی ڈیپوٹیشن پر حاصل کی گئی خدمات لاہور ہائی کورٹ کو واپس کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے اور ان کی جگہ نئے ججز تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے – یہ تین ججز کون سے ہیں اور انھیں کس وقت تبدیل کیا گیا ہے ؟ ان میں ایک جج نعیم ارشد ہیں جو مسلم لیگ (نواز) کے راہنماؤں شہباز شریف ، محترمہ مریم نواز اور حمزہ شہباز شریف کے خلاف سرکاری مقدمات کی سماعت کر رہے تھے – دوسرے جج مسعود ارشد باگڑی ہیں – وہ بھی مسلم لیگ (نواز) ہی کے ایک اور راہنما رانا ثناء اللّٰہ خان کے خلاف سرکاری مقدمے کی سماعت کر رہے تھے – اور تیسرے جج مشتاق الٰہی ہیں –

Advertisements
julia rana solicitors

ججز کی تبدیلی بہت معنی خیز انداز اور حالات میں کی گئی ہے –
مذکورہ مقدمات میں وفاقی حکومت(تحریک انصاف) مدعی ہے ، اور مسلم لیگ (نواز) کے لوگ ملزم ہیں – ایک فریق ، یعنی مدعی خود اپنے ہی تعینات کردہ ججز کو ، عین سماعت کے دوران تبدیل کر دے تو دوسرا فریق شور مچائے گا اور انصاف کے لیے ترستی قوم بھی سوالوں میں الجھ جائے گی ، کہ یہ کیسا انصاف ہے ، اور کیسی “تحریک” ہے ؟
جج مسعود ارشد ، رانا ثناء اللّٰہ خان کے خلاف سرکاری مقدمے کی سماعت کر رہے تھے – اس دوران سرکاری وکیل نے درخواست پر سماعت میں ایک گھنٹے کا وقفہ کرنے کی اپیل کر دی- اس کی بات مان لی گئی – دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو جج مسعود ارشد نے کمرۂ عدالت میں آ کر کہا؛
“مجھے واٹس ایپ (سوشل میڈیا) کے ذریعے کام روکنے کا پیغام دیا گیا ہے – اس پیغام کے بعد میں اس کیس میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا – میں نہیں جانتا کہ یہ کیا ہوا ہے – یہ میرا ملک پاکستان ہے – میں آزاد جج کی حیثیت سے کام کرتا رہا ہوں – اور اس بار کا حصہ ہوں – ہائی کورٹ میرا ادارہ ہے – اگر میرا ادارہ میرے پیچھے (ساتھ) ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی – میں تمام کیسوں پر اللّٰہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر فیصلہ کرتا ہوں – رانا ثناء اللّٰہ یا دیگر کا فیصلہ اہمیت نہیں رکھتا – میں صرف اللّٰہ کو جواب دہ ہوں – جہاں ہائی کورٹ کہے گی ، کام کروں گا -”
کمرۂ عدالت کے اندر ایک جج کے ان الفاظ کے ظاہری اور پوشیدہ معانی کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں تھا – عدالت میں موجود وکلاء نے حکومت کے اس اقدام کو “انصاف کے خون” کے مترادف قرار دیا – اس موقع پر رانا ثناء اللّٰہ نے سوال کیا کہ حکومت نے ایوان میں اور ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس کوئی ویڈیو ہے جس میں رانا صاحب خود منشیات برآمد کرواتے نظر آتے ہیں- وہ ویڈیو کہاں ہے اور عدالت میں آج تک پیش کیوں نہیں کی جاسکی؟ اس کی بجائے جو ویڈیو عدالت میں دکھائی گئی وہ ایف ڈبلیو او کی ہے جس میں ان کی گاڑی 3 بج کر 19 منٹ پر ٹول پلازہ سے گزرتی نظر آتی ہے اور بس -”
ہم کوئی قانون دان یا قانون ساز نہیں ہیں – بچپن سے آج تک عدالتوں کے متعلق یہی سیکھا کہ پاکستانی عدالتوں کا احترام از حد ضروری ہے ، زیر سماعت مقدمات پر عدالت سے باہر بات ہی نہ کی جائے ، ججز کے فیصلوں ، بلکہ ان کے ذاتی معاملات پر بات کرنے سے بھی پرہیز کیاجائے – لیکن جو اصول ہم نے سیکھے ، انھی اصول کی پامالی کے مناظر بھی دیکھے – قارئین کو یاد ہو گا کہ 18-2017 کے دوران جب اس وقت کے منتخب وزیراعظم جناب محمد نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس چل رہا تھا ، تو جیسے عدالت میں روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو رہی تھی ، اسی طرح ہر شام ٹی وی چینلز پر بھی ایک عدالت لگ جایا کرتی تھی – آج تک ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آ سکی کہ عدالت میں زیر سماعت اس مقدمے پر لگاتار ٹاک شوز کرنے کی ہمت ان چینلز کو اچانک کہاں سے ملی – اس پہ طرہ یہ کہ کوئی عدالت انھیں روک بھی نہ سکی – لیکن پھر جب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف بنی گالہ محل کا مقدمہ چلا اور چند چینلز نے اس پر ٹاک شوز کرنے کی کوشش کی تو عدالت عظمیٰ نے ایسا کرنے سے انھیں فوراً روک دیا –
ججز کے حالیہ تبادلوں کے ضمن میں ایک اور قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ جس دن یہ تبادلے ہوئے اس سے پیوستہ گزشتہ رات وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کشمیر ہاؤس میں لاہور ہائی کورٹ کی ایک اعلیٰ ترین شخصیت سے ملاقات کی ۔عدالتی شخصیات عموماً سرکاری عہدے داران اور سیاست دانوں سے ملنے سے پرہیز کرتی ہیں – لیکن اس ملاقات کا اعتراف بعد میں خود فروغ نسیم نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں کیا – ملاقات کے لیے رات کا وقت ، اور پھر کشمیر ہاؤس کا انتخاب کیوں کیا گیا ، ہم نہیں جانتے ،لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ کشمیر ہاؤس میں کیمرے نہیں ہیں اور کسی ملاقات کا ویڈیو ریکارڈ مرتب نہیں ہوتا –
اس ملاقات سے اگلے دن تبادلے کا حکم ، وہ بھی عین دوران سماعت ، اور پھر سوشل میڈیا کے ذریعے —–
کیا تحریک انصاف کی حکومت عدلیہ اور نظام عدل کو متنازعہ بنانے کی راہ پر چل رہی ہے ؟ اگر حکومت ایسا چاہتی ہے تو ہمارا نہایت مخلصانہ مشورہ ہے کہ اس راستے کو فوری طور پر ترک کر دیا جائے ، عدل اور عدلیہ کو آزادی اور غیر جانب داری کے ساتھ کام جاری رکھنا چاہیے – اور عدلیہ کے معاملات میں حکومت کی طرف سے ایسی غیر منطقی اور پُراسرار مداخلت عوام کے دلوں میں اعتماد کو مزید مجروح کر دے گی –

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply