رات کے دو بج رہے ہیں۔ ابھی سحری کا آغاز نہیں ہوا، چاروں طرف خاموشی ہے۔ آج میں پورے بیس سال پیچھے جانا چاہتا ہوں۔ پاکستان کی تاریخ کا وہ المناک دور جب پورا ملک ایک بار پھر سے “جابروں” کے رحم و کرم پر تھا۔ اس وقت میرے ہاتھ میں “زاہدہ حنا” کا ایک ایسا کالم ہے جس کو اُس وقت شائع نہیں کیا جا سکا تھا۔ میڈم کے اُس کالم کا عنوان ہے”فوجی حکومت اور چند سوالات”۔
“اَن داتا جنرل مشرف” کی طرف سے متعارف کروائی گئی آزاد میڈیا پالیسی کے تحت مذکورہ بالا کالم روزنامہ جنگ اخبار میں ماہِ جولائی 2000 میں اشاعت کے قابل نہیں سمجھا گیا، کیونکہ جنرل مشرف کے سیاہ ترین دورِ حکومت میں صرف وہی چیز اخبارات کے صفحات کی زینت بنائی جاتی تھی جس میں عوام کو فریب دینے کے نسخے تجویز کیے گئے ہوں۔ اس اہم کالم کو میڈم زاہدہ حنا نے اپنے مخصوص جراتمندانہ انداز میں تخلیق کیا تھا۔ پاکستان کے حقیقی بنیادی مسائل کی طرف چبھتے ہوئے سوالات اٹھاتا ہوا یہ کالم اب بیس سال کا ہو چکا ہے۔ ان گزرے ہوئے بیس سالوں میں پاکستانی عوام کی نظروں کے سامنے سے بہت سے مقدس بُت اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔ وہ جو وردی کو اپنی کھال سمجھ کر فرعونیت کے مرض میں مبتلا دندناتے ہوئے، اپنی ہی محروم عوام کو روندتے ہوئے گزر جایا کرتے تھے آج اُن کو اپنا یہ خُونی ماضی ضرور یاد آتا ہوگا۔
بنیادی طور پر یہ کالم ماہر معاشیات ڈاکٹر اسد سعید کے ایک مضمون پر مشتمل تھا جس میں انہوں نے اُس وقت کی فوجی حکومت کے بعض اقدامات پر اصولی موقف اپناتے ہوئے کئی حیران کن سوالات اٹھائے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ابھی ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی “ملٹری انک” منظر عام پر نہیں آئی تھی۔ اب میں اس کالم کے کچھ منتخب حصے یہاں پر نقل کرنا چاہوں گا۔
میڈم لکھتی ہیں کہ۔۔
“فوجی سازوسامان کی خریداری اور افغانستان کی جنگ کے دوران بڑی بڑی رقوم کی خردبرد نے بہت سے ریٹائرد فوجی افسروں کو دولت مند بنا دیا ہے۔ تنقید کا نشانہ بنائے جانے والے سیاستدان اور کاروباری حضرات اور عام لوگ بھی یقیناً یہ معاملات اٹھانے کا نا صرف حق رکھتے ہیں بلکہ وقت آنے پر انہیں اٹھائیں گے”
مندرجہ بالا “منتخب پیراگراف” کی روشنی میں اگر دیانتداری سے جائزہ لیا جائے تو یہ وہ اصولی اور اٹل موقف ہے جس کو دبانے کی کوشش دہائیوں سے کی جا رہی ہے۔ اسی لیے یہ کالم اُس زمانے میں سینسر کر دیا گیا تھا۔ ہم اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ “زاہدہ حنا” نے ان باریکیوں کو اپنی تحریروں میں جگہ دی، اخبار میں اپنے کالموں کے ذریعے پڑھنے والوں کو افغان جنگ کے نام پر ہونے والے “جہاد” کے حقائق سے آگاہ کیا۔
آگے چل کر وہ مزید لکھتی ہیں کہ۔۔
“فوجی اداروں کے مالی معاملات کیونکہ عوام کے سامنے نہیں آتے اس لیے انہیں نہیں معلوم کہ ایک اندازے کے مطابق کراچی سٹاک مارکیٹ میں ان اداروں کے اثاثوں کی مقدار کل اثاثوں کا پندرہ فیصد کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ یہ ادارے نہ تو آمدنی پر ٹیکس ادا کرتے ہیں اور نہ کسی دوسری مد میں ٹیکس دینے کے پابند ہیں، نہ ان کو پرائیویٹ سیکٹر کے لیے وضع کردہ دوسری پابندیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ڈاکٹر اسد کا موقف ہے کہ جب تک فوج قومی دولت میں اپنے حصے پر نظرثانی کے لیے آمادہ نہیں ہوتی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے دعوے میں کوئی حقیقت نہیں۔ اصلاحات کے لیے جو اعلان کیے گئے ہیں ان پر عمل درآمد کے راستے میں مسلح افواج کا ڈھانچہ حائل ہے لہٰذا کسی پیش رفت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ یوں فوج کے ذریعے کسی قسم کی اصلاح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا”۔
ان منتخب پیراگرافوں کو پڑھتے ہوئے ہم باآسانی اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہماری اُس وقت کی آزاد و روشن خیال حکومت کے حاکم اعلیٰ کو سچ سننا گوارا نہیں تھا۔
اسی لیے تلخ اور زمینی حقائق پر سے پردہ اٹھاتا ہوا یہ کالم اخبار میں شائع کرنے سے گریز کیا گیا۔
کالم کا آخری پیراگراف پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس میں زاہدہ حنا اُس وقت کی فوجی حکومت کے بارے میں دوٹوک انداز میں اپنے وہ سنہری حروف قلمبند کرتی ہیں جن کی روشنائی آج بیس سال گزر جانے کے باوجود بھی خشک نہیں ہو سکی ہے۔ یہ روشنائی شاید آنے والی کئی دہائیوں تک یونہی برقرار رہے گی۔ آپ لکھتی ہیں کہ۔۔
“ان تمام حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ سادہ سی بات سامنے آتی ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے سے دنیا اور خطے میں بدل جانے والے زمینی حقائق کا ادراک پاکستان کے مقتدر طبقات کو ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔ انہیں اس بات کی تفہیم نہیں ہو سکی ہے کہ اکیسویں صدی میں قومیں افواج اور اسلحے کی بنیاد پر نہیں، اپنی معاشی قوت کے بل بوتے پر بڑی بنیں گی۔ بارہ اکتوبر کو جس طرح ایک منتخب حکومت ہٹائی گئی اس کا بنیادی سبب ان مقتدر طبقات کے مفادات کا زد پر آجانا تھا۔ اور اس فوجی حکومت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان برسوں پیچھے چلا گیا ہے۔ یہ ایسے سوالات ہیں جنہیں کسی طور نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ملک کے وسیع تر قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ سیاسی اور شخصی تعصبات سے بالاتر ہو کر ان سوالات کو بحث کا موضوع بنایا جائے تا کہ پاکستان کو کئی عشرے پیچھے جانے سے بچایا جا سکے”۔
افسوس کہ ملک پر قبضہ کرنے والی اُس وقت کی فوجی حکومت نے کئی سال حکومت کی۔۔۔ دہشت گردی کے نام پر ہونے والی جنگ کو بیرونِ ملک سے آئی ایک دھمکی آمیز فون کال سے ڈر کر اپنی عوام پر مسلط کیا اور ملک کو پیچھے کی جانب دھکیل کر، ان معتبر لوگوں کی آوازوں کو روکا جو اس ملک کو حقیقی معنوں میں ایک جمہوری ملک بنانا چاہتی تھیں۔
سرد جنگ کے اختتام پر افغان جہاد کے نام پر بیرونی فنڈ پر ہونے والی لوٹ کھسوٹ میں شامل ہمارے ریٹائرڈ جرنیلوں کی دوسری کھیپ نے دہشتگردی کے نام پر ہونے والی جنگ سے بھی بےپناہ فوائد اٹھائے تھے۔ ضیاءالحق کا افغان جہاد اور مشرف کی دہشت گردی کے خلاف ہونے والی جنگ میں ہزاروں کی تعداد میں معصوم لوگ مار دیے گئے، لاکھوں دربدر بھٹکنے اور ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔
کیا یہ دونوں آمر “پاکستان و افغانستان” کے لاکھوں، کروڑوں لوگوں کو جنگ کا ایندھن بنانے کے لیے۔۔۔ چور دروازے سے آئین توڑ کر ملک کی منتخب حکومتوں کو ملیامیٹ کر کے اقتدار کے مسند پر فائز ہوئے تھے۔۔۔؟؟؟
کیا ان تاریک ادوار میں اگر منتخب حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کرتیں تو ہم ان افسوسناک حالات سے دوچار ہو سکتے تھے۔؟
کیا عوام کی زندگیوں سے ان تلخیوں اور محرومیوں کو ختم کیا جا سکتا ہے جو سال ہا سال سے ان کی شریانوں میں گھول دی گئی ہیں۔۔۔ کیا بارودی سرنگوں سے بنجر ہو جانے والی زمین کی زرخیزی کبھی واپس آسکے گی؟
کیا بم دھماکوں سے بجھنے والی زندگیوں کے چراغوں کا مداوا ممکن ہے۔؟
ان سوالات پر میں اپنی پچاسویں قسط کے پانچویں حصہ کا اختتام کر رہا ہوں، لیکن جانے سے پہلے میں جمہوریت اور مزاحمت کی سفیر میڈم زاہدہ حنا کو “سلیوٹ” پیش کرنا چاہوں گا جو کئی دہائیوں سے عوام کے جمہوری حقوق کو غصب کرنے والی قوتوں کے خلاف اپنے قلم سے مزاحمت کر رہی ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں