• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بلاول بھٹو کا مذاق اڑاتے حکمرانوں کا توہین آمیز رویہ ۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

بلاول بھٹو کا مذاق اڑاتے حکمرانوں کا توہین آمیز رویہ ۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

موجودہ قومی رہنماؤں میں وزیر اعظم عمران خان کی زبان کو سب سے زیادہ قابل اعتراض اور غیرذمہ دارانہ قرار دیا جاتا ہے۔ عمران خان  حکومت نے پچھلے 8 مہینوں سے زیادہ عرصہ کے دوران ملک کے سیاسی ماحول میں جس قدر تلخی اور مضحکہ خیزی پیدا کر دی ہے، اس کا خمیازہ جمہوری نظام پر لوگوں کے شدید کم ہوتے اعتماد کی صورت میں قوم کو بھگتنا پڑے گا۔ وانا جلسہ عام میں بلاول بھٹو کو وزیراعظم کے منصب پر فائز عمران خاں کا ’’صاحبہ‘‘ کہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ابھی تک سیاسی بلوغت حاصل نہیں کر سکے۔ تمام سیاسی لیڈروں اور دانش وروں نے اس عمل کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس غیر سنجیدہ سیاسی طرز عمل سے عمران خاں ملک میں نفرت اور عدم برداشت کی وہ فضاء پیدا کر رہے ہیں جو پلٹ کر اُن کے سامنے ہی آئے گی۔ عمران خاں کے بلاول کو صاحبہ کہنے سے وہ عورت تو بن نہیں سکتے مگر عمران خاں کا ایک مرد کو عورت کہنا یہ ضرور ثابت کرتا ہے کہ وہ مرد کو عورت سے بالا تر سمجھتے ہیں ورنہ وہ ایک مرد کو صاحب کہنے کی بجائے عورت کے لقب صاحبہ سے پکار کر اُس کا ٹھٹھہ اُڑانے کی کوشش نہ کرتے۔
اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف قابل اعتراض زبان استعمال کرنے کی یہ انصافی روایت نئی نہیں ہے بلکہ عمران خان 2011ء کے لاہور جلسہ کی کامیابی کے بعد سے ایسے جملوں کا اظہار کرتے رہے ہیں جن کو شدید قابل اعتراض قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کے اکا دکا فرمودات جن میں شلوار کا ذکرہے، وہ تو نقل بھی نہیں کئے جاسکتے۔ نواز شریف حکومت کے خلاف دئیے جانے والے دھرنے کے دوران انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ میرا دل کرتا ہے نوازشریف کو گربیان سے پکڑ کروزیراعظم ہاؤس سے باہر نکال دوں۔ انتخابی مہم کے دوران بلا ہاتھ میں پکڑ کہ وہ یہ کہتے رہے، ’’میاں صاحب! یہ بلا پھینٹی بھی لگاتا ہے‘‘۔ شریف برادران کو ڈینگی برادران بھی قرار دیا۔ انھوں نے یکم مئی 2016ء کو جلسۂ عام سے خطاب میں حاضرین کو بتایا کہ ’’ٹاک شو میں خواجہ آصف نیب کے چیئرمین جنرل منیر حفیظ کے سامنے بیٹھا ایسے لگ رہا تھا جیسے پینٹ کوٹ میں چوہا بیٹھا ہو۔‘‘ خیر، خواجہ آصف بھی پیچھے رہنے والے نہیں، وہ اپنا حساب فوراً برابر کرلیتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں دھرنوں کے بعد عمران خان کی آمد پر اُن کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔ اور پھر اُنہی دنوں اسمبلی میں عمران خان کو’’میسنا‘‘ بھی کہہ ڈالا جس کے بعد تحریک انصاف نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ اسی طرح مریم نواز کے خلاف نعرہ بازی کی جاتی رہی لیکن نون لیگ نے نے برداشت کیا مگر جب علیمہ خان کے خلاف نعرے بازی کی گئی تو تحریک انصاف کی برداشت ختم ہو گئی۔ تحریک انصاف کی مرکزی گالم گلوچ کمپنی نے سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے خلاف بھی ایک محاذ جنگ کھولا جس میں اسد عمر جیسے سنجیدہ لوگ بھی اپنا حصّہ ڈالتے رہے۔ بادل نخواستہ مراد علی شاہ بھی گالی کا جواب گالی سے دینا شروع ہو گئے  تو پھر تحریک انصاف کو اخلاقیات کے دروس یاد آنا شروع ہو گئے تھے۔
حکومت کے قیام کے بعد تحریک انصاف کی گالم گلوچ کمپنی کا خیال تھا کہ یہ اپوزیشن تو مقدمات میں ایسی پھنس چکی ہے کہ اس میں جواب دینے کی ہمت نہیں ہے۔ شاہ محمود قریشی کے اس بیان سے تحریک انصاف کی سیاسی سوچ واضح ہے کہ ملک میں فیصلہ کرنے والی قوتوں کو نون لیگ اور پی پی پی کی موجودہ قیادت قبول نہیں (حیران کن بات یہ ہے کہ کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر حکومت تو آپ بنائے بیٹھے ہیں مگر یہ فیصلہ کرنے والی قوتیں کس کو قرار دے رہے ہیں)۔ خیر، اسی فلسفے کے تحت گالم گلوچ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ ایک خیال تھا کہ یہ اپوزیشن بہت کمزور ہو چکی ہے۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ، انھیں تو گالیاں دے دے کر بھگا دیں گے، یہ تو اپنی عزت بچانے کے لئے ہماری منتیں کریں گے، ان کی پارلیمنٹ میں آنے کی جرات ہی نہیں ہو گی۔ اگر غلطی سے آجائیں گے تو ہماری گالیاں سن کر منہ چھپاتے پھریں گے۔ عمران خان نے اپنے تمام اٹیک باؤلرز اکٹھے ہی اپوزیشن کو گالم گلوچ کرنے پر لگا دئیے تاکہ ساری اپوزیشن کو فوراًًً ہی آؤٹ کر دیا جائے۔
دوسری طرف یہ احساس بھی پیدا ہو چکا تھا کہ حکومتی کارکردگی بہت بری چل رہی ہے اور ملک کو چلانے کا کوئی منصوبہ بھی نہیں ہے۔ لہذا مہنگائی ہوگی، ٹیکس بڑھانے ہوں گے۔ بجلی گیس مہنگی کرنی ہوگی۔ مزید قرضے لینے ہوں گے۔ اس لئے بھی گالم گلوچ تھیٹر شروع کیا گیا تاکہ عوام کی توجہ چور چور کی طرف لگانے کی کوشش جاری رہے اور کوئی ہماری کارکردگی کا سوال ہی نہ کر سکے۔ اگر اٹھائے بھی تو اسے یہ طعنہ دے دیا جائے کہ پچھلے 33 سالوں میں یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا اور اب کیوں اٹھا رہے ہو؟۔
اپوزیشن کی تقسیم کی وجہ سے تحریک انصاف کی چاندی ہی چاندی تھی اور اس کا خیال تھا کہ یہ تقسیم ہمیشہ قائم رہے گی اور ان کی چاندی برقرار رہے گی لیکن سیاست میں ایسا نہیں ہوتا۔ اپوزیشن نے اب پلٹ کر جواب دینا شروع کیا تو حکومت کے ہاتھ پاؤں پھولنا شروع ہو گئے۔ اسی سال جنوری میں اپوزیشن کے قومی اسمبلی میں دئیے گئے کرارے جواب کے بعد اسپیکر اسد قیصر نے قومی اسمبلی کا ماحول بہتر بنانے کے لئے ایک ہائی پروفائل کمیٹی بنا دی جس میں قائد ایوان قائد حزب اختلاف سمیت سارے ہیوی ویٹ شامل تھے۔ ایک عام تاثر تھا کہ اس کمیٹی کی کوششوں سے معاملات میں سدھار آئے گا اور پارلیمنٹ کا تقدس اور احترام ساری جماعتوں کے پیش نظر رہے گا۔ افسوس مگر یہ ہے کہ اس سبق کا خود وزیر اعظم کو بھی احساس نہیں رہا اور وانا جلسہ میں جو کچھ انہوں نے کیا وہ انتہائی درجہ کی حماقت ہے۔ سوالات اب یہ ہیں کہ سیاسی ماحول بہتر بنانے کے لئے وزیر اعظم عمران خاں کے اس رویہ کے بعد بھی کیا اپوزیشن کو تعاون کرنا چاہئے؟ کیا حکومت کی اس خواہش کا احترام کرناچاہئے کہ وانا جلسہ کے جواب میں وزیر اعظم کو گالی نہ دی جائے مگر اُن گالیوں کا کیا جواب ہے جو تحریک انصاف نے 5 سال تک نواز شریف فیملی کو دیں اور اب پیپلز پارٹی کو بھی دے رہی ہے؟ کیا اپوزیشن اس واقعہ کو اس طرح استعمال نہیں کرے گی کہ یہ حکومت کو سبق سکھانے کا بہترین موقع ہے؟۔ کیا پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے کارکنوں کی طرف سے تحریک انصاف کو ایسا جاندار سبق نہیں سکھایا جائے گا کہ آئندہ وہ کسی کی عزت پر حملہ کرنے کا خواب بھی نہ دیکھ سکے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply