• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مختصر دورانیے کی مشاہداتی دستاویزی فلم “شوھاز”۔۔عبدالحلیم

مختصر دورانیے کی مشاہداتی دستاویزی فلم “شوھاز”۔۔عبدالحلیم

شوھاز ایک مختصر دورانیے کی مشاہداتی دستاویزی فلم ہے جو دو اب نارمل بھائیوں پر فلمائی گئی ہے۔ فلم کے سین بغیر کسی ڈائریکشن کے شروع ہوتے ہیں یعنی یہ فلم خالصتآ نیچرل اداکاری پر مشتمل ہے۔

جن دو بھائیوں پر یہ فلم بنائی گئی ہے وہ ماہی گیروں کے قدیم بستی ڈھوریہ کے رہائشی ہیں لیکن یہ دونوں بھائی پیدائشی طورپر ابنارمل ہیں۔ بڑے بھائی کا نام شوھاز ٹلے ٹلے اور چھوٹے بھائی کا نام رضوان ہے۔ رضوان کو محلہ کے لوگ آلیک کے نام سے پکارتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ رضوان کا نام اس لیے آلیک پڑا کیونکہ اسٹار پلس ٹی وی پر ایک ڈرامہ سیریل دکھایا جاتا تھا جس کا نام تھا “ودھائی” اور ڈرامہ سیریل میں ایک ابنارمل کردار ہوا کرتا تھا جس کا نام “آلیک” تھا اور اس کردار کو لے کر رضوان کی ماں نے رضوان کا نام پیار سے آلیک رکھا اور یہ نام پورے محلہ میں مشہور ہو گیا۔

صبح سورج کی کرنیں پھوٹتے ہی یہ دونوں بھائی شاہی بازار کی ملبہ زدہ راہداریوں میں دوڑ پڑتے ہیں۔ شاہی بازار کی یہ راہداریاں دونوں اطراف سے کھنڈر زدہ ہیں اور اس کی طویل راہداری ملبے کے ڈھیر کی عکاس ہے جو فلم میں نمایاں ہے۔

کسی زمانہ میں یہاں رونقوں کا بڑا دم خم ہوا کرتا تھا۔ اب یہاں بس یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں جو ملبہ میں دب گئی ہیں اور کچھ گنتی کی دکانیں شاہی بازار کے وجود کو سہارا دے رہی ہیں۔

شوھاز ٹلے ٹلے پیدائشی طورپر گونگا بھی ہے۔ وہ گردن ہلا کر راہداریوں پر چلتا ہوا نظر آتا ہے جب کہ اس کا چھوٹا بھائی رضوان عرف آلیک چہکتا ہوا ان راہداریوں پر دوڑتا اور دونوں کریمُک چائے خانہ کا رخ کرتے۔ جہاں چائے خانہ میں بیٹھے لوگ ان کو شفقت سے چائے بھی پلاتے۔

شوھاز ٹلے ٹلے گونگا ضرور ہے لیکن وہ اذان کے الفاظ دہرانے کی کوشش کرتا ہے اور آلیک شوھاز ٹلے ٹلے کے ساتھ شاہی بازار کی راہداریوں پر واقع کریمُک چائے خانہ یا کسی دکان کی چوکھٹ پر بیٹھ کر مستیاں کرتے اور ایک دوسرے کے ساتھ اپنا پیار بانٹتے نظر آتے۔

مختصر دورانیے کی یہ فلم گوادر کے طارق فیض نامی نوجوان نے بنائی ہے۔ طارق فیض پیشہ کے لحاظ سے آرکیٹکٹ ہیں لیکن ان کا شغف فوٹوگرافی اور فلم بنانے میں بھی ہے۔ اپنے اس شوق کی تکمیل کے لیے وہ گوادر کے بلوچی فلم اور ڈرامہ بنانے والے معروف ادارے خیرجان آرٹ اکیڈمی گوادر کے متحرک رکن بھی ہیں۔

طارق فیض بتاتے ہیں، ان کو شاہی بازار کی راہداریوں سے بڑی انسیت رہی ہے کیونکہ یہ ماضی میں ہمارے پررونق طرزِ معاشرت کی گواہ رہی ہیں جس کی بنا پر وہ وہاں جا کر فوٹوگرافی کا اپنا شوق پورا کرتے ہیں، لیکن جب بھی وہ وہاں جایا کرتا تو شوھاز ٹلے ٹلے اور آلیک کو بھی وہاں موجود پاتے۔ دونوں بھائی دنیا و مافیا سے بے خبر اپنی سنگت میں مگن دکھائی دیتے اور موج مستیاں کرتے۔

وہ کہتے ہیں، “پھر مجھے آئیڈیا آیا کہ کیوں نہ ان معصوم کرداروں پر مشاہداتی دستاویزی فلم بنائی جائے۔ فلم کا آئیڈیا مکمل ہونے کے بعد میں نے دونوں بھائیوں کے نیچرل سین فلمائے۔ یہ فلم 2019 میں مکمل کی اور میری خواہش تھی کہ میں یہ فلم گوادر بک فیسٹیول میں نمائش کے لیے پیش کروں لیکن فیسٹیول منسوخ ہو گیا اور میری یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔”

طارق فیض مزید کہتے ہیں کہ اس فلم کی تیاری میں اس نے موبائل ویڈیو کی تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ فلم جہاں نیچرل کرداروں کے گرد گھومتی ہے اس کے علاوہ یہ شاہی بازار کی ماضی کی اہمیت کو بھی اجاگر کرنے کی ایک کاوش بھی ہے، اس لیے اس نے شاہی بازار کی راھداریوں پر یہ فلم شوٹ کی ہے۔

طارق فیض کے بقول، “گزشتہ دنوں مجھے یہ اطلاع ملی کہ آلیک شاہی بازار میں واقع ایک دکان کے بند شٹر کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا کہ دکان کی بجلی چالو ہونے کے بعد شٹر میں لگی بجلی کے تار سے پیدا ہونے والے کرنٹ کا شکار ہو کر چل بسا ہے۔ آلیک کی یاد میں، میں نے اپنی فلم اپنے ادارے کے یوٹیوب چینل پر اپ لوڈ کر دی ہے۔”

آلیک اور شوھاز ٹلے ٹلے ایک غریب ماہی گیر گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا والد مولابخش بیماری کا شکار ہو کر بستر پہ پڑا ہے۔ آلیک کے علاوہ شوہاز ٹلے ٹلے کے تین بھائی اور ایک بہن بھی ہے۔ آلیک اور شوھاز پیدائشی طور پر ابنارمل پیدا ہوئے تھے۔ ایک بھائی ماہی گیری کر کے اپنے کنبے کا پیٹ پالتا ہے، دیگر بھائی بہن شوھاز ٹلے ٹلے سے چھوٹے ہیں۔

اس فلم میں آلیک اور شوھاز اپنے نیچرل کردار میں جلوہ افروز ہیں لیکن ان کا کردار اس بے حس معاشرہ کے لیے آئینہ سازی کا بھی عکاس ہے اور فلم کے ڈائریکٹر نے یہ فلم کمال مہارت سے بنا کر کسی حد تک معاشرے کی بے حسی کو جگانے کی بھی کوشش کی ہے۔

معصوم آلیک غیرطبی موت کی وجہ سے اب پرلوک سدھار گیا ہے۔ لیکن اب شاہی بازار کی ملبہ زدہ راہداریاں آلیک کی معصومانہ ہنسی اور چہچہاہٹ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ترستی رہیں گی اور ہاں شوھاز ٹلے ٹلے جب بھی شاہی بازار کی ان راھداریوں پر چلے گا تو آلیک اس کے پہلو میں نہیں ہو گا۔

جتنا معصوم آلیک تھا، اتنا ہی شوھاز ٹلے ٹلے بھی ہے۔ شوھاز ٹلے ٹلے کا پیار اب کون بانٹے گا؟!

فلم دیکھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں:

Advertisements
julia rana solicitors london

https://youtu.be/ftDaj75k1Us

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply