پیرس کا رس/پیرس میٹرو(1)-محمود اصغر چوہدری

ٹرین اس اسٹیشن پر رکی تو لوگوں کا ایک ہجوم اس میں داخل ہوا ۔ دروازے کے سامنے سیٹوں پربیٹھے آٹھوں مسافر اپنی اپنی سیٹ سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے ۔ میں نے غور کیا کہ ان کی سیٹیں خود بخود فولڈ ہوکر بند ہوگئیں ۔ میں گزشتہ کئی اسٹیشنوں سے ان کی اٹھک بیٹھک کا یہ منظر دیکھ رہا تھا ۔
ان میں سے ایک خاتون تھی جو اپنے موبائل پر سوشل میڈیا پر تصویریں دیکھ رہی تھی ۔ ایک نوجوان تھا جو اپنے لیپ ٹاپ پر ایکسل کی کوئی فائل دیکھ رہا تھا۔ ایک بزرگ شہری ایک کتاب پڑھ رہا تھا ایک نوجوان اپنے کانوں میں ٹوٹیاں لگائے کسی میوزک کی دھن سننے میں مگن تھا ۔ ایک خاتون اپنے پرس سے شیشہ نکال کر اپنا میک اپ ٹھیک کر رہی تھی ۔ دونوجوان اپنا سفری بیگ ٹانگوں میں پھنسائے بیٹھے تھے ۔ یوں ظاہراً تو لگتا تھا کہ وہ اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں اور انہیں کسی سے سروکار نہیں ہے ۔ لیکن جوں ہی ایسا کوئی اسٹیشن آتا جہاں لوگوں کی بھیڑ ٹرین میں داخل ہوتی تووہ فوراً اپنی سیٹوں سے اٹھ جاتے ۔ او ر جس اسٹیشن پر لوگوں کی تعداد ٹرین سے اتر جاتی وہ دوبار ہ سیٹیں کھول کر بیٹھ جاتے ۔
مجھے ان کی یہ ادا بہت پسند آئی ۔یہ ظاہر کرتا تھا کہ انہیں دوسرے مسافروں کا خیال تھا ۔ ان کی خواہش تھی کہ زیادہ لوگ ٹرین میں داخل ہوسکیں ۔
یہ پیرس کی انڈر گراونڈ ٹرین تھی ۔ اس کے کھلنے والے دروازوں کے بالکل سامنے ایسی ہی کرسیاں لگائی گئیں تھیں جو فولڈ ہو کر کھل یا بند ہوجاتی تھیں ۔ میں نے اردگر دنوٹس ڈھونڈنے کی کوشش کی جہاں لکھا ہو کہ بھیڑ کی صورت میں اٹھ جانا ہوگا لیکن ایسا کچھ نہیں تھا ۔ زیر زمین چلنی والی اس ٹرین میں پولیس یا ٹرین انتظامیہ کا بھی کوئی شخص نہیں تھا جو لوگوں کو ایسا کرنے کا کہتا ۔ کوئی کنڈکٹر نہیں تھا جو نال نال ہوجاو کی صدا لگاتا ۔ کوئی بزرگ نہیں تھا جو ان مسافروں کو احساس دلاتا کہ دوسروں کا بھی خیال کریں ۔
ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے کوئی پروگرام ان کے ذہنوں میں کمپیوٹر کی مدد سے فیڈ کر دیا تھا کہ ان سیٹوں پر بیٹھنے کا حق صرف اتنی دیر تک ہے جب تک بھیڑ نہیں ہے ۔ جوں ہی دیگر مسافر آجائیں تو آپ بھی انہیں کے ساتھ کھڑے ہوجائیں تاکہ سب کو کھڑے ہونے میں آسانی ہو۔ سب کا خیا ل کریں ۔ سب کو سوا ر ہونے دیں ، سب کے احترام کریں ۔ ایسا منظر میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔
یہ احساس ، یہ انسانیت ، یہ جذبہ انہیں کس نے سکھایا ہے ؟ کیوں کو ئی کسی کو دیکھ کر مونچھوں کو بل نہیں دے رہا ۔ کیوں کوئی کسی کو یہ نہیں کہہ رہا او ماما پہلے ہی بڑا رش ہے اگلی ٹرین پر آجانا چار منٹ بعد دوسری ٹرین آرہی ہے ۔ کیوں یہ آٹھ لوگ خود ہی اٹھ جاتے ہیں انہیں کوئی کہہ تو نہیں رہا کہ اٹھو ۔ کیوں انہیں جگہ بنانے کی اتنی فکر ہے ۔
کیافرانسیسی واقعی احساس کے معاملے میں ایک قوم ہیں ۔۔ لیکن میں تو جب پیرس آنے لگا تھا تو ان کے معاملے میں میرا ذہن بہت متعصب تھا ۔ کہ یہ اچھے لوگ نہیں ہیں ۔ گزشتہ دنوں ہونے والے ہنگاموں کے بعد میرا تو خیال تھا کہ یہ نفرت کی آگ میں بھرے بیٹھے ہوں گے لیکن یہ تو الٹا مجھے متاثر کر رہے تھے ۔۔۔
اگلے اسٹیشن پر ایک مسلمان لڑکی سوا ر ہوئی ۔ اس نے عبایا پہنا ہوا تھا اور سر پر مکمل حجاب تھا ۔ ۔۔۔ ہنگاموں کا تصور آتے ہی اور مسلمانوں کے بارے ان کے رویے کو ذہن میں لاتے ہی مجھے جھٹکا لگا   پھر کیا ہوا ۔۔۔۔

رات کے ساڑھے گیارہ بجے تھے ۔ میٹرو ایک اسٹیشن پر رکی تو ایک نوجوان مسلمان لڑکی سوا ر ہوئی وہ عبایا اور حجاب میں ملبوس تھی ۔ ٹرین میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی ۔میں ذاتی طور پر بڑا متعصب مسلمان ہوں مجھے لگا کہ اس لڑکی کورات کے اس وقت اس ٹرین میں سوا ر نہیں ہونا چاہیے تھاکہ اس وقت ملک میں جو انٹی مسلم فضا ہے اس کے باعث شاید یہ محفوظ نہ ہو ۔ وہ لڑکی جس گیٹ سے سوا ر ہوئی وہاں اس کے چاروں طرف نوجوان لڑکے تھے کچھ کالے کچھ چینی ، کچھ فرانسیسی ۔ میرے خدشے بڑھ گئے اکیلی لڑکی اور اتنی بھیڑ کیا وہ ہراساں نہیں کی جائے گی ؟

ہمارے ہاں تو بس میں سوار جس نوجوان لڑکی تک کسی نوجوان کا ہاتھ نہیں پہنچ پاتا تووہ دوسیٹیں آگے تک دھواں بھیجنے کی کوشش کر تا ہے۔ جو دور سے جملے بازی نہیں کر سکتا وہ نظروں سے ہراسانی بھی اپنا فرض کفایہ سمجھتا ہے ۔ ہمارے ہاں شریف خاندان اسی کو سمجھا جاتا ہے جو اپنے گھر کی بچیوں کو تعلیم کے لئے سکول یا یونیورسٹی بس میں نہ بھیجیں ۔ بلکہ ہمارے پڑوس میں ایک اسلامی ریاست کے دعوی دار ملک میں تو عورت محرم کے بغیر سودا سلف لانے بھی نہیں جاسکتی۔ ہماری تو مساجد میں بھی عورتیں عبادت کے لئے نہیں جا سکتیں ۔یہ طالبہ کافروں کے ملک میں کیوں اتنی بے باک گھوم رہی ہے اسے کیوں کوئی خوف نہیں ہے کہ اسے کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے لیکن میرا یہ وہم بھی جلد دور ہوگیا ۔کھچا کھچ بھری ٹرین میں اس باحجاب نوجوان مسلمان لڑکی کے گرد کھڑے نوجوان روبوٹ ثابت ہوئے ۔کسی کے ہاتھ ،زبان یا نظر میں کوئی حرکت نہیں ہوئی ۔ میرے روحانی صوفی ذہن نے ان نوجوانوں کو کریڈیٹ دینے کی بجائے یہ سوچ دی کہ اس بچی کی حفاظت اس کا پردہ کر رہا ہے ۔ کہ بقول سوشل میڈیا دانشوروں کےمکھیاں اس مٹھائی کے گرد منڈلاتی ہیں جو عیا ں ہوتی ہیں

لیکن اگلے ہی اسٹیشن پر یہ وہم بھی ٹوٹ گیا ۔ دو تین فرنچ لڑکیاں ٹرین میں سوا ر ہوئیں جنہوں نے کپڑوں کے نام پر جو کچھ بھی پہنا ہوا تھا وہ چھپاتا کم اور دکھاتا زیادہ تھا ۔ لیکن یہاں بھی مجھے مایوسی ہوئی میری ساری دانش میری ساری دلیلیں ان نوجوانوں نے عمل کی کسوٹی پر فیل کر دیں ۔ ان نوجوان لڑکیوں کو بھی کسی نے دیکھا ،چھیڑا اور نہ ہی ستایا۔ وہ ان کی آمد پر بے حس و بے حرکت روبوٹ ہی رہے

میں نے امریکہ کی زیرزمین چلنے والی ٹرین میں یہ جملہ پڑھا تھا کہ اگر کوئی بھی مرد کسی خاتون کو رش کا بہانہ بنا کر ٹچ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اگلے ہی اسٹیشن پر پولیس موجود ہے آپ اس کی شکایت کر سکتی ہیں ۔ یہ جملہ پڑھ کر بھی حیرانی ہوئی تھی کہ ہمارے ہاں تو جملہ مشہور ہے کہ جو عورت ستائے جانے پر شکایت کرے اس کا مطلب ہے کہ وہ شریف یا خاندانی نہیں ہے لیکن یہ مغربی ممالک کیسے ہیں کہ ستائے جانے پر چھیڑے جانے پر می ٹو کی کمپین چلا دیتے ہیں ۔ پیرس کی ٹرین میں ایسا کوئی جملہ نہیں لکھا ہوا تھا اور نہ ہی مجھے کہیں کوئی پولیس نظر آئی تھی اس لئے میری صحافتی نگاہیں کسی ناخوشگوار واقعے کی تلاش میں تھیں ۔ لیکن میں کوشش کے باوجود بھی میں ایسی کسی ہراسانی کا ہیولہ تک تلاش کرنے میں ناکام رہا جس میں کسی عورت کوچھونا تو دور تاڑنےتک کا عمل بھی نظروں سے گزرا ہو ۔

میں حیران تھا یہ نوجوان کیسے ہیں ، کیا ان کے دانشور انہیں دلائل سے یہ سمجھانے کی کوشش نہیں کرتے کہ اگر عورت کا لباس اچھا نہیں ہے تو تمہیں کھلی چھٹی ہے تم کھلےسانڈ کی طرح اس کا پیچھا کرو۔ اگر وہ پردہ نہیں کر تی تو تم شہوانے ریچھ کی طرح رالیں ٹپکاتے اسے دیکھ سکتے ہو ۔ کوئی بزرگ ان کو سمجھاتا نہیں کہ بیٹا جو عورت خود اپنی عزت کا خیال نہیں کرتی تمہیں حق ہے کہ تم اسے ایک آبجیکٹ سمجھو ۔ ہمارے لکھاری اور حکمران تو برملا لکھتے اور کہتے رہتے ہیں کہ جب عورت اپنے لباس کی وجہ سے ہراساں کی جاتی ہے تو اس میں لڑکوں بے چاروں کا کوئی قصور نہیں ہوتا یہ عورت ہی ہے جو اپنے لباس کی بنا پر ان کے جذبات برانگیختہ کر دیتی ہے اور وہ مجبور ہوجاتے ہیں ۔

رات کےاس پہر بھی عورتو ں کی اتنی بے خوفی دیکھ کر مجھے کچھ سال پہلے گوجرانولہ میں ہونے والا واقعہ یاد آگیا جس میں ایک فرانس سے ہی آئی ہوئی پاکستانی خاتون اپنی کار میں لاہور جار ہی تھی توموٹر وے پر بھی اسکا ریپ ہوگیا تھا۔ پنجاب پولیس کے اعلی آفیسر نے اس واقعہ پر اس خاتون کو ہی مورودالزام ٹھہرایا تھا کہ اس کو رات کو گاڑی باہر نکالنے کی ضرورت کیا تھی ۔ بلکہ اس نے ایک جملے کا اضافہ کیا تھا کہ محترمہ یہ فرانس نہیں ہے یہ پاکستان ہے ۔اس ایک جملے میں اس پولیس آفیسر نے پوری پاکستانی قوم کو گالی دی تھی لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستانی نوجوانوں اور مردوں کی اکثریت اس پولیس آفیسر کے بیان سے متفق تھی ۔۔۔

پیرس جانے سے پہلے میری سوچ فرانسیسیوں کے بارے بڑی منفی تھی اس کی وجہ گزشتہ دنوں ہونے والے ایک مسلمان نوجوان کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت اور مسلمانوں کے خلاف قانون سازی تھی ۔ لیکن فرانس جا کر اندازہ ہو ا کہ انسان کو کسی قوم کے بارے کوئی رائےنیوز چینلز یا سوشل میڈیا دیکھ کر نہیں بنانی چاہئے۔۔

پیرس کی زیر زمین ٹرین یورپ کی تیسری بڑی میٹرو لائین ہیں جس کے تین سو اسٹیشن ہیں اور پیرس شہر کے اندر سفر کرنے کیلئے یہ سب سے تیز ترین ٹرانسپورٹ سروس ہے ۔میٹرومیں اعلان ہوا کہ جیب کتروں سے ہوشیار رہیں اور اپنے سامان کی حفاظت خود کریں تو خوشی ہوئی کہ چلو فرانس کے بارے کچھ تو برا سننے کوملا کہ یہ بھی عام انسانوں جیسے تو ہیں لیکن میری یہ خوشی زیادہ برقرار نہیں رہی ۔ کیونکہ میرا اگلا دن ڈزنی لینڈ میں گزرنے والا تھا جس کو دیکھنے کی خواہش ہر شخص کے دل میں خواب بن کر رہتی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

باقی آئندہ

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply