افغانوں اور دکنی سپاہیوں پہ مشتمل گروہ جو غیرمنظم دستوں کی صورت میں مرہٹہ فوج کے ہراوّل کا کام کرتے تھے ۔”
آپ نے پچھلی چار دہائیوں میں افغان وار لارڈز کی جو شکل دیکھی ہے ، انہی کو قدیم زمانے میں متصور کریں تو محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری کے جتھوں کی شکل ملے گی، افغانستان آج تہذیب کے جس مقام پہ ہے اسے دیکھتے ہو ئے ہزار سال قبل کا محمود و غوری کا افغانستان سمجھنا مشکل نہیں ہے ، وقت ہمیں بدلتا ہے، لیکن زمین، موسم، مزاج ،ہمیں ہماری اصل سے جوڑے رکھتے ہیں۔
غوریوں و غزنویوں نے ایک جانب تو ہندوستان پہ جہادی حملے کیے، دوسری جانب ایک دوسرے کو نوچنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ یہاں تک کہ غوریوں کے ہاتھوں غزنوی سلطنت برصغیر میں خاتمے تک جا پہنچی ۔افغانستان میں اسلام کی آمد کے ساتھ ہی افغانوں کا جو کردار شروع ہوتا ہے، وہ انہیں کرائے کے سپاہیوں میں بدل دیتا ہے، اب یا تو یہ خود برصغیر میں بادشاہت قائم کرنے کی کوشش کرتے تھے یا فاتح فوج میں شامل ہو کے اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرتے تھے۔ یہ سلسلہ چلتا ہوا جب مغلوں کی حکومت کے انتشار تک پہنچا تو برصغیر میں خودمختار رجواڑوں کی کثرت ہو گئی۔ ان رجواڑوں کو سپاہیوں کی ضرورت ہوتی تھی اور اسکے لیے افغانیوں سے زیادہ موزوں کوئی قوم نہیں تھی۔
پنڈارے ایک ایسی ہی فوج کا نام تھا ،جو اورنگزیب کے آخری وقتوں میں نمودارہوئی، کچھ مؤرخوں کا کہنا ہے، کہ یہ دکنی امراء کے ہراوّل تھے جو اورنگزیب کے دکن پہ قبضے کے بعد اسکے لیے بھی کام کرنے لگے لیکن جلد ہی اورنگزیب کے جانشین سلطنت کے زوال کا باعث بننے لگے تو پنڈاروں کو مرہٹوں کی سرپرستی میسر آئی ،جہاں انہوں نے اپنا سب سے طویل عرصہ گزارا ۔سرپرست فوج انہیں باقاعدہ تنخواہ نہیں دیتی تھی، البتہ انہیں گزارے کے لیے مفتوح علاقے میں لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دی جاتی تھی ،جس سے یہ اپنی آمدن کا ذریعہ پیدا کرتے تھے ،انکا مستقل ٹھکانا اگرچہ کوئی نہیں تھا، لیکن دریائے نربدا کے بیٹ کے علاقے انکی محفوظ پناہ گاہ تھے، جہاں انہوں نے قلعے بھی تعمیر کیے، مرہٹہ سلطنت کے بہت سے حصوں میں بٹ جانے کے بعد یہ بھی تقسیم ہوئے اور مختلف مرہٹہ حاکموں کی زیرنگرانی لڑتے رہے، اپنی پناہ گاہ میں زمانہء امن میں کھیتی باڑی بھی کر لیا کرتے تھے۔
سیواجی راؤ کی فوج میں نصرو سب سے مشہور پنڈارہ سردار تھا اسکی وفات پہ اسکا بیٹا چیکن اسکی جگہ کام کرتا رہا۔ چیکن کے بعد غازی الدین اجین پہ حملے میں مارا گیا، غازی الدین کا بیٹا گاردی خان ملہار ہلکر کے لشکر میں شامل ہوا (یہ وہی گاردی خان ہو سکتا ہے، جو ابدالی کے ہندوستان پہ حملے کے وقت مرہٹہ توپ خانے کا سربراہ تھا) ہلکر کے علاوہ سندھیا کے پاس بھی پنڈاروں کی معقول تعداد ملازمت کرتی تھی، غازی الدین کا دوسرا بیٹا شاہباز خان سندھیا کی ملازمت میں چلا گیا، اسکی موت پہ اسکا بیٹا ہیرا خان پنڈاروں کا سردار بنا ،اسکے دونوں بیٹے محمد اور دوست محمد بھی پنڈاروں کے مشہور سردار تھے ،انگریزوں نے جب مرہٹوں کا مکمل خاتمہ شروع کیا تو ان دونوں بھائیوں سے جنگ کی ،انکے علاوہ مشہور پنڈارے سردار چیتو اور کریم بخش بھی سندھیا کی فوج کے مددگار تھے ۔
انگریزوں نے انکی دریائی جاگیروں پہ ایک بڑا آپریشن کیا جسکے نتیجے میں کئی جنگیں ہوئیں اور انکا خاتمہ ہو گیا ۔ان میں سے کچھ نے لڑتے ہوئے جان دی اور کچھ نے انگریزوں کیجانب سے جاگیروں کی پیشکش قبول کر کے ہتھیار ڈال دیئے جن میں امیر خان بھی شامل تھا، جسے ٹونک کی مشہور جاگیر جو ریاست ٹونک کے نام سے جانی جاتی ہے، ملی۔۔ یہ وہی امیر خان ہے جس کے لشکر میں سید احمد بریلوی پہلے پہل بطور سپاہی بھرتی ہوئے تھے اور انکے خیبرپختونخوا جانے والے لشکر میں اس فوج کا کچھ حصہ بھی شامل تھا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں