• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • میڈم مشیراطلاعات ۔۔۔ اب اچھے بیان کی نہیں اچھے عمل کی ضرورت ہے/سیدعارف مصطفٰی

میڈم مشیراطلاعات ۔۔۔ اب اچھے بیان کی نہیں اچھے عمل کی ضرورت ہے/سیدعارف مصطفٰی

فواد چوہدری اطلاعات و نشریات کی ذمہ داریوں سے فارغ ہوئے ہیں تو اب میڈیا کے سوکھے دان ہرے ہونے کی امید بندھ چلی ہے ۔۔۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ کان تو ٹھنڈے ہوئے اور فواد چوہدری سے میڈیا کی جان تو چھوٹی ۔ گو ابھی کوئی بڑا اصلاحی قدم تو تاحال نہیں اٹھایا گیا ہے لیکن میڈیا ورکرز کو کافی سکون ملاہے کہ روز روز کی دانتا کل کل سے نجات  تو ملی  اور میڈیا کو حریف سمجھنے والے اس پھنکارتے شخص کا کچھ تو علاج ہوا ۔۔۔۔ باقی یہ جو نئی مشیر اطلاعات ہیں انکے لیے  موصوف کرنے کو بہت کام چھوڑگئے ہیں کیونکہ چند ہی ماہ میں انہوں نے وہ انتشار پھیلایا ہے اور میڈیا کے حالات کو ابتر کیا ہے کہ اس تھوڑے سے عرصے ہی میں مسائل کا پہاڑ کھڑا ہوگیا ہے اور اب فوری طور پہ انکی پھیلائی گند کو صاف کرنے کی اشد ضرورت ہے-

ویسے وزارت اطلاعات میں اس تبدیلی کا آغاز تو فی الواقع اچھے الفاظ سے ہوا ہے کیونکہ مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے شروع ہی  میں بہت مثبت باتیں کی ہیں بلکہ یہاں تک کہہ  ڈالا  ہے کہ میڈیا نمائندوں کو مبارک با د دیتی ہوں کہ آپ کی جنگ لڑنے والا آ گیاہے اور میڈیا والے اب لا وارث نہیں ہیں ۔۔۔ انہوں نے مزید یہ بھی کہا ہے کہ ہم میڈیا کو پاکستان کا چوتھا ستون مانتے ہیں اور جمہوریت میں میڈیا کے کلیدی کردارکی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں ۔مشیر اطلاعات نے میڈیا کو سرکاری معلومات تک رسائی کم ہونے کا تذکرہ بھی کیا اور اشتہارات کے بلز کی جلد ادائیگی کی بھی بات کی تاکہ میڈیا والے اپنے اپنے معاشی بحران سے نکل سکیں ۔

ان ساری باتوں سے بھی زیادہ اہم بات جو انہوں نے کی وہ یہ تھی کہ میڈیا سے بہتر تعلقات کے حوالے سے ترجیحات طے کی جارہی ہیں اور یہی وہ نکتہ ہے کہ جسے سابق وزیراطلاعات نے یکسر فراموش کیے  رکھا اورمتوازن و غیرجانبدارانہ رویہ اپنانے کے بجائے انہوں نے اپنی پسند کے چند چینلوں کے علاوہ سبھی سے پنجہ آزمائی پہ اتر آئے ، خصوصاً ملک کے سب سے بڑے چینل جیو کو اور ڈان نیوز و دنیا نیوز کو خواہ مخواہ ازخود ہی اپنا حریف باور کرکے بری طرح تنگ کرنے کے لیئے ہر طرح کا ہتھکنڈہ آزمایا جس میں اشتہارات کے پرانے بلز کی ادائیگی کا التواء ، نرخوں میں بیحد ناقابل قبول حد تک کمی اور ان اشتہارات سے من پسند چینلوں کو نوازنے کے لیے  ریٹنگ کے زمینی حقائق کو ماننے سے انکار جیسے اقدامات نمایاں حد تک تشویشناک تھے اور جن سے میڈیا والوں کی عظیم اکثریت کی معاشی کمر توڑ کے رکھ دی گئی اور بہت سے میڈیا چینلز ڈاؤن سائزنگ کرنے پہ بھی مجبور ہوئے اور تنخواہوں کی ادائیگیاں بھی معطل ہوکے رہ گئیں اور نوبت یہ آئی کہ متعدد میڈیا ورکرز کے چولہے ہی بجھ گئے ( خود اس خاکسار کے 7 ماہ کی تنخواہ اسکے چینل پہ واجب الاداء ہے )-

Advertisements
julia rana solicitors london

اوپر بیان کردہ ان معاملات کی   روشنی میں اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ذاتی پسند ناپسند سے بے نیاز ہوکے کارکردگی اور وسعت ابلاغ ہی کی بنیاد پہ ان ترجیحات کا تعین کیا جائے اوراعتماد سازی کے لیئے ورکنگ ریلیشن شپ کا ایسا قابل عمل فارمولا وضع کیا جائے کہ  جس سے میڈیا کو اپنے فرائض زیادہ بہتر طریقے سے ادا کرنے میں آسانیاں پیدا ہوں ۔۔۔ ترجیحات کا حقیقی اور مفید رخ متعین کرنا اس لیئے بھی ضروری ہے کہ مشیر برائے اطلاعات ونشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے خود کہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت میڈیا کی آزادی پر مکمل یقین رکھتی ہے اور ہماری حکومت آزادی اظہار پر کوئی قد غن نہیں لگائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ انکے اس عزم کا اظہار بھی لائق ستائش ہے کہ جسکا اظہار انہوں نے صحافیوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے حوالے سے کیا ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے ان عزائم کو کب تک رو بہ عمل لاپاتی ہیں ۔۔۔۔ ویسے یہاں یہ بھی عرض کرنا ضروری ہے کہ وہ جو بھی اصلاحی قدم اٹھائیں جلد اٹھائیں کیونکہ میڈیا سے منسلک ہزاروں ورکرز کے لیئے مزید تاخیر ناقابل برداشت ہوچلی ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس ضمن میں اپنے خوشنماء الفاظ اور دلفریب عزائم کو عمل کے جامے میں کب تک ڈھال پاتی ہیں تاکہ انکے اس کہے پہ یقین کیا جاسکے کہ ” میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو ساتھ لے کر چلوں گی اور یہ کہ اب میڈیا والے انکے بہبودی اقدامات کی روشنی میں انکے ان الفاظ پہ یہ یقین کرسکیں کہ ‘آپ کی جنگ لڑنے والا آ گیاہے اور میڈیا والے اب لا وارث نہیں ہیں ۔ “

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply