انقلاب کامیاب ہوا۔
غریبوں اور محروموں نے استحصالی طبقے کو اٹھا کر گلیوں، سڑکوں اور چوراہوں پر پھینک دیا۔
ظلم و استبداد کا نظام یوں تو صدیوں سے قائم تھا لیکن انقلاب کی اصل وجہ رواں برس کے وہ پے درپے واقعات بنے جن میں لوگ اجتماعی خود سوزیاں کر رہے تھے، غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے بچوں کو ذبح کر رہے تھے اور ہیجان و پاگل پن میں معصوم بچوں کو عصمت دری کے بعد قتل کر کے پھینک دیتے تھے۔
شہر کے بڑے چوک میں عوامی عدالت لگی ہوئی تھی جہاں مجرموں کو لایا جاتا اور پھر مقدمہ سن کر انھیں پھانسی پر لٹکا دیا جاتا۔
ایک جاگیر دار اور کارخانہ دار کو ایک ہی ساتھ لٹکانے کے بعد دو دوسرے لوگوں کی باری آئی۔
جج نے پہلے ملزم سے پوچھا جب عوام جل رہے تھے ، کٹ رہ تھے مر رہے تھے تو تم کیا کر رہے تھے؟
م م ، میں بے ، بے گناہ ہوں جناب میں تو پچھلے ایک برس سے افسانہ میلہ میں شریک تھا ، میں نے کسی پر ظلم نہیں کیا۔
م م میں بھی کئی ماہ سے مشاعروں میں شرکت کے لیے شہر سے باہر تھا۔ دوسرے شخص نے بھی اپنی صفائی پیش کی۔
ان دونوں کو پھندہ ڈالنے سے پہلے ان کی کھال کھینچوائی جائے۔ جج نے فیصلہ سنایا تو ہجوم نے پُر زور تائید کی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں