تِل ۔۔۔(قسط2)نجم السحر

” سلمان ۔۔۔۔ !! ٹیچر میں صرف بچوں کے لیے سو آپ صرف سلمان کہیے ” سلمان نے بہت سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے جیسے اپنا بدلہ اتارا ۔
” بے حد معذرت سلمان صاحب دراصل اس دن میشال کا کام کرنے کا موڈ نہیں تھا۔ تھوڑی سی طبیعت بھی خراب تھی کھانس کھانس کر نڈھال ہوئے جاتی تھی۔ تو ہم نے اس کا ہوم ورک کر دیا تھا ۔۔۔ ہم آئندہ احتیاط کریں گے ۔۔۔ آپ کو دوبارہ شکایت کا موقع نہیں ملے گا ” صدف کی آواز میں بھی شرمندگی تھی اب۔ سلمان نے کچھ ہی لمحوں میں اس کے کتنے روپ دیکھے تھے۔ اس بات کا صدف کو اندازہ بھی نہیں تھا۔ وہ غرور سے سر اٹھا کر چلتی ہوئی عورت جو اب اس کے سامنے بے حد شرمندہ نظر آتی تھی۔ سلمان کو معلوم تھا وہ شرمندہ اس وجہ سے نہیں تھی کہ اس کو اس کی بیٹی کا ہوم ورک کرنے کے اوپر ٹوکا جا رہا ہے۔ وہ شرمندہ یوں تھی کہ ایک انجان شخص کے اوپر اس کا راز اس کا بھرم کھل گیا اور یہ راز کھولنے والی کوئی غیر نہیں اس کی اپنی ہی تخلیق تھی۔ سلمان کو تھوڑا سا افسوس ہوا۔ وہ اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجا کے بولا
” کوئی بات نہیں ۔۔۔ اگر دوبارہ کبھی اس طرح کی کوئی بات ہو تو آپ مجھے ایک اپلیکیشن لکھ دیجیے گا ۔۔۔ آپ سے مل کر خوشی ہوئی اب آپ جا سکتی ہیں ”
صدف نے اپنے ایک ہاتھ میں میشال کا ہاتھ پکڑا دوسرے ہاتھ میں اس کا بیگ اٹھا لیا ۔ اور خاموشی سے واپس جانے لگی کہ سلمان نے پکارا۔
” اگر ناگوار نہ گزرے تو ایک مشورہ دوں آپ کو ۔۔۔۔ ”
” کہیے ۔۔۔” صدف نے کہا۔۔

” پرندوں کو خوشی تب ہی ملتی ہے جب وہ کھلے آسمان میں آزادی کے ساتھ اُڑ سکیں۔ خیال کے پرندے کو قید مت کیجئے ۔۔ اسے تخیل کے آسمان پر اڑنے دیں ۔۔۔۔ آپ کے اندر ایک مصورہ چھپی ہے۔ اسے اپنے اندر گھونٹ کے مت ماریں۔ اسے کم از کم کاغذ پر تو سانس لینے دیں۔ ”
صدف سلیمان کی بات سن کر خاموشی سے واپس گھر آ گئی۔ بات آئی گئی ہو گئی اور صدف اپنے گھر اور گھر داری میں مشغول ہو کر سب کچھ بھول گئی پھر اچانک  صدف کو دو مہینوں کے بعد اسی کیفیت نے آ لیا اور اس نے پینسل اٹھا کر ایک سکیچ بنانا شروع کیا میشال کی ہی ڈرائنگ بک پر۔ وہ اسکیچ ایک آئینے کا تھا جو بہت خوبصورت سے فریم میں جڑا دیوار پہ لگا تھا اور اس آئینے کے اندر جیسے کوئی قید تھا قیدی کے دونوں ہاتھ آئینے پر یوں رکھے تھے جیسے وہ آئینے سے باہر آنے کی کوشش کر رہا ہوں قیدی کی شبیہ واضح نہیں تھی بس اسکے بہت زور سے کھلے منہ اور اس میں سے جھلک کے اس کے دانت یہ بتا رہے تھے کہ وہ اندر بہت زور سے چیخ رہا ہے مگر اس کی آواز آئینہ سے باہر سنائی نہیں دے رہی تصویر کو غور سے دیکھنے پر اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ کوئی عورت ہے جو اس آئینے میں قید ہے۔ سلیمان اس تصویر کو دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ جسے بہت ہی خوبصورت طریقے سے بنایا گیا تھا۔ کلر کمبینیشن سے لے کر شیڈنگ  تک سب کچھ کتنا خوبصورت تھا۔ اسکیچ میں موجود میسج بھی بالکل واضح تھا۔ وہ دل میں سوچنے لگا کہ اگر اس عورت کو ذرا سی سپورٹ ملے تو یہ کس قدر بہترین کام کر سکتی ہے جو آج اسکیچنگ اور پینٹنگ  کی کتنی ہی بنیادی باتوں سے نابلد ہونے کے باوجود اتنا اچھا کام کر رہی ہے۔ مگر وہ جانتا تھا کہ جب تک کوئی بیرونی طاقت اس آئینے کو نہ توڑ ڈالے تب تک اس عورت کے لیے آئینے سے آزاد ہونا ممکن ہی نہیں ہوگا۔ سلمان نے اسکیچ کے پیچھے ایک نوٹ تحریر کیا ” بہت ہی خوبصورت اسکیچ آپ ماشاءاللہ ہنر رکھتی ہیں جس کو مزید نکھارا جاسکتا ہے ۔ آج کے زمانے میں انٹرنیٹ بہت بڑی نعمت ہے اگر اس کا درست استعمال کیا جائے فن مصوری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو دیکھیے ان سے سیکھیے، اپنا کام جاری رکھیں اور سنورتی جائیں۔ آپ کی کامیابی کے لیے دعاگو سلمان ۔۔۔۔”
صدف یہ اتنا سا نوٹ پڑھ کے اس قدر خوش تھی جیسے اس کو کوئی بہت بڑا تمغہ ملا ہو۔ یہی وہ شوق وہ ہنر تھا جو اس کی رگوں میں دوڑ رہا تھا۔ جس کے بارے میں اس کے ماں باپ اور خاندان والے کسی حد تک جانتے تھے۔ مگر سنجیدگی کے ساتھ کبھی صدف کے اس ٹیلنٹ کو اہمیت نہیں دی گئی۔ ممکن تھا کہ اگر یہ شوق ڈاکٹر یا انجینئر بننے کا ہوتا یا کسی بھی حوالے سے تعلیمی نوعیت کا ہوتا تو اس کو بڑا آپریشیئٹ کیا جاتا۔ مگر صدف کے اس شوق کو وه اہمیت دے کے کیا کرتے اور شادی کے بعد تو وہ اسکیچنگ اور پینٹنگ جو  کبھی کبھی صدف کرتی تھی اس کے لیے بھی وقت ہی ختم ہوگیا۔ کبھی کبھی اتفاق سے اس کو کوئی موقع ملتا اور وہ پنسل اور بڑی سی سکیچ بک لے کر اسکچنگ کرنے بیٹھتی تو اس کے میاں کا موڈ آف ہو جاتا ۔۔۔۔ صدف کا شوہر خرم بھی عجیب مزاج کا شخص تھا۔ یوں تو سارے زمانے کے لیے بے حد ملنسار اور دوست۔ سب کا خیال رکھنے والا۔ بہت زیادہ چیریٹی کرنے والا۔ مگر ساتھ ساتھ برانڈڈ چیزوں کا شوقین۔ خواہشات جھوٹی دنیاوی شان و شوکت کے پیچھے بھاگنے والا۔ جس کی ڈگری بازاری (مارکیٹنگ ) نوکری بیوپاری (سیلز ) اور شوق کاروباری (بزنس ) تھے۔ یہ نہیں تھا کہ وہ صدف کا خیال نہیں رکھتا یا اس سے محبت نہیں کرتا تھا مگر اس کی محبت کا انداز الگ تھا۔ وہ صدف کو موقع بے موقع تحفے تحائف دیتا رہتا تھا۔ ضرورت اور آسائش کی ہر چیز صدف کے پاس تھی۔ شادی کی کی سالگرہ سے لے کر صدف کی سالگرہ تک اس کو تمام تاریخی یاد تھیں مگر اس کے ساتھ اس کی یہ خواہش ہوتی کہ صدف ان پر احسان مندی کا اظہار کرے اور ساری دنیا کو بتائے کہ اس کا شوہر اس کی پر کتنا خرچ کرتا ہے۔ باوجود اس کے کہ صدف کو یہ بات سخت ناپسند تھی۔ مگر وه خرم کی خواہش کے مطابق نمود و نمائش کا جو موقع ملتا وہ اپنے شوہر کے دیئے ہوئے تحائف اور اپنی زندگی میں موجود آسائشات کی نمائش کرتی لوگ صدف کی زندگی پر رشک کرتے تھے۔ خرم اتنا پرفیکٹشنسٹ تھا صدف کے حوالے سے کے اس کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر وہ ان ہی تحفوں کو توڑ پھوڑ کر برباد کر دیتا۔ گھر کی ہر چیز تہس نہس کر دیتا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑی سزائیں، وقت بے وقت کی گالم گلوچ اس کی عادت تھی۔ پوزیسو اتنا کہ چاہتا تھا، صدف اپنی شخصیت کو مار کر صرف اس کا طواف کرے۔ صدف اس کو خوش رکھنے کی بہت کوشش کرتی تھی۔ اس کا ہر حکم مانتی تھی۔  اس کی خواہشات کی تکمیل کرتی تھی۔ مگر وہ صدف کے کسی بھی عمل سے خوش نہیں ہوتا اس کے پاس صدف کی شکایتوں کے انبار تھے جن کو وہ جب موقع ملتا ہے کسی کے بھی آگے بیان کرنا شروع کر دیتا خواہ وہ صدف کے گھر والے ہوں سسرال والے ہوں یا کوئی اجنبی سیلز گرل مارکیٹ میں۔ کسی کے بھی سامنے اس کی عزت کو پل میں دو کوڑی کی کر دیتا۔
صدف کو اکثر یہ سننے کو ملتا کہ ” وہ ناشکری ہے اور کیا یہ عیاشیاں اس نے کبھی اپنے باپ کے گھر میں بھی دیکھی تھیں  دیکھو تو سہی میں نے تم کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ورنہ تم جیسے معمولی شکل و صورت کی مالک معمولی خاندان اور علاقے سے اٹھ کے آنے والی کبھی بھی یہ آسائشیں ڈیزرو  نہیں کرتی تھی ”
صدف کے شوہر کا مزاج سمجھنے کے لئے اس کے دو اقوال زرین بہت کافی ہیں۔۔۔
” میں کسی ناکام اور لو سٹینڈرڈ  شخص سے تعلق نہیں رکھ سکتا خواہ وه میری اپنی ہی اولاد کیوں نا ہو ”
دوسرا
” عورت تو پیدا ہی اس لیے ہوئی ہے کہ اس پہ ظلم کیا جائے ”
اور یہ دو اقوال زریں وہ بار بار صدف کی سماعتوں میں انڈیلتا رہتا تھا۔
۔
ابھی عبیر کی کہانی یہیں تک پہنچی تھی کہ چھوٹی خالہ نے عبیر کی کہانی کو بیچ میں ہی روک دیا۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

” بس بس ۔۔۔۔ یہ کس قسم کا اچھا انسان ہے ۔۔۔” خالہ نے ماتھے پہ بل ڈال کر کہا
” وہ سونے کا نوالہ کھلا رہا ہے خالہ ہاں یہ الگ بات ہے کہ دیکھ شیر کی نگاہ سے رہا ہے ۔۔۔۔ صدف کے لائف سٹائل پر دنیا رشک کرتی ہے۔ کتنی ہی خواتین صدف جیسا دیکھنے کی حسرت، اس کو جو حاصل ہے اس کی چاہت میں مری جاتی ہیں خرم بہت خوبصورت ہے اوپر سے امیر بھی اس میں کسی قسم کی برائی نہیں، اس نے کبھی صدف پر ہاتھ نہیں اٹھایا اور کیا چاہیے ”
” بیٹا جی سونے کا نوالہ کھلا کر شیر کی نگاہ سے دیکھنے والے جن سے محبت کرتے ہیں۔ دس لوگوں کے بیچ ان کی خامیاں بیان کرکے ان کی عزت نفس کو نقصان نہیں پہنچاتے ۔۔۔۔ اور ایک بات میری اور دھیان سے سنو ۔۔۔!! بیوقوف قسم کے جاھل لوگ ہوتے ہیں جو بیوی پر مار پیٹ کرتے ہیں اور پکڑے جاتے ہیں۔ ذہین اور شاطر آدمی ہمیشہ جسمانی مار کی جگہ ذہنی تشدد کا استعمال کرتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے اس کا نشان نہیں پڑتا مگر اذیت برابر ہے۔۔۔ میری نظر میں تو دس از آ ڈیزاسٹر میرج ۔۔۔۔ ” خالہ کی رائے قطعی تھی ۔۔۔۔
” لیکن خالہ کمپرومائز بھی کوئی چیز ہوتی ہے جو عورت کو ہی کرنا پڑتا ہے۔ پرفیکٹ تو کسی کی زندگی نہیں ” عبیر نے کمزور سے لہجے میں نہ جانے صدف کو ڈیفینڈ کیا یا خرم کو۔
” بیٹا جی کمپرومائز اور abuse میں ایک بڑا واضح فرق ہوتا ہے۔ مگر وہ فرق ہم نے اپنے بچوں کو سکھایا ہی نہیں۔ اس امید پر کہ ان کی شادیاں قائم رہیں۔ اور جب تک وقت کے ساتھ ہمارے بچے ان دو چیزوں میں فرق محسوس کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ تب تک وقت گزر چکا ہوتا ہے اور ہمارے بچے اپنی شادی بچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ خود کو گنوا کر۔ اب میری اس رائے کو کون کس نظر سے دیکھتا ہے۔ اس بات کا سراسر تعلق دیکھنے والے کی سوچ اور اس کے تربیتی ڈھانچے پر ڈیپینڈ کرتا ہے۔ ” چھوٹی خالہ نے عبیر  کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا تو عبیر کا چہرہ ایک لمحے کیلئے پیلا پڑ گیا۔ مگر وہ خود کو سنبھالتے ہوئے بولیں ۔
” ارے خالہ آپ آگے کی کہانی تو سنیے ۔۔۔۔ ” عبیر نے مسکراتے ہوئے کہا

Facebook Comments