ذہانت (6) ۔ انسان بمقابلہ الگورتھم/وہاراامباکر

پال میہل نے 1954 میں کتاب شائع کی جس میں انسان بمقابلہ الگورتھم کے نتائج کی کارکردگی کا موازنہ تھا۔ اس تفصیل سے لکھی کتاب میں نتیجہ واضح تھا۔ سادہ الگورتھم بھی اپنے فیصلوں کی کارکردگی میں انسانوں کو مات دیتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 

 

 

نصف صدی سے ہونے والی لاتعداد سٹڈیز پال مہیل کے نتائج کی تصدیق کرتی ہیں۔ اگر آپ شرط لگانا چاہیں تو ہر بار الگورتھم پر لگا سکتے ہیں۔ میڈیکل کی تشخیص، مال کی فروخت کا اندازہ، اس بات کی پیشگوئی کہ کون خودکشی کی کوشش کرے گا۔ کون ملٹری کی ملازمت کے لئے فِٹ ہے۔ کس کا امتحان میں رزلٹ کیسا ہو گا۔انسان بمقابلہ الگورتھم یکطرفہ مقابلہ ہے۔ مشین ایسے جواب دینے میں پرفیکٹ تو نہیں لیکن انسان سے بدرجہا بہتر ہے۔ انسان کو ویٹو کی طاقت دینے کا مطلب غلطی کے امکان کو بڑھانا ہو گا۔
اور اس میں حیرت کی بات نہیں۔ ہم کمپیوٹ کرنے کی مشین نہیں۔ ہمارا ڈیزائن ہی ایسا نہیں۔ ہم ہر شے کے ہر پہلو کو لے کر حساب کتاب میں مصروف نہیں رہتے۔ ہمارے فیصلے سادہ ہیں۔ اس لئے زیادہ تر پیچیدہ فیصلوں کو مشین کے سپرد کر دینا دانشمندی ہے۔ پائلٹ میں ایک مذاق ہے کہ جہاز اڑانے کی بہترین ٹیم میں تین شرکاء ہیں۔ ایک کمپیوٹر، ایک پائلٹ اور ایک کتا۔ کمپیوٹر کا کام جہاز اڑانا ہو۔ پائلٹ کا کام کتے کو کھانا دینا ہو۔ اور کتے کا کام پائلٹ کو کاٹ لینا ہو اگر وہ کمپیوٹر کو چھونے کی کوشش کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن مشین کے ساتھ ہمارے تعلق میں ایک تضاد ہے۔ ایک طرف تو ہم ایسی ہر چیز پر ضرورت سے زیادہ اعتبار کرنے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں جس کو سمجھتے نہ ہوں۔ اور دوسری طرف اگر الگورتھم کوئی غلطی کر دے تو ہماری ایک اور مضر عادت ضرورت سے زیادہ ردِعمل دینے کی ہے۔ کہ اس کو ختم ہی کر دیا جائے اور واپس اپنے ناقص فیصلوں کی طرف آ جایا جائے۔ ہماری اس عادت کو محققین algorithm aversion کہتے ہیں۔ لوگ اپنی غلطیوں کو معافی دے دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔ لیکن الگورتھم کے بارے میں زیادہ برداشت نہیں رکھتے۔ خواہ اس کے مقابلے میں اپنی غلطی کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔
اس چیز کو بارہا تجربات میں دکھایا جا چکا ہے۔ اور آپ خود بھی اس کو پہچان سکتے ہیں۔ (گوگل میپ کے بتائے راستے پر اپنی رائے کو ترجیح دے کر اس کے نتائج کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے)۔
ہمارا رجحان دنیا کو سیاہ و سفید میں دیکھنے کا ہوتا ہے۔ اس لئے ہماری نظر میں، یا تو الگورتھم سب کچھ جاننے والے ماسٹر ہیں یا پھر بالکل بے کار ہیں۔ یہ ہائی ٹیک دور کا مسئلہ ہے۔
ہمیں ایک طرف اپنی حدود کو تسلیم کر کے اپنے غرور کو لگام دینا ہو گی۔ جبکہ دوسری طرف، الگورتھم کو علمیت کے کسی بلند رتبے سے اتار کر ان کی زیادہ احتیاط سے جانچ کرنا ہو گی اور یہ سوال کرنے ہوں گے کہ کیا یہ واقعی اپنے دعووں پر پورا اترتے ہیں۔ اور کیا یہ اس ذمہ داری اور طاقت کے اہل ہیں جو کہ ان کو سونپی گئی ہے۔
بدقسمتی سے یہ کہنا آسان ہے، کرنا نہیں۔ جو الگورتھم ہماری اپنی ذاتی زندگی پر اثرانداز ہو رہے ہیں، ان کے بارے میں ہم کچھ کر نہیں سکتے۔
انٹرنیٹ پر الگورتھم اس وقت جدید دنیا کی اہم جنس اکٹھا کرنے میں دھڑا دھڑ مصروف ہیں جو کہ ڈیتا ہے۔ یہ ہمارا پیچھا کرتے ہیں، ہماری ذاتی انفارمیشن اکٹھی کرتے ہیں۔ اور ہمارے بارے میں اندازے لگاتے ہیں۔
ان کی طاقت اور ہمارے پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت اور ہمارے ان پر غلط بھروسے کا مطلب ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کو بدل سکتے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply