قم کا ابو جہل: آیت الله عباس تبریزیان۔۔۔حمزہ ابراہیم

25 جنوری 2020 کو ایران کے مقدس مذہبی شہر قم کے حوزہ میں آیت الله عبّاس تبریزیان نامی ایک عالم دین کی جانب سے میڈیکل سائنس کی  دنیا کے بڑے نام   پروفیسر ہیرسن  کی کتاب ” انٹرنل میڈیسن “ کی ایک جلد کو آگ لگاتے ہوئے  بزعم ِخود  کیمیائی علم طب کے زمانے کے خاتمے کا اعلان کیا۔ یہ جاہل آیت الله نہیں جانتے کہ علم کی زبان میں  سب اشیاء کے اجزا جو ایٹموں سے مل کر  بنے ہوتے ہیں، کیمیکل  کہلاتے ہیں اور ان کی اپنی  معجونین بھی کیمیائی مرکبات  ہی ہیں، اگرچہ ناکارہ اور کسی بیمار کے کام کے نہیں ہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ قم نامی مدارس کا یہ شہر تہران سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، اور تہران میں میڈیکل سائنس کے بڑے بڑے ماہرین بیٹھے ہیں لیکن آیت الله ان کے علم کے نور سے محروم رہ کر ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ آیت الله کی اس  علم سوزی والی حرکت نے ایسے  بہت سے لوگوں کو حیرت زدہ کر دیا جو بوکو حرام جیسی تنظیموں اور ملالہ کو گولی مارنے والے طالبان کی سوچ کے ایران میں پائے جانے کی امید نہیں کرتے تھے۔

آیت الله تبریزیان ایک عرصے سے جدید علم ِطب کے مقابلے میں قرآن و حدیث سے ایک اسلامی طب نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہوں نے ایران میں اچھا خاصہ کاروبار بنا لیا ہے۔ ہر شہر میں  طبِ اسلامی کی دوائیں بیچنے کی  دکانیں موجود ہیں جو مردانہ کمزوری سے لے کر کینسر تک کا علاج کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے ایک لاکھ سے زیادہ فالور ہیں جو کبھی کبھار ایران میں جدید علوم کے خلاف مظاہرے بھی کرتے رہتے ہیں۔ ایران کے رہبر آیت الله خامنہ ای کا کہنا ہے کہ ان کیلئے  نیوکلیئر ٹیکنالوجی سے بھی بڑا دغدغہ  طبِ اسلامی  کا احیاءہے۔ رہبر نے آیت الله تبریزیان کو قم میں ادارہ بنا کر دیا ہے جس میں وہ اپنی جہالت متعدد شاگردوں کو منتقل کر چکے ہیں۔ موصوف حوزہ میں درسِ خارج بھی دیتے رہے  ہیں۔ ایران کے سرکاری ٹی وی چنیل پر آیت الله تبریزیان اور ان کے شاگردوں کو جہالت پھیلانے کی پوری آزادی حاصل ہے، وہ مختلف پروگراموں میں بیٹھ کر معجونیں تجویز کرتے رہتے ہیں۔

ستم ظریفی یہ کہ آیت الله کی کتاب سوزی کو ایک ماہ بھی نہیں ہوا کہ قم میں کرونا وائرس پہنچ چکا ہے۔ اس مقدس مذہبی شہر کو نہ کسی عارف ِکامل کی دعائیں اس وبا سے بچا سکی ہیں تو نہ آیت الله تبریزیان کی طبِ اسلامی کا کہیں نام و نشان ہے۔ ظاہر سی بات ہے، جو نام نہاد طب آج سے چودہ سو سال پہلے طاعون، خسرہ، چیچک، ملیریا، وغیرہ جیسی بیماریوں کا کوئی علاج پیش نہیں کر سکی تھی، وہ کرونا وائرس کے خلاف کیوں کر موثر ثابت ہو سکتی ہے؟ حضرت عمر کے زمانے میں طاعون کی وبا نے ایک لاکھ مسلمانوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا تھا ، جب میں کئی اہم صحابہ بھی شامل ہیں، اور حضرت علی سمیت کوئی بھی بزرگ اس وبا کا توڑ نہیں کر سکا تھا۔

آیت الله ایک ایسے رجز خوان کی طرح جو صرف میدان سے دور بیٹھ کر ڈینگیں مارتا ہے اور جنگ شروع ہونے پر فرار کر جاتا ہے، اب تک اس وائرس کا کوئی قابل ِتجربہ و تصدیق علاج بتانے اور اس کو دنیا کے سامنے ثابت کرنے سے ناکام رہے ہیں۔ تاہم آیت الله نے اپنے مریدوں کو کرونا  وائرس سے  بچنے کیلئے ایک مضحکہ خیر دستور العمل دیا ہے۔ آیت الله کے ٹیلی گرام چینل کے مطابق کرونا وائرس سے بچنے کیلئے یہ حرکتیں انجام دی جائیں:۔

  1. کھانے پینے کی اشیا کو ڈھانپ کر رکھیں
  2. بار بار اپنے کندھے کو حرکت دیں
  3. پیاز زیادہ کھائیں
  4. سیب کا استعمال بڑھا دیں
  5. معجون امام کاظم خرید کر استعمال کریں
  6. نسوار کو استعمال کریں
  7. سونے سے پہلے روئی کو روغنِ بنفشہ (بنفشے کے تیل) میں بھگو کر اپنے مقعد میں ڈال لیں
  8. بار بار  ہرمل نامی بوٹی کو انگاروں میں رکھ کر گھر کو  دھونی دیں
  9. شلغم کھائیں
  10. روٹی کا صدقہ دیں

کوئی بھی عقلمند شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ آیت الله کی یہ ہدایتیں کسی علمی معیار پر پوری نہیں اترتیں اور جاہل مریدوں کو بیوقوف بنا کر اپنی معجون امام کاظم نامی ڈبیہ بیچنے کی کوشش ہیں۔ دریں اثنا  آیت الله خود عراق کے شہر نجف جا چکے ہیں اور ایران کے ڈاکٹرز عوام کو آیت الله کی پھیلائی ہوئی  گمراہیوں سے بچانے میں مصروف ہیں۔

بقول شخصے،  کامن سینس اتنی کامن نہیں ہے، بہت سے لوگ اس آیت الله کے ہاتھوں جہاں فانی کوالوادع کہہ چکے ہیں۔ آیت الله تبریزیان کے جھانسے میں آ کر زندگی کی بازی ہارنے والوں میں نمایاں ترین نام ایران کے سابقہ چیف جسٹس  آیت الله شاہرودی کا ہے۔ ان کے بیٹے کے بقول جب ڈاکٹر نے کینسر کی تشخیص کی اور آپریشن کروانے کا کہا تو طبِ اسلامی کے ٹھیکیدار آ گئے اور ان کے والد کو معجون دینے لگے۔ آپریشن نہ کروانے اور جدید ادویات سے پرہیز کا نتیجہ یہ نکلا کہ آیت الله شاہرودی کا مرض بڑھتا گیا اور دو سال بعد انھیں جان بچانے کیلئے جرمنی کے شہر ہینوور کے ایک ہسپتال لے جایا گیا۔ لیکن وہاں مقیم ایرانیوں نے ہسپتال کے باہر سابقہ چیف جسٹس کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف احتجاج شروع کر دیا اور عالمی عدالتِ انصاف سے رجوع کر کے ان کی گرفتاری کی کوششیں شروع کر دیں۔چنانچہ آیت الله شاہرودی کو واپس ایران لانا پڑ گیا جہاں وہ داعی ٔاجل کو لبیک کہہ گئے۔ اس مثال سے علماء نے کچھ عبرت حاصل کی، اور جب آیت الله خامنہ ای کو پروسٹیٹ کینسر کی تشخیص ہوئی تو انہوں نے آپریشن کرانے میں دیر نہ کی۔

آیت الله تبریزیان کی یہ جہالت اصل میں  مدارس کو درپیش ایک بہت بڑے بحران کی ایک جھلک ہے۔ اصل مسئلہ کسی ایک آیت الله کا نہیں، مدارس پر مسلط اس سوچ کا ہے کہ سائنس اسلام کے خلاف مغرب کی سازش ہے، کیوں کہ سائنس اور عقلی علوم  نے علماء سے حکمت اور عدلیہ کی نوکریاں چھین لی ہیں۔چنانچہ وہ قانون، علم اور سیاست کے ساتھ ”اسلامی“ کا اضافہ کر کے ایک ایسی شیخ چلی والی خیالی دنیا کی تشکیل کرنا چاہتے ہیں جس میں وہ جج، وہی طبیب اور وہی وزیر اعظم ہوں، وہ فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی طرح زندگی کے ہرراستے  کو اپنے طبقے کے قابو میں لانے کی ہوس میں مبتلا ہیں۔ اس نفسیاتی بحران کی طرف سابقہ مضمون بعنوان”آیت اللہ کیلئے آئن سٹائن شیعہ مگر ڈارون کافر ہے“میں اشارہ کیا جا چکا ہے۔

جب سے عقلی علوم نے جدید  مغرب میں معراج پائی ہے، ہمارے علمائے کرام کو ان کی ایک  نام نہاد” اسلامی  اور حلال “نقل تیار کرنے کی بیماری لاحق ہو گئی ہے۔ ایک مقدس جہاد لانچ کر دیا گیا ہے اور اس جہالت کے خلاف بات کرنے والے کو دین کا دشمن سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ علم انسان کا مشترکہ ورثہ ہے اور اس کے حصول کیلئے انسان کو وحی کی ضرورت نہیں۔ ہر انسان ایک جیسا علم حاصل کر سکتا ہے اور علم ہر انسان کی سمجھ میں آ سکتا ہے۔ دین کا معاملہ الگ ہے، دین صرف چنے ہوئے انبیاء پر نازل ہوا ہے اور اس کا وسیلہ وحی ہے۔ اسی لیے انبیاء اور دینی رہنماؤں نے کبھی کسی بیماری کا علاج دریافت نہیں کیا نہ ہی اپنی امتوں کو کائنات کے ریاضیاتی اصول سکھا کر ٹیکنالوجی کی راہ پر ڈالا۔ دین انسان کی روح کی تربیت کیلئے ہے، اور یہ انسان کی ارتقائی ضرورت ہے۔ اس کو علم، یا سماجی قانون یا سیاست سے نتھی کرنا ایک غیر عقلی  تجربہ ہے۔

ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ عباسی دور کے آخر میں، جب آلِ بویہ اور خلافتِ فاطمیہ کی سیاسی برتری کی وجہ سے شیعہ علماء کو کتابیں لکھنے کا موقع ملا اور ان میں سے کچھ نے یونانی اور ہندوستانی علوم میں مہارت حاصل کر کے سائنسی کام کیا، تو ان علماء نے کبھی علم کو دین سے نہیں جوڑا۔ ابنِ سینا نے اپنی کتب میں کبھی اپنے علم کو قرآن و حدیث سے منسوب نہ کیا بلکہ صاف صاف یونانی مصادر کا ذکر کیا۔ اسی طرح معروف سنی عالم   ابن خلدون کی سماجی علوم کی کتاب” المقدمہ“ خالص عقلی بنیادوں پر قائم ہے۔ دینی فنون کے ماہرین بھی دین کو علم کا ماخذ نہیں مانتے تھے، نہ ہی دین اور سیاست یا دین اور سماجی قانون کو گڈ مڈ کرتے۔ معروف شیعہ عالم شیخ صدوق نے اپنی کتاب” الاعتقادات“ میں ”طب کے متعلق وارد شدہ احادیث کے بارے میں عقیدہ“ کے عنوان سے ایک باب قائم کیا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:۔

”اس سلسلے میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں ان کی چند قسمیں ہیں۔ ان میں سے بعض تو ایسی ہیں جو صرف مکہ اور مدینہ کی آب و ہوا کے مطابق ہیں، لہٰذا ان کو دوسرے ممالک کے ماحول میں اپنانا درست نہیں ہے۔ بعض ایسی ہیں جنھیں کسی خاص شخص کیلئے بیان کیا گیا ہے، اور وہ اسی شخص کیلئے تھیں۔ بعض احادیث ایسی ہیں جنھیں مخالفین نے دھوکے سے کتابوں میں داخل کر دیا ہے تاکہ عام لوگوں کی نظر میں مذہب بدنام ہو جائے۔ کچھ حدیثیں ایسی ہیں جن کو یاد رکھنے میں راوی سے غلطی ہو گئی اور کچھ ایسی ہیں جن کا صرف کچھ حصہ ہی راویوں کو یاد رہا“۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ  کتاب آج سے   ایک ہزار سال قبل  لکھی گئی ہے اور اس زمانے کے شیعہ علماء کی سوچ کو ظاہر کرتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طبِ اسلامی کے نام پر جو مواد اسلامی کتب میں پایا جاتا تھا وہ اس زمانے کی  دانش کے مطابق بھی علمی معیارات پر پورا نہیں اترتا تھا، اور اس زمانے کے مغربی علوم، یعنی طبِ یونانی، کو ہی ترجیح دی جاتی تھی۔علم، سیاست اور سماجی قانون” سیکولر انسانی ورثہ “ہیں، ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔  عوام جتنا جلد  جدید دور کے علماء کے اس فتنے کو سمجھ جائیں اتنا بہتر ہوگا۔

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”قم کا ابو جہل: آیت الله عباس تبریزیان۔۔۔حمزہ ابراہیم

  1. ایرانی وفاق المدارس کے زیر اہتمام چلنے والی ایک ویب سائٹ “حوزہ نیوز” پر طبِ اسلامی کی تائید میں کچھ نامی گرامی علمائے کرام کے اقوال ایک مضمون کی شکل میں پیش کئے گئے ہیں۔ اس مضمون کا لنک یہ ہے:
    https://m.facebook.com/story/graphql_permalink/?graphql_id=UzpfSTEwMDA0OTY3NzYzNDE0MzoxMDg3MDc3NDQxMjg0ODA%3D

    اس مضمون کا عنوان ہے: دیدگاہ علما و مراجع دربارہ طبِ اسلامی” اور اس کا متن حسبِ ذیل ہے:

    سرویس علمی فرهنگی خبرگزاری «حوزه»، گفتار 5 تن از مراجع تقلید و شهید بهشتی دربارۀ تمجید از طب اسلامی و نکوهش طب غربی را منتشر می کند.

    * دیدگاه امام خمینی (ره) دربارۀ طب سنتی و طب غربی

    امام راحل می فرماید: غرب همه چیز استعماری دارد: طب استعماری، فرهنگ استعماری که برای کشورهای عقب افتاده صادر می کنند. آنها می ‌خواهند ما وابسته باشیم و چیزهایی که به ما می دهند وابستگی می آورد، اگر می خواهید رشد حقیقی پیدا کنید و مستقل شوید اول این وابستگی فکری و قلبی را کنار بگذارید.

    يكي از دكترهاي امروزی مي ‌گفت بر ما و بر دكتر‌های بزرگ اين كشور ثابت شده كه كاری از طب اروپا جز جراحی بر نمي ‌آيد و داروهای اروپايی معالج نيست، بلكه مسكّنی است كه ما به كار مي ‌بريم و انتظار آن داريم كه دورۀ خود را طي كند و يا به خوبی و يا به هلاكت منجر شود. گفتيم پس چرا دكتر‌ها اين مطلب را به مردم نمي ‌گويند.گفت: كسي قدرت اين گفتار را ندارد و درست گفت.

    می دانیم که علومی که در شرق بود، دسیسه ها اسباب این شد که آن ها را عقب بزنند و به جای آن علوم غرب را بیاورند. دانش هائی که در شرق بود و اروپا از آن تقلید می کرد، دست هائی آمد آنها را عقب زد و محتوا را از ما گرفت و الان وضع ما وضعی شده است که خیال می کنیم که هر چی هست در غرب است و ما هیچ چیز نداریم.

    امروز همه چيز كشور ما باهم جور است و تا يك شجاعت ادبی در نويسندگان ما پيدا نشود اصلاح نخواهد شد. امروز اگر كسی از طب اروپايی يا زندگي اروپا مآبی انتقادی كند مورد هو و جنجال بسيار واقع خواهد شد و از نظر جوانان تحصيل كرده ما ساقط مي ‌شود. ليكن با همه حال ممكن است در بين آنان كساني به فكر بيفتند و سنجش هايي كرده راهي به خطاكاري هاي خود پيدا كنند و براي دوره ‌های بعد از اين زمان طرفدارانی هم برای اين مسلك پيدا شود و قدم هايی برای سعادت نسل آتيه برداشته شود.

    هان! اي نويسندگان به خود آييد و از بيخردان نهراسيد و گفتني ها را بگوييد و زندگي پرآشوب اروپا چشمتان را از حقايق نبندد.

    همه شنيديد در زمان تصدی رضاخان همين شاه كنوني به تيفوئيد مبتلا شد، در وقتي كه تمام دكترهای درجه اول كشور از درمان آن مأيوس شدند، ‌طبيب طالقاني با دستور طب قديم او را معالجه كرد. خوب بود با چنين امتحاني رضاخان يا زمامداران آن روز به فكر اين بيفتند كه طب كشور خود ما نيز بايد دستكم در حساب بيايد لكن بقدری اينها خود را باختند و انگاره را از دست دادند كه حاضر نيستند براي خود جزيي فضيلتي قائل شوند و با حسن و هوش خود هر طور شده است مبارزه مي ‌كنند كه مبادا بر خلاف اروپا سخنی بگويند. (1)

    * دیدگاه مقام معظم رهبری دربارۀ طب سنتی

    من در چند سال قبل در اوايل انقلاب، سال ۱۳۵۹ بود يك سفري با يك هيأتي به هند رفته بودم. آنجا مأموران وزارت خارجه به ما اطلاع دادند كه يك بيمارستان گياه درماني وجود دارد. من خيلي علاقه ‌مند شدم كه آنجا را ببينم و رفتم از نزديك دیدم، بيمارستان بسيار وسيع و مفصلي بود، اسم فارسي هم برايش انتخاب كرده بودند به نام «همدرد». مرکزش در دهلی نو بود و در استان های مختلفی از هند شعبه داشت که این فقط یک بیمارستان نبود؛ هم بیمارستان بود هم مرکز تحقیقات، بلکه یک دانشگاه بود که در آن جا تدریس می شد. ما در آنجا كارهاي گياهي درماني را ديديم. بنده آنجا به ذهنم آمد كه مي ‌بايستي (گياه درماني) را در ايران پيگيري كنيم. وقتی از هند به ایران آمدم با مسئولین آن وقت صحبت کردم و از آن ها قول گرفتم که به طور قطعی دنبال این قضیه باشند، ولی اقدامی نکردند. (2)

    * نظر دکتر شهید بهشتی پیرامون طب غربی و سنتی ایران

    دوستان عزیزم! چرا جهت معالجات امراض از گیاهان دارویی ایران استفاده نکنیم؟

    چرا طب سنتی و شیوه گیاه درمانی و طریقه استفاده از ادویه جات مورد استفاده ما ایرانی ها قرار نگرفته؟

    چرا وزارت بهداري و دست اندرکاران تا به حال در گسترش و احیاي طب سنتی و گیاه درمانی قدمی برنداشته اند؟

    چرا ما ایرانی ها با داشتن گنجینه هاي طبی همیشه باید در چنگال داروهاي خارجی اسیر و عاجز باشیم؟

    چرا بعضی از داروهاي فرنگی در ایران بازار سیاه پیدا کرده و تا چند صد برابر قیمت اصلی به فروش می رسد؟

    آیا خودمان مقصر هستیم که زیر بار داروهاي گیاهی نرفته ایم و یا داروهاي فرنگی در علاج امراض معجزه گر بوده اند؟!

    آیا تبلیغات و زرق و برق داروهاي فرنگی ما را به طرف خود کشیده و یا داروهاي گیاهی را مصرف نموده ایم و نتیجه نگرفته ایم؟… بله…. این «چرا»ها وقتی جوابش داده خواهد شد که انشاالله در رأس این امر، یک ایرانی با همت و معتقد قرار گیرد. (3)

    * آیت الله العظمی بهجت (ره)

    یکی از معمرین علمای نجف که حدوداً صد سال از عمرش می‌ گذشت، می ‌فرمود: تا این ساعت به طبیب مراجعه نکرده ‌ام. عرض شد آقا! چطور می ‌شود؟ شما چه برنامه ‌ای را در زندگی پیاده کرده ‌اید که تاکنون بیمار نشده ‌اید؟ فرمود: فقط تابع شرع مقدس اسلام بوده ‌ام. یعنی در خوردن غذاها از نظر کم و کَیف و جهات دیگر فقط به دستورات طبی دین عمل کرده ‌ام.

    «مرحوم مجلسی در یکی از مؤلَّفاتش نوشته است: «اگر انسان به طبّ مأثور از ائمّه اطهار علیهم السلام عمل کند، به بیماری مبتلا نمی شود؛ زیرا آن ها عالِم به خواصّ مأکولات و سبزی ها و چیزهای دیگر هستند.» بنده هم فی الجمله دیده ام شخصی به طبّ مأثور عمل کرد، حدود هشتاد سال داشت و مریض نشده بود. زمانی که ما در نجف بودیم و وبا زیاد شیوع داشت، ایشان به عیادت بیماران می رفت، با این حال به بیماری دچار نشد و فقط در اواخر عمر مرضش این بود که به نماز جماعت نمی آمد و به استراحت می پرداخت. البته برای کارهای دیگر بیرون می آمد و نمی دانم که آیا در وقت وفات مریض شد و یا خیر.» انسان می تواند با رعایت آداب شرعی و دستورهای دینی از اطبا مستغنی شود. (4)

    * آیت الله العظمی مکارم شیرازی

    آیت ‌الله العظمی ناصر مکارم شیرازی از مراجع تقلید ۲۶ خرداد 1394 در دیدار رئیس دانشگاه علوم پزشکی استان قم که از تأسیس دانشکده طب و دین در قم خبر داده بود، اظهار داشتند: اگر نام این دانشکده طب اسلامی باشد جذابیت بیشتری دارد، در اسلام اطبای بزرگی بودند، زمانی که طبابت اسلام باشکوه بود در غرب خبر چندانی وجود نداشت، کتاب قانون و طب بوعلی ۳۰۰ سال در دانشگاه ‌های اروپا کتاب درسی بوده است.

    این مرجع تقلید با بیان این که طب اسلامی باید احیا شود، ابراز داشتند: این کار تازه باید به نام قم و ایران تمام شود، از آن جایی که مسائل موجود در این دانشگاه اسلامی است باید از حوزه ‌های علمیه استفاده کرد، سابقا یکی از ماده ‌های درسی در درون حوزه ‌های علمیه طب بوده است و بسیاری از فقهای ماهر از طب نیز اطلاعات زیادی داشتند. (5)

    * آیت الله العظمی جوادی آملی

    منحصر کردن مباحث طب اسلامی در تغذیه و روش های درمانی به هیچ عنوان به نفع جریان طب اسلامی نیست. در واقع طب اسلامی یک تابلو است که راه رسیدن به تمدن اسلامی را نشان می دهد و مبلّغی است که از معارف و مفاهیم ناب اسلامی تبلیغ می کند. طب اسلامی فقط نیامده است که بگوید برای درمان فلان بیماری انجیر بخورید!؛ آمده است بگوید راه حقیقی رشد و کمال بشر در هر زمینه ای بازگشت به آموزه های الهی است و برای رسیدن به علومی که نافع حقیقی بشر است راهی جز دین وجود ندارد. طب اسلامی می خواهد بگوید که برای شناخت انسان که موضوع علم طب است هیچ راهی جز سؤال از خدایی که خالق انسان است وجود ندارد و راه های دیگر بیراهه هایی هستند که دشمنان حقیقت و ائمه ضلالت برای انحراف انسان از صراط مستقیم ساخته و پرداخته اند. طب اسلامی عرصۀ مبارزه ایست برای احیاء هویت گمشدۀ انسانی در پس حیوان انگاری های شیطانی مدرنیسم. (6)

    پاورقی:

    (1)- کشف الاسرار.

    (2)- سخنرانی در دیدار جمعی از پزشکان، 5/6/1363.

    (3)- سخنرانی در دانشکده پزشکی دانشگاه تهران، 1/7/1359.

    (4)- کتاب «بهجت عارفان»، ص 186.

    (5)- http://www.T124.IR

    (6)- سخنرانی در دیدار مدیران روابط عمومی دانشگاه های کشور، اسفند 1386.

    منبع: مؤسسه طب الائمۀ علیهم السلام (طب اسلامی)

Leave a Reply