زحل کو آخری بوسہ/ڈاکٹر حفیظ الحسن

سپیس کرافٹ کے مین کمپیوٹر کو زمین پر مشن کنٹرول روم سے ہدایات جا چکی تھیں۔ انجام قریب تھا۔ ایسا انجام جو یقیناً خود کشی تھا۔ مگر یہ ضروری تھا۔ 19 سال بعد اسے ختم ہونا ہی تھا۔ فنا کا سفر شروع ہو چکا تھا۔ یہ کاسینی سپیسکرافٹ تھا۔ جسے 1997 میں خلا میں صدیوں سے انسانوں کو سحر میں مبتلا کر دینے والے سیارہ زحل اور اسکے رِنگز کے مشاہدے کے لیے بھیجا گیا تھا۔

سائنسی آلات اور کیمروں سے نصب قریب ساڑھے پانچ ہزار کلوگرام وزنی یہ سپیسکرافٹ ناسا اور یورپین سپیس ایجنسی کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ تھا جو زحل اور اسکے مخلتف چاند خاص طور پر ٹائیٹن کے تجزیے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ اس سپیسکرافٹ کے ساتھ ایک لینڈر بھی نصب تھا۔ جسے ہئیوگن لینڈر کا نام دیا گیا تھا۔ یہ لینڈر زحل کے سب سے بڑے چاند پر اُترنا تھا جہاں اس نے زندگی کے آثار ڈھونڈنے تھے۔

15 اکتوبر 1997 کو امریکی ریاست فلوریڈا میں ناسا کی راکٹ لانچ فیسلیٹی سے ایک راکٹ فضا میں بلند ہوتا ہے۔ راکٹ کے اوپری حصے پر “پے لوڈ” میں بند جدید آلات سے نصب ایک سپیسکرافٹ موجود تھا۔ اس سپیس کرافٹ کو کئی سالوں تک اربوں کلومیٹر کی مسافت طے کرنی تھی۔ منزل زحل تھی مگر راستہ آسان نہیں تھا۔ بیچ میں کئی ہمسفر ملنے تھے۔ وہ جو نظامِ شمسی کے راز لیے ہوئے تھے۔

لمبی مسافتوں پر رختِ سفر زائد نہیں رکھا جا سکتا۔ راستے طویل ہوں تو کم زادِ راہ مقصود ہوتا ہے۔ کاسینی کا ایندھن اتنا نہیں تھا کہ اسے خلا کی وسعتوں میں چھوڑا جاتا تو یہ زحل تک پہنچ پاتا۔ مگر وہ انسان ہی کیا جو فطرت کے مظاہر کو استعمال کر کے اسے اپنے مقصد میں نہ لا سکے۔

سترویں صدی میں نیوٹن نے کائنات کا ایک اہم راز کھولا۔ اُس نے دریافت کیا کہ ہر مادی شے اپنی حالت تبدیل کرنے میں مزاحمت کرتی ہے۔ کوئی بھاری پتھر تب تلک اپنی جگہ سے نہیں ہلتا جب تک اس پر بیرونی قوت نہ صرف کی جائے۔ ایسے ہی کوئی شے اگر تیزی سے حرکت کر رہی ہو تو اسے روکنے کے لیے بھی قوت چاہئے۔ عام مشاہدے میں زمین پر حرکت کرتی اشیا کچھ وقت کے بعد رک جاتی ہیں۔ وجہ چیزوں پر نہ ِدِکھنے والی رگڑ کی قوت جسے فرکشن کہتے ہیں۔ زمین پر گھومتا لٹو کچھ منٹ بعد رک جاتا ہے کہ اسے زمین کی رگڑ وقت کے ساتھ ساتھ آہستہ کرتی جاتی ہے۔ اگر زمین پر کسی تلِکتی سطح پر لٹو گھمایا جائے تو وہ دیر تک گھومے گا کیونکہ اسکے بیچ اورسطح کے بیچ فرکشن یا رگڑ کم ہو گئی ہو گی۔ خلا میں کوئی فرکشن نہیں کیونکہ خلا خالی ہے۔ یہاں کوئی شے حرکت کرے تو تاابد حرکت میں رہ سکتی ہے جب تلک اس سے کچھ ٹکرائے نہ یا یہ کسی سیارے کی گریوٹیی کے زیرِ اثر نہ آ جائے کہ گریوٹیی بھی تو ایک بنیادی قوت ہے جو چیزوں کو حرکت دیتی یا روکتی ہے۔ ایک پتھر پہاڑ سے گر کر نیچے کیونکر آتا ہے کہ گریوٹیی کی قوت اس پر اثر کر رہی ہوتی ہے۔ سو ایک سپیس کرافٹ کو ایک خاص سمت میں چھوڑا جائے تو یہ ہمیشہ اسی سمت میں سفر کرتا رہے گا۔ مگر اس میں ایک دِقت ہے۔ ایک بھاری سپیس کرافٹ کو جس رفتار سے خلا میں چھوڑا جائے گا، وہ اسی رفتار سے آگے جائے گا۔ مگر اسکی رفتار خلا میں تیز کیسے کی جائے گی کہ وہ جلد اپنے مشن کی منازل کو طے کرے؟

پہلا آپشن یہ کہ اسے پہلے سے ہی اس قدر تیز رفتار سے خلا میں چھوڑا جائے کہ دوبارہ رفتار بڑھانے کی ضرورت نہ ہو مگر ہزاروں کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے خلا میں چھوڑنے کے لیے بے حد طاقتور راکٹ درکار ہے۔ یہ مشکل اور نہایت مہنگا انجنیرنگ کا مسئلہ ہے۔ سو یہ آپشن قابلِ عمل نہیں۔ دوسرا آپشن کیا ہے؟ سپیس کرافٹ کو ایک خاص رفتار میں خلا میں چھوڑا جائے اور پھر خلا میں اسکی رفتار کو بڑھایا جائے۔

خلا میں رفتار بڑھانے کے لیے زیادہ ایندھن چاہئے۔ زیادہ ایندھن کا مطلب سپیس کرافٹ کا بھاری ہونا۔۔جسکا مطلب ایسا راکٹ بنانا جو سپیسکرافٹ اور اسکے اضافی ایندھن کے وزن کو ایک مقررہ رفتار سے خلا میں چھوڑ سکے۔ یہ مہنگا عمل ہے اور یہ بھی قابلِ عمل نہیں۔ تو حل کیا ہے؟ (حل صرف۔۔۔۔ 🙂 )

فرض کیجئے آپ ایک موٹویشنل ساپی کر جیسا ناڑا لیتے ہیں جو ہر شلوار میں فِٹ آتا ہو۔ اب اس ناڑے کے آخری سرے پر ایک پتھر باندھتے ہیں۔ اور پھر اسے اپنے زورِ بازو سے تیزی سے دائرے میں اپنے سر کے اوپر گھمانا شروع کر دیتے ہیں۔ اب آپ ایک خاص رفتار سے پتھر کو گھما رہے ہیں۔ اب اگر آپ اچانک سے ناڑے کو چھوڑتے ہیں تو پتھر نہایت تیزی سے ایک سمت کو حرکت کرے گا۔ لیجیےخلا میں آپکا سپیس کرافٹ کی رفتار بڑھانے کا مسئلہ حل ہو گیا۔ کرنا یہ ہے کہ سپیس کرافٹ کو خلا میں چھوڑنے کے بعد ایک مدار میں زمین کے گرد گھمانا ہے اور پھر ایک خاص رفتار تک پہنچ کر اس میں موجود تھرسٹرز جو پریشرائزڈ گیس چھوڑتے ہیں، کی مدد سے اسے مدار سے باہر نکال دینا ہے۔ یوں یہ تیزی سے ایک سمت کو بڑھے گا۔ اس عمل کو “گریوٹی اسِسٹ” کہتے ہیں۔ گویا آپ نے زمین کی گریوٹیی کا استعمال کرتے ہوئے جو سپیس کرافٹ کو مدار میں گھما رہی تھی، اسکی رفتار میں اضافہ کر دیا۔

کاسینی سپیسکرافٹ کو زحل تک سیدھا نہیں بھیجا گیا۔ اسے پہلے سیارہ زہرہ کی طرف بھیجا گیا۔ تاکہ یہ زہرہ کے قریب سے گزرے اور گریوٹی اسسٹ سے رفتار میں اضافہ کرے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ یہ زہرہ کی تصاویر بھی لے۔ پھر یہ اپنے لانچ کے کچھ ماہ بعد زہرہ سے ہوتے ہوئے واپس زمین کی طرف آیا۔ یہاں اس نے زمین کی خلا سے تصاویر لیں۔

اسکی کیا وجہ؟ اسکی ایک خاص وجہ، زمین کا سائز ہمیں انتہائی تفصیل سے معلوم ہے۔ اگر ہم کسی فاصلے سے زمین کی تصویر لیں اور ہمیں زمین کا سائز معلوم ہو تو ہم جان جائیں گے کہ تصویر کا ہر ایک پکسل زمین کے کتنے حصے کے برابر ہے۔ یہ عمل ہمیں مدد دے گا کہ دوسرے سیاروں یا سیارچوں کی تصاویر لیکر ہم انکا سائز جان سکیں۔ کیسے؟ ایسے کہ ہم کسی بھی تصویر میں موجود پکسلز کی تعداد جانتے ہیں اور یہ بھی کہ ہر پکسل اصل میں کتنی لمبائی اور چوڑائی کو ظاہر کرتا ہے۔ کیونکہ ہم کسی معلوم ریفرنس (یعنی زمین کے سائز) سے نامعلوم کو جان چکے۔ اسے کیلیبریشن کہتے ہیں۔ کاسینی سپیس کرافٹ نے زمین کی تصاویر اپنے اندر لگے کیمروں کی کیلیبریشن کے لیے لیں۔

کاسینی سپیس کرافٹ اسی طرح گریوٹیی اسسٹ کے ذریعے اپنی رفتار بڑھاتا 30 دسمبر 2000 کو نظامِ شمسی کے سب سے بڑے سیارے مشتری کے قریب سے گزرا۔ یہاں اس نے مشتری اور اسکے بہت سے چاندوں کی 26 ہزار سے زائد تصاویر لیں۔ مشتری کی گریوٹیی سے اپنی رفتار میں اضافہ کرتا آخرکار یہ زحل کی جانب روانہ ہوا اور بالآخر چار سال کی مدت کے بعد 30 جون 2004 کو یہ زحل کے گرد مدار میں داخل ہوا۔

کاسینی سپیس کرافٹ کی مدد سے زحل، اسکے رنگز اور چاندوں کا تفصیلی مشاہدہ کیا گیا۔ اس سپیس کرافٹ نے زحل کے سات نئے چاند دریافت کیے۔ دسمبر 2004 کو زحل کے سب سے بڑے چاند ٹائیٹن کے قریب سے گزرتے ہوئے اس نے اپنے ساتھ نصب ہیوگن لینڈر کو ٹائیٹن کی طرف چھوڑا جو 14 جنوری 2005 کو پیراشوٹس کے ذریعے ٹائٹن پر اُترا۔ تاہم یہ ٹائٹن پر چار گھنٹے کام کرنے کے بعد غیر فعال ہو گیا۔ البتہ اسکی بھیجی گئی تصاویر نے سائنسدانوں کو یہ بتایا کہ ٹائٹن پر ممکنا طور پر زندگی کے آثار ہو سکتے ہیں۔

کاسینی سپیس کرافٹ تقریباً 13 برس شب و روز زحل، اسکی فضا، اسکی مقناطیسی فیلڈ ، اسکے رنگز اور اسکی چاندوں کے بارے میں انتہائی قیمتی ڈیٹا اکٹھا کرتا رہا- اس دوران اس نے کئی اہم دریافتیں کیں۔ مگر بالآخر کاسینی کا انجام قریب آ گیا۔ سپیس کرافٹ اپنا مشن پورا کر چکا تھا۔ یہ انسانیت کو توقع سے بڑھ کر وہ علم اور ڈیٹا دے چکا تھا جسکی انسانوں نے خواہش کی تھی۔

22 اپریل 2017 کو کاسینی نے زحل کے سب سے بڑے چاند کے پاس سے گزرتے اسے آخری سلام کیا اور یوں اسکے مدار میں تبدیلی آئی۔ یہ زحل کے گرد مدار میں زحل کے قریب سے قریب تر ہوتا گیا۔ کسی بے تاب عاشق کی طرح ملن کی آس پر اس نے زحل کے 22 چکر کاٹےاور 15 دسمبر 2017 کو زحل کی فضا میں داخل ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فنا ہو گیا۔ یہ کاسینی کا زحل کو آخری بوسہ تھا۔ دونوں اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک ہو چکے تھے۔

مگر اُدس مت ہوں، ہزار داستانوں سی یہ داستان گردِ راہ نہیں ہوئی بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انسانوں کے عقل و شعور پر نقش ہو گئی۔ کاسینی کی تصاویر اور دریافتوں کی صورت!!

Advertisements
julia rana solicitors london

چلتے چلتےایک اور بات!! کاسینی نے یہ قربانی بھی ایک مقصد کے تحت دی، وجہ؟ سائنسدان یہ سمجھتے ہیں کہ زحل کے چاند ٹائٹن پر کسی شکل میں غیر زمینی زندگی ہو سکتی ہے۔ لہذا وہ اس بات کے امکان کو کم کرنا چاہتے تھے کہ مستقبل میں کاسینی ٹائٹن پر گرے اور اس پر موجود کوئی بھی زمینی بیکٹریاز یا مائیکروب ٹائٹن کو آلودہ کریں یا اسکی تباہی سے وہاں موجود ممکنا زندگی ختم ہو۔ کیونکہ مستقبل میں جب ٹائٹن پر زندگی کی تلاش کے لیے مشن بھیجے جائیں گے تو ایسا نہ ہو کہ وہاں پہلے سے کاسینی کیوجہ سے زمینی زندگی موجود ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply