گھروندا ریت کا(قسط5)۔۔۔سلمیٰ اعوان

”میں کیاچاہتا ہوں۔“
اُس وقت جب منگولیا کے پُھولوں کی خُوشبو فضا میں تیرتی پھر رہی تھی۔ کیلے کے درختوں کی شاخیں ہواؤں کے بوجھ سے یوں جُھکی پڑتی تھیں جیسے ابھی ٹوٹ کر زمین پر گر جائیں گی۔ دکنی ہواؤں نے پپیتے کی شاخوں کو بھی رقص کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وکٹورین طرز کے دریچے میں نیلے دھاگوں سے لپٹی روکتھو ریدی اور منی پلانٹ کی بیلوں کے ننھے منے پتے بھی پھڑ پھڑا رہے تھے۔
سورج کی رو پہلی کرنیں دریچے کے راستے خوابگاہ میں داخل ہوکر عجیب سی اُداسی کا احساس بکھیر رہی تھیں۔
اُ س نے تکیے کو دوہرا کیا۔ اِس سارے ماحول پر گہر ی نظر ڈالی اور پیٹ کے بل دوہرا ہوتے ہوئے آنکھیں موند کر اپنے آپ سے یہ سوال کیا۔

گھروندا ریت کا(قسط4)۔۔۔سلمیٰ اعوان
”ایک کمزور، مریل اوردبّو قسم کی بیوی۔“
”ہاں۔“
وہ دھیرے سے بڑ بڑایا۔
اُس نے بالوں میں ہاتھ پھیرا، کروٹ بدلی اور دوبارہ اپنے آپ سے بولا۔
”شاید نہیں۔“
اُ س نے ”ہاں اور نہیں۔“ دونوں جواب اپنے آپ کو خود ہی دئیے۔ سوال بھی اپنے آپ سے ہی کیے تھے۔
اُس کے چہرے پر اندرونی اضطراب کا ہلکا سا غبار چھپایا ہوا تھا۔ چہرہ اُ س تازگی سے خالی تھا جو رات کو پُر سکون نیند لینے پر صُبح دم پیدا ہوتی ہے۔
کلب میں رات گالا نائٹ منائی گئی۔ خلاف معمول اُ س نے ڈرنک بھی بہت کی اور رقص بھی کرتا رہا۔
اُس وقت منہ کا ذائقہ کَسیلا ہورہا تھا۔ پنڈلیوں میں اینٹھن سی تھی۔ دل اُٹھنے پر مائل نہ تھا۔ چڑھتی دُھوپ بتا رہی تھی کہ وقت نو کے قریب ہے۔
برآمدے میں برتنوں کی کھٹ کھٹ شروع ہوگئی تھی۔ برتنوں کی کھٹکھٹاہٹ سے اُسے اَزلی بیر تھا۔ یہ شور سُنتے ہی اُسے یوں لگاجیسے اُس کے دماغ کی نسیں پھٹ جائیں گی۔
لیٹے لیٹے اُس نے گونج دار آواز میں نوکر کو ڈانٹ دی۔ یہ وہ اچھی طرح سمجھتا تھا کہ طاہرہ کے سوا نوکروں میں اتنی جُرات نہیں کہ وہ صاحب کی موجودگی میں برتنوں کے ساتھ دھینگا مُشتی شروع کر دیں۔
جب بھی رات کو اُسے گھر آنے کے لئے دیر ہوتی۔اگلی صُبح برتنوں کو ضرور بجایا جاتا۔ یہ ناراضگی کا واضح سگنل تھاجسے اُن دونوں کے علاوہ بچے اور نوکر بھی سمجھتے تھے۔
سائیڈ ٹیبل سے اُس نے کلائی کی گھڑی اُٹھا کر وقت دیکھا۔نو بج رہے تھے۔ چند سائیڈ ٹیبل سے اُس نے کلائی کی گھڑی اُٹھا کر وقت دیکھا۔نو بج رہے تھے۔ چند بار اُس نے پھر دائیں بائیں پہلو بدلے۔ ہاتھ بڑھاکر میز سے ٹرانسسٹر اُٹھایا۔ مختلف سٹیشنوں کو ٹیون کرتا رہا۔ کہیں سے کوئی اچھی چیز سُننے کو نہ ملی۔جھلّا کر اُسے بند کیا اور وہیں رکھ دیا۔
رات اُس کی واپسی تین بجے کے قریب ہوئی تھی اور یہ بھی اتفاق ہی تھا کہ جب وہ ڈھاکہ کلب سے گھر جانے کے لئے نکل رہا تھا اُ س کا ٹکراؤ بادل سے ہوا جس نے گاڑی کی کھڑکی سے چہرہ نکال اُسے کہا۔
”میں تمہیں لینے آیا تھا۔“
”کہاں کا ارادہ ہے؟“ اُ س نے جواباً پُوچھا۔
”میرے پیچھے آؤ۔“
گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اُ س نے جانے سے معذرت کی۔طاہر ہ کی ناراضگی کا عُذر پیش کیا۔ مگر بادل اُس وقت سچ مچ کا زور دار بادل بنا ہوا تھا جو اُ س کے انکار کی صورت میں فوراً برس پڑتا۔
”ہٹاؤ یار کیا بور کرتے ہو؟میں تمہیں خاص طور پر لینے آیا تھا۔“
وہ جانتا تھا بادل ٹلنے والی شے نہیں۔ عافیت اِسی میں تھی کہ چُپ چاپ گاڑی اُ س کے تعاقب میں ڈال دے۔
ڈھاکہ کینٹ میں کرنل غلام سرور کے ہاں محفلِ رنگ وبُو سجی ہوئی تھی۔ راجن پور کا کرنل سرور جو بادل کا گہرا یار تھا۔بڑا ہنس مُکھ اور باغ وبہار شخصیت کا مالک تھا۔ غائبانہ تعارف تو تھاپر ملاقات آج ہی ہوئی تھی۔ اُس وقت جب پُوربی ہوائیں درختوں کے پتوں پھُولوں کے بوٹوں اور گھاس کے قطعوں پر کسی نازک دوشیزہ کی مانند اٹھکیلیاں کرتی پھرتی تھیں۔ کرنل سرور کی آواز چاروں کھونٹ پھیلی ہوئی تھی۔ ظالم نے کیا گلا پایا تھا۔ ٹیگور کا بنگلہ گیت یوں لگتا تھا جیسے آسمان سے کوئی فرشتہ اپنی لَے میں ملکوتی نغمہ فضا میں بکھیر رہا ہے۔

بنگلہ گیت یوں لگتا تھا جیسے آسمان سے کوئی فرشتہ اپنی لَے میں ملکوتی نغمہ فضا میں بکھیر رہا ہے۔
تم اپنے راج سنگھاسن سے اُترے اور میری کُٹیا کے دروازے پر آکھڑے ہوئے۔
میں ایک کونے میں بالکل تنہا کھڑی گا رہی تھی۔میرا گیت تمہیں سنائی دیا۔تم میری کُٹیا کے دروازے پر آکھڑے ہوئے۔
میرے سیدھے سادے گیت نے تمہارے پریم کو چُھو لیا۔ایک پُھول انعام کے طور پرلے کر تم میری کُٹیا کے دروازے پر آکھڑے ہوئے۔
لیکن اُس وقت غضب ہوگیا جب اُ س نے ”راگنی آسا“ کا گیت گایا۔ اُسے کچھ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ بے حِس وحرکت ہو کر زمان ومکان کی قید سے آزاد ہوگیا ہے۔
جو گیت وہ گا رہا تھا۔ اُس کا مکمل مفہوم اُس کی گرفت میں نہیں آ رہاتھا۔ غالباً سرائیکی زبان تھی۔ لیکن اُس سے کچھ فرق نہیں پڑتا تھا۔ زبان کی مٹھاس، کرنل کی آواز کا سحراور راگنی آسا۔
سچ تو یہ تھا کہ وہ سانس جانے کیسے لے رہا تھا؟
وہ اچھے گیتوں کا رَسیا تھا۔ اچھی آوازوں کا قدردان تھا۔ بنگالی ہونے کے باوجود وہ بے شمار زبانوں کے گیت سمجھتا اور اُنہیں شوق سے سُنتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب تین بجے کے قریب واپسی ہوئی اُس نے کرنل سرورکے ہاتھوں کو عقیدت سے اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے کہا۔
”میں بادل کا شکر گزار ہوں کہ وہ مجھے یہاں لے آیا اور میں نے آپ کو سُنا۔ فوجیوں کے بارے میں میرے خیالات ”ٹینی سن“ سے مختلف نہیں کہ یہ بس ماردھاڑ والی شے ہیں۔ پر آپ کو سُن کر یہ احساس ہوا کہ فن کِسی کی میراث نہیں۔“
گھر واپسی کا راستہ اُ س نے خمار میں ڈوبے ڈوبے طے کیا۔ سویا بھی دیر سے اور جاگا بھی دیر سے۔
آج اتوار کا دن تھا۔ بچوں نے صُبح سے کمرے میں ایک باربھی جھانکا تک نہ تھا۔ طاہرہ نے اُنہیں ڈانٹ ڈپٹ کر کسی کونے میں بٹھا رکھا ہوگا۔
نوکر نے اندر آکر ناشتے کے لئے پوچھا۔ اُس نے اُٹھتے ہوئے کہا۔
”ناشتہ لگاؤ میں آر ہاہوں۔“
وہ جب کھانے کی میز پر آیا، نوکر چائے دانی کوٹی کوزی سے ڈھانپ رہاتھا۔ ٹی وی لاؤنج ویران تھا۔ استفسار پر نوکر نے بتایا کہ بچے ناشتہ کرنے کے بعد ابصار صاحب کے ہاں گئے ہوئے ہیں۔ اُن کے بچے اُنہیں بلانے آئے تھے۔بیگم صاحبہ سٹور میں ہیں۔ کل مارکیٹ سے خریدی گئی جنس کو ملازمہ کے ساتھ سمیٹنے میں مُصروف ہیں۔
ٹوسٹ پر مکھن لگاتے ہوئے اُس نے اپنے آپ سے کہا۔
”اِس بار طاہر ہ رحمن تم روٹھنے میں سو فی صد حق بجانب ہو۔ کوئی بھی اچھی بیوی شوہر کا اتنی رات گئے تک باہر رہنا برداشت نہیں کرتی۔ میں تمہیں غصّے اور ناراضگی کے اِس حق سے محروم کرنا ہرگز پسند نہ کروں گاجو بیوی ہونے کے ناطے تمہیں حاصل ہے۔ پر مجھے اگر شکایت ہے تو بس اتنی کہ غصے کے اظہار کے لئے تم جو طرزِ عمل اختیار کرتی ہو وہ صرف بھونڈا ہی نہیں منفی بھی ہے۔ میں اب جب تمہیں منانے کی کوشش کروں گا تو جانتا ہوں تم کِس قدر غُل غپاڑہ مچاؤ گی اور اِسی غُل غپاڑے سے میر ی جان جاتی ہے۔“
چائے کپ میں اُنڈیلی۔ اتنی گرم نہ تھی جتنی وہ پینے کا عادی تھا۔ ناشتے کا سارا مزہ کرِکرا ہوگیا تھا۔ بھنّاتے ہوئے اُس نے کپ میز پر پٹخا اور نوکر سے بولا۔
”اِس شربت کو پلانے کے لئے تم گھنٹہ بھر سے اپنی ٹانگیں توڑ رہے تھے۔“
نوکر نے مسکینی سے کہا۔
”صاحب میں نے اِسے ٹی کوزی سے اچھی طرح ڈھانپا تھا۔ میرا خیال تھا یہ کافی گرم رہے گی۔ آپ۔۔۔“
اُس کے ماتھے پر تین چار بَل پڑے۔ تُرشی سے اُس کی بات کاٹتے ہوئے و ہ بولا۔
”بڑی ڈھیٹ ہڈی ہو تُم۔ کتنی بار کہا ہے میرے سامنے فضول قسم کے عُذر لنگ مت پیش کیا کرو۔“
”صاحب میں دو منٹ میں اور بنا لاتا ہوں۔“
”رہنے دو۔“
اُس نے کپ ویسے ہی میز پر رکھ دیا اور اُٹھتے ہوئے بولا۔
”جاؤ بچوں کو ابصار صاحب کے ہاں سے لے آؤ۔“
ابصار صاحب انکے پارٹنر تھے۔بُہت مخلص، ہمدرد اور ایمان دار سے ساتھی۔ رہنے والے تو میمن سنگھ کے تھے۔ کوئی چھ سال قبل انہوں نے مسٹر خان کی پارٹنر شپ سے چائے کا کاروبار شروع کیا تھا۔مسٹر خان سرکاری ملازمت کی وجہ سے پسِ پردہ تھے پر وہ اُنہیں ساری سہولتیں اور مواقع فراہم کررہے تھے جنہوں نے تھوڑے ہی عرصے میں اس کاروبار کو خاصا عرُوج دے دیا تھا۔
وہ اپنے کمرے میں پہنچ کر لا ن میں کُھلنے والی کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا تبھی دو صحت مند بچے اُچھلتے شور مچاتے آکر اُس کی ٹانگوں سے لپٹ گئے۔ باری باری اُن کے رُخساروں پر پیار کرتے ہوئے اُس نے کہا۔

”تم لوگ صبح سے کہاں غائب تھے؟ میرے پاس کیوں نہیں آئے؟“
”پپا ہم لوگ مونی اور دُلوّ کے ساتھ لُڈو کھیل رہے تھے۔ آپ نے بُلایا تو کھیل اُدھورا چھوڑ کر چلے آئے۔“
لڑکی نے جو عمر میں لڑکے سے چھوٹی تھی آنکھیں گھُمائیں اور ہونٹوں کو اُس کے پاس لاتے ہوئے پُرسرار انداز میں بولی۔
”پپا مما آپ سے ناراض ہیں؟“
”تمہاری ممی بُہت خراب ہیں۔ ہر وقت مجھ سے لڑتی رہتی ہیں میں نے اُنہیں گھر سے نکال دینا ہے۔“
”ہائے پپا۔“
اُس نے دیکھا بیٹی کے چہرے کارنگ اُڑ گیا۔ آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔فوراً اُس نے اُسے اپنے بازؤوں میں سمیٹا۔ گالوں پر پیا رکیا۔
”میری جان دونی۔ کیوں پریشان ہوگئی ہو؟“
”پپا۔“ بچی نے اپنے ننھے منے ہاتھوں میں اُس کا چہرہ تھام لیا اور اُس کے گالوں پر پیار کرتے ہوئے بولی۔
”ہمیں کھانا کو ن کھلائے گا؟ ہمارے کپڑے کون سیئے گا۔ ہمیں سکول کون چھوڑنے جائے گا؟“ہمیں باہر کون لے کر جائے گا؟
”بس تو اتنی سی بات کے لئے گھبرا گئی ہو۔ ارے بھئی کریم کھانا پکائے گا۔نُذرل میری بٹیا رانی کو سیر کروائے گا۔ اور ڈرائیور میری مُنی سی گڑیا کو سکول چھوڑ کر آئے گا۔“
”چھی چھی پاپا۔“ بچی نے بُرا سا منہ بنایا۔
”کریم کھانا پکائے گا۔ وہ بُہت گندا ہے میں اُس کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھاؤں
گی۔“
چلو کاظم بابا سے کہیں گے وہ کھانا پکائے۔
”نہیں پپا آپ ممی کے ساتھ صُلح کرلیں۔“
“ اچھا چلو تمہاری ممی کے پاس چلتے ہیں۔ وہ فیصلہ کریں گی۔“
اُس نے دونوں بچوں کی اُنگلیاں پکڑیں اور سٹورروم کی طرف چل پڑا۔
اور وہاں طاہر ہ رحمن چاول دالوں اور چینی کے ذخیرے میں گھِری بیٹھی تھی۔
سٹور کے چھوٹے سے دروازے میں ٹھہر کر اُس نے ناک سے سُوں سُوں کی زور دار آوازیں نکالیں اور بولا۔
”بچو پھر نہ کہنا۔ پولیس پکڑ کر لے جائے گی تمہاری ماں کو۔ ذخیرہ اندوزی شروع کر دی ہے اُس نے۔“
دالوں کو مختلف ڈبوں میں سینتی ہوئی ملازمہ کھِلکھلا کر ہنس پڑی۔ بیٹے اور بیٹی نے بھی قہقہہ لگایا۔ پر وہ چہرے پر برھمی کے آثار لئے بیٹھی رہی۔ اور پھر یوں ہوا کہ ملازمہ باہر چلی گئی۔ بچوں کوبھی اُس نے بہلا پُھسلا کر کھیلنے کے لئے بھیج دیا اور رات کلب میں گالا نائٹ منانے اور راگنی آسا کے گیت سُننے کا معاوضہ اُسے ڈیڑھ دو گھنٹہ کی مسلسل منت وخوشامد اور طاہرہ رحمن کی کڑوی کسیلی باتیں سُن کر صبر کرنے کی شکل میں ادا کرنا پڑا۔
اور شام کو جب اُس نے باہر جانے کے لئے گاڑی نکالی تو ”بنانی“ کی اُس نسبتاً ویران سڑک پر گاڑی روکے سٹیرنگ پر سر رکھے وہ کتنی دیر تک صرف یہ سوچتا رہا کہ یہ شام کہاں گزاری جائے؟
ہیلن مارلے کے ہاں۔صبیحہ کے پاس یامسزامجد کے گھر۔ دیر بعد اُس نے سر اُٹھایا۔سڑک کی ویرانی کو گھُورا اور چابی گھُماتے ہوئے بڑ بڑایا۔
”لعنت بھیجو اِن سبھوں پر۔ سوسائٹی گرلز ایک سے ایک بڑھ کر فلرٹ۔اور جب وہ ایک لمبی ڈرائیو کے بعد واپس آ رہا تھاتو وہ تشنہ سی آرزو اُس کے لبوں پر پھڑ پھڑائی جو اکثر وبیشتر اُسے بے چین رکھتی تھی۔
”جی چاہتا ہے ایک معصوم بھولی بھالی اور دبّو قسم کی لڑکی میری دوست ہو۔“

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply