پڑیے گر بیمار تو(3)۔۔فاخرہ نورین

میں نے اس کے پردیس قیام کو اپنی جان پر بھگتا ہے اور کتنی بار ایسا ہوا کہ تکلیف یا درد کی شدت مجھ پر بے ہوشی طاری ہو گئی، کچھ گھنٹے گزرے، میں شہر مدفون بنی، پھر خود اٹھ بیٹھی۔خود کو جھاڑا پونچھا اور اٹھ کر اپنے لیے کچھ پکانے لگ گئی ۔

میری کوئی بیماری بھلے ذہنی ہو کہ جسمانی، جذباتی یا نفسیاتی، کوئی بھی زبیر دیکھ سکا نہ سمجھ پایا۔ وہ خود ایک صحت مند اور محنتی جسم کا مالک ہونے کی بدولت بخار تک میں مبتلا نہیں ہوا تھا ۔اس کے فہم اور علم میں بیمار عورتوں کے طور پر وہ عورتیں تھیں جو روزمرہ سر پر پٹی باندھے منجی بسترا بچھائے ہائے ہائے ہائے کرتی تھیں ۔بیماری کو باقاعدہ سیلیبریٹ کیا جاتا تھا ایسے خاموشی سے خود ہی بے ہوش ہو کر خود ہی اٹھ کر گروسری کرنے والی عورت کی بیماری اسے سمجھ آ بھی نہیں سکتی تھی ۔ پھر یہ بھی تھا کہ میری بیماری جیسی بھی ہوتی جیسے ہی زبیر اٹلی سے فلائٹ پکڑتا، مجھے پَر لگ جاتے۔

بیماری ایک فراڈ کی طرح بھاگ جاتی ۔میں گھر کا ایک ایک کونہ خود چمکاتی، اس کے کپڑے استری کرتی، جوتے پالش کر کے رکھ دیتی۔ اس کے پسندیدہ کھانے بناتی اور دو دو مہینے کی غیر حاضری کے بعد بیوٹی پارلر پر اپنی چھلائی منجائی میں لگ جاتی ۔ایک اور روٹین جو کبھی نہیں بدلی وہ اس کی آمد پر گھر سجانے اور پھولوں سے بھردینے کی ہے۔ میرا بس چلے تو میں اس کے ساتھ گزاری ہر رات ایک نئے ڈیزائن کی سیج سجاؤں ۔ ہم کیسے ہی خفا کیوں نہیں ہوئے، کتنا ہی لڑے ہوں لیکن گھر آنے پر اس کا جی جان سے استقبال کرنے کے لئے میں نے اسے ہمیشہ پہلی رات کی دلہن والا پروٹوکول دیا ہے ۔یہ میری زندگی کی چند بہت ذاتی خوشیوں میں سے ایک ہے۔

مجھے اس کے جانے کی عادت نہیں ہو سکی لہذا وہ دس منٹ کے لئے بھی کہیں جائے میرا دل اس کے پیروں سے لپٹا ساتھ ہی جاتا ہے ۔

خیر اس سب پر پھر کبھی لکھوں گی، میری بیماری کا حال سن کر زبیر ائیر پورٹ اترتا تو بیماری اڑن چھو ہو چکی ہوتی تھی ۔ اس کے جوتے اتارنے سے لے کر کپڑے پہنانے تک کا ہر کام کرتی میں کہاں بیمار لگ سکتی تھی ۔

ہم دونوں نے ایک دوسرے کو بہت فعال اور بھاگتے دوڑتے دیکھا تھا اور اندازہ نہیں تھا کہ ایک دوسرے کو بیمار دیکھنا کیسا تجربہ ہو گا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مجھے اس کے ہوتے ہوئے بخار ہوا اور بخار بھی ایسا کہ کم خوابی کی مریضہ میں دن دیہاڑے سو گئی۔ مجھے سوئے چند منٹ بھی نہیں گزرے تھے جب زبیر نے گھبرا کر مجھے جھنجھوڑ دیا ۔
بے بو اٹھ جاؤ ناں پلیز مت سوؤ تم
میں نے بمشکل تمام بخار سے چندھیائی آنکھوں کو کھولا اور تپتے چہرے کی حدت سے گھبرائی آواز سے کہا ۔
مجھے بخار ہے زبیر، بخار سے نیند آ رہی ہے ۔
تم اٹھ کر بیٹھو، مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے ۔ اصل میں میں نے تمہیں کبھی بھی دن میں سوتے نہیں دیکھا تو مجھے عجیب لگ رہا ہے ۔ بس تم جاگ جاؤ ۔ میں ڈر گیا ہوں ۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی ۔
وہ بیڈ کے ساتھ کرسی پر بیٹھا عجیب سے خوف کے زیر اثر تھا ۔
میں کچھ بہتر ہو جاؤں تو میں اٹھ بیٹھتی ہوں ۔
مجھے نہیں پتہ بس تم اٹھ جاؤ ۔
یار زبیر میں ٹھیک نہیں ہوں،
تم کیسے ٹھیک ہو گی، مجھے بتاؤ۔۔
تم میرے لئے چائے بنا دو تو میں ٹھیک ہو سکتی ہوں ۔میں نے اسے کوہ ندا سے موتی لانے کا کہا ہوتا تو وہ دومنٹ میں ایک سو ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار  سے گاڑی اڑاتا لے آتا۔لیکن کچن میں جانا اس کے لیے قیامت ہوتا ہے ۔
تم اٹھو نا میں ساتھ چلتا ہوں مل کر بناتے ہیں چائے۔
نہیں میں نہیں اٹھوں گی میں تو بیمار ہوں ۔اور چائے پی کر ہی اٹھوں گی۔
میں اس دوران چند منٹ مزید سونے کی مہلت چاہتی تھی اور اسے مصروف کر کے اس کا دھیان بٹانے کا ارادہ رکھتی تھی ۔
یار مجھ سے اچھی نہیں بنے گی ۔تم ساتھ آؤ تو بہتر نہیں ہو گا؟
نہیں ۔مجھے ڈاکٹر نے کہا ہے تمہارے ہاتھ کی چائے پینے سے ہی میں ٹھیک ہوں گی۔
کس ڈاکٹر نے؟ وہ حیران ہوا۔
ڈاکٹر فاخرہ نورین نے۔
میں نے اسے اس کے اپنے گھر کی مستند ڈاکٹر کا حوالہ دیا تو وہ کچن میں گیا ۔
ڈارک براؤن اور کسیلی چائے بنا کر وہ ایک بار پھر میرے سرہانے کھڑا تھا ۔
اٹھ جاؤ یار،
میں اٹھ بیٹھی لیکن ایک طویل واسوخت کا آغاز بھی ساتھ ہی کر دیا ۔
کیا یار میں نے تجھے کبھی سوئے کو نہیں جگایا اور تو مجھ مریض کو بھی نہیں سونے دے رہا ۔
یار میں نے تمہیں کبھی ایسے دیکھا نہیں، مجھے ڈر لگ رہا ہے تمہیں بخار میں سوتے اور کانکھتے دیکھ کر ۔ تم کبھی میرے سامنے ایسے ہوتی نہیں ہو ناں، اور مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ تمہیں کیا دوں تو تم ٹھیک ہو جاؤ گی۔ہمیشہ تم ہی مشورے اور تجاویز دیتی ہو نا۔
اس کی مشکل بجا تھی، مجھے اس پر ترس بھی آیا اور پیار بھی ۔سو چائے پی کر میں سچ مچ ٹھیک ہو گئی اور اس سے گپ شپ کرنے لگی تو اسے کچھ آرام آیا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply