چھٹے پارے کا خلاصہ

اس پارے میں سورہ نساء کی بقیہ آیات اور سورہ مائدہ کی بیشتر آیات شامل ہیں۔
پارے کی ابتدائی آیت میں یہ بتایا گیا کہ اللہ تعالی کو مظلوم کے علاوہ کسی سے برائی کا اظہار پسند نہیں ہے (یعنی جب کوئی برائی کسی جماعت میں پھیل رہی ہو تو اس کا ذکر عام صیغہ میں کیا جائے، اس کو کسی فرد یا گروہ پر منطبق نہ کیا جائے۔ تعینِ اشخاص کے ساتھ برائی کا اظہار و اعلان صرف مظلوم کے لیے جائز ہے)۔ پھر مومنین و کفار میں فرق بتایا کہ مومن سب انبیاء پر یکساں ایمان رکھتے ہیں جبکہ کفار ان میں تفریق کرتے ہیں۔ پھر اھل کتاب کی شر انگیزیوں کا ذکر کیا کہ انھوں نے اللہ کو علانیہ دیکھنے کا مطالبہ کیا، عہد کو توڑا، آیات اللہ کو جھٹلایا، ظلم کیا، سود کھایا، مریم پر بہتان لگایا اور عیسی علیہ السلام کے قتل کا دعوی کیا، حالانکہ ایسا نہیں ہوا بلکہ اپنے نبی کو اللہ نے ان سے بچا کر اوپر اٹھا لیا تھا۔ اس سب کی پاداش میں ان پر بہت سی پاکیزہ چیزیں حرام کردی گئیں۔ ساتھ یہ بھی واضح کردیا کہ سب ایسے نہیں ہیں بلکہ ان میں کچھ راسخ مومن بھی ہیں جو نماز و زکاة کی پابندی کرتے ہیں۔ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔ اس کے بعد بتایا گیا کہ اللہ نے تمام انبیاء کو اسی پیغام کے ساتھ بھیجا جس کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا، اللہ اور فرشتے گواہی دیتے ہیں کہ جو آپ پر نازل ہوا وہ حق ہے۔ جنھوں نے اس کا کفر کیا وہ گمراہ ہیں۔ یہ نبی حق کے ساتھ آئے ہیں تو بہتر ہے کہ ان پر ایمان لے آئیں۔ نیز اھل کتاب کو تنبیہ کی کہ غلو نہ کریں بلکہ وہی کہیں جو حق ہے کہ عیسی علیہ السلام اللہ کے رسول ہیں بیٹے نہیں، وہ اللہ کی عبادت سے شرم محسوس نہیں کرتے تھے۔ جو اللہ کی عبادت سے عار محسوس کرتا ہے اس کے لیے درد ناک عذاب ہے، جبکہ مومنین کے لیے اللہ کی رحمت و فضل کا وعدہ ہے۔ آخر میں وراثت سے متعلق حکم ہے کہ اگر مرنے والے کے والدین اور اولاد نہ ہوں تو اس کے بہن بھائی وارث ہونگے، مرد کا حصہ دوگنا ہوگا۔
یہاں سورہ نساء اختتام پذیر ہوئی۔ اس کے بعد سورہ مائدہ شروع ہوتی ہے جس کا افتتاح ایفائے عہد کے حکم سے ہوا۔ پھر اشہر حرم، شعائر الہی اور دیگر محرمات کا خیال رکھنے کا حکم دیا گیا۔ یہ بھی حکم ہوا کہ نیکی اور تقوی کے کاموں میں تعاون کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ نیز چوپایوں کی حلت اور ان میں جو اصناف حرام ہیں ان کو بیان کیا گیا۔ پھر بتایا گیا کہ اللہ نے تمھارے لیے اس دین کو مکمل کردیا ہے، اپنی نعمت تمام کردی ہے اور اسلام کو تمھارے لیے پسند کیا ہے۔
پاکیزہ چیزوں کی حلت، ان کو کھانے کا حکم اور اہل کتاب کی پاک دامن خواتین سے نکاح کے جواز کا بیان آیا۔ پھر نماز کے لیے وضو اور پانی کی غیر موجودگی میں تیمم کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا۔
اس کے بعد کہا گیا کہ عدل و انصاف پر قائم رہو، کسی کی دشمنی بھی تمھیں اس راستے سے نہ ہٹائے۔ یہود سے کیے گئے میثاق کا ذکر کیا جس میں یہ وعدہ ہوا تھا کہ اگر وہ نماز و زكاة پر قائم رہیں، اللہ کے رسولوں پر ایمان لائیں اور ان کی مدد کریں تو اللہ ان کی خطاوں کو بخش کر ان کو جنت میں داخل کریں گے۔ لیکن انھوں نے اس عہد کو توڑا اس لیے ان کے دل سخت کردیے گئے۔ اسی طرح نصاری سے بھی عہد لیا گیا لیکن وہ بھی اس پر قائم نہ رہے چنانچہ ان کے درمیان نفرت و دشمنی ڈال دی گئی۔ پھر اہل کتاب کو مخاطب کرکے کہا گیا کہ تمھارے پاس ہمارا رسول آگیا ہے جس کے ذریعے اللہ سیدھے اور روشن راستے کی طرف ہدایت دے رہا ہے، اس کی پیروی کرو۔ پھر یہود و نصاری کے بعض غلط عقائد و تصورات کی تردید کی گئی اور رسول اللہ پر ایمان کی دعوت کو دہرایا گیا۔ یہود کی تاریخ کا ایک واقعہ بھی ذکر کیا جب انھوں نے موسی علیہ السلام کے ساتھ جہاد سے منہ موڑا تھا جس کی پاداش میں ان کو 40 سال بھٹکنے کی سزا ملی۔ پھر ھابیل و قابیل کا قصہ ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ جس نے نا حق کسی کی جان لی اس نے گویا پوری انسانیت کی جان لی اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔ نیز زمین میں قتل و غارت اور فساد پھیلانے والوں اور چور کی حد کا ذکر کیا گیا۔ فساد فی الارض کی حد عبرت ناک قتل یا سولی پر چڑھانا یا ہاتھ اور پاوں بے ترتیب کاٹنا ہے جبکہ چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ جو توبہ کرے گا اللہ اس کی توبہ قبول کریں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ آپ کفار کے کفر سے غمگین نہ ہوں، یہ کتب اللہ میں تحریف کرتے ہیں اور حرام کھاتے ہیں۔ اگر یہ آپ کے پاس اپنے معاملات میں فیصلہ کرانے آئیں تو آپ کو کرنے یا نا کرنے کا اختیار ہے، لیکن اگر کریں تو عدل کے مطابق کریں۔
اس کے بعد بتایا کہ تورات بھی اللہ نے نازل کی جس میں ہدایت کا سامان تھا، اللہ کے نبی اور دیگر اللہ والے اس کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے۔ اور انجیل بھی ہدایت و روشنی کے ساتھ اللہ نے ہی نازل کی۔ سب کو چاہئیے کہ اللہ کے حکم کے مطابق فیصلے کریں، جو ایسا نہ کرے وہ ظالم فاسق اور کافر ہے۔ اس کے بعد بتایا کہ یہ کتاب بھی ہم نے ہی نازل کی جو پچھلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان پر حاوی ہے، سب کو اسی کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں۔ مسلمانوں کو حکم دیا کہ یہود و نصاری کو دوست نہ بنائیں، ساتھ ہی ان کی بعض صفات بتائیں (دین و نماز کا مذاق اڑانا، گناہوں میں سبقت وغیرہ)۔ یہ بھی واضح کردیا کہ درحقیقت مومنین کے دوست اللہ، نبی اللہ اور مومنین ہی ہیں۔ اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کا ہی فائدہ ہوتا، ان میں بعض نیک بھی ہیں لیکن اکثر ایسے ہی ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ جو نازل کیا گیا اس کی بلا خوف و خطر تبلیغ کریں اللہ آپ کی حفاظت فرمائیں گے۔ جو اللہ پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا اس کو کوئی خوف و غم لاحق نہ ہوگا۔ پھر دوبارہ رخ کلام اہل کتاب کی طرف موڑ دیا گیا، نصاری کے عقیدہ تثلیث و الوہیت مسیح کا رد کیا گیا، اور حکم دیا کہ دین میں نا حق غلو نہ کرو نہ خواہشات کی پیروی کرو۔ پھر اہل کتاب میں سے جو کفار ہیں ان پر کی گئی لعنت کا ذکر کیا جس کی وجہ ان کا منکر سے باز نہ آنا تھا۔ یہ بھی بتایا کہ ان میں سے اکثر کفار کو اپنا دوست بناتے ہیں، اگر یہ ایمان لے آتے تو کبھی ان کو دوست نہ بناتے۔ آخر میں واضح کیا گیا کہ مسلمانوں سے دشمنی میں سب سے سخت یہود اور مشرکین ہیں، اور ان سے قریب تر نصاری ہیں بوجہ اس کے کہ ان میں راھب ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply