منطق (Logic)   -منطق کا بنیادی تعارف(قسط1 )-سجیل کاظمی

 منطق کی تعریف
منطق ایک ایسا لفظ ہے جسے ہم روزمرہ زندگی میں استعمال کرتے ہیں لیکن جب ہمیں اس کی ایک باقاعدہ تعریف کرنے کو کہا جائے تو یہ کافی مشکل ہے کہ منطق ہوتی کیا ہے؟

 

 

 

 

تو منطق فلسفے کی ایک شاخ ہے جس میں کسی بھی چیز کو صحیح طریقہ سے پرکھنے اور صحیح طریقے سے سوچنے پر بحث ہوتی ہے مزید یہ کہ کیسے ہم اپنی عقل کو غلطی کرنے سے بچاسکتے ہیں۔ اس کے کچھ لگے بندھے اصول و ضوابط ہوتے ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنے سوچ میں غلطی کا امکان کم سے کم کرتے ہیں۔

 منطق کی اہمیت
دنیا کے تمام علوم کی بنیاد منطق ہی ہے وہ سائنس ہو یا فلسفہ یا کوئی اور علم، منطق کا استعمال اس میں بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں بھی اکثر منطق استعمال کر رہے ہوتے ہیں لیکن چونکہ روزمرہ مثال اتنے دقیق نہیں ہوتے اس وجہ سے ان کے لئے ہم باقاعدہ منطق سیکھنی نہیں پڑتی لیکن سیکھ لیں تو ہم اپنا روزمرہ زندگی میں بھی ایک زیادہ درست اور بہتر انسان بن سکتے ہیں۔ منطق کے روزمرہ استعمال کو مثال سے سمجھتے ہیں۔
سوچیں آپ رات کو باہر سے پلاؤ اور بریانی لے کر آئے ہیں آپ نے تھوڑا کھانے کے بعد باقی کھانے کو فریج میں رکھ دیا، اگلے دن آپ کا بریانی کھانے کو دل ہے تو اگر آپ ایک ڈبہ نکالتے ہیں اور کھول کر دیکھتے ہیں کہ اس میں پلاؤ ہے تو آپ دوسرا ڈبہ بغیر کچھ سوچے ہی اٹھا لیں گے۔ یہ دراصل آپ نے منطق کے ڈسجنکٹیو سیلوجزم کا استعمال کیا۔ منطق کی باقاعدہ تعریف کی جائے تو یہ درست استدلال کا ہنر کہلائے گا۔

 منطق کی تاریخ اور مختلف فلاسفہ
یوں تو منطق کی تاریخ بیان کرنا مشکل ہے کیونکہ انسانی تاریخ بہت طویل ہے لیکن اگر ہم دیکھیں تو ہمیں پتہ لگے گا کہ منطق کی جڑیں ہمیں قدیم میسوپوٹیمیا کی تہذیب میں نظر آتی ہیں جو انتظامی اور قانونی امور میں بہت سی منطقی تکنیکیں (Techniques) استعمال کرتے تھے۔ اسی طرح قدیم ہندوستان میں بھی نیایا نام سے ایک پورا مکتب فکر موجود تھا جس نے منطق کا ایک پورا نظام تخلیق کیا۔ چین میں بھی ماسٹر موزی نے ایک منطق پر کام کیا۔ موزی اور اُن کے پیروکاروں نے ایک ایسے سوچ کے نظام کو ترقی دی جو عملی اہتمامات پر توجہ دیتا تھا، جیسے کہ کار آمد حکومت، سماجی نظم اور اخلاقی رویے۔ اس کے بعد یونانیوں کی باری آتی جن میں قبل از سقراطی مفکرین بالخصوص ہیراکلائٹس اور پارمینڈیز شامل ہیں۔ انہوں نے براہ راست تو منطق میں کوئی حصہ نہیں ڈالا لیکن ان کی فلسفے سے ہمیں منطق کے بہت سے قوانین ملتے ہیں۔ اس کے بعد سقراط نے منطق میں ایک سوال پوچھنے کے طریقے کے ذریعے منطق میں بڑا حصہ ڈالا۔ یہ ایسا طریقہ تھا جو سوالوں ہی سوالوں میں دوسرے کی دلیل کا تضاد واضح کردیتا تھا اور اس کو سوچنے پر مجبور کردیتا تھا۔ اس طریقے کو طریقہ سقراط کے نام سے جاننا جاتا ہے۔ سقراط کے بعد ان کے شاگرد افلاطون نے طریقہ سقراط پر مزید کام کیا اور استقراء پر زور دیا۔ پھر باری آتی ہے اس فلسفی کی جس کے سر منطق کی بطورِ علم بنیاد ڈالنے کا سہرہ جاتا ہے بابائے منطق معلم اول ارسطو۔ ارسطو نے تین بنیادی قوانینِ منطق متعارف کروائے جن کے بغیر کوئی بھی منطقی استدلال میں درست نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ انہوں نے Syllogistic Logic اور Categorical Logic کی بنیاد ڈالی۔ اس کے علاوہ انہوں نے طریقہ استقراء کو بھی تکمیل تک پہنچایا۔ ان سے منسوب کیے جانے والے نظام منطق کو ہم ارسطاطیلیسی منطق یا رسمی منطق کہتے ہیں۔ اس کے بعد اسٹوائیک منطقیوں، جیسے کہ کریسیپس نے ارسطو ہی کے نظام کو ترقی دیتے ہوئے پروپوزیشنل منطق کو بنایا، جس میں حقیقتی وظائف کے رابطوں کے تصور کا شامل ہونا تھا۔ اس کے بعد مسلم سنہری دور میں منطق پر کافی کام ہوا۔ مسلم علماء، جیسے الکندی اور الفارابی نے یونانی فلسفیوں کے کاموں کا ترجمہ اور مطالعہ کیا، جن میں ارسطو اور افلاطون بھی شامل ہیں۔ انہوں نے یونانی منطقی نظریات کو اسلامی فلسفہ میں ضم کیا اور اپنے منطقی نظریات تیار کیے۔ اس کے بعد ابنِ سینا نے ارسطو اور اسٹوائیکس کی منطق میں ہم آہنگی پیدا کی اور ابن رشد نے ارسطو کی بہت سی کتب جن میں “آرگانون” سر فہرست ہے کی تشریحات لکھی۔ اسی طرح عیسائی مدرسیت کے دور میں بھی منطق پر چھوٹے بڑے کام ہوتے رہے۔ عیسائی راہب ولیم آف اوکم نے اوکم ریزر کے نام سے غیر رسمی منطق میں ایک اہم حصہ ڈالا۔ پھر منطق میں بڑا حصہ ڈیکارت اور بیکن نے ڈالا۔ بیکن نے اپنی کتاب نووم آرگانون میں استخراجی منطق کی بنیاد رکھی۔ پھر جان سٹوئرٹ مل نے بھی منطق میں ایک نیا طریقہ متعارف کروایا۔ پھر ہیگل نے جدلیاتی منطق ایجاد کی اور ارسطو کے تین قوانین کو نئے طریقے سے دیکھا۔ اس کے بعد بیسویں صدی میں منطق میں سمبولک لاجک اور فزی لاجک کا اضافہ کیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

 مبادیاتِ منطق
۰ پروپوزیشن (Proposition)
کوئی بھی ایسا بیان جس میں کسی بات کو یقینی طور پر کہا جا رہا ہو، وہ پروپوزیشن کہلاتا ہے۔ جو کہ جھوٹ بھی ہوسکتا ہے اور سچ بھی۔
پروپوزیشن کی تین اقسام ہیں؛
1) کیٹگورکل پروپوزیشن
2) ڈسجنکٹو پروپوزیشن
3) کنڈیشنل پروپوزیشنب
1) کیٹگورکل پروپوزیشن
ایسی پروپوزیشن کو کہا جاتا ہے کہ جو دو چیزوں کے باہمی ربط کو ظاہر کرتی ہے یہ ربط منفی بھی ہوسکتا ہے اور مثبت بھی، Universal بھی ہوسکتا ہے اور Particular بھی۔
مثال کے طور پر؛
تمام کوے کالے ہوتے ہیں۔ (Universal Affirmative)
کوئی کوا سفید نہیں ہوتا۔ (Universal Negative)
کچھ بطخیں سفید ہوتی ہیں۔ (Particular Affirmative)
کچھ بطخیں سفید نہیں ہوتی۔ (Particular Negative)
2) ڈسجنکٹیو پروپوزیشن
ایک ایسی پروپوزیشن جس میں دو باتیں کی گئی ہوں اور ان میں سے ایک کا تو درست ہونا لازمی ہوں لیکن یہ صاف طور پر نہ بتائے کہ وہ کونسی والی بات ہے جو درست ہے۔
ڈسجنکٹیو پروپوزیشن کی دو اقسام ہے ایک inclusive Disjunction، جس میں ایک آپشن تو درست ہوگا ہی لیکن دونوں بھی ایک وقت میں درست ہوسکتے ہیں۔ دوسری قسم Exclusive Disjunction جس میں اگر ایک صحیح ہے تو دوسرے کا غلط ہونا لازمی ہے۔
مثال کے طور پر:
یہ بات سچ ہے یا یہ بات جھوٹ ہے۔ (Exclusive Disjunction)
میں چائے پیوں گا یا کافی (Inclusive Disjunction)
3) کنڈیشنل پروپوزیشن
ایسی پروپوزیشن کو کہا جاتا ہے جس کے دو حصے ہوتے ہیں ایک حصہ ایک بات کو بیان کرتا ہے اور دوسرا دوسری کو، ایک حصہ درست ہونے کی صورت میں دوسرا حصہ بھی لازماً درست ہوتا ہے۔ انھیں آپ if-then statements بھی کہہ سکتے ہیں۔
اس کی تین اقسام ہے؛
1) انوورس (Inverse)
2) کونوورس (Converse)
3) کاوئنٹرپوزیٹو (Contrapositive)
4) اور سمپل کندیشنل پروپوزیشن۔ (Simple Conditional Proposition)
مثال کے طور پر:
بارش ہوگی تو زمین گیلی ہوگی۔ (Simple Conditional Proposition)
اس پروپوزیشن میں بارش ہونا antecedent ہے جبکہ زمین گیلی ہونا consequent ہے۔
زمین گیلی ہے تو بارش ہوئی ہے (Converse)
جب ہم antecedent اور consequent کی جگہ بدل دیتے ہیں تو پھر وہ converse ہوجاتی ہے۔
بارش نہیں ہوئی تو زمین گیلی نہیں ہے۔ (Inverse)
جب ہم دونوں antecedent اور consequent کی نفی کردیتے ہیں تو وہ inverse بن جاتا ہے۔
زمین گیلی نہیں ہے تو بارش نہیں ہوئی۔ (Contrapositive)
جب ہم antecedent اور consequent کی جگہ بھی بدلیں اور ان کی نفی بھی کردیں تو وہ contrapositive کہلاتا ہے۔
• پریمس (Premise)
یہ ایک ایسی پروپوزیشن کو کہتے ہے جس کی سچائی کا ہمیں پہلے سے ہی یقین ہوتا ہے یا جس کو ہم استدلال کی خاطر سچ مانتے ہیں۔ پریمس کی دو اقسام ہے میجر پریمس اور مائنر پریمس اس کی تفصیل آگے آئے گی۔
• نتیجہ (Conclusion)
یہ وہ پروپوزیشن ہوتی ہے جو انسان استدلال کے ذریعے اخذ کرتا ہے۔
• استدلال (Reasonings)
منطق میں استدلال پروپوزیشن کے ایک مجموعے کو کہتے ہیں جس میں پریمسس ہوتے ہیں، اور پھر ان پریمسس سے ہم خاص اصولوں کے تحت نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ استدلال کی تین اقسام ہے استخراجی، استقرائی اور احتمالی جن کی تفصیل آگے آئے گی۔
• انفیرنس (Inference)
انفیرنس اس طریقے کو کہتے ہے جس کے تحت ہم پریمسس کی مدد سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔
• مغالطہ (Paradox)
مغالطہ ایک ایسے بیان/پروپوزیشن کو کہتے ہے جو منطقی طور پر خود ہی کو جھوٹا ثابت کر رہا ہو۔
• منطقی کوتاہی (Fallacy)
کوتاہی یا fallacy استدلال میں غلطی کو کہتے ہیں۔ یہ زیادہ تر قوانینِ منطق پر ٹھیک سے عمل نہ کرنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ اسکی دو اقسام ہیں انفارمل اور فارمل، انفارمل عام بحث مباحثے میں کی جاتی ہیں اور فارمل فلسفے، ریاضی وغیرہ میں۔
صحت و درستگی (Soundness and Validity)
صحت و درستگی جسے انگلش میں soundness اور validity کہا جاتا ہے۔ کسی بھی استخراجی استدلال کو صحیح ہونے کے لیے اس کا دونوں valid اور sound ہونا ضروری ہے۔
ایسا استدلال جس کا نتیجہ اپنے پریمسس کے مطابق ہو وہ valid کہلاتا ہے جس کا نہ ہو وہ invalid کہلاتا ہے۔
ایسا استدلال جس کا نتیجہ اور پریمسس سچ ہو وہ sound کہلاتا ہے اور جس کے سچ نہ ہو وہ unsound کہلاتا ہے۔
اب اس کو چند مثالوں سے سمجھتے ہیں۔
مثال کے طور پر؛
تمام انسان فانی ہے۔
سقراط ایک انسان ہے۔
تو،
سقراط فانی ہے۔
یہ ایک valid اور sound استدلال ہے کیونکہ تمام پریمسس درست ہیں اور نتیجہ پریمسس کے مطابق بھی ہے۔
تمام انسان اڑ سکتے ہیں۔
علی ایک انسان ہے۔
تو،
علی اڑ سکتا ہے۔
اب یہ استدلال valid تو ہے مگر sound نہیں ہے کیونکہ ان تمام انسان اڑ نہیں سکتے یہ پریمس حقیقت پر مبنی نہیں مگر چونکہ نتیجہ پریمسس کے مطابق ہے اس وجہ سے یہ استدلال valid ہے۔
تمام مالٹے پھل ہیں،
تمام پھل قدرتی ہیں،
تو،
سیب پھل ہے۔
اب یہ استدلال sound ہے مگر valid نہیں ہے sound اس وجہ سے ہے کہ تمام پریمسس اور نتیجہ سچ ہے مگر نتیجہ پریمسس کے مطابق نہیں۔
تمام کتے اڑ سکتے ہیں۔
ٹومی ایک کتا ہے۔
تو،
ٹومی گھاس کھاتا ہے۔
اب یہ استدلال نہ sound ہے نہ valid کیونکہ نہ پریمسس درست ہیں اور نہ ہی نتیجہ پریمسس کے مطابق ہے۔
• سٹرینتھ اور کوجینسی ( Strength & cogency )
سٹرینتھ جسے انگلش میں strength بھی لکھتے ہیں استقرائی منطق کے لیے لازمی ہے۔ ایک استدلال اس وقت strong کہلاتا ہے جب اس کے پریمسس اس کے نتیجے کو اچھے سے سپورٹ کر رہے ہوں اور ایک استدلال cogent تب کہلاتا ہے جب وہ strong بھی ہو اور اس کے تمام پریمسس بھی درست ہوں۔
مثال کے طور پر:
آج تک جتنے کوے دیکھے گئے ہیں سب کا رنگ کالا ہوتا ہے۔
لہذا،
تمام کووں کا رنگ کالا ہوتا ہے۔
اب یہ استدلال strong بھی ہے اور cogent بھی strong اس لیے کیونکہ پریمسس نتیجے کو اچھے سے سپورٹ کر رہا ہے اور cogent اس لیے کہ یہ بات بھی درست ہے کہ جتنے کوے آج تک دیکھے گئے ہیں سب کا رنگ کالا ہوتا ہے اور نتیجہ پریمسس کے مطابق بھی ہے۔
کچھ سگریٹ پینے والے افراد سو سال کی عمر پاتے ہیں۔
زید سگریٹ پیتا ہے
تو، زید ہوسکتا ہے کہ سو سال کی زندگی پائے۔
اب یہ استدلال strong نہیں اسی وجہ سے cogent بھی نہیں۔ strong اس لیے نہیں کیونکہ یہ لازمی نہیں کہ صرف اس وجہ سے کہ کچھ سگریٹ نوش بھی اتنا جی لیتے ہیں تو زید بھی اتنا جئے کیونکہ زیادہ تر سگریٹ نوشوں کی عمر کم ہوتی ہے اسی طرح یہ cogent بھی اس لیے نہیں چونکہ یہ strong نہیں حالانکہ پریمسس دونوں درست ہیں۔
• سچ (Truth)
ابھی ہم نے دو تین دفعہ کہا کہ پریمس کا سچ ہونا لازمی ہے اب سچ ہونے سے کیا مراد ہے تو سچ ہونے سے مراد ہے حقیقت کے مطابق ہونا۔ سچ کی بھی کئی اقسام ہے لیکن میں یہاں تین بیان کروں گا۔ لسانی سچ، منطقی سچ اور تجربیتی سچ۔
• لسانی سچ (Linguistic Truth)
لسانی سچ ایسے سچ کو کہتے ہیں جو کہ زبان کے بولنے کے اعتبار سے ہی درست ہو مطلب ان کے مطلب ہی یہی نکلتا ہو جو جملے میں لکھا ہے۔ جیسے “تمام کنوارے غیر شادی شدہ ہوتے ہیں” اب یہ جملہ ایک لسانی سچ ہے کیونک “کنوارہ” کہتے ہی اسے ہیں جس کی شادی نہ ہوئی ہو۔
• منطقی سچ (Logical Truth)
یہ ایک ایسا سچ ہوتا ہے جو منطقی طور پر درست ہوتا ہے جیسے دو اور دو چار۔
• تجربیتی سچ (Experimental Truth)
یہ ایسا سچ ہوتا ہے جو کہ مشاہدے کے مطابق سچ ہوتا ہے جیسے “باہر بارش ہورہی ہے” یہ جملہ نہ منطقی سچ ہے اور نہ لسانی مگر اگر اس میں جو کہا جارہا ہے وہ مشاہدے سے ثابت ہوجائے تو یہ تجریبیتی سچ کہلائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply