اسلام اسلام ہے اور صرف اسلام ہے۔

اسلام اسلام ہے اور صرف اسلام ہے۔
حافظ صٖوان محمد
جتنے بھی ازم پچھلے دو سو سال میں ابھرے ہیں جیسے کیپیٹل ازم، سوشل ازم، کمیونزم، حتیٰ کہ آف شور ازم اور مفتیاتی مضاربہ ازم، ان سب کی بنیاد میں انسانیت کے لیے فلاح کی خواہش و کوشش پنہاں تھی۔ ہر ازم کی کچھ ظاہر بظاہر خوبیوں کی وجہ سے مسلمانوں نے ہر ابھرتے ہوئے ازم پر فوراً اپنی کاٹھی ڈالنے کی کی تاکہ لوگوں کو بتایا جا سکے کہ تمھیں فلاں ازم میں جو خوبیاں نظر آ رہی ہیں وہ اصل میں اسلام پہلے ہی بتا چکا ہے۔ دنیا بھر میں خوار و زبوں مسلمانوں کی یہ شکست خوردہ نفسیات ہے کہ وہ ہر اچھی چیز کو اپنے مذہب کی عینک سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس عادت میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ لیکن ہر اچھی چیز کے لیے قرآن سے تاویلیں کرکے ثبوت نکالنا بھی کوئی نیکی نہیں ہے۔ اس عادت سے مذہبی نرگسیت پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ ہوتا یہ ہے کہ سائنس کی ہر دریافت کو ہم پہلے بھاگ کر قرآن سے ثابت کرتے ہیں، اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نئی سائنسی تحقیقات کی وجہ سے چند سال بعد بغلیں جھانکتے پھرتے ہیں۔
سیدھی سی بات ہے کہ معیشت ہو یا حکومت اور تجارت ہو یا صنعت و حرفت اور تعلیم ہو یا صحت، اسلام نے کسی چیز کے لیے کوئی مربوط نظام نہیں دیا بلکہ ان سب نظامہا کو انسان کی فہمِ عامہ پر اعتماد کرتے ہوئے اس پر چھوڑ دیا ہے کہ اپنا بھلا برا خود سوچ کر ان پر عمل کرے اور اپنے تجربات کی روشنی میں موقع محل کے مطابق ان میں تبدیلیاں کرتا رہے۔ یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے۔ جب تک ہم یہ بات تسلیم نہیں کرتے تب تک ہم اقوامِ عالم کے تجربات اور نظاموں کو ترسیدہ نگاہوں سے دیکھتے رہیں گے اور بوسہ دزدیدہ کی طرح استعمال کرتے رہیں گے۔
اگر وحی کے ذریعے کوئی مکمل نظام دیا گیا ہوتا تو کھیتی باڑی کے بارے میں ضرور واضح اور حتمی احکامات اترتے کیونکہ مدینہ والوں کا یہ حیلہ معاش تھا اور حضرت محمد علیہ السلام کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ اپنی فصلوں کے معاملات خود دیکھا کرو۔ اسی طرح مکہ والوں کے لیے تجارت کا کوئی حتمی ضابطہ تو ضرور ہی دیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن یہ بات عام معلوم ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ خوب اچھی طرح سجھ لیجیے کہ اگر آسمان سے خدائے تعالیٰ نے کوئی نظام اور اس کے بائی لاز اتارنا ہوتے تو کم سے کم دعوتِ دین کے نظام پر کوئی حتمی صحیفہ ضرور اتارتا، کہ آخر سوا لاکھ انبیائے کرام نے یہ کام بطورِ فرضِ منصبی کیا ہے۔ قرآنِ مجید میں دعوت کے لیے رہنما اصول جگہ جگہ لکھے ہیں لیکن یہ دعویٰ از سر باطل ہے کہ قرآنِ مجید صرف دعوتِ دین کے قوانین کی کتاب ہے۔
اب ہوتا یہ ہے کہ قرآن سے آمریت بھی ثابت ہو جاتی ہے اور جمہوریت بھی، اور شخصی حکومت بھی ثابت ہو جاتی ہے اور موروثی خلافت کے نام پر بدترین استحصالی حکومت بھی، اور سوشل ازم بھی ثابت ہو جاتا ہے اور کمیونزم بھی، اور آف شور بزنس بھی ثابت ہو جاتا ہے اور مضاربے کے نام پر حرام خوری بھی۔ بلکہ مضاربے نے غریب مسلمان کو جتنا نچوڑا ہے اتنا تو کمیونزم نے بھی نہیں نچوڑا۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کیا گیا ہے اور اسے کرنے والوں کو ندامت تک نہیں ہے۔
میرے والد پروفیسر عابد صدیق صاحب مزاحًا کہا کرتے تھے کہ قرآن میں اگر اچار بنانے کی ترکیب نہیں ہے تو یہ قرآن کی کمی نہیں ہے۔ قرآن جس مقصد کے لیے اتارا گیا ہے وہ پورا کر رہا ہے۔ قرآن انسانیت کی ہدایت کے لیے ہے نہ کہ صرف مسلمان کی ہدایت کے لیے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ جس عالی دماغ نے اور جس بڑے چھوٹے حاکم نے قرآن سے رہنمائی لی، وہ نیلِ مَرام کو پا گیا۔
انسانیت نے صدیوں کے تجربات سے جو کچھ حاصل کیا ہے اور جو نظام وضع کیے ہیں وہ بطورِ انسان ہماری میراث ہے۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ انسان وراثت کو ضائع کرے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں ان سب نظاموں سے فائدہ اٹھانا چاہیے جیسے ہم انسانیت کی سہولت کے لیے کی گئی ایجادات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں میں کہیں بادشاہت چل رہی ہے یا کہیں جمہوریت چل رہی ہے یا شخصی حکومت ہے یا آمریت ہے، تو یہ سب اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ ہر جگہ والے مسلمانوں کو اپنی سہولت کی چیز اپنانے کا حق ہے۔ کسی دوسرے ملک کے مسلمانوں میں اپنی مزعومہ خواہش کا نظام چلانے کے لیے در اندازی کرنا قرآن کی رو سے حرام ہے کیونکہ اس حرکت سے زمین پر فساد پیدا ہوتا ہے۔ اللہ سمجھ دے۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply