• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کا اظہار کرنا ایک کفریہ رویہ ہے؟۔۔عبدالستار

کیا ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کا اظہار کرنا ایک کفریہ رویہ ہے؟۔۔عبدالستار

ہم بنیادی طور پر ایک ایسے بند سماج کا حصہ ہیں جہاں پر خود سے سوچنا اور سوال اٹھانے کے عمل کو “کفریہ باتوں “میں شمار کیا جاتا ہے ، جوابات کی بجائے سوالوں کو کھوجنے اور پوچھنے والے لوگوں کو “زیادہ پڑھا لکھا پاگل ،کمیونسٹ،دہریہ اور ملحد “کا ٹیگ لگا کر اس کی آواز کو دبانے کامقدس فریضہ ادا کیا جاتا ہے ۔یہ انسانی تاریخ کا ایک کربناک المیہ ہے کہ ہر دور کے سقراط اور منصور کے ساتھ یہی ظالمانہ رویہ برقرار رکھا گیا کیونکہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو روایتی اور تسلیم شدہ اتھارٹیز کو کھلم کھلا چیلنج کرتے ہیں اور اپنے ذاتی سچ کا نعرہ انا الحق بلند کر کے آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ اور نئی صبح کی امید پیدا کرنے کا استعارہ بن جاتے ہیں ۔یونانی دانشوروں سقراط ،افلاطون اور ارسطو پر اسی قسم کے الزام تھے کہ وہ لوگوں کے ساتھ مختلف موضوعات پر ڈائیلاگ کرتے ہیں اور خود سے سوچنے کا فن سکھاتے ہیں ۔یہ وہ نابغہ روزگار شخصیات تھیں جنہوں نے رائج الوقت دیوی دیوتاؤں کو ماننے سے انکار کر دیا تھا اور ان پر سوالات کھڑے کر دیے تھے ۔یہ روایتی معاشروں کا المیہ ہوتا ہے کہ وہاں چند ٹکے بندھے اصول و ضوابط کو حتمی تصور کر لیا جاتا ہے ۔ایک سوچنے ولے دماغ میں مختلف قسم کے سوالات جنم لیتے رہتے ہیں اور وہ ان کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں ۔جن معاشروں کی کوکھ سے سوالات کرنے والے اذہان جنم نہ لیں تو وہ معاشرے علمی طور پر بانجھ ہو کر بہت پیچھے رہ جاتے ہیں جس طرح خدا کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اسی طرح سوال کا بھی کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ایک سوچنے والے دماغ میں اس طرح کے سوالات جنم لیتے ہیں جو کہ بہت ہی قابل غور ہیں۔

1۔کیا ایک فکس آئیڈیالوجی کے سہارے ایک بہتر زندگی گزاری جا سکتی ہے ؟

2۔کیا پندرہ سو سال پہلے والے حقائق آج کی تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں اپلائی ہو سکتے ہیں ؟

3۔کئی سو سال پہلے والی سچائیوں کی آج کی نئی دریافت شدہ سچائیوں کے سامنے کیا اہمیت بنتی ہے ؟

4۔کیا مذاہب عالم کی کئی سو سال پہلے کی تشریحات کو آج کے جدید دور کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے ؟

5۔کیامذہبی کتابوں میں موجود معجزات کی کوئی عقلی یا سائنسی تو جیح پیش کی جا سکتی ہے ؟

6۔کیا ماضی کی طلسماتی کہانیوں کا سرا آج کی جدید دنیا میں تلاش کیا جا سکتا ہے ؟

7۔کیا چاروں یا پانچوں اماموں کے فقہی فتاوٰی اور مسائل کو آج کے دور میں ایک راہنما اصول کے طور پر تسلیم کیا جاسکتا ہے ؟

8۔کیا مختلف الخیال اور کئی فرقوں میں بٹے ہوئے علماء کی قرانی تفاسیر کی روشنی میں کوئی حتمی ضابطے تشکیل دیے جاسکتے ہیں ؟

9۔کیا سچائی کو ایک مخصوص خانے میں بند کر کے “ہمیشہ کے لیے تسلیم شدہ “کاٹیگ لگا کر پیش کیا جاسکتا ہے ؟

10۔ کیا مذہب اور مقدس شخصیات پر سوال اٹھانے سے ان کی اہمیت کم ہو جاتی ہے ؟

11۔ کیا سوال اٹھانے والوں کو مختلف “کفریہ ٹیگ “لگا کر سائیڈ لائن کرنا کوئی مناسب عمل ہے ؟

12۔کیا سچائی کو کسی مخصوص دور کے ساتھ نتھی کر کے “عالمگیر “سچائی کا درجہ دیا جاسکتا ہے ؟

13۔کیا تنقید کا عمل کوئی غیر انسانی رویہ ہے ؟

14۔کیا مسلم مائنڈ سیٹ کے ساتھ مختلف الخیال اور مختلف الکلچر ادب کو پڑھا جا سکتا ہے ؟ اگر نہیں پڑھا جا سکتا تو الکندی ،الرازی ، الفارابی ، بو علی سینا اور ابن رشد کو آپ کیا درجہ عطاء کریں گے کہ جن کی بدولت کفریہ یونانی علم ہم تک منتقل ہوا ؟

15۔اپنی عقلی فہم و فراست ،تحقیق و جستجو کی بدولت حاصل شدہ نتائج کا اظہار اپنے ذاتی سچ کے طور پر کرنے سے بجائے مکالمہ کو فروغ دینے کے اس شخص پر بلاسفیمی کا الزام لگا کر در بدر کرنے کے رویہ کو ایک مہذب انسانی رویہ کہا جاسکتا ہے ؟

16۔ کیا حقائق پر مٹی پاؤ والا رویہ ہمارے تسلیم شدہ تصورات و خیالات کو مستقل آکسیجن فراہم کر کے برقرار رکھ سکتا ہے ؟

Advertisements
julia rana solicitors

یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو ایک باشعور ذہن میں پیدا ہوتے ہیں ۔علم کیوں ،کیا اور کیسے کی گردان سے ہی آگے بڑھتاہے۔ہمیشہ وہی سوچ اور فلسفہ آگے بڑھتا رہتا ہے جو کہ وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے اور جو وقت کے ساتھ میل نہیں کھاتا وہ قصہ پارینہ اور وقت کی گرد تلے ہمیشہ کے لیے دفن ہو جاتا ہے ۔جب کسی فلسفہ کی کوکھ سے تحقیقی دماغ پیدا ہو نا بند ہوجائیں تو پھر وہ فلسفہ بانجھ ہو کر اپنی موت آپ مر جاتا ہے ۔تنقید و تحقیق سے فلسفوں اور سوچوں میں نکھار پیدا ہوتا ہے اور جانکاری کا عمل وسیع و عریض ہوتا جاتا ہے ۔جو تہذیب و فلسفہ چاہے وہ مذاہب ہی کیوں نہ ہو اگر وہ سوال کا سامنا نہ کر سکیں تو پھر اس کے قائم رہنے کے امکانات بہت ہی کم رہ جاتے ہیں ۔آج کا دور قصے کہانیوں کا نہیں ہے بلکہ حقائق پر مبنی واضح سچائیوں کا دور ہے ۔تحقیق و جستجو ایک شعوری عمل ہوتا ہے اور اس عمل کو ایک حتمی فل سٹاپ لگا کر بند نہیں کیا جا سکتا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply