دو چار روز قبل ہمارے محلے کے آخری بزرگ بھی آخرت کو سدھار گئے۔ بزرگ رحمت ہوتے ہیں یہ بات ہم نے سن رکھی ہے لیکن عملاً دیکھ لیں تو کیا ہی بات ہوگی۔ مجھے یاد ہے یہ سب بزرگ شام کے وقت مسجد کے باہر سیمنٹ کی بنی چھوٹی سی دیوار پر بیٹھتے تھے۔ مسجد کے دروازے کے بالکل سامنے دیوار پر، عصا پاس رکھے ٹانگ پر ٹانگ جمائے۔ بڑا سا رومال گود میں رکھے، ٹوپی کو گھٹنے سے لٹکائے۔ دو سامنے کی طرف گھاس پر چوکڑی مارے، انہوں نے عصا قریب لٹا رکھے ہوتے تھے۔
ایک دو اور لوگ ان سے چھوٹی عمر کے لیکن محفل کے جز ولازم۔۔ ہر روز، پھر ان کی محفل جمتی اور آپس میں بھی خوب جمتی تھی۔ گفتگو کا آغاز کسی سیاسی بات سے ہوتے ہوئے مذہب، سماج،خاندان کے مدار میں گھومتے ہوئے ذات پر مکمل ہوتا۔ سیاست کے بازار کا ذکر چھڑتا اور پھر پانچ چھ بوڑھے اپنی پسند، سوچ، فکر، نظر کے مطابق اس گفتگو میں حصہ لیتے۔ کوئی بے نظیر کی نظیر ڈھونڈتے ہوئے کہتا کون ہے اس جیسا، واحد لیڈر ہے جو خدا کی عطا کردہ ہے ،تو دوسرا بزرگ ضیا الحق صاحب کو جناح کیپ پہنا رہا ہوتا، اصل انعام تو وہ ہے۔ کوئی میاں صاحب کے والد صاحب کو خدا کی رحمت گردانتا تو کوئی بھٹو کے دور میں جا کھڑا ہوتا۔ کوئی مشرف صاحب کے گن گاتا اور کوئی سب کو حرف غلط قرار دے دیتا۔
یوں مختلف ادوار کی مختلف شکلوں میں تعریف، تنقید کا پیریڈ چلتا۔ تو تکرار کی آواز بلند سنائی تو دیتی لیکن کبھی بے ادبی، گستاخی کا شائبہ تک نہ دیکھا۔ شائستگی سے کی گئی گفتگو میں گالی تک کی آمیزش نہ ہوتی تھی۔ مختلف عقیدے رکھنے والے، مختلف طبقات، الگ الگ جماعتوں سے منسلک چار چھ بوڑھے اپنا نقطۂ نظر سامنے رکھتے، بات تلخی تک بھی کبھی پہنچ جاتی تو بھی ادب کا دامن اِن اَن پڑھ بوڑھوں سے کبھی نہ چھوٹا۔ دادا فقط دو جماعت پاس تھے اور باقی کے بزرگ بھی یوں ہی تھے۔
لیکن ذی شعور، دانا، مؤدب، محترم اس قدر تھے کہ دوسرے کے آتے ہی اُٹھ کھڑے ہوتے۔ حالانکہ وہ مخالف پارٹی سے تعلق رکھنے والا ہوتا۔ اور آخری نشست میں دونوں کی اچھی خاصی جھڑپ بھی ہو چکی ہوتی۔ یہ کسی نئے موضوع پر ہمکلام ہوتے تھے کہ اذان مغرب کی آواز سنائی دیتی۔ یہ ساری باتیں لپیٹ کر وہیں پتھر کے نیچے رکھتے، ایک دوسرے کو ہاتھ سے تھام کر کھڑا ہونے میں مدد دیتے اور پھر ایک صف میں نماز ادا ہو ر ہی ہوتی تھی۔
مسجد کا بھی معاملہ بھی کیا ہی معاملہ تھا۔ کون سنی، دیوبندی، وہابی؟ کچھ خبر نہیں۔ سب ہی سنی، سب دیوبندی سب وہابی۔ مسلکی منافرت تھی نہ اختلاف تھا۔ مسجد کا امام کس مسلک کا ہے فرق نہیں پڑتا۔ نماز فجر کے بعد ذکر بالجہر ہوتا ہے تو سب کی زبان پر ایک آوازہ ہوتا ”نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے۔“ پھر بیک آواز وجہ کائنات ﷺ پر درود بھیجا جاتا۔ درود شریف کی کثرت تو ویسے بھی زبان پر ملتی۔ عقیدت اس قدر کہ حضور ﷺکے نام سے منسوب کسی چیز کو بھی سر آنکھوں پر رکھتے۔
کبھی کوئی تبلیغی جماعت آئی اور مسجد میں ٹھہری ہے تو ان کا کھانا، پینا سب گھر سے جانا ہے۔ وہ خدا کی راہ میں نکلے ہیں۔ اپنی یکسوئی سے عبادت کریں خدا کے مہمان ہیں۔ خوب مہمان نوازی ہو رہی ہے۔ ان کی مجلس میں بیٹھا جاتا ہے۔ تعلیم کے حلقوں کی رونق بڑھائی جاتی ہے۔ ربیع الاوّل میں میلاد کی محفل منعقد ہوتی ہے تو نعتیہ کلام کس عقیدت سے سنتے تھے۔ باقاعدہ شیرینی بانٹی جاتی تھی۔ اہل محلہ میں کبھی کسی کو شکایت نہیں ہوئی۔ ۔ہوتی بھی کیسے، نہ ان کی بجلی چوری کی، نہ ہی راستہ روکا، نہ ہی سپیکروں سے ان کی نیندیں حرام کیں۔ بس بیٹھے، نعت کی محفل سجائی، درود بھیجا اور چل پڑے۔
محرم میں نذر نیاز کا سلسلہ ہوتا،امام حسین ؓکی شہادت کے قصے پر غمگین بوڑھی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوتیں۔ واقعہ کربلا کو یاد کر کے رویا جاتا۔ شب برات پر بھی یوں ہی اہتمام ہوتا۔ یعنی سب کچھ ہوتا تھا سوائے تفرقے کے، سب کچھ دیکھا سوائے انتہا پسندی کے۔ نفرت کے پھریرے نہیں لہراتے تھے۔ تب تک نچلی پیڑی کو خبر نہ تھی کہ اس دنیا میں انسانیت کے علاوہ بھی کوئی مذہب ہے۔ کسی دوسرے مذہب کے تہوار پر بھی عقیدت سے پیش آتے۔
ہمیں اتنی خبر تو ہوتی تھی کہ ہم مسلمان ہیں۔ لیکن یہ خبر نہیں تھی کہ مذہب میں دھندے کو سیکڑوں مسالک ہیں۔ اپنی اپنی دکان ہے۔ چکاچوند میں کافر کافر کھیلا جاتا ہے۔ بہت بعد میں جب بزرگوں کا گروپ تتر بتر ہوا۔ ایک اخروی سفر پر روانہ ہوا تو باقی سارے غم سے نڈھال، کچھ مہینوں میں دوسرا بھی چل پڑا۔ تیسرا بستر مرگ پر تو چوتھا کسی ہسپتال کے خاموش گوشے کے کسی بستر پر دراز اچھے وقتوں کی یاد میں سسک رہا ہے۔ کچھ بوریا بستر اٹھا کر قبرستان منتقل ہوئے تو کچھ معذوری کے ہاتھوں گھروں میں مقید ہو گئے۔ معاملات دوسری پیڑی کے رحم و کرم پر رہ گئے۔
تب خبر ہوئی کہ میں دیوبندی ہوں۔ بریلوی گھر میں آنکھ کھولی۔ دادا سنی تھے۔ یہ کالی پگڑی والے کافر ہیں۔ ان کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔ یہ گستاخ ہیں، نبی پاک ﷺپر درود تک نہیں پڑھتے۔ انہیں تو مار لینا بھی جائز ہے۔ تب ہی خبر ہوئی کہ سبز عمامہ پہنے یہ لوگ بدعتی، جہنمی ہیں۔ بزرگوں کے جانے کے بعد جب اذان پر تجوید کا ریپر چڑھا اور اس سے قبل پڑھا جانے والا درود سنائی نہ دیا تو پتا چلا وہ تو بریلوی ہیں۔ اس مسجد کے امام دیوبندی ہیں۔
نماز کے بعد ذکر بالجہر ختم ہوا ،تو خبر ہوئی کہ آج تک تو گناہ کا کام کرتے رہے۔ میلاد کی محفل جو ناجائز تھی اس پر سیرت کی محفل کا کور چڑھا تو جائز ہوگئی۔ نام بدلتے ہی جائز، یعنی سارا کھیل نام کا ہے۔ پھر تبلیغی جماعت پر جب مسجد کے دروازے بند ہوئے تو خبر ہوئی کہ ان کے آنے سے مسجد ناپاک ہو جاتی ہے۔ نجس لوگ ہیں۔ ان کو مسجد میں مت داخل ہونے دو۔ وہ فلاں رنگ کی پگڑی والا اصل مسلمان ہے۔ فلاں رنگ والا کافر ہے،فلاں والا جہنمی ہے، ہم بس جنتی ہیں۔ اور اس ہم میں جب جس کا بس چلا اس نے بھنگ ملائی۔
میں سوچتا نجانے ہمارے ہاں جو اتفاق و اتحاد کی روح تھی کہاں گئی۔ کیا بزرگ ساتھ لے گئے؟ پہلی پیڑی سے نفرت کے جذبات کیسے دوسری پیڑی میں منتقل ہوگئے۔ ان کے ہوتے ہوئے تو کبھی دوسری پیڑی کے کسی شخص نے نفرت نہیں پھیلائی۔ بزرگوں میں تو یہ بات نہ تھی۔ ان کے جاتے ہی کیسے سب آپس میں ایک دوسرے پر دانت کچکچاتے ہیں۔ کیوں خوخیاتے پھرتے ہیں۔ گز بھر لمبی زبانیں زہر کیوں اگلتی ہیں؟ ان کی نمازیں ایک دوسرے کے پیچھے نہیں ہوتیں تو جنازے کیسے ہو جاتے ہیں؟ مسجدوں میں ایک صف میں کھڑے نہیں ہوتے، ایک دیگ پر کیسے جمع ہوتے ہیں؟ دیوبندی، بریلوی، سنی، وہابی میں ہر دوسرا کافر ہے۔ ان کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ تو ان کے جو آپس میں نکاح ہوئے ہیں وہ کیوں فسخ نہیں ہوتے۔ وہ کیوں جائز ہیں؟
یہ کافر، مشرک، گستاخ ہیں، ان کی نمازیں ایک سی ہیں تو مسجدیں کیوں الگ ہو گئیں۔ پڑھا جانے والا مقدس صحیفہ، نبی، مذہب سب یکساں ہے تو پھر یہ درمیان میں کیا ایسی چیز آ گئی کہ اس نے سب کو الگ کر دیا۔ سب تقسیم ہوگیا۔
مذہبی رواداری کا دور تمام ہوا تو رحمت کے سائے ختم ہوگئے تھے۔ بزرگ جو رخصت ہو گئے تھے رحمت کہاں رہتی؟ منافرت کی فضاؤں میں تیسری پیڑی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھی۔ اب تو بات کچھ ہاتھ آگے بڑھ گئی۔ زندگی کے بکھیڑوں میں ایک بکھیڑا یہ بھی تھا کہ آج نماز فلاں مسجد میں کیوں پڑھی، وہاں کیوں نہیں پڑھی۔ چلو نماز کا اعادہ کرو۔ کچھ کہہ دیا تو جواب ہوتا۔ دین میں بگاڑ لاتے ہو گمراہ آدمی۔ ذہنی کینوس کی صاف سطح پر انتہا پسندی کی گمبھیر لکیریں کھینچنے والے کچھ اس قدر تجربہ کار تھے کہ مجھے آج تک اندازہ نہیں ہو سکا۔ آخر وہ کون تھے؟ معلوم نہیں نفرت کی دیواریں کیسے کھڑی ہوگئی تھیں۔ کس کا ہاتھ تھا۔
یہ میں کہاں نکل گیا۔ میں تو ان بزرگوں کی بات کر رہا تھا۔ ان کا آپسی مذاق بھی کچھ الگ ہی ہوتا جیسے ایک بزرگ کہنے لگے۔ بھئی میں تو بس اٹھارہ کی کوئی لڑکی بیاہ کر لاتا ہوں۔ فلاں بیٹی دینے پر راضی ہے۔ تو دوسرے بزرگ ہنستے ہوئے کہتے اوہ حاجی صاب، ڈاڑھی دیکھ اپنی چاندی سے بال ہو رہے ہیں۔ توند سنبھلتی نہیں، سر کے بال تک تو اُڑ گئے اور اب شوق چڑھا ہے شادی کا۔ بیٹے تو کیا تیرے پوتے بھی بیاہنے لائق ہیں اور تو اب بھی اٹھارہ سالہ لڑکی کو بیاہ کر لانا چاہتا ہے۔ خود آدھے قبر میں ہو، بچوں کا سوچو، پوتے کیا کہیں گے ان کی دادی ان سے چھوٹی ہے۔
پھر قہقہے ہوتے۔ ایک صوبیدار ریٹائرڈ تھے محمد حسین، دادا انہیں ممسین کہا کرتے تھے۔ دادا کا نام سلطان تھا انہیں حاجی صاحب کرکے پکارا جاتا تھا۔ ایک اور بزرگ تھے سب انہیں ارسلا بابا کہا کرتے تھے۔ اچھا ارسلا بابا مسجد کی خدمت میں پیش پیش رہتے۔ پانی بھرنا، روشنی جلانا، صفائی کرنا اذان دینا سب ان کے ذمہ تھا۔ دادا چونکہ کاشت کاری کرتے تھے۔ مزدوروں کے ساتھ کھیتوں میں کام کر رہے ہوتے تھے۔
ارسلا بابا آئے تو گزرتے ہوئے کہہ دیا۔ حاجی صیب نماز کا وقت ہے۔ ہاں بس آتا ہوں۔ ارسلا بابا صلوۃ و سلام کے بعد اذان دیتے، قرآن پڑھتے، دیکھتے کہ تاحال نہیں آیا،تو مسجد کے سپیکر میں آواز دے دیتے حاجی صیب! مسجد آؤ نماز کو پانچ منٹ باقی ہیں۔ ان کی جان مسجد پہنچ کر ہی چھوٹتی تھی۔ عجب لوگ تھے ایک شخص سے محبت کا یہ عالم ہے کہ خدا کے دربار میں سجدہ ریز ہونے کو بلاوا پورے محلے کو سنایا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں اس عہد کا آخری پیڑ بھی گر گیا۔ ان کی یادیں دل و دماغ میں اقامت گزیں ہیں۔ اب تیسری پیڑی جوان ہو گئی۔ میرے ساتھ والے آگے بڑھ گئے میں پیچھے رہ گیا۔ اور پیچھے رہنے والے ہمیشہ گم ہوجاتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں